ووٹ پھر اُن کو ہی دیں

ہمیں غصہ تو ان پر بھی ہے جو ہمارے ملک کو لوٹ کھسوٹ کر باہر جا بیٹھے ہیں


Shirin Hyder October 15, 2017
[email protected]

میں نے whatsApp پر ایک گروپ میں پوسٹ ہونے والی ایک ویڈیو دیکھی... مگر اس ویڈیو کو دیکھ کر میرے رونگٹے کھڑے ہوگئے- اس ویڈیو میں موجود کردار ہم سب کی اندرونی حالت کی عکاسی کرتے ہیں، ان کے چہروں کے تاثرات اور ان کے ہاتھوں اور پیروں کی حرکات سے اندازہ ہوتا ہے کہ ان کے اندر ہم سب کی طرح غصے سے ابال اٹھ رہے ہیں- جیسے ہم سب کسی طاقتور سے پٹتے یا بے عزت ہوتے ہیں تو اپنے سے کمزور پر غصہ اتارتے ہیں، اگر وہ میسر نہ ہو تو کسی غیر موجود پر اپنے دل کا غبار نکال کر یا بے جان چیز کو ٹھوکریں مار کر اپنا ابال نکال لیتے ہیں-

اس ویڈیو میں کراچی میں ایک پلازہ پس منظر میں نظر آتا ہے، ایک بڑی گاڑی جس میںکوئی اہم شخصیت ہے یا پھر کسی نے اپنی حفاظت کے پیش نظر دومسلح گارڈ رکھے ہیں جو کہ گاڑی کے پچھلے حصے میں سوار ہیں - جہاں گاڑی کی رفتار ٹریفک کے رش میںسست ہوئی ہو گی اور اس پرسوار مسلح سیکیورٹی گارڈز نے یقینا چلا چلاکر لوگوں سے راستہ چھوڑنے کو کہا ہو گا، اس پر یہ گاڑی مشتعل ہجوم کا شکار ہو گئی ،پہلے سے برہم لوگوں نے مکوں، لاتوں اور ڈنڈوں کی زد پر لے لیا- ساتھ ہی وہاں موجود کئی لوگوں نے اپنے موبائل فون کے کیمروں سے اس منظر کو فلمبند کرنا شروع کر دیا- اس ویڈیو میں گارڈز ان لوگوں کو گالیاں دیتے ہوئے سنائی دیتے ہیں - وہ گالیاں کیوں دے رہے تھے... کیونکہ انھیں بھی اشتعال تھا، اگر اتنے لوگ ویڈیو نہ بنا رہے ہوتے تو وہ گارڈ اپنی زبانوں کو زحمت نہ دیتے بلکہ ایک دو بندہ ضرور پھڑکا دیتے-

'' یہ انقلاب فرانس جیسے انقلاب کا نقطہء آغاز ہے !!'' اس ویڈیو کے ساتھ یہ عنوان کے طور پر یہ ریمارکس تھے، اس عنوان سے ہمارا متفق ہونا ضروری نہیں- اسے آپ انقلاب فرانس جیسے انقلاب کا نقطہء آغاز نہیں کہہ سکتے۔ وہ انقلاب لانیوالے وہ لوگ تھے جو ظلم اور جبرکے خلاف کھڑے ہوئے تو انھیں ہر طرح کی آزمائش اور مشقت منظور تھی- وہ ظلم کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے تو وہ سارے ایک جیسے غریب عوام تھے۔ان میں نہ کوئی صوبائی اختلاف تھا نہ لسانی، نہ ہی ان میں سے کوئی انتہائی غریب تھا اور کوئی انتہائی امیر- وہ ایک جیسے محنت کش اور دیانتدار لوگ تھے... اپنا کام کرتے اور اس کے بدلے وہ مراعات چاہتے تھے جو عوام کا حق ہوتی ہیں- وہ اپنے حکمرانوں کے اللوں تللوں سے تنگ تھے جن کی قیمت ان کے خون اور پسینے سے ادا ہوتی تھی-

