درپردہ اور برملا تضادات جاری ہے
سچے جذبوں کی قسم ایک روز جلد آنے والا ہے کہ ایک آسمان تلے ایک ہی خاندان ہوگا، کوئی طبقہ ہوگا اور نہ کوئی ریاست۔
UNITED STATES:
سوشلسٹ بلاک کے خاتمے کے بعد نیٹو اور وارسا، سامراج اور سامراج مخالف دو بلا کوں کی جنگ اور سرد جنگ اب باقی نہ رہی۔ ہاں مگر عالمی سامراج اور سرمایہ داری کے خلاف دنیا بھر میں محنت کش عوام اور پیداواری قوتوں کا تضاد جاری ہے اور اس وقت تک رہے گا، جب تک سرمایہ داری کو نیست و نابود کرکے ایک کمیونسٹ سماج میں یعنی امداد باہمی کے معاشرے میں تبدیل نہ کردیں۔ مگر اس کے علاوہ آج کل دنیا بھر میں وسائل پر قبضہ کرکے زیادہ امیر بننے کے لیے اور عیش وعشرت کی زندگی گزارنے کے لیے خواہ دوسرے بھوک سے ہی کیوں نہ مر جائیں، پراکسی وار جاری ہے۔
اب دنیا میں سامراجی اور سوشلسٹ بلاک کی جگہ سامراجی مراکز بن چکے ہیں، جن میں قابل ذکر امریکی اور چینی سامراج ہیں۔ پہلی بار امریکی سامراج کو اپنے مذموم مقاصد سے کچھ علاقوں سے پیچھے ہٹنا پڑا، جیسا کہ کریمیا روس کا حصہ بن گیا، شام کے بشارالاسد کو اقتدار سے ہٹانے کی ضد سے دستبردار ہونا پڑا۔ کیوبا سے مذاکرات کرنی پڑی، یمن میں شکست سے دوچار ہورہا ہے۔ امریکی وزیر خارجہ صدر ٹرمپ سے اختلاف کرتے ہوئے شمالی کوریا سے مذاکرات کے ٹیبل پر جانا پڑ رہا ہے۔ افغانستان سے امریکی فوج کی واپسی کے بعد پھر مزید فوجی دستے بھیجنا پڑے۔ پاکستان کو خبردار کرنے کے بعد خواجہ آصف کے بیان کو برداشت کرنا پڑا۔
ان تمام تر عالمی تنازعات اور مفادات پر کھینچا تانی کی روشنی میں پاکستان کی صورتحال اس سے کچھ کم نہیں، بلکہ کہیں زیادہ ہے۔ ایک جانب حکمران طبقات خواہ وہ وردی والے ہوں یا بے وردی۔ دوسری جانب بورژوا پارٹیوں اور اداروں کے مابین اندرون خانہ تضادات موجود ہیں۔ سرمایہ دارانہ نظام میں یہ تضادات کوئی انوکھی بات نہیں ہے، مگر ہمارے ملک میں یہ تضادات ابلاغ عامہ، نشریاتی اداروں اور سوشل میڈیا پر ایک معمول سا بن گیا ہے۔
کارل مارکس نے کمیونسٹ مینی فیسٹو میں 179 سال قبل کہا تھا کہ ''کل جو چیز ناپاک تھی آج پاک ہوگئی ہے اور کل جو چیز پاک تھی آج ناپاک ہوگئی ہے''۔ یہ فقرہ ہماری بورژوا سیاست پر درست ثابت ہوتا ہے۔ مثال کے طور پر تحریک انصاف اور ایم کیوایم آگ اور پانی کا کھیل کھیل رہی تھیں، دیواروں پر ایک دوسرے کے لیے گالیاں لکھی جارہی تھیں، اور آج گلے مل رہے ہیں۔
کل مولانا سمیع اللہ اور فضل الرحمن ایک جان دو قالب تھے، مگر آج ایک دوسرے کے خلاف ہیں، ایم ایم اے میں جماعت اسلامی اور جے یو آئی متحد تھی لیکن آج جے یو آئی نواز لیگ کے ساتھ کھڑی ہے، جب کہ جماعت، پی ٹی آئی کے ساتھ ہے اور اختلاف بھی ہے۔ چند دنوں قبل پاک سرزمین اور ایم کیوایم ایک دوسرے کے شدید خلاف تھے، جیسے کسی نے ہوا بھردی ہو لیکن آج اس حد تک نرم رویہ ہے کہ نہ جانے کب آن ملیں۔
اس کے علاوہ پی ٹی آئی، مسلم لیگ ن اور پی پی پی کے اندرون خانہ اتنے شدید اختلافات ہیں کہ برملا اور کھلم کھلا عوام تک اندرونی باتیں باہر آجاتی ہیں، جیساکہ جہانگیر ترین اور محمود شاہ قریشی کا اختلاف، آصف علی زرداری اور رضا ربانی کے اختلاف، نواز لیگ اور چوہدری نثار کے اختلاف ہیں۔ اسی طرح سب سے بڑھ کر آج کل نواز شریف اور اسٹیبلیشمنٹ کے اختلاف عوام میں کھل کر آگئے ہیں ۔ اس پر حبیب جالب کا ایک شعر یاد آگیا ''یہ سارے وزیر ہیں بے ضمیر، ان کے چہرے پہ زردی، ان میں یوں ہوا بھردی کہ چور بھی پھرتے ہیں پہنے ہوئے وردی''۔ سرمایہ دار کبھی بھی جائز کمائی سے ارب پتی نہیں بن سکتا ہے۔
آکسفیم کی ایک رپورٹ کے مطابق دنیا کے آٹھ امیر ترین انسان دنیا کی آدھی دولت کے مالک ہیں، جب کہ اسی دنیا میں 75 ہزار انسان روزانہ صرف بھوک سے مرتے ہیں۔ اسی طرح بل گیٹس پولیو کا قطرہ پلا کر لوگوں کو پانچ اقسام کی بیماریوں سے نجات دلانے کا باعث بنتا ہے، اگر یہ قطرے نہ پلائے تو دنیا کے مزدور اور پیداواری قوتیں اس قابل نہیں رہیں گی کہ وہ سرمایہ داروں کے لیے پیداوار کریں اور ایندھن بنیں۔
ہمارے ملک میں ایک شخصیت نے لاکھوں مکانات اربوں ڈالر کے بنائے اور بیچے اور مزید جاری ہیں اور کہتا ہے کہ ہم غریبوں کو مفت مکانات فراہم کرتے ہیں، لیکن صحافیوں کے پوچھنے پر نام بتانے سے انکار کرتا ہے اورکہتا ہے کہ نیک کام کرکے نام نہیں بتائے جاتے۔ یہ عجیب بات ہے کہ کرپشن کا چرچا جو کرتے ہیں وہ سب کے سب خود کرپشن میں براہ راست شریک ہیں۔ کرپشن کے بغیر کوئی سرمایہ دار بنتا ہے اور نہ کوئی جا گیردار، اگر انگریزوں نے جاگیردار بنایا تو یہ بھی کرپشن ہے اگر مزدوروں کوکم تنخواہیں دے کر سرمایہ دار قدر زائد بٹور کر ارب پتی بنتا ہے تو یہ بھی کرپشن ہے۔
درحقیقت پاکستان بننے کے بعد سے 1954 تک سول نوکرشاہی سیاست اور معیشت پر حاوی رہی جب کہ ایوبی آمریت عوام پر مسلط ہونے کے بعد سے آج تک کھلے عام یا درپردہ غیر جمہوری نوکر شاہی مسلط رہی ہے۔ کھلے عام تو 40 سال مارشل لاء اور آمروں کی حکو مت رہیں اور سول حکومتیں جتنے عرصے بھی رہیں، انھیں سکون سے حکمرانی نہیں کرنے دیا گیا۔
کبھی جی ایم سید، کبھی شیخ مجیب، کبھی غفار خان اور ولی خان، کبھی عطا اللہ مینگل اورکبھی میر غوث بخش بزنجو کو 'غدار وطن' کہا گیا جب کہ جی ایم سید پاکستان بننے کے بعد مسلم لیگ سندھ کے صدر رہے اور ڈاکٹر خان کے پی کے، کے وزیراعلیٰ تھے اور شیخ مجیب مسلم لیگ اسٹوڈنٹس فیڈریشن بنگال کے صدر رہے۔
یہ سب اتھل پتھل اورگورکھ دھندے اس لیے ہوا کرتے ہیں کہ عوام غیر طبقاتی معاشرے کے لیے سرمایہ داروں اور جاگیرداروں کے خلاف متحد ہوکر انقلاب برپا نہ کردیں اور یہ ایسا انقلاب جو طبقات کا خاتمہ کرکے ایسا سماج تشکیل دے، جہاں ملکیت اور جائیداد کا وجود نہ ہو۔ سچے جذبوں کی قسم ایک روز جلد آنے والا ہے کہ ایک آسمان تلے ایک ہی خاندان ہوگا، کوئی طبقہ ہوگا اور نہ کوئی ریاست۔ سب مل کر پیداوار کریں گے اور مل کر کھائیں گے۔