ہوسِ اقتدار
اگر حکومت وقت کی سوچ پٹرول کی بچت ہے تو یہ خام خالی ہے کہ سرکاری گاڑیاں دو دن گیراج میں بند رہیں گی۔
NOWSHERA:
اگر ایک بار فنانس منسٹر، دوبار وزیراعلیٰ اور تین بار وزیراعظم، کل ملا کر چھ بار اقتدار میں رہنے والا بزنس فیملی کا سیاست دان عدالت عظمیٰ کے حکم پر نااہل قرار دے دیا جائے اور وہ ملک کے سیکیورٹی ادارے اور عدلیہ پر تنقید سے آگے بڑھ کر سڑکوں پر آکر ان سے کھلم کھلا محاذ آرائی پر اتر آئے اور ملک کا فنانس منسٹر مقدمات کا سامنا کر رہا ہو جب کہ ملک دیوالیہ ڈکلیئر ہونے سے دوچار ہو تو آرمی چیف کے ملکی معیشت کے متعلق تشویشناک بیان کو سنجیدگی سے لینا پڑیگا۔
آج کل عوام کو ٹی وی اسکرینوں پر اور اخبارات میں صرف بلی چوہوں کا افسوس ناک کھیل دیکھنے کو مل رہا ہے۔ دنیا کے مہذب اور ترقی یافتہ ممالک کے لوگ کیا سوچتے ہونگے کہ اس ملک کے پالیسی ساز کیا کر رہے ہیں۔
خدا کا شکر کہ ٹیلی ویژن کے سامنے بیٹھنے والوںکو کرکٹ کا کھیل بحال ہونے کی وجہ سے ہر وقت عدلیہ پر حملہ آور ہونے والی ہنگامہ آرائی کے علاوہ اسپورٹس دیکھنے کو مل رہی ہے۔ ہفتے میں دو دن دفتروں، کارخانوں، دوکانوں میں چھٹی کا تصور ہی ایک خوشگوار معطر ہوا کے جھونکے کا تاثر دیتا، ذہن کے علاوہ گردوپیش میں تفریح اور آزادی کا احساس پیدا کرتا ہے۔
پاکستان میں اگر بیس کروڑ افراد بستے ہیں تو دو چار لاکھ خوش نصیب ضرور ایسے ہیں جو دنیا کی بہترین تفریح بلکہ مرضی کی عیاشی کرنے کی مکمل استطاعت اور ذرائع رکھتے ہیں بلکہ حقیقت یہ ہے کہ ایک دن ارادہ کریں تو دوسرے دن مرضی کے ملک میں اور مقام پر عیش کرتے پائے جاتے ہیں جب کہ بدقسمتی سے آبادی کے نوے فیصد افراد کی سوچ کو پیٹ کا جہنم بھرنے کی فکر اور جستجو سے ایک قدم کے فاصلے سے آگے کچھ نظر ہی نہیں آتا۔ جس روز موسم خراب ہو، کئی قسم کے دیہاڑی دار ورکروں کو کام نہ ملنے کی وجہ سے مزدوری کی رقم سے ہاتھ دھونے پڑتے ہیں اور جس دن کسی قسم کی ہڑتال ہو، کام کا پہیہ بھی جام ہوجاتا ہے۔
ملک میں ہفتہ وار دو چھٹیوں کا فیصلہ ہونے کی وجہ سے بظاہر سرکاری محکموں پر فوری طور پر اس کا مثبت اثر یوں ہوا کہ انرجی کی کمی کا توڑ اور اخراجات پر کنٹرول ہونے لگا لیکن بیشمار سرکاری ملازموںکو اڑھائی دن گھر بٹھانے سے ہفتے کے اوقات کار ساڑھے چار دن ہو گئے۔ اسی طرح تعلیمی ادارے بھی اڑھائی دن بند ہونے لگے لیکن ملکی معیشت بھی نتیجتاً بوجہ بیروزگاری، غربت و اشیائے ضروری کی عدم دستیابی، بدامنی وغیرہ کے سبب ڈانواں ڈول ہو رہی ہے جب کہ حکومت تمام خوشحال ممالک اور قرض دینے والے عالمی اداروں کے آگے جھولی پھیلائے ملک ملک گھوم کر خسارہ پورا کرنے کے علاوہ بمشکل روز مرہ کے اخراجات چلا رہی ہے۔
