گولی نہیں روٹی چاہیے
ان سارے ایٹم بموں سے اس ہنستی، کھیلتی دنیا کو کم از کم 1000 بار تباہ کیا جا سکتا ہے
KARACHI:
اس دنیا میں اتنا اناج پیدا ہوتا ہے کہ 10 ارب کی آبادی کا پیٹ بھرا جا سکتا ہے۔ مگر لوگوں کی قوت خرید جواب دیتی جا رہی ہے۔ اس لیے اناج کی پیداوار کو روکا جا رہا ہے جب کہ اسلحے کی پیداوار بڑھائی جا رہی ہے، یقیناً اسلحہ کی پیداوار کو بڑھانے کے لیے اس کی کھپت چاہیے اور کھپت کے لیے میدان جنگ چاہیے، ایک جانب امریکا اپنی کئی ریاستوں کے کسانوں کو وظیفے دیتا ہے تا کہ وہ اناج نہ پیدا کریں تو دوسری طرف اس کی اسلحے کی پیداوار کل صنعتی پیداوار کا 70 فیصد ہے۔
امریکا، آسٹریلیا، کینیڈا، فرانس، جرمنی، نیدر لینڈز اور نیوزی لینڈ کروڑوں ٹن اناج، مکھن، مویشی اور پولٹری وغیرہ سمندر برد کرتے ہیں، جلا دیتے ہیں اور مار دیتے ہیں۔ (1993 میں آسٹریلیا نے ڈیڑھ لاکھ بھیڑیں مار دی تھیں) خواہ دنیا میں ہر ماہ 15 لاکھ انسان بھوکے ہی کیوں نہ مر رہے ہوں، دوسری جانب کھربوں ڈالر کا اسلحہ فروخت کر کے منافع کمانے کے لیے میدان جنگ تخلیق کیے جاتے ہیں، جیسا کہ کبھی ہندو چین، کبھی مشرقی وسطیٰ اور کبھی پاک افغان۔ اس وقت امریکا کے پاس 30 ہزار، روس کے پاس 20 ہزار ایٹمی وار ہیڈز ہیں۔ اسرائیل، برطانیہ، فرانس، اٹلی، جاپان، کوریا، ایران کے علاوہ اب پاکستان اور ہندوستان کے پاس بھی 200 ایٹم بم ہیں۔
ان سارے ایٹم بموں سے اس ہنستی، کھیلتی دنیا کو کم از کم 1000 بار تباہ کیا جا سکتا ہے جب کہ ہر روز بھوک سے مرنے والے 50 ہزار انسانوں کو بچایا نہیں جا سکتا۔ امریکا میں 10 فیصد لوگ یعنی 30 کروڑ کی آبادی میں 3 کروڑ خیراتی کھانے پر پلتے ہیں، جب کہ امریکا خود اب تک 88 ملکوں میں مداخلت کر کے ڈھائی کروڑ انسانوں کا قتل کر چکا ہے۔ دوسری جانب امریکا کا فوجی بجٹ پچھلے سال 600 ارب ڈالر کا تھا اور پاکستان نے 510 ارب روپے کا جنگی بجٹ مختص کیا اور ان کی صحت کا بجٹ بالترتیب 3.4 اور 0.4 فیصد ہے۔ دنیا کے بڑے بڑے ملکوں کا کل فوجی بجٹ جتنا ہوتا ہے امریکا کا اکیلے ان سے زیادہ ہے۔ اسلحے کی پیداوار کی بھرمار ہونے سے اس کے استعمال میں بھی اضافہ لازمی ہے۔ جیسا کہ پاکستان میں گزشتہ 10 سال میں ہزارہ برادری کے ہزاروں لوگ قتل ہوئے۔ 2008-12ء تک کراچی میں 3000 لوگوں کا قتل ہوا۔ 2012ء میں پاکستان میں سیکڑوں خواتین قتل ہوئیں۔ گزشتہ 3 برسوں میں3000 بلوچوں کا قتل ہوا جب کہ خودکش بمباری میں ہزاروں معصوم لوگ مارے گئے۔
