ریاست ناکام ہو تو عدلیہ کو سامنے آنا پڑتا ہے چیف جسٹس

کوئی کسی بھی منصب پرہوقانون سب کیلیے برابر ہے ،آئین میں کسی کیلیے رعایت نہیں

کوئی کسی بھی منصب پرہوقانون سب کیلیے برابر ہے ،آئین میں کسی کیلیے رعایت نہیں،نبی کریمؐ نے کہاتھاحضرت فاطمہؓ بھی جرم کرتیںتو ان کوبھی سزا ملتی،ملتان میں خطاب۔ فوٹو رائٹرز

KARACHI:
چیف جسٹس آف پاکستان افتخار محمد چوہدری نے کہا ہے کہ ریاست ناکام ہو تو عدلیہ کو سامنے آنا پڑتا ہے،وکلاء نے 2007ء میں جو جدوجہد شروع کی اولیا اللہ کی وجہ سے اللہ نے انہیں کامیابی سے ہمکنار کیا،آج قانون نافذ کرنے والوں کی طرف سے کوئی میلی نظر سے نہیں دیکھ سکتا۔ وہ ہائی کورٹ بار کے زیر اہتمام تقریب سے خطاب کررہے تھے۔

چیف جسٹس نے کہا 5 سال قبل یہ کیسے ممکن تھا کہ کوئی کسی جمہوری حکومت کو اتنا عرصہ چلنے دے،یہ وکلا اور میڈیا کوکریڈٹ جاتا ہے کہ انھوں نے لوگوں کو شعور دیا، ملک کی بقا آئین سے منسلک ہے ججز کا کام انصاف فراہم کرنا ہے اگر کوئی انصاف فراہم نہیں کرتا تو روز قیامت اس کی باز پرس ہوگی۔ جب آپ انصاف کی کرسی پر ہوں تو آپ کو کسی سے مرعوب نہیں ہونا چاہیے۔

آخری خطبہ میں نبی کریمؐ نے فرمایا کسی امیر کو کسی غریب پر کوئی فوقیت نہیں، آرٹیکل 25' 5' 9 کو پڑھیں تو آپ کو پتہ چلے گا، قانون کی نظر میں سب برابر ہیں۔ وکلاء خصوصاً نوجوان وکلاء پر بھاری ذمے داری عائد ہوتی ہے کہ وہ رول آف لاء کی کشتی کو لے کر چلیں اور خوش اسلوبی سے اسے کنارے لگائیں۔ وکلا کی عدلیہ کی آزادی کے لیے جدوجہد قابل ستائش ہے، ملک میں آج جو تبدیلی نظر آرہی ہے کہ تمام لوگ قانون کی نظر میں برابر ہیں اس کا سہرا وکلاء کے سر ہے، یہ اسلامی تعلیمات کی پیروی کرنے سے حاصل ہوتی ہے۔

اسلام کے آغاز میں بھی اسلام کے پیرو کاروں کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ خود نبی کریمؐ نے بھی بے شمار مشکلات برداشت کیں۔ نبی کریم ؐ پر کوڑا پھینکنے والی خاتون کے ساتھ نبی کریمؐ کا سلوک ہمارے لیے مشعل راہ ہے۔ آپ اپنی منزل کی طرف بڑھتے رہیں کامیابی آپ کے قدم چومے گی۔ سائلوں کو انصاف باہم پہنچائیں۔ ان کے مقدمات اچھے طریقے سے عدالتوں میں پیش کریں وکلاء اپنے پیشے سے انصاف کریں۔ وکلاء کی تربیت کے لیے کانفرنسیں کر رہے ہیں تاکہ ہم اپنے عدالتی نظام کو موثر بنا سکیں۔


کچا کھوہ کی مریم بی بی ہو یا اسلام آباد کی خاتون ہم نے سب کو انصاف فراہم کرنا ہے۔ آئین بتاتا ہے کہ ہر شخص کے حقوق کا تحفظ کرنا ریاست کا کام ہے،اگر ریاست یہ کردار ادا نہ کرے تو عدلیہ کو سامنے آنا پڑتا ہے۔ یومیہ 200/150 کے قریب انسانی حقوق کی خلاف ورزی کی درخواستوں کو نمٹایا جاتا ہے، انصاف ہو کر رہے گا اور لوگ دیکھیں گے کہ انصاف فراہم کیا جاتا رہے گا۔ بینچ اور بار میں تعاون بہت ضروری ہے۔ یٰسین آزاد کے جذبے کو سراہتا ہوں کہ انھوں نے اپنی پیشہ وارانہ ذمے داریوں کو نبھایا اور عدلیہ کے ادارے کو متحرک کیا۔

بلوچستان میں لاء اینڈ آرڈر کے معاملے کو حل کر رہے ہیں۔ اس معاملے میں بھی انھوں نے نمایاں کردار ادا کیا اور اسلام آباد میں بھی ایک کانفرنس منعقد کی۔ محمود اشرف خان کی رول آف لاء کی بہت خدمات ہیں۔ وکلاء خواہ ملک کے کسی حصہ میں ہوں وہ آئین کے نفاذ میں بھرپور کردار ادا کریں کیونکہ ہماری بقاء اسی میں ہے کہ ملک میں آئین قائم رہے۔ ہمیں نہیں بھولنا چاہیے کہ جب آئین و قانون کی تاریخ لکھی جائے گی تو یہ بات آئے گی کہ جنوبی پنجاب کے وکلاء نے فرنٹ لائن پر رہ کر اس تحریک کی آبیاری کی۔

انھوں نے کہا کہ بغیر مضبوط بار کے عدلیہ آزاد اور خود مختار نہیں رہ سکتی۔ آئین کی بالادستی اور قانون کی حکمرانی قائم کرنے میں وکلاء کی جدوجہد امید کی کرن ہے۔مانیٹرنگ ڈیسک کے مطابق چیف جسٹس نے کہا کہ کوئی کسی بھی منصب پرہوقانون سب کے لیے برابر ہے آئین میں کسی کے لیے رعایت نہیں،نبی کریمؐ نے کہاتھاحضرت فاطمہؓ بھی جرم کرتیںتو ان کوبھی سزا ملتی ، چیف جسٹس افتخارچوہدری نے کہا کہ ملکی ترقی اور بقا صرف آئین کی پاسداری سے ہی ممکن ہے ،انصاف سب کے لیے ہے،آئین میں کسی کورعایت نہیں ،کوئی کسی بھی منصب پر ہو قانون کی نظر میں سب برابر ہیں ۔

چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ ہم لوگوں کو انصاف دینے کے لیے جدوجہد جاری رکھیں گے، نبی کریمؐ نے کہاتھا کہ اگر حضرت فاطمہؓ بھی جرم کرتیں تو ان کو بھی سزا ملتی، انصاف کی کرسی پر بیٹھ کر تفریق کی اجازت نہیں ، انصاف کرنا جج کی ذمہ داری ہے اورجو جج انصاف نہیں کرتا وہ دنیا اور آخرت میں جوابدہ ہوگا۔

Recommended Stories

Load Next Story