کچھ عرصہ قبل گھڑیاں آگے پیچھے کرنے سے جو فائدہ یا نقصان ہوا اس کا تخمینہ عوام کے علم میں لایا جاتا تو مذکورہ فیصلے پر تعریفی یا تنقیصی بحث کی گنجائش نکل سکتی تھی لیکن بے سود فیصلوں سے وقت تو GAIN کیا جاسکتا ہے لیکن نہ ملک کی معیشت کو بہتر کیا جاسکتا ہے نہ عوام کے مصائب دور ہوتے ہیں۔ یہ تجربہ کرنے کے بجائے صرف اوقات کار میں مناسب Adjustment سے بھی مطلوبہ مقصد حاصل کیا جاسکتا تھا۔
برصغیر پاک و ہند میں ایک جیسا موسم ہوتا ہے۔ خوراک بھی کم و بیش ایک سی ہے۔ غیرمتوازن اور ناکافی خوراک کے علاوہ موسم کی شدت کی وجہ سے یہاں کے لوگوں کی صحت اور برداشت کی قوت انھیں طویل اوقات کار، دلجمعی سے نبھانے میں مددگار نہیں ہوتے۔ نتیجتاً وہ کام سے جلد تھک کر کام چوری کرتے ہیں لیکن انڈیا نے کام کرنے کے دن چھ ہی رکھے ہیں۔ یہی حال اس خطے میں دوسرے ممالک جیسا ہے۔ انگریز نے اپنے ملک میں پانچ دن کام اور دو دن چھٹیوں کے رکھے لیکن برصغیر پر حکومت کرنے کے عرصہ میں یہاں کے مخصوص حالات کے پیش نظر چھ دن کام ہوتا تھا۔ چین کی تو بات ہی الگ ہے۔ وہاں سارا سال کام کام اور کام ہوتا ہے۔
اگر حکومت وقت کی سوچ پٹرول کی بچت ہے تو یہ خام خالی ہے کہ سرکاری گاڑیاں دو دن گیراج میں بند رہیں گی۔ لوگوں کا دعویٰ ہے کہ یہ کاریں، جیپیں اور بڑی گاڑیاں ہفتہ اتوار لمبے روٹوں پر دوروں پر گئی نظر آتی ہیں۔ اگر حکمران مشورہ لینے کا دماغ رکھتے ہوں تو ملک کی مارکیٹیں دو دن بند رکھنے کا حکم جاری کریں جن میں صرف میڈیکل اسٹور، بیکریاں اور سبزی پھل کی دکانیں کھلی رکھنے کی اجازت دی جائے۔
تعلیمی ادارے بھی دو دن بند رکھے جاسکتے ہیں لیکن مینوفیکچرنگ سیکٹر کو بند رکھنے کی حماقت ملکی معیشت کو تباہ کر سکتی ہے لیکن افسوس کہ زرمبادلہ ملک کی لائف لائن اور اشد ضرورت ہے لہٰذا پانچ یا چھ نہیں ساتوں دن مینوفیکچرنگ انڈسٹری کا پہیہ چلتا رہنا چاہیے۔ انڈسٹری کو سرکاری دفتروں اور بینکوں سے ہر روز کام پڑتا ہے اس لیے ان کے چھ دن کے ہفتے کو برقرار رکھنا بھی ملکی معیشت کی بقا کا تقاضا ہے۔ دوررس نتائج کے حامل فیصلے کرنے سے پہلے تمام ممکنہ متاثرین یا STAKE HOLDERS کی نمائندہ تنظیموں اور ایکسپرٹس کے ساتھ مشاورت ہی گڈ گورننس کہلاتی ہے۔
گزشتہ قریباً ایک سال سے گومگو سیاسی حالات نے ملکی معیشت پر سخت منفی اثرات مرتب کیے ہیں جن کا تسلسل قائم ہے۔ اس کی اکلوتی وجہ ہوس اقتدار ہے جس کا نتیجہ انتشار ہے جب کہ اس انتشار نے صرف معیشت ہی کو نہیں ملکی زندگی کے ہر شعبے کو ڈانواں ڈول کرکے رکھ دیا ہے۔ ایسی غیر یقینی کی فضا تنزل اور تباہی کی طرف لے جاتی ہے۔ دیکھئے اقتدار کی ہوس میں اٹھائے جانے والے اقدام کا ملکی معیشت اور لاء اینڈ آرڈر پر کیا اور کتنا اثر پڑتا ہے۔