میزائل، بم اور لڑاکا طیارے اربوں ڈالر میں بنتے ہیں۔ یہ اربوں ڈالر کہاں سے آتے ہیں؟ محنت کشوں کی قوت محنت کے ذریعے جو پیداوار ہوتی ہے اسی کے تبادلے کے طور پر اسلحے کی پیداوار کی جاتی ہے۔ دنیا کے 113 ملکوں میں امریکا کے فوجی اڈے ہیں، جن میں سب سے زیادہ امریکی فوج اسرائیل، سعودی عرب، افغانستان، کویت، قطر، عرب امارات، یورپ اور جنوبی کوریا میں ہے۔ سامراجی ممالک کی تباہ کن ہتھیار بنانے والی اسلحہ ساز کمپنیوں کو پاکستان اور ہندوستان کی ریاستی منڈی شدت سے درکار ہے۔ اس لیے سامراجی ناخدا اس خطے میں اپنی معاشی منافع خوری کے مفادات کے لیے نیم حالت جنگ قائم رکھے ہوئے ہیں۔ پاکستان اور ہندوستان کے حکمران طبقات نہ تو جنگ کی تباہ کاریوں کے متحمل ہو سکتے ہیں اور نہ ہی کوئی جامع اور ٹھوس امن قائم کر سکتے ہیں۔
سرحدیں قائم ہی اس تناؤ اور برصغیر جنوبی ایشیا مسلسل عدم استحکام کو جاری رکھنے کے لیے کی گئی تھیں۔ ہر چند کہ قرضوں کا بوجھ، تجارتی خسارہ، افراط زر اور بے روزگاری میں ان ملکوں میں بھی اضافہ ہوتا جا رہا ہے جو سرمایہ دارانہ نظام کے اہم ستون ہیں۔ جیسا کہ جاپان اور کوریا، جاپان کی 2013ء کی جنوری کی تجارت میں ریکارڈ 17.4 ارب ڈالر خسارہ ہوا۔ وزارت خزانہ سے جاری اعداد و شمار کے مطابق گزشتہ ماہ 1.63 ٹریلین ین (17.4 ارب ڈالر) کا تجارتی خسارہ ہوا جو 1979ء میں تجارتی ڈیٹا مرتب کیے جانے کے بعد سے جنوری کے لیے بلند ترین سطح ہے۔ سرمایہ دارانہ ماہرین اقتصادیات نے 1.3 ٹریلین ین کے خسارے کا اندازہ لگایا تھا۔ اعداد و شمار کے مطابق جنوری میں برآمدات 6.4 فیصد اضافے سے 4.8 ٹریلین ین اور درآمدات 7.3 فیصد سے بڑھ کر 6.43 ٹریلین ین رہیں۔
جاپان میں بے روزگاری بڑھنے کے خلاف نوجوانوں نے انوکھے انداز میں مظاہرہ کیا۔ وہ غبارے لیے اور سیٹی بجاتے ہوئے احتجاج کر رہے تھے، جنوبی کوریا کا طویل مدتی بیرونی قرضہ ریکارڈ 413.4 ارب ڈالر ہو گیا ہے۔ یہ قرضہ 2012ء میں بلند ترین سطح پر پہنچ گیا۔ بینکاری ریگولیٹر بینک آف کوریا کے مطابق مجموعی بیرونی قرضے 2012ء کے اختتام پر 413.4 ارب ڈالر رہے جو سال 2011ء سے 14.7 ارب ڈالر زیادہ ہے ۔ برطانیہ میں بے روزگاری 7.8 فیصد تک بڑھ گئی۔ دسمبر کی اختتامی سہ ماہی میں بے روزگاری 0.1 فیصد بڑھ کر 7.7 فیصد ہو گئی۔ شماریاتی دفتر کے مطابق دسمبر میں بے روزگار افراد کی تعداد 24 لاکھ 90 ہزار سے بڑھ کر 25 لاکھ ہو گئی۔ دنیا کی بڑی جمہوریت اور نام نہاد ابھرتی ہوئی معیشت جسے شائننگ انڈیا بھی کہا جا رہا ہے، یہاں کے عوام بھوک، افلاس، مہنگائی اور بے روزگاری سے دو چار ہیں۔ بھارت میں مزدور دشمن اقتصادی اصلاحات کے خلاف گزشتہ دنوں کروڑوں مزدوروں نے ہڑتال کی۔ اس ہڑتال میں بینک ٹرانسپورٹ اور دیگر شعبے بھی شامل تھے۔
