میاں چنوں کی شریفاں بی بی
شریفاں بی بی کا بینڈ باجے والا جنازہ پہلا واقعہ نہیں ہے، اس نوع کے تین واقعات اور بھی میرے علم میں ہیں۔
میاں چنوں ہمارا چھوٹا سا خوبصورت شہر ہے۔ اس شہر کے اطراف میں آدھا گھنٹہ پیدل چلو تو شہر ختم ہوجاتا ہے۔ عوامی بود و باش والے وزیراعلیٰ پنجاب غلام حیدر وائیں اسی ہرے بھرے شہر میں رہتے تھے، ان کی بیگم مجیداں وائیں آج بھی میاں چنوں ہی میں رہتی ہیں۔ ایک اور شخصیت کا تعلق بھی اسی شہر سے ہے، یہ ہیں ماجد رسول مرحوم جو محض 24 سال کی عمر میں دنیا چھوڑ گئے۔ بہترین مقرر تھے، صحافت سے بھی منسلک تھے اور ملک بھر کے دیگر احباب سے ماجد رسول کے رابطے تھے۔
غلام حیدر وائیں ماجد رسول کو اپنے عوامی جلسوں میں ساتھ رکھتے تھے، اس نوجوان نے اپنے والدین کو آگاہ کردیا تھا کہ وہ زیادہ عرصہ زندہ نہیں رہے گا اور کمپیوٹر پر اپنی آخری آرام گاہ کا نقشہ بھی بنادیا تھا۔ میں ماجد رسول کی قبر پر گیا تو قریب کا درخت وہی تصویر پیش کررہا تھا جسے ماجد رسول نے پسند کیا تھا۔ اس 24 سال کے نوجوان کا انتقال چیچہ وطنی کے جنگل میں سانپ کے کاٹنے سے ہوا۔
میاں چنوں یاد آیا تو ماجد رسول بھی یاد آگیا۔ اسی شہر میں شریفاں بی بی بھی رہتی تھیں۔ حال ہی میں ان کا 105 سال کی عمر میں انتقال ہوا ہے۔ شریفاں بی بی نے اپنے بیٹوں، بہوؤں، پوتے پوتیوں، نواسے نواسیوں اور آگے ان کے بچوں سے بھی کہہ رکھا تھا کہ میرے مرنے کے بعد میرا جنازہ بینڈ باجے کے ساتھ قبرستان لے جایا جائے۔ ٹیلی ویژن اسکرین پر شریفاں بی بی کے جنازے کا منظر دکھایا جارہا تھا، شریفاں بی بی کا بھرا پرا کنبہ بیٹے، بیٹیاں اور آگے ان کے بچے، سب خوش خوش جنازے کے ساتھ چل رہے تھے، بینڈ باجا بج رہا تھا۔
شریفاں بی بی کا بینڈ باجے والا جنازہ پہلا واقعہ نہیں ہے، اس نوع کے تین واقعات اور بھی میرے علم میں ہیں۔ ایک واقعہ 1960 میں ہوا۔ یہ ہماری نانی گوماں تھیں، نانی کا اصل نام غلام فاطمہ تھا اور انتقال کے وقت ان کی عمر 132 سال تھی۔ اس زمانے میں گنیز بک آف ریکارڈ کا اتنا چرچہ نہیں تھا، ورنہ ہماری نانی دنیا کی طویل عمر پانے والی خاتون قرار پاتیں۔ خیر اپنی زندگی میں نانی گوماں اکثر اپنے بڑے نواسے مشتاق مبارک (اردو کے ممتاز شاعر) سے کہا کرتی تھیں ''وے مشتاق! توں ریڈیو پاکستان دا بڑا افسر واں توں میری خواہش ضرور پوری کریں، میرا جنازہ بینڈ باجے نال چکیں''۔
ہمارے سب سے بڑے بھائی مشتاق مبارک محکمہ اطلاعات و نشریات میں ڈائریکٹر تھے اور ریڈیو پاکستان بھی اسی وزارت کے تحت آتا تھا۔ سو جب نانی کا انتقال ہوا تب ہم کراچی کے علاقے جٹ لائن کے سرکاری کوارٹر میں رہتے تھے۔ نانی کے انتقال پر سبھی گھر والے بینڈ باجے کے ساتھ جنازہ اٹھانے پر سوچ و بچار میں مبتلا تھے کہ ''کیا کریں'' ہماری والدہ نانی گوماں کی سب سے چھوٹی اولاد تھیں اور نانی کی پیاری بیٹی تھیں، نانی نے ہمارے ساتھ بڑی خوبصورت یادیں چھوڑیں۔ نانی گوماں کا ایک اور نواسہ حبیب جالب تھا، نانی کو اپنے نواسے حبیب سے عشق تھا، نانی گوماں کا قصہ بہت طویل اور دلچسپ ہے۔
بس ایک بات ضرور لکھوں گا نانی گوماں اپنے نواسے دس سال کے حبیب جالب کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر ازاربند اور چٹلے (پراندے) اپنے گاؤں (ضلع ہوشیار مشرقی پنجاب کا گاؤں میانی افغاناں) اور آس پاس کے گاؤں میں بیچا کرتی تھیں۔ یہ واقعہ 1940 کا ہے۔ آخر نانی کا جنازہ ان کی خواہش کے مطابق بینڈ باجے کے ساتھ اٹھایا گیا اور کراچی کے تاریخی سوسائٹی قبرستان میں انھیں سپرد خاک کیا گیا۔
دوسرے واقعے کے راوی مشہور داستان گو، افسانہ نگار، ڈرامہ نویس، براڈ کاسٹر اشفاق احمد ہیں۔ ممتاز مفتی کا تعزیتی جلسہ تھا، لاہور کیایک ہوٹل میں، میں بھی موجود تھا۔ اشفاق احمد حاضرین سے مخاطب تھے۔ اسٹیج پر ممتاز مفتی کا بیٹا عکسی مفتی بھی موجود تھا۔ اشفاق احمد بتارہے تھے کہ ممتاز مفتی اکثر اپنے بیٹے عکسی مفتی سے اپنی خواہش کا اظہار ان الفاظ میں کیا کرتے تھے ''اوئے عکسی! تم 'لوک ورثہ' کے سب سے بڑے افسر ہو، کیا تم میری اتنی سی خواہش پوری نہیں کرسکتے کہ میرا جنازہ بینڈ باجے کے ساتھ اٹھایا جائے!''