ہم ان جیسے کیسے ہو سکتے ہیں!! ہم آسائشوں کے عادی لوگ، باتوں کے مینار تعمیر کرنیوالے اور عمل میں بالکل ٹھس- ہم غلط ہوتے ہوئے دیکھتے ہیں اور اسے غلط کہنے کی ہمت بھی نہیں رکھتے ... جو غلط کر رہے ہیں ان پر تو ہمارا زور نہیں چلتا مگر کوئی بھی ہمارے قابو میں آ جائے تو اس پر ہمارا سارا غصہ نکل جاتا ہے- جس ملک میں حکمرانوں کا ٹولہ ایک مافیا ہو... جہاں وزیر اعظم سے کر اس کے سارے مشیر اور وزیر بد دیانت اور جھوٹے ہوں، جہاں ملکی قوانین کو مذاق بنا دیا جائے اور انھیں ایک شخص کی پوزیشن ( اس کی اپنی پارٹی کی صدارت) بچانے کی خاطر تبدیل کر دیا جائے-

ہمیں غصہ تو ان پر بھی ہے جو ہمارے ملک کو لوٹ کھسوٹ کر باہر جا بیٹھے ہیں، موجودہ حکمرانوںکی باری ختم ہونے کاا نتظار کر رہے ہیں اور موجودہ حکمران بھی اپنا وقت پورا کر کے جانے کا انتظار کر رہے ہیں تا کہ وہ اس کے بعد کا وقت باہر جا کر گزاریں اور پھر اقتدار کی طنابیں اپنی اگلی نسل کو منتقل کر دیں کیونکہ ہمارے ہاں جمہوریت کے نام پر وراثتی اقتدار کا سلسلہ چل رہا ہے- جمہوریت کے نام پر بادشاہت ہے کیونکہ اس کا اندازہ قومی اسمبلی سے پا س ہونیوالے حالیہ بل سے بھی ہو سکتا ہے، بادشاہ سلامت ملک کی بادشاہت سے فارغ کر دئیے گئے ہیں مگر پارٹی کی بادشاہت بہر حال انھیں ہی کرنا ہے... موجودہ حکمران بھی ایسی کٹ پتلیاں ہیں جن کے تاگے انھوں نے تھام رکھے ہیں۔

کیا ہم اتنے برے عوام ہیں کہ یہ ہمارے حکمران ہیں؟ ان کے وارنٹ جاری ہونا، ان کی پیشیاں اور گرفتاریاں سب ایسے ٹوپی ڈرامے ہیں جنھیں ان سب نے اپنی آئندہ انتخابی مہم میں استعمال کرنا ہے ۔کس قانون کے تحت ایک معزول وزیر اعظم کو بیس گاڑیوں کے پروٹوکول کے ساتھ احتساب عدالت میں پیشی کے لیے لے جایا گیا اور انھیں ابھی بھی سرکاری سیکیورٹی فراہم کی گئی ہے؟ ارے جس ایک گاڑی میں دو مسلح گارڈ سوار تھے اسے تو روک کر گاڑی کو توڑ پھوڑ کر لی گئی مگر کوئی ہے جو اس طرح کے قافلوں پر نظر کرے؟ وی آئی پی کون ہیں اور کیوں ہیں... معزول حالت میں سر جھکا کر عدالت میں جانے کے بجائے شان سے ان کا قافلہ نکلا - ان کی صاحب زادی، جس کے شوہر کو ائیر پورٹ سے گرفتار کر لیا گیا تھا، وہ ذرا بھی پریشان نہ تھیں۔دنیا کی ہر عدالت کرپٹ کو بری کر دے مگر تین عدالتیںاسے کبھی معاف نہیں کریں گی-

آپ کے اپنے ضمیر کی عدالت...