اگر ایک بار فنانس منسٹر، دوبار وزیراعلیٰ اور تین بار وزیراعظم، کل ملا کر چھ بار اقتدار میں رہنے والا بزنس فیملی کا سیاست دان عدالت عظمیٰ کے حکم پر نااہل قرار دے دیا جائے اور وہ ملک کے سیکیورٹی ادارے اور عدلیہ پر تنقید سے آگے بڑھ کر سڑکوں پر آکر ان سے کھلم کھلا محاذ آرائی پر اتر آئے اور ملک کا فنانس منسٹر مقدمات کا سامنا کر رہا ہو جب کہ ملک دیوالیہ ڈکلیئر ہونے سے دوچار ہو تو آرمی چیف کے ملکی معیشت کے متعلق تشویشناک بیان کو سنجیدگی سے لینا پڑیگا۔
آج کل عوام کو ٹی وی اسکرینوں پر اور اخبارات میں صرف بلی چوہوں کا افسوس ناک کھیل دیکھنے کو مل رہا ہے۔ دنیا کے مہذب اور ترقی یافتہ ممالک کے لوگ کیا سوچتے ہونگے کہ اس ملک کے پالیسی ساز کیا کر رہے ہیں۔
خدا کا شکر کہ ٹیلی ویژن کے سامنے بیٹھنے والوںکو کرکٹ کا کھیل بحال ہونے کی وجہ سے ہر وقت عدلیہ پر حملہ آور ہونے والی ہنگامہ آرائی کے علاوہ اسپورٹس دیکھنے کو مل رہی ہے۔ ہفتے میں دو دن دفتروں، کارخانوں، دوکانوں میں چھٹی کا تصور ہی ایک خوشگوار معطر ہوا کے جھونکے کا تاثر دیتا، ذہن کے علاوہ گردوپیش میں تفریح اور آزادی کا احساس پیدا کرتا ہے۔
پاکستان میں اگر بیس کروڑ افراد بستے ہیں تو دو چار لاکھ خوش نصیب ضرور ایسے ہیں جو دنیا کی بہترین تفریح بلکہ مرضی کی عیاشی کرنے کی مکمل استطاعت اور ذرائع رکھتے ہیں بلکہ حقیقت یہ ہے کہ ایک دن ارادہ کریں تو دوسرے دن مرضی کے ملک میں اور مقام پر عیش کرتے پائے جاتے ہیں جب کہ بدقسمتی سے آبادی کے نوے فیصد افراد کی سوچ کو پیٹ کا جہنم بھرنے کی فکر اور جستجو سے ایک قدم کے فاصلے سے آگے کچھ نظر ہی نہیں آتا۔ جس روز موسم خراب ہو، کئی قسم کے دیہاڑی دار ورکروں کو کام نہ ملنے کی وجہ سے مزدوری کی رقم سے ہاتھ دھونے پڑتے ہیں اور جس دن کسی قسم کی ہڑتال ہو، کام کا پہیہ بھی جام ہوجاتا ہے۔
ملک میں ہفتہ وار دو چھٹیوں کا فیصلہ ہونے کی وجہ سے بظاہر سرکاری محکموں پر فوری طور پر اس کا مثبت اثر یوں ہوا کہ انرجی کی کمی کا توڑ اور اخراجات پر کنٹرول ہونے لگا لیکن بیشمار سرکاری ملازموںکو اڑھائی دن گھر بٹھانے سے ہفتے کے اوقات کار ساڑھے چار دن ہو گئے۔ اسی طرح تعلیمی ادارے بھی اڑھائی دن بند ہونے لگے لیکن ملکی معیشت بھی نتیجتاً بوجہ بیروزگاری، غربت و اشیائے ضروری کی عدم دستیابی، بدامنی وغیرہ کے سبب ڈانواں ڈول ہو رہی ہے جب کہ حکومت تمام خوشحال ممالک اور قرض دینے والے عالمی اداروں کے آگے جھولی پھیلائے ملک ملک گھوم کر خسارہ پورا کرنے کے علاوہ بمشکل روز مرہ کے اخراجات چلا رہی ہے۔
کچھ عرصہ قبل گھڑیاں آگے پیچھے کرنے سے جو فائدہ یا نقصان ہوا اس کا تخمینہ عوام کے علم میں لایا جاتا تو مذکورہ فیصلے پر تعریفی یا تنقیصی بحث کی گنجائش نکل سکتی تھی لیکن بے سود فیصلوں سے وقت تو GAIN کیا جاسکتا ہے لیکن نہ ملک کی معیشت کو بہتر کیا جاسکتا ہے نہ عوام کے مصائب دور ہوتے ہیں۔ یہ تجربہ کرنے کے بجائے صرف اوقات کار میں مناسب Adjustment سے بھی مطلوبہ مقصد حاصل کیا جاسکتا تھا۔
برصغیر پاک و ہند میں ایک جیسا موسم ہوتا ہے۔ خوراک بھی کم و بیش ایک سی ہے۔ غیرمتوازن اور ناکافی خوراک کے علاوہ موسم کی شدت کی وجہ سے یہاں کے لوگوں کی صحت اور برداشت کی قوت انھیں طویل اوقات کار، دلجمعی سے نبھانے میں مددگار نہیں ہوتے۔ نتیجتاً وہ کام سے جلد تھک کر کام چوری کرتے ہیں لیکن انڈیا نے کام کرنے کے دن چھ ہی رکھے ہیں۔ یہی حال اس خطے میں دوسرے ممالک جیسا ہے۔ انگریز نے اپنے ملک میں پانچ دن کام اور دو دن چھٹیوں کے رکھے لیکن برصغیر پر حکومت کرنے کے عرصہ میں یہاں کے مخصوص حالات کے پیش نظر چھ دن کام ہوتا تھا۔ چین کی تو بات ہی الگ ہے۔ وہاں سارا سال کام کام اور کام ہوتا ہے۔
اگر حکومت وقت کی سوچ پٹرول کی بچت ہے تو یہ خام خالی ہے کہ سرکاری گاڑیاں دو دن گیراج میں بند رہیں گی۔ لوگوں کا دعویٰ ہے کہ یہ کاریں، جیپیں اور بڑی گاڑیاں ہفتہ اتوار لمبے روٹوں پر دوروں پر گئی نظر آتی ہیں۔ اگر حکمران مشورہ لینے کا دماغ رکھتے ہوں تو ملک کی مارکیٹیں دو دن بند رکھنے کا حکم جاری کریں جن میں صرف میڈیکل اسٹور، بیکریاں اور سبزی پھل کی دکانیں کھلی رکھنے کی اجازت دی جائے۔
تعلیمی ادارے بھی دو دن بند رکھے جاسکتے ہیں لیکن مینوفیکچرنگ سیکٹر کو بند رکھنے کی حماقت ملکی معیشت کو تباہ کر سکتی ہے لیکن افسوس کہ زرمبادلہ ملک کی لائف لائن اور اشد ضرورت ہے لہٰذا پانچ یا چھ نہیں ساتوں دن مینوفیکچرنگ انڈسٹری کا پہیہ چلتا رہنا چاہیے۔ انڈسٹری کو سرکاری دفتروں اور بینکوں سے ہر روز کام پڑتا ہے اس لیے ان کے چھ دن کے ہفتے کو برقرار رکھنا بھی ملکی معیشت کی بقا کا تقاضا ہے۔ دوررس نتائج کے حامل فیصلے کرنے سے پہلے تمام ممکنہ متاثرین یا STAKE HOLDERS کی نمائندہ تنظیموں اور ایکسپرٹس کے ساتھ مشاورت ہی گڈ گورننس کہلاتی ہے۔
گزشتہ قریباً ایک سال سے گومگو سیاسی حالات نے ملکی معیشت پر سخت منفی اثرات مرتب کیے ہیں جن کا تسلسل قائم ہے۔ اس کی اکلوتی وجہ ہوس اقتدار ہے جس کا نتیجہ انتشار ہے جب کہ اس انتشار نے صرف معیشت ہی کو نہیں ملکی زندگی کے ہر شعبے کو ڈانواں ڈول کرکے رکھ دیا ہے۔ ایسی غیر یقینی کی فضا تنزل اور تباہی کی طرف لے جاتی ہے۔ دیکھئے اقتدار کی ہوس میں اٹھائے جانے والے اقدام کا ملکی معیشت اور لاء اینڈ آرڈر پر کیا اور کتنا اثر پڑتا ہے۔