ہڑتال کے نتیجے میں معمولات زندگی بری طرح متاثر ہوئے، بینک اور مالیاتی ادارے بھی بند رہے، ہڑتال کی کال 11 بڑے مزدور گروپوں نے حکومت کی جانب سے اقتصادی اصلاحات، مہنگائی اور فیول کی قیمتوں میں اضافے کے خلاف دی تھی۔ مزدور نمایندوں نے کہا کہ حکومت نے رینٹل انشورنس اور ایوی ایشن کے شعبے میں وسیع تر غیر ملکی سرمایہ کاری کے لیے کھولنے کسانوں کو ڈیزل پر دی گئی رعایت میں کمی اور گیس سیلنڈرز پر رعایت کم کرنے کا اعلان کیا تھا تا کہ بجٹ خسارہ کم کیا جا سکے۔ اس ہڑتال سے 200 ارب روپے کا حکومت کو نقصان ہوا۔ مشرقی اور جنوبی ہندوستان میں ہڑتال زیادہ موثر رہی جب کہ دہلی کے مضافات میں پر تشدد واقعات پیش آئے۔ اسی قسم کے احتجاج تیونس، مصر، اردن، کویت، ترکی اور یمن میں ہوئے۔ ہر جگہ عوام اختیار اور اقتدار کو للکار رہے ہیں۔
دہلی، کوئٹہ، پشاور، انقرہ، قاہرہ اور لاہور میں اس کا بین ثبوت مل رہا ہے۔ گزشتہ دنوں کروڑوں کی ہڑتال میں دہلی کے مضافات میں مظاہرین کو روکنے پر پولیس پر ہلہ بول دیا، کوئٹہ میں علماء کونسل کی ہڑتال ختم کرنے کی آمادگی کو ہزارہ مقتولین کے لواحقین نے مسترد کر دیا۔ انقرہ میں 100 لوگوں کو مارکس وادی کے شبے میں گرفتار کیا گیا، اس سے چند دنوں قبل میزائل نصب کرنے کے خلاف ترک عوام نے جرمنی کی فوجی چوکی پر ہلہ بولا تھا، قاہرہ میں صدر مرسی کے خلاف عوام نے پرتشدد مظاہرے کیے، تیونس اور بحرین میں بھی عوام نے مہنگائی، بے روزگاری، بادشاہت اور آمریت کے خلاف احتجاج کیا۔ اسی قسم کے واقعات اور حرکات عوام کی جانب سے مجتمع ہوتے رہتے ہیں اور پھر اچانک امریکا میں وال اسٹریٹ قبضہ تحریک رونما ہوتی ہے جو 900 شہروں تک پھیل جاتی ہے۔ یہ مقداری تبدیلیاں ہیں جو آگے چل کر کیفیتی یعنی سماج کی مکمل تبدیلی لے آئے گی اور یہ انقلاب ہی درحقیقت عوام کا فطری انقلاب ہو گا، جو امداد باہمی، بھائی چارگی اور سارے وسائل کا سارے لوگ مل کر استعمال میں لائیں گے۔ نجی ملکیت کا خاتمہ ہو کر ایک نسل انسانی کا برادرانہ سماج تشکیل پائے گا۔ جہاں کوئی دولت مند ہو گا اور نہ کوئی بھوکا، کوئی لا علاج ہو گا اور نہ کوئی جاہل۔ سارے لوگ خوشحالی اور ہم آہنگی کی جنت میں بڑی مسرت سے اپنا دن گزاریں گے۔
اس دنیا میں اتنا اناج پیدا ہوتا ہے کہ 10 ارب کی آبادی کا پیٹ بھرا جا سکتا ہے۔ مگر لوگوں کی قوت خرید جواب دیتی جا رہی ہے۔ اس لیے اناج کی پیداوار کو روکا جا رہا ہے جب کہ اسلحے کی پیداوار بڑھائی جا رہی ہے، یقیناً اسلحہ کی پیداوار کو بڑھانے کے لیے اس کی کھپت چاہیے اور کھپت کے لیے میدان جنگ چاہیے، ایک جانب امریکا اپنی کئی ریاستوں کے کسانوں کو وظیفے دیتا ہے تا کہ وہ اناج نہ پیدا کریں تو دوسری طرف اس کی اسلحے کی پیداوار کل صنعتی پیداوار کا 70 فیصد ہے۔
امریکا، آسٹریلیا، کینیڈا، فرانس، جرمنی، نیدر لینڈز اور نیوزی لینڈ کروڑوں ٹن اناج، مکھن، مویشی اور پولٹری وغیرہ سمندر برد کرتے ہیں، جلا دیتے ہیں اور مار دیتے ہیں۔ (1993 میں آسٹریلیا نے ڈیڑھ لاکھ بھیڑیں مار دی تھیں) خواہ دنیا میں ہر ماہ 15 لاکھ انسان بھوکے ہی کیوں نہ مر رہے ہوں، دوسری جانب کھربوں ڈالر کا اسلحہ فروخت کر کے منافع کمانے کے لیے میدان جنگ تخلیق کیے جاتے ہیں، جیسا کہ کبھی ہندو چین، کبھی مشرقی وسطیٰ اور کبھی پاک افغان۔ اس وقت امریکا کے پاس 30 ہزار، روس کے پاس 20 ہزار ایٹمی وار ہیڈز ہیں۔ اسرائیل، برطانیہ، فرانس، اٹلی، جاپان، کوریا، ایران کے علاوہ اب پاکستان اور ہندوستان کے پاس بھی 200 ایٹم بم ہیں۔
ان سارے ایٹم بموں سے اس ہنستی، کھیلتی دنیا کو کم از کم 1000 بار تباہ کیا جا سکتا ہے جب کہ ہر روز بھوک سے مرنے والے 50 ہزار انسانوں کو بچایا نہیں جا سکتا۔ امریکا میں 10 فیصد لوگ یعنی 30 کروڑ کی آبادی میں 3 کروڑ خیراتی کھانے پر پلتے ہیں، جب کہ امریکا خود اب تک 88 ملکوں میں مداخلت کر کے ڈھائی کروڑ انسانوں کا قتل کر چکا ہے۔ دوسری جانب امریکا کا فوجی بجٹ پچھلے سال 600 ارب ڈالر کا تھا اور پاکستان نے 510 ارب روپے کا جنگی بجٹ مختص کیا اور ان کی صحت کا بجٹ بالترتیب 3.4 اور 0.4 فیصد ہے۔ دنیا کے بڑے بڑے ملکوں کا کل فوجی بجٹ جتنا ہوتا ہے امریکا کا اکیلے ان سے زیادہ ہے۔ اسلحے کی پیداوار کی بھرمار ہونے سے اس کے استعمال میں بھی اضافہ لازمی ہے۔ جیسا کہ پاکستان میں گزشتہ 10 سال میں ہزارہ برادری کے ہزاروں لوگ قتل ہوئے۔ 2008-12ء تک کراچی میں 3000 لوگوں کا قتل ہوا۔ 2012ء میں پاکستان میں سیکڑوں خواتین قتل ہوئیں۔ گزشتہ 3 برسوں میں3000 بلوچوں کا قتل ہوا جب کہ خودکش بمباری میں ہزاروں معصوم لوگ مارے گئے۔
میزائل، بم اور لڑاکا طیارے اربوں ڈالر میں بنتے ہیں۔ یہ اربوں ڈالر کہاں سے آتے ہیں؟ محنت کشوں کی قوت محنت کے ذریعے جو پیداوار ہوتی ہے اسی کے تبادلے کے طور پر اسلحے کی پیداوار کی جاتی ہے۔ دنیا کے 113 ملکوں میں امریکا کے فوجی اڈے ہیں، جن میں سب سے زیادہ امریکی فوج اسرائیل، سعودی عرب، افغانستان، کویت، قطر، عرب امارات، یورپ اور جنوبی کوریا میں ہے۔ سامراجی ممالک کی تباہ کن ہتھیار بنانے والی اسلحہ ساز کمپنیوں کو پاکستان اور ہندوستان کی ریاستی منڈی شدت سے درکار ہے۔ اس لیے سامراجی ناخدا اس خطے میں اپنی معاشی منافع خوری کے مفادات کے لیے نیم حالت جنگ قائم رکھے ہوئے ہیں۔ پاکستان اور ہندوستان کے حکمران طبقات نہ تو جنگ کی تباہ کاریوں کے متحمل ہو سکتے ہیں اور نہ ہی کوئی جامع اور ٹھوس امن قائم کر سکتے ہیں۔
سرحدیں قائم ہی اس تناؤ اور برصغیر جنوبی ایشیا مسلسل عدم استحکام کو جاری رکھنے کے لیے کی گئی تھیں۔ ہر چند کہ قرضوں کا بوجھ، تجارتی خسارہ، افراط زر اور بے روزگاری میں ان ملکوں میں بھی اضافہ ہوتا جا رہا ہے جو سرمایہ دارانہ نظام کے اہم ستون ہیں۔ جیسا کہ جاپان اور کوریا، جاپان کی 2013ء کی جنوری کی تجارت میں ریکارڈ 17.4 ارب ڈالر خسارہ ہوا۔ وزارت خزانہ سے جاری اعداد و شمار کے مطابق گزشتہ ماہ 1.63 ٹریلین ین (17.4 ارب ڈالر) کا تجارتی خسارہ ہوا جو 1979ء میں تجارتی ڈیٹا مرتب کیے جانے کے بعد سے جنوری کے لیے بلند ترین سطح ہے۔ سرمایہ دارانہ ماہرین اقتصادیات نے 1.3 ٹریلین ین کے خسارے کا اندازہ لگایا تھا۔ اعداد و شمار کے مطابق جنوری میں برآمدات 6.4 فیصد اضافے سے 4.8 ٹریلین ین اور درآمدات 7.3 فیصد سے بڑھ کر 6.43 ٹریلین ین رہیں۔
جاپان میں بے روزگاری بڑھنے کے خلاف نوجوانوں نے انوکھے انداز میں مظاہرہ کیا۔ وہ غبارے لیے اور سیٹی بجاتے ہوئے احتجاج کر رہے تھے، جنوبی کوریا کا طویل مدتی بیرونی قرضہ ریکارڈ 413.4 ارب ڈالر ہو گیا ہے۔ یہ قرضہ 2012ء میں بلند ترین سطح پر پہنچ گیا۔ بینکاری ریگولیٹر بینک آف کوریا کے مطابق مجموعی بیرونی قرضے 2012ء کے اختتام پر 413.4 ارب ڈالر رہے جو سال 2011ء سے 14.7 ارب ڈالر زیادہ ہے ۔ برطانیہ میں بے روزگاری 7.8 فیصد تک بڑھ گئی۔ دسمبر کی اختتامی سہ ماہی میں بے روزگاری 0.1 فیصد بڑھ کر 7.7 فیصد ہو گئی۔ شماریاتی دفتر کے مطابق دسمبر میں بے روزگار افراد کی تعداد 24 لاکھ 90 ہزار سے بڑھ کر 25 لاکھ ہو گئی۔ دنیا کی بڑی جمہوریت اور نام نہاد ابھرتی ہوئی معیشت جسے شائننگ انڈیا بھی کہا جا رہا ہے، یہاں کے عوام بھوک، افلاس، مہنگائی اور بے روزگاری سے دو چار ہیں۔ بھارت میں مزدور دشمن اقتصادی اصلاحات کے خلاف گزشتہ دنوں کروڑوں مزدوروں نے ہڑتال کی۔ اس ہڑتال میں بینک ٹرانسپورٹ اور دیگر شعبے بھی شامل تھے۔
ہڑتال کے نتیجے میں معمولات زندگی بری طرح متاثر ہوئے، بینک اور مالیاتی ادارے بھی بند رہے، ہڑتال کی کال 11 بڑے مزدور گروپوں نے حکومت کی جانب سے اقتصادی اصلاحات، مہنگائی اور فیول کی قیمتوں میں اضافے کے خلاف دی تھی۔ مزدور نمایندوں نے کہا کہ حکومت نے رینٹل انشورنس اور ایوی ایشن کے شعبے میں وسیع تر غیر ملکی سرمایہ کاری کے لیے کھولنے کسانوں کو ڈیزل پر دی گئی رعایت میں کمی اور گیس سیلنڈرز پر رعایت کم کرنے کا اعلان کیا تھا تا کہ بجٹ خسارہ کم کیا جا سکے۔ اس ہڑتال سے 200 ارب روپے کا حکومت کو نقصان ہوا۔ مشرقی اور جنوبی ہندوستان میں ہڑتال زیادہ موثر رہی جب کہ دہلی کے مضافات میں پر تشدد واقعات پیش آئے۔ اسی قسم کے احتجاج تیونس، مصر، اردن، کویت، ترکی اور یمن میں ہوئے۔ ہر جگہ عوام اختیار اور اقتدار کو للکار رہے ہیں۔
دہلی، کوئٹہ، پشاور، انقرہ، قاہرہ اور لاہور میں اس کا بین ثبوت مل رہا ہے۔ گزشتہ دنوں کروڑوں کی ہڑتال میں دہلی کے مضافات میں مظاہرین کو روکنے پر پولیس پر ہلہ بول دیا، کوئٹہ میں علماء کونسل کی ہڑتال ختم کرنے کی آمادگی کو ہزارہ مقتولین کے لواحقین نے مسترد کر دیا۔ انقرہ میں 100 لوگوں کو مارکس وادی کے شبے میں گرفتار کیا گیا، اس سے چند دنوں قبل میزائل نصب کرنے کے خلاف ترک عوام نے جرمنی کی فوجی چوکی پر ہلہ بولا تھا، قاہرہ میں صدر مرسی کے خلاف عوام نے پرتشدد مظاہرے کیے، تیونس اور بحرین میں بھی عوام نے مہنگائی، بے روزگاری، بادشاہت اور آمریت کے خلاف احتجاج کیا۔ اسی قسم کے واقعات اور حرکات عوام کی جانب سے مجتمع ہوتے رہتے ہیں اور پھر اچانک امریکا میں وال اسٹریٹ قبضہ تحریک رونما ہوتی ہے جو 900 شہروں تک پھیل جاتی ہے۔ یہ مقداری تبدیلیاں ہیں جو آگے چل کر کیفیتی یعنی سماج کی مکمل تبدیلی لے آئے گی اور یہ انقلاب ہی درحقیقت عوام کا فطری انقلاب ہو گا، جو امداد باہمی، بھائی چارگی اور سارے وسائل کا سارے لوگ مل کر استعمال میں لائیں گے۔ نجی ملکیت کا خاتمہ ہو کر ایک نسل انسانی کا برادرانہ سماج تشکیل پائے گا۔ جہاں کوئی دولت مند ہو گا اور نہ کوئی بھوکا، کوئی لا علاج ہو گا اور نہ کوئی جاہل۔ سارے لوگ خوشحالی اور ہم آہنگی کی جنت میں بڑی مسرت سے اپنا دن گزاریں گے۔