عوام کی عدالت... جن کے خون پسینے سے اپنے محل کھڑے کیے، دنیا بھر کی دولت اکٹھی کی اور اس سے بڑھ کر کیا سزا ہے کہ ابھی تک مزیددولت جمع کرنے کے لالچ میں مبتلا ہیں- جتنی دولت اکٹھی کر لی ہے اس میں سے ساتھ ایک دھیلا بھی نہیں جانے والا، سب مایا یہیں رہ جائے گی ۔اللہ کی عدالت... اس میں تو کوئی اپنے پیروں پرکھڑے ہونے کی تاب بھی نہ رکھے گا کہ جن لوگوں کو اس کی ذمے داری بنایا گیا ان کے حقوق سے غفلت اور ان کے استحصال ، ملک کو لوٹنے اور اغیار کے ہاتھوں بیچ دینے یاکسی ایسے کی حوصلہ افزائی کرے اس کا ٹھکانہ اس دنیا میں اچھا ہے نہ اگلی دنیا میں۔

حکمرانوں کے بچوں کی وہ ویڈیو بھی وائرل ہوتی ہیں جن میں وہ ملک سے باہر آزادی سے رہتے ہیں، خریداری کرتے ہیں، سیر کو نکلتے ہیں اور جاگنگ بھی کرتے ہیں، ا یسے میں ان کے ساتھ کوئی گارڈ ہوتا ہے نہ حفاظتی اسکواڈ- تو پھر وہی ممالک مناسب ہیں کہ جہاں حکمران خود کو محفوظ سمجھتے ہیں اور جہاں سے وہ علاج کروانے جاتے ہیں، خواہ ان کو فلو ہو، دل کے امراض، کینسر یا بال لگوانا ہوں - اسے وہ اپنی خوش قسمتی سمجھتے ہوں گے کہ ان کو اس کی سکت ہے اور وہ یہ سب کروا سکتے ہیںمگر اصل میں اس سے بڑی بات کسی ملک کے حکمران کی نہیں ہو سکتی کہ وہ اپنے ملک میں علاج نہ کروا سکتا ہو اور نہ ہی آزادی سے باہر نکل سکتا ہو۔

دنیا کے کئی ممالک کے سربراہان کی ویڈیو بھی دیکھنے کو ملتی ہیں جو اپنے ممالک میں ہر جگہ آزادی سے آ جا سکتے ہیں، عوام میں گھل مل جاتے ہیں، عبادات میں آزادی سے شرکت کرتے ہیں اور اپنے ہی ملک میں ہوٹلوں میں بغیر کسی پابندی اور پروٹوکول کے کھانا کھاتے ہیں- لوگ انھیں پہچان کر ان کے پاس آتے ہیں، ان سے ہاتھ ملاتے ہیں اور ان کے ساتھ تصاویر بنواتے ہیں... وہ لوگ اپنے عوام کے دلوں پر حکومت کرتے ہیں۔

ہماری حکمران اشرافیہ کی ساری قوتیں صرف ہوتی ہیں اس ملک کے وسائل کو اپنی نسلوں کا مستقبل سنوارنے کے لیے - اپنے کاروبار مزید پھیلانے پر اور اپنی دولت کو باہر کے ملکوں کے منتقل کرنے پر ، اسی ملک کو نوچنے پر جس سے انھوں نے اپنا آپ بنا لیا ہے اور اسے برا کہتے ہیں- اس سے بڑھ کر ان کی کیا ناکامی ہو سکتی ہے کہ وہ اس آزاد ملک میں آزادی سے رہ بھی نہیں سکتے؟ دنیا کو بھی علم ہو جاتا ہے کہ اس حکمران اشرافیہ نے اپنے ملک میں تعلیم، علاج اور تحفظ کے لیے کچھ نہیں کیا- پھر بھی وہ ہر جگہ اپنی انگلیوں سے وکٹری کا نشان بنا کر کیا ثابت کرنا چاہتے ہیں؟

جن لوگوں کو اعلی عدالتوں کے فیصلوں کے خلاف ٹویٹ اور بیانات پر بھی کوئی نہ پوچھے اور اپنے ہی ملک کے اہم اداروں کے خلاف بولنے پر کوئی باز پرس نہ ہو، ان کے بارے میں اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ وہ کیسے لوگ ہیں- آپ سب پھر بھی حکمرانوں کو ووٹ دیں ، کوئی پابندی نہیں ہے آپ پر!! اوہ ٹھہریں، میرا خیال ہے کہ اب موجودہ حکمرانوں کی نہیں بلکہ کسی اور کی باری ہے جو آج کل کافی سرگرم ہیں اور موجودہ حکمرانوں کو بحفاظت اپنا وقت پورا کرنے میں مدد بھی کر رہے ہیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں