محاذ آرائی پر مبنی سیاست کے نتائج
اب بھی وقت ہے کہ ہم مسئلہ کی نزاکت او رحساسیت کو سمجھیں، وگرنہ یہ جو کھیل ہم نے اختیار کیا ہوا ہے
PESHAWAR:
جب قومی سیاست اور ریاستی نظام مسائل کا حل تلاش کرنے کے بجائے ایک دوسرے کے خلاف محاذ آرائی کا راستہ اختیا رکرلیں تو نتیجہ یقینی طور پر عدم استحکام ہوتا ہے ۔
فوج کے سربراہ جنرل قمر باجوہ نے حالیہ کانفرنس میں جو باتیں کی ہیں وہ واقعی توجہ طلب ہیں اورکافی وزن بھی رکھتی ہیں۔ لیکن بحران ہے کسی ایک فریق کا تو پیدا کردہ نہیں بلکہ سب کی کوتاہیوں اور موقع پرستیوں کا نیجہ ہے۔ یہ جو ہماری حکومت مسلسل چار برسوں سے معیشت کی بہتری اور ترقی کے نعرے لگاتی تھی ، وہ محض سیاسی دکھاوا تھا ۔ اصل حقائق کافی تلخ ہیں۔
اب حکمران طبقہ دلیل یہ دے رہا ہے کہ یہ جو حالیہ معاشی بحران ہے اور جو دیوالیہ کی باتیں ہورہی ہیں، اس کا براہ راست تعلق سابق وزیر اعظم نواز شریف کی نااہلی سے ہے ۔اگر یہ منطق مان بھی لی جائے تواب بھی حکومت نواز شریف کی جماعت کی ہے اور فیصلوں میں بھی ان ہی کا کنٹرول بھی ہے۔ اس لیے اگر معاشی حالات بگاڑ کا شکار ہیں تو اس کی ذمے داری حکومت،موجودہ اور سابق وزیر اعظم او ربالخصوص وزیر خزانہ کو لینی چاہیے ۔
لیکن مسئلہ یہ ہے کہ اس وقت حکومت یا حکمران جماعت میں مفاہمت اور مزاحمت کے درمیان ایک واضح تفریق نظر آتی ہے ۔ ایک طبقہ مفاہمت اور دوسرا مزاحمت کا راستہ اختیار کرنا چاہتا ہے ۔یہ ہی وجہ ہے سابق وزیر داخلہ چوہدری نثار نے حکومت، جماعت اور خود شریف خاندان کو مشورہ دیا ہے کہ وہ عدالتوں سے ٹکراو کی پالیسی سے گریز کریں۔
لیکن مسئلہ یہ ہے کہ یہ محاذآرائی محض عدلیہ تک محدود نہیں بلکہ فوج کو بھی اس میں گھسیٹا جارہا ہے۔ عموماً حزب اختلاف کی کوشش ہوتی ہے کہ وہ حکمران طبقات کی کمزوریوں کا فائدہ اٹھا کر اپنے آپ کو ایک متبادل قیادت کے طور پر پیش کرے ۔ اس لیے یہ کہنا کہ حزب اختلاف کا اپنا کردار بڑا شفاف ہے تو یہ بھی حقیقت پر مبنی نہیں ۔یقینی طور پر عدم استحکا م میں حزب اختلاف کی سیاست کا بھی حصہ ہے ۔بحران کی ایک اور وجہ ملک کے اہم سیاسی اور سیکیورٹی معاملات پرمختلف فریقین میں مشاورت کا فقدان ہے۔
پارلیمنٹ، کابینہ اور اہم اسٹیڈنگ کمیٹیوں اور قومی سلامتی سے جڑی کمیٹیوں کے اجلاس اور فیصلہ سازی کے عمل بھی سست ہے ۔ہم مسائل کے حل کے بجائے بگاڑ اور رکاوٹیں پیدا کرنے کی حکمت عملی اختیار کیے ہوئے ہیں ۔ ایسی حکمت عملی میں ہم کیسے محاذ آرائی کی سیاست سے باہر نکل سکیں گے ، ممکن نظر نہیں آتا۔ اس وقت جو حکومت شاہد خاقان عباسی کی ہے لیکن فیصلہ سازی میں اب بھی کلیدی حیثیت نواز شریف اور مریم نواز کو ہی حاصل ہے۔ ایسے میں حکومت کیونکر اس محاذ آرائی سے باہر نکل سکے گی، بڑا سوالیہ نشان ہے۔
ایک دلیل یہ دی جاتی ہے کہ حالیہ محاذآرائی نواز شریف کے حق میں جاتی ہے ، ان کا خیال ہے کہ اس محاذ آرائی کو بنیاد بنا کر وہ سیاسی شہید بن سکتے ہیں، اس کا فائدہ نئے انتخابات میں بھی ہوگا ۔ہمارا المیہ یہ ہے کہ اس وقت ہماری قیادت کو ملکی ، علاقائی اور عالمی سیاست کی مشکلات کی سنگینی کا احساس نہیں ۔ ہم بہت چھوٹے چھوٹے مفادات جو ذاتی نوعیت کے بھی ہیں اس میںالجھے ہوئے ہیں۔ ہم یہ بھول رہے ہیں کہ علاقائی سطح پر ہمارے لیے کس نوعیت کی مشکلات پیدا کی جارہی ہیں۔
بھارت کے وزیر اعظم سی پیک کے منصوبے پر نہ صرف اپنے تحفظات پیش کرچکے ہیں بلکہ ان کے بقول ہم اس منصوبے کو کسی بھی صورت قبول نہیں کریں گے۔ ایسی صورت میں ہمیں قومی سطح پرباہمی اتفاق رائے کی ضرورت ہے ۔قومی سلامتی ، داخلی خو د مختاری اور قومی مفاد پر مبنی فیصلے اور سیاست بہت پیچھے چلی گئی ہے ۔ممکن ہے کہ محاذ آرائی پر مبنی یہ سیاست کسی بھی فریق کو وقت طور پر فائدہ بھی دے سکے ، لیکن اس کا نقصان قومی سیاست کو عدم استحکام کی صورت میں دیکھنے کو ملے گا۔
ہم یہ محسوس کرنے سے انکاری ہیں کہ ہم مشکل صورتحال سے دورچار ہیں اور باہمی لڑائی مسئلہ کا حل نہیں ۔ محاذ آرائی محض بڑے طاقت کے مراکز تک محدود نہیں بلکہ اب درمیانے اور نچلی سطح کے فریقین، میڈیا اور سیاسی کارکنوں سمیت اہل دانش میں بھی غالب نظر آتی ہے ۔اب بھی وقت ہے کہ ہم مسئلہ کی نزاکت او رحساسیت کو سمجھیں، وگرنہ یہ جو کھیل ہم نے اختیار کیا ہوا ہے، اس کا نقصان ہمیںہی اٹھانا ہوگا اوراس کی ذمے داری بھی ہم پر ہی ہوگی ۔