سیاسی خلفشار
حقیقت یہ ہے کہ اس وقت شیخ رشید نے میاں صاحب کی حکومت کو ہلاکر رکھ دیا ہے۔
بھارت میں کرپشن کا ایک نیا غضب ناک کیس منظر عام پر آیا ہے۔ مودی کے دست راست اور بی جے پی کے صدر امت شاہ کے بیٹے جے شاہ نے 2014 میں 50 ہزار روپے سے اپنا کاروبار شروع کیا تھا جو صرف ایک سال میں 80 کروڑ سے تجاوز کر گیا ہے اور یہ واقعہ مودی جی کے دور حکومت میں ظہور پذیر ہوا ہے۔
پاکستان میں کرپشن کے سلسلے میں جاری اودھم بازی اور نواز شریف حکومت کی تنزلی سے متاثر ہوکر بعض بھارتی تجزیہ کاروں کا کہناہے کہ مودی خیر منائیں کہ بھارت میں عمران خان اور شیخ رشید جیسے لیڈر سیاسی میدان میں نہیں ہیں ورنہ امت شاہ کے ساتھ ساتھ مودی جی بھی اس کرپشن کی لپیٹ میں آئے بغیر نہ رہتے۔ وہ نا اہل ہوکر حکومت سے باہر ہوچکے ہوتے اور میاں صاحب کی طرح سڑکوں پر ''مجھے کیوں نکالا'' کا نعرہ لگا رہے ہوتے۔ گو کہ بھارت میں کرپشن کے اس میگا کیس کی باز گشت سب طرف پھیلی ہوئی ہے مگر وہاں کا میڈیا بالکل خاموش ہے۔
اس کے چپ سادھنے کی وجہ یہ بتائی جارہی ہے کہ حکومت کی دوست کارپوریٹ کمپنیاں جے شاہ کی مکمل حمایت کررہی ہیں اور انھوں نے میڈیا کو اس خبر کو ہوا دینے پر اشتہارات کی بندش کی دھمکی دے رکھی ہے۔ ادھر مودی حکومت نے بھی میڈیا کو پہلے سے زیادہ دباؤ میں لے لیا ہے اور جے شاہ کے خلاف خبر نشر کرنے پر ہتھک عزت کے قانون کے تحت کارروائی کی دھمکی دی ہے۔
اب ایسی صورتحال میں کیا بھارتی میڈیا کو پاکستانی میڈیا جیسا آزاد کہا جاسکتا ہے مگر میڈیا تو کیا وہاں کی کوئی سیاسی پارٹی بھی اس میگا کرپشن کے خلاف مہم جوئی کرتی نظر نہیں آرہی ہے جب کہ ہمارے ہاں میڈیا نے کچھ سیاست دانوں کے ساتھ مل کر کرپشن کے سلسلے میں میاں صاحب کے خلاف وہ واویلا مچایا کہ جن کی گھن گرج میں میاں صاحب کو نا اہل قرار دے دیا گیا ہے۔ میاں صاحب اپنی پریشانیوں کی وجہ ان کے خلاف ہونے والی انجان سازش کو قرار دے رہے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ اگر ان کے خلاف سازش ہورہی تھی تو وہ کیوں غافل رہے اور اسے ناکام بنانے میں ان کے ساتھیوں نے کیا کردار ادا کیا؟
مبصرین کے مطابق ان کی پریشانیوں کی اصل وجہ ان کی ٹیم میں موجود کچھ کالی بھیڑیں تھیں انھوں نے اپنے وزیروں اور مشیروں کی فوج ظفر موج پر اندھا اعتماد کیا اور ان میں سے بعض لوگ من مانی کرکے میاں صاحب کی حکومت کی جڑیں کھوکھلی کرتے رہے مگر میاں صاحب کو خبر ہی نہ ہوئی۔ انھیں ہر طرف اچھا ہی اچھا نظر آتا رہا۔
شہباز شریف نے اس سلسلے میں کھل کر کہا ہے کہ میاں صاحب کی کابینہ میں کچھ ایسے لوگ بھی تھے جو کار اور جھنڈے کی لالچ میں ان کے ساتھ آکر جڑ گئے تھے۔ وہی ان کی حکومت کے لیے مسائل پیدا کرتے رہے۔ ویسے تو ان کی طرف سے چھوٹے موٹے کئی مسائل کھڑے کیے گئے مگر نیوز لیکس اور ختم نبوت کے حلف نامے میں تحریف غضب ناک مسائل ہیں۔
ختم نبوت جیسے حساس معاملے سے چھیڑ چھاڑ کرنا واضح طور پر حکومت کو مشکل میں ڈالنے کی بڑی سازش تھی۔ اب اس معاملے کی انکوائری کے لیے ایک کمیٹی ضرور بنادی گئی ہے تاہم اگر اس کے اصل کرتا دھرتا لوگوں کا پتا بھی چل جاتا ہے تو کیا ہوگا میاں صاحب کو وہ جو نقصان پہنچانا چاہتے تھے وہ تو پہنچ چکا ۔ بعض تجزیہ کاروں کے نزدیک میاں صاحب سے 2013 کے الیکشن میں کامیابی حاصل کرنے کے بعد پہلی غلطی اس وقت سرزد ہوئی جب شیخ رشید کواپنی ٹیم کا حصہ بنانے سے انکار کیا گیا۔
شیخ رشید میاں صاحب کی پہلی دو حکومتوں میں شامل رہ چکے تھے، وہ ان کے اولین جان نثار ساتھیوں میں سے تھے۔ یہ انتہائی متحرک اور بھاگ دوڑ کرنے والا شخص ہے، اگر میاں صاحب پرویز مشرف کے دوسرے ساتھیوں کو اپنانے کے ساتھ ساتھ اسے بھی اپنالیتے تو یہ اپنی خوبیوں کی وجہ سے میاں صاحب کے موجودہ ساتھیوں سے زیادہ مستعد اور فعال ثابت ہوتا۔ چنانچہ لگتا ہے اسی خوف سے ان لوگوں نے شیخ رشید کو میاں صاحب کی ٹیم کا حصہ نہیں بننے دیا۔
حقیقت یہ ہے کہ اس وقت شیخ رشید نے میاں صاحب کی حکومت کو ہلاکر رکھ دیا ہے۔ عمران خان کو بھی میاں صاحب کے پیچھے لگانے والی بھی یہی ہستی ہے۔ 2013 کے الیکشن کے کوئی ڈیڑھ سال بعد تک خان صاحب نے میاں صاحب کے خلاف کوئی تحریک نہیں چلائی تھی مگر جب شیخ رشید اکیلے میاں صاحب کے خلاف اپنی کارروائیوں میں زور پیدا نہ کرسکے تو انھوں نے خان صاحب کا ہاتھ پکڑا اور ایسا پکڑا کہ غیبی مدد سے اپنے ساتھ ساتھ انھیں بھی سرفرازکردیا۔
پھر دونوں نے مل کر کبھی دھرنے کے ذریعے، کبھی لاک ڈاؤن اور کبھی سڑکوں پر احتجاج کی دھمکیوں سے میاں صاحب کا ناک میں دم کردیا اور آخر بات انھیں نا اہل قرار دیے جانے تک پہنچادی۔ خان صاحب میاں صاحب کے خلاف نا اہلی کے فیصلے کے حق میں دلیلیں دے کر عدالت عالیہ کا خود ساختہ ترجمان ہونے کا تاثر کیوں دے رہے ہیں؟
بہر حال سیاسی مخالفین کا جو کام ہے وہ تو کرتے ہی رہیں گے مگر میاں صاحب نے تو اپنی حکومت کو خود کمزور کرنے کی غلطیاں کی ہیں۔ نیوز لیکس کا حساس اور ملکی سلامتی کے خلاف سانحہ ان کی غلطیوں میں سر فہرست ہے، بند کمرے میں ہونے والے قومی اہمیت کے حامل فیصلوں کی رپورٹ اخبار تک کیسے پہنچی اور اخبار نے بھی اسے شایع کرنے کی جرأت کیسے کی؟
یہ مسئلہ میاں صاحب کے لیے ہمیشہ پریشان کن بنارہے گا گو کہ اس وقت وہ اسے ٹھنڈا کرنے میں ضرور کسی طرح کامیاب ہوگئے ہیں تاہم انھیں چاہیے تھا کہ وہ ان لوگوں کا ضرور پتا لگاتے جنھوں نے یہ خطرناک حرکت کرکے انھیں مصیبت میں ڈالا تھا۔ کئی حلقے ان کے اپنے ہی ساتھیوں کو اس میں ملوث قرار دے رہے ہیں۔
اس سے یہ پتا چلتا ہے کہ میاں صاحب کا اپنے وزیروں اور مشیروں پر کنٹرول کا فقدان رہا جب ہی ان کے حوصلے بلند رہے اور وہ بالآخر اپنے عزائم میں کامیاب ہوگئے۔ اس سے یہ بھی پتا چلا کہ میاں صاحب کے ساتھی بھی ان کے مصائب کے ذمے دار ہیں۔ پیپلزپارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری نے شاید درست ہی کہاہے کہ میاں صاحب کو حکومت کرنا نہیں آئی۔ اب میاں صاحب کو چاہیے کہ وہ حکومت کرنے کے گر زرداری سے سیکھیں تو ضرور کامیاب رہیں گے۔ میاں صاحب کے سیدھے پن کا حوالہ دے کر ان کی بیٹی مریم نواز نے بھی حق بات کی ہے کہ ابا جان کو شریف ہونے کی سزا دی جا رہی ہے۔
بہر حال ملک میں اس وقت جو کھیل کھیلا جا رہا ہے اس سے حقیقت میں شریف فیملی و نقصان پہنچانے کی آڑ میں پاکستان کو نقصان پہنچایا جارہاہے ملک کی معیشت تباہ ہورہی ہے اور ملک عدم استحکام کی جانب بڑھ رہا ہے، موجودہ سیاسی بحران کو مزید طول دینے کے لیے کچھ سیاست دانوں کی فرمائش پر پرانے بند کیے گئے مقدمات کو پھر سے کھولنے میں عدلیہ کی دلچسپی مزید الجھن پیدا کررہی ہے۔ ایسے حالات میں عوام سخت پریشان ہیں مگر وہ کس سے فریاد کریں اب توطاقتور ادارں سے ہی درخواست ہے کہ وہ ملک میں جاری سیاسی محاذ آرائی کو جلد از جلد ختم کرانے کے لیے کچھ کریں۔