اور یوں مشہور ادیب، ناول نگار، افسانہ نگار ممتاز مفتی کا جنازہ بھی بینڈ باجے کے ساتھ اٹھایا گیا۔
اسی طرح تیسرا واقعہ اشفاق احمد کا ہے۔ اشفاق احمد لاہور میں مدفون صوفی بزرگ حضرت میاں میرؔ سے بڑی عقیدت رکھتے تھے، ہر جمعرات کو حضرت میاں میرؔ کی در گاہ پر حاضری دیتے تھے اور مراقبہ کرتے تھے۔ اشفاق احمد کا پروگرام ''زاویہ'' بہت مقبول تھا۔ لاکھوں ناظرین زاویہ دیکھتے تھے۔ زاویہ کے نام سے ان کی سلسلہ وار کتابیں بھی شایع ہوئیں۔
حضرت میاں میرؔ کے بارے میں لکھتا چلوں کہ امرتسر میں سکھ مذہب کی مشہور عبادت گاہ ''گولڈ ٹمپل'' کی تعمیر کا منصوبہ بنا تو سکھوں نے اپنی عبادت گاہ کا سنگ بنیاد رکھنے کے لیے حضرت میاں میرؔ کا انتخاب کیا تھا اور حضرت میاں میر نے اپنے ہاتھ سے سکھ عبادت گاہ کا پہلا پتھر رکھا۔
آج بھی امرتسر کے گولڈن ٹمپل میں حضرت میاں میر کے نام کی تختی لگی ہوئی ہے، اسی رو میں یہ بھی لکھتا چلوں کہ مولانا حسرت موہانی بھی اسی چلن کے آدمی تھے، ہندوؤں نے اپنے کئی مندر مولانا حسرت موہانی کے ہاتھوں پتھر رکھ کر بنائے، مولانا کے ماتھے پر سرخ رنگ کا تلک لگی تصویریں اب تاریخ کا حصہ ہیں۔ رواداریاں ہوا کرتی تھیں، مذہب عینوں کے ہتھے نہیں چڑھا تھا، اب تو جو حال ہے وہ سب کے ساتھ ہے، دنیا بجائے ترقی کرنے کے زوال کی انتہاؤں میں غرق ہوچکی ہے۔
مذہب تو دور کی بات ہے آج کا انتہائی ترقی یافتہ معاشرہ، سماج کیا یہ ترقی ہے؟ کہ انسان انسان کو قتل کررہاہے، خیر میں موضوع کی طرف پلٹتا ہوں، اشفاق احمد مزار حضرت میاں میرؔ پر ہر جمعرات جایا کرتے تھے۔ مزار پر ہمہ وقت موجود ملنگ اشفاق احمد صاحب کے دوست بن گئے تھے۔
اشفاق احمد نے مرنے سے پہلے اپنے گھر والوں سے (جن میں ان کی بیگم معروف ادیبہ بانو قدسیہ بھی شامل تھیں) کہاکہ میرے جنازے پر میرے ملنگ بابے بھی آئیں گے۔ انھیں عزت و تکریم سے جنازے میں شریک رکھنا اور ان کے کام پر مداخلت نہ کرنا اور پھر یوں ہی ہوا۔ اشفاق احمد کے جنازے میں سبز لباس پہنے اور پاؤں میں گھنگھرو ملنگ بابے شریک ہوئے، جنازے میں گھنگھروؤں کی چھن چھن بھی شریک تھی، اشفاق صاحب کو لحد میں اتارا گیا، تدفین کا عمل مکمل ہوا تو اشفاق احمد کے سبز پوش بابوں نے قبر کے گرد دھمال ڈالی۔
سچ ہے انتقال تو اﷲ سے ملاقات کا ذریعہ ہوتا ہے، خالق سے ملاقات پر کیا رونا دھونا، یہ تو خوشی کا وقت ہوتا ہے میں بھی ایسا ہی چاہوںگا۔ احمد ندیم قاسمی کہتے ہیں:
کون کہتا ہے کہ موت آئی تو مر جاؤںگا
میں تو دریا ہوں، سمندر میں اتر جاؤںگا
اور بلھے شاہ سرکار کہتے ہیں:
بلھے شاہ اساں مرنا ناہیں
گور پیا کوئی ہور