’لیاقت علی خان‘ ملت کا قائد ملت کا محسن
حیات و خدمات پر ایک نظر
اسلامی جمہوریہ پاکستان کے اولین سربراہ حکومت اور قائداعظم محمد علی جناح کے دست راست شہید ملت، قائد ملت نوابزادہ لیاقت علی خان یکم اکتوبر 1895ء کو کرنال کے ایک زمیں دار گھرانے میں پیدا ہوئے۔ اُن کی جائے پیدائش آج کل بھارتی ریاست ہریانہ میں شامل ہے۔ اُن کے والدکا نام مع خطابات خان رکن الدولہ شمشیر جنگ، نواب بہادررستم علی خان تھا، جب کہ والدہ کا نام محمودہ بیگم تھا۔ یوپی (موجودہ اُترپردیش) اور کرنال (ہریانہ) میں زمین داری کے پیشے سے منسلک یہ خاندان کوئی پانچ سو برس قبل ایران سے ہجرت کرکے ہندوستان آیا تھا۔ قائدملت کا سلسلۂ نسب ایران کے مشہور بادشاہ نوشیروان عادل سے ملتا ہے۔
راقم کا خیال ہے کہ انہیں بجا طور پر محسن ملت کا خطاب بھی دیا جاسکتا ہے۔
انہوں نے بچپن اپنی آبائی جاگیر میں گزارا جو یوپی میں واقع تھی اور اپنی والدہ محترمہ کی نگرانی میں قرآن و حدیث کی بنیادی تعلیم حاصل کی۔ انہوں نے اپنے وقت کی مشہور درس گاہ محمڈ ن اینگلو اوریئنٹل (MAO)کالج علی گڑھ سے سیاسیات میں گریجویشن اور 1918 ء میں بیچلر آف لا کی سند حاصل کی۔ اس کالج کو بعدازاں جامعہ کا درجہ ملا، یوں سرسید احمد خان کا دیرینہ خواب پورا ہوگیا۔
قائد ملت لیاقت علی خان نے 1918ء میں اپنی کزن جہانگیرہ بیگم سے شادی کی اور پھر اپنے والد کے انتقال کے بعد، قانون کی اعلیٰ تعلیم کے حصول کے لیے انگلستان تشریف لے گئے۔1921ء میں آکسفورڈ کے ایگزیکٹر(EXECTER) کالج سے قانون کے شعبے میں ماسٹرز ڈگری حاصل کرنے والے نوابزادہ لیاقت علی خان نے اِنر ٹیمپل (INNER TEMPLE)اور 1922ء میں بارایٹ لا کیا۔
علی گڑھ کے یہ لائق فائق فرزند ملکی سیاست میں اپنا کردار ادا کرنے کے خواہش مند تھے۔ حسن اتفاق سے انہیں آکسفورڈ کی انڈین مجلس کا اعزازی خازن منتخب کرلیا گیا اور یوں اُن کی قومی خدمات کا آغاز ہوا۔ بعض کتب میں یہ روایت بھی ملتی ہے کہ وہ اس مجلس کے صدر بھی منتخب ہوئے تھے۔ بہرحال قانون کی اعلیٰ تعلیم کے حصول کے بعد لیاقت علی خان 1923ء میں ہندوستان واپس تشریف لے آئے۔ انہیں انڈین نیشنل کانگریس نے رکنیت کی پیش کش کی جو انہوں نے رَد کردی اور مسلمانان ہند کی نمائندہ جماعت آل انڈیا مسلم لیگ میں شامل ہوگئے۔
مئی 1924ء میں قائداعظم محمد علی جناح کی زیرقیادت منعقد ہونے والے سالانہ اجلاس میں دیگر راہ نماؤں کے علاوہ لیاقت علی خان بھی شریک تھے۔ انہیں1926ء میں مظفرنگر، یوپی کے حلقے سے یوپی کی مجلس قانون ساز میں مسلم نمائندہ چنا گیا۔ یہ گویا اُن کی عملی سیاست کا آغاز تھا۔ اُن کی کام یابی اور مقبولیت کا یہ عالم تھا کہ انہیں1932ء میں یوپی کی مجلس قانون ساز کا بِلامقابلہ نائب صدر منتخب کیا گیا ، وہ 1940 ء تک اس مجلس سے منسلک رہے اور پھر مرکزی مجلس قانون ساز ( CENTRAL LEGISLATIVE COUNCIL) کے رکن منتخب ہوئے۔
یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ مرکزی سطح پر مقننہ میں اہم کردار ادا کرنے والے یہ عظیم راہ نما 1928ء میں کلکتہ کے قومی کنوینشن میں شریک ہونے والے مسلم لیگی وفد کے رکن بھی تھے۔ یہ کنوینشن موتی لال نہرو رپورٹ پر غوروخوض کی غرض سے منعقد کیا گیا تھا۔
1932ء میں لیاقت علی خان کی نجی زندگی میں ایک نیا موڑ آیا۔ انہوں نے ایک خاتون کو، اُن کے مشرف بہ اسلام ہونے کے بعد، 'رعنا' نام دیا اور اُن سے شادی کرلی۔ یہ خاتون تعلیم اور معاشیات کے شