منظوم درود اور نعتیہ ادب آخری حصہ
یہ تمام توصیفی امور اور انعامات اپنی جگہ لیکن ان کا ایک خاص کارنامہ بھی منصہ شہود پر رونما ہوا ہے
پروفیسر فائزہ احسان صدیقی کو اللہ رب العزت نے ایسی اعلیٰ و ارفع صلاحیتوں سے نوازا کہ جن کے تحت انھوں نے شعر و سخن کے میدان میں اپنی علمیت و قابلیت کا وہ جھنڈا نصب کیا ہے جو اسلام کا ہے، ان کی شاعری حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے قلبی و روحانی محبت کے نتیجے میں وجود میں آئی ہے۔ پروفیسر فائزہ احسان کا وہ شعر جو انتساب میں شامل ہے اور جس کا ذکر میں نے ابتدائی سطور میں کیا تھا، میرے مطالعے میں آنے کے بعد کئی روز تک میرے دل کو حرارت اور طہارت بخشتا رہا اور بارہا میرے لبوں پر آکر ٹھہرا۔ شعر یہ ہے کہ:
ان کے در سے مجھے مل جائے غلامی کی سند
میرے معبود کوئی حرف میں ایسا لکھوں
پروفیسر فائزہ احسان صدیقی کا تعلق علمی و دینی خانوادے سے ہے۔ مذہبی ماحول ہونے کی وجہ سے انھیں دین اسلام کو سمجھنے اور جاننے کے مواقع میسر آئے۔ انھوں نے اپنی زندگی اسلامی تعلیمات کے مطابق گزارنے کی کوشش کی ہے اور اپنے قلم کو فضول باتوں سے آلودہ ہونے سے بچایا ہے۔ وہ بیک وقت ادیبہ، شاعرہ، مقررہ اور بھی بے شمار اوصاف کی مالک ہیں۔ ان کی تحریریں پڑھنے اور ان سے ملنے کے بعد اس بات کا اندازہ بخوبی ہوجاتا ہے کہ ان کا ظاہر و باطن اسلام کی تابانیوں سے روشن ہے۔
ان کی تصنیفات الفوزالعظیم، مقالات سیرت جلد اول، (2) تعلیم الفائزون، پاکستان کے لیے مثالی نظام تعلیم۔ (3) فی الفوزالعظیم ''مقالات سیرت'' (جلد دوم)۔ (4) اسلام کا نظام صرف دولت اور اتفاق'' اور بہت سے مقالات لکھے اور انعامات حاصل کیے۔
جامعہ کراچی کی بہترین مقررہ کی حیثیت سے گولڈ میڈل وصول کیا، وزارت مذہبی امور کی جانب سے 7 مرتبہ اول انعام، 2 مرتبہ دوم انعام اور اس کے ساتھ 9 مرتبہ اسناد امتیاز۔ اور بہت سے اہم تعلیمی اداروں نے پروفیسر فائزہ احسان کی دینی خدمات کو مدنظر رکھتے ہوئے انھیں اعزازات سے نوازا۔ خانہ فرہنگ ایران اور بورڈ آف انٹرمیڈیٹ ایجوکیشن کراچی کی جانب سے سند امتیاز و اعزاز اور اعزازی شیلڈ پیش کی گئی۔
یہ تمام توصیفی امور اور انعامات اپنی جگہ لیکن ان کا ایک خاص کارنامہ بھی منصہ شہود پر رونما ہوا ہے اور وہ ہے ''صلو علی النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم'' کی اشاعت، جسے الجلیس پاکستانی بک پبلشنگ سروسز نے شایع کیا ہے۔ یہ کتاب 461 صفحات کا احاطہ کرتی ہے اور دو حصوں پر مشتمل ہے۔ پہلا حصہ درود پاک ﷺ اور دوسرے حصے میں نعتیہ کلام شامل ہے۔
پروفیسر فائزہ احسان نے 85 اوراد کا منظوم ترجمہ کیا ہے، جو یقیناً بڑی نہیں بلکہ بہت بڑی بات ہے۔ بے شک یہ فیوض و برکات ان کے آباؤ اجداد کی تعلیم و تربیت اور کسب علم کی بدولت میسر آئے۔ وہ اپنے خاندان اور ماحول کے بارے میں اس طرح رقم طراز ہیں کہ ''میں نے جس گھر میں آنکھ کھولی، وہاں دین کا بہت رچاؤ تھا، ابا جی مرحوم حکیم مولانا محمد ابرار الحق صدیقی فاضل طب و جراحت کی سند کے ساتھ ساتھ علم دین سے نہ صرف بہرہ ور تھے بلکہ اللہ سبحان و تعالیٰ نے انھیں قرآن کریم سے خاص شغف اور محبت عطا فرمائی تھی، بڑے ہوکر دادا مرحوم مولانا اسرار الحق طوطی ہند کے فن خطابت، ان کے وعظ و تقریر کی لذت و اثرانگیزی سے متعلق بہت کچھ پڑھنے اور سننے کو ملا۔ فائزہ احسان صاحبہ نے اپنے ماحول کی عکاسی ان اشعار میں بڑی خوبصورتی اور دلآویزی کے ساتھ کی ہے۔
پروفیسر فائزہ احسان نے اپنے خیال کے مطابق ایک غلط فہمی کی طرف بھی اشارہ کیا ہے، وہ یہ کہ اکثر حضرات صرف درود ابراہیمی کو ہی پڑھنا جائز قرار دیتے ہیں، جب کہ ایسا ہرگز نہیں ہے۔ آپ ﷺ نے درود ابراہیمی کے ساتھ ساتھ درود نامہ اور دیگر کئی درود پڑھنے کی تلقین کی ہے۔ اسی سنت رسول ﷺکی پیروی کرتے ہوئے فائزہ احسان نے اوراد پاک کے تراجم اس قدر سادہ اور دل نشیں انداز میں کیے ہیں کہ روح جھوم اٹھتی ہے۔
فائزہ احسان نے درود مستغاث کا ترجمہ بھی بہت موثر اور آسان الفاظ میں کیا ہے اور وجہ تسمیہ سے بھی آگاہ کیا ہے۔ مستغاث کا مطلب ہے التجا اور فریاد رسی۔ درود مستغاث کا ہر ہر لفظ حضور اکرم ﷺ کی صفات سے بھرا ہوا ہے۔ درود مستغاث کا منظوم ترجمہ:
تجھی کو تو زیبا ہے مولا بے شک ہر اک حمد و ثنا
اس بزم رسولاں کو تو نے ہی سجایا ہے مولا
اور اپنے حبیب مکرم ﷺ کو اس کا بنایا ہے دولہا
مبعوث جو ان ﷺ کو فرمایا، اہل ایمان پہ احسان کیا
تو بھیج الٰہی درود و سلام اور لامحدود کرم فرما
اسم انؐ کا محمدﷺ ہے، بے شک مخلوق میں وہؐ سب سے اعلیٰ
پروفیسر فائزہ احسان کی مذکورہ کتاب میں تقریباً پچاس نعتیں شامل ہیں، تمام نعتیں کلام حب رسول اللہؐ کی محبت سے سرشار ہیں، آپؐ کا روضہ اقدس مکہ و مدینے کی گلیاں، نورانی منظر، مسجد نبوی، طواف کعبہ، پاکیزہ و معطر فضائیں، درود قرأت کی محفلیں اور خوشبو لٹاتی ہوائیں، شاعرہ کو بے قرار رکھتی ہیں انھیں بقیع کی خاک سے محبت ہے وہ اسے اپنا مسکن بنانا چاہتی ہیں۔ وہ اس طرح التجا کر رہی ہیں۔
حضورؐ شہر مدینہ مجھے بلا لیتے
حضورؐ شہر میں اپنے مجھے بسا لیتے
مدینہ میرے تصور میں بس آگیا ایسے
رہی کہیں بھی مگر میں رہی وہاں جیسے
حضورؐ خاک مدینہ مقام ہوجائے
وہیں یہ قصۂ ہستی تمام ہوجائے
بقیع کی خاک میں یہ خاک میری شامل ہو
مجھے حضورؐ کی ہمسائیگی جو حاصل ہو
اے الٰہ العالمین تیری ذات دونوں جہاں سے بے نیاز ہے جب کہ میں تہی دست (تیرے فضل کا) محتاج ہوں، لہٰذا قیامت کے روز میرے گناہوں کے ضمن میں میری عذر خواہیاں قبول فرما لینا اور اگر تو میرا حساب لینا ضروری سمجھے تو حضور اکرم ﷺ کی نظروں سے چھپا کر لینا۔ آمین! بے شک انسان گناہوں کی اس دلدل میں پھنس گیا ہے جسے وہ دلدل نہیں شفاف پانی سے تعبیر کرتا ہے۔ اور وہ اس وقت کو بھول جاتا ہے جب حشر کا دن ہوگا اور لوگ ایک ایک نیکی کے لیے ترس رہے ہوں گے اور ایسے وقت کوئی کسی کے کام نہ آئے گا۔
ڈاکٹر عزیز احسن کی کتاب ''نعتیہ ادب کے تنقیدی زاویے'' میں ایک باب ''کلام اقبال میں نعتیہ عناصر'' بھی اقبال کے فکری زاویوں اور عشق رسول ﷺ کو نمایاں کرتا ہے۔ اس ضمن میں ڈاکٹر صاحب نے اس انداز میں روشنی ڈالی ہے۔ مقام رسالت، عظمت رسول ﷺ اور حب رسول ﷺ کے تقاضوں سے آشنا ہوکر ہی اقبال نے اپنی شاعری میں رسالت کے حوالے سے بڑے فکر انگیز نکات پیش کیے ہیں۔ مثلاً رسول کریم علیہ الصلوٰۃ والتسلیم کی معراج کا پیغام اور معراج کا منشا جتنے بھرپور انداز میں اقبال کے درج ذیل شعر میں جلوہ آرا ہوا ہے وہ اسلامی ادب میں نایاب چیز ہے۔
سبق ملا ہے یہ معراج مصطفیٰ سے مجھے
کہ عالم بشریت کی زد میں ہے گردوں
ان کے در سے مجھے مل جائے غلامی کی سند
میرے معبود کوئی حرف میں ایسا لکھوں
پروفیسر فائزہ احسان صدیقی کا تعلق علمی و دینی خانوادے سے ہے۔ مذہبی ماحول ہونے کی وجہ سے انھیں دین اسلام کو سمجھنے اور جاننے کے مواقع میسر آئے۔ انھوں نے اپنی زندگی اسلامی تعلیمات کے مطابق گزارنے کی کوشش کی ہے اور اپنے قلم کو فضول باتوں سے آلودہ ہونے سے بچایا ہے۔ وہ بیک وقت ادیبہ، شاعرہ، مقررہ اور بھی بے شمار اوصاف کی مالک ہیں۔ ان کی تحریریں پڑھنے اور ان سے ملنے کے بعد اس بات کا اندازہ بخوبی ہوجاتا ہے کہ ان کا ظاہر و باطن اسلام کی تابانیوں سے روشن ہے۔
ان کی تصنیفات الفوزالعظیم، مقالات سیرت جلد اول، (2) تعلیم الفائزون، پاکستان کے لیے مثالی نظام تعلیم۔ (3) فی الفوزالعظیم ''مقالات سیرت'' (جلد دوم)۔ (4) اسلام کا نظام صرف دولت اور اتفاق'' اور بہت سے مقالات لکھے اور انعامات حاصل کیے۔
جامعہ کراچی کی بہترین مقررہ کی حیثیت سے گولڈ میڈل وصول کیا، وزارت مذہبی امور کی جانب سے 7 مرتبہ اول انعام، 2 مرتبہ دوم انعام اور اس کے ساتھ 9 مرتبہ اسناد امتیاز۔ اور بہت سے اہم تعلیمی اداروں نے پروفیسر فائزہ احسان کی دینی خدمات کو مدنظر رکھتے ہوئے انھیں اعزازات سے نوازا۔ خانہ فرہنگ ایران اور بورڈ آف انٹرمیڈیٹ ایجوکیشن کراچی کی جانب سے سند امتیاز و اعزاز اور اعزازی شیلڈ پیش کی گئی۔
یہ تمام توصیفی امور اور انعامات اپنی جگہ لیکن ان کا ایک خاص کارنامہ بھی منصہ شہود پر رونما ہوا ہے اور وہ ہے ''صلو علی النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم'' کی اشاعت، جسے الجلیس پاکستانی بک پبلشنگ سروسز نے شایع کیا ہے۔ یہ کتاب 461 صفحات کا احاطہ کرتی ہے اور دو حصوں پر مشتمل ہے۔ پہلا حصہ درود پاک ﷺ اور دوسرے حصے میں نعتیہ کلام شامل ہے۔
پروفیسر فائزہ احسان نے 85 اوراد کا منظوم ترجمہ کیا ہے، جو یقیناً بڑی نہیں بلکہ بہت بڑی بات ہے۔ بے شک یہ فیوض و برکات ان کے آباؤ اجداد کی تعلیم و تربیت اور کسب علم کی بدولت میسر آئے۔ وہ اپنے خاندان اور ماحول کے بارے میں اس طرح رقم طراز ہیں کہ ''میں نے جس گھر میں آنکھ کھولی، وہاں دین کا بہت رچاؤ تھا، ابا جی مرحوم حکیم مولانا محمد ابرار الحق صدیقی فاضل طب و جراحت کی سند کے ساتھ ساتھ علم دین سے نہ صرف بہرہ ور تھے بلکہ اللہ سبحان و تعالیٰ نے انھیں قرآن کریم سے خاص شغف اور محبت عطا فرمائی تھی، بڑے ہوکر دادا مرحوم مولانا اسرار الحق طوطی ہند کے فن خطابت، ان کے وعظ و تقریر کی لذت و اثرانگیزی سے متعلق بہت کچھ پڑھنے اور سننے کو ملا۔ فائزہ احسان صاحبہ نے اپنے ماحول کی عکاسی ان اشعار میں بڑی خوبصورتی اور دلآویزی کے ساتھ کی ہے۔
پروفیسر فائزہ احسان نے اپنے خیال کے مطابق ایک غلط فہمی کی طرف بھی اشارہ کیا ہے، وہ یہ کہ اکثر حضرات صرف درود ابراہیمی کو ہی پڑھنا جائز قرار دیتے ہیں، جب کہ ایسا ہرگز نہیں ہے۔ آپ ﷺ نے درود ابراہیمی کے ساتھ ساتھ درود نامہ اور دیگر کئی درود پڑھنے کی تلقین کی ہے۔ اسی سنت رسول ﷺکی پیروی کرتے ہوئے فائزہ احسان نے اوراد پاک کے تراجم اس قدر سادہ اور دل نشیں انداز میں کیے ہیں کہ روح جھوم اٹھتی ہے۔
فائزہ احسان نے درود مستغاث کا ترجمہ بھی بہت موثر اور آسان الفاظ میں کیا ہے اور وجہ تسمیہ سے بھی آگاہ کیا ہے۔ مستغاث کا مطلب ہے التجا اور فریاد رسی۔ درود مستغاث کا ہر ہر لفظ حضور اکرم ﷺ کی صفات سے بھرا ہوا ہے۔ درود مستغاث کا منظوم ترجمہ:
تجھی کو تو زیبا ہے مولا بے شک ہر اک حمد و ثنا
اس بزم رسولاں کو تو نے ہی سجایا ہے مولا
اور اپنے حبیب مکرم ﷺ کو اس کا بنایا ہے دولہا
مبعوث جو ان ﷺ کو فرمایا، اہل ایمان پہ احسان کیا
تو بھیج الٰہی درود و سلام اور لامحدود کرم فرما
اسم انؐ کا محمدﷺ ہے، بے شک مخلوق میں وہؐ سب سے اعلیٰ
پروفیسر فائزہ احسان کی مذکورہ کتاب میں تقریباً پچاس نعتیں شامل ہیں، تمام نعتیں کلام حب رسول اللہؐ کی محبت سے سرشار ہیں، آپؐ کا روضہ اقدس مکہ و مدینے کی گلیاں، نورانی منظر، مسجد نبوی، طواف کعبہ، پاکیزہ و معطر فضائیں، درود قرأت کی محفلیں اور خوشبو لٹاتی ہوائیں، شاعرہ کو بے قرار رکھتی ہیں انھیں بقیع کی خاک سے محبت ہے وہ اسے اپنا مسکن بنانا چاہتی ہیں۔ وہ اس طرح التجا کر رہی ہیں۔
حضورؐ شہر مدینہ مجھے بلا لیتے
حضورؐ شہر میں اپنے مجھے بسا لیتے
مدینہ میرے تصور میں بس آگیا ایسے
رہی کہیں بھی مگر میں رہی وہاں جیسے
حضورؐ خاک مدینہ مقام ہوجائے
وہیں یہ قصۂ ہستی تمام ہوجائے
بقیع کی خاک میں یہ خاک میری شامل ہو
مجھے حضورؐ کی ہمسائیگی جو حاصل ہو
اے الٰہ العالمین تیری ذات دونوں جہاں سے بے نیاز ہے جب کہ میں تہی دست (تیرے فضل کا) محتاج ہوں، لہٰذا قیامت کے روز میرے گناہوں کے ضمن میں میری عذر خواہیاں قبول فرما لینا اور اگر تو میرا حساب لینا ضروری سمجھے تو حضور اکرم ﷺ کی نظروں سے چھپا کر لینا۔ آمین! بے شک انسان گناہوں کی اس دلدل میں پھنس گیا ہے جسے وہ دلدل نہیں شفاف پانی سے تعبیر کرتا ہے۔ اور وہ اس وقت کو بھول جاتا ہے جب حشر کا دن ہوگا اور لوگ ایک ایک نیکی کے لیے ترس رہے ہوں گے اور ایسے وقت کوئی کسی کے کام نہ آئے گا۔
ڈاکٹر عزیز احسن کی کتاب ''نعتیہ ادب کے تنقیدی زاویے'' میں ایک باب ''کلام اقبال میں نعتیہ عناصر'' بھی اقبال کے فکری زاویوں اور عشق رسول ﷺ کو نمایاں کرتا ہے۔ اس ضمن میں ڈاکٹر صاحب نے اس انداز میں روشنی ڈالی ہے۔ مقام رسالت، عظمت رسول ﷺ اور حب رسول ﷺ کے تقاضوں سے آشنا ہوکر ہی اقبال نے اپنی شاعری میں رسالت کے حوالے سے بڑے فکر انگیز نکات پیش کیے ہیں۔ مثلاً رسول کریم علیہ الصلوٰۃ والتسلیم کی معراج کا پیغام اور معراج کا منشا جتنے بھرپور انداز میں اقبال کے درج ذیل شعر میں جلوہ آرا ہوا ہے وہ اسلامی ادب میں نایاب چیز ہے۔
سبق ملا ہے یہ معراج مصطفیٰ سے مجھے
کہ عالم بشریت کی زد میں ہے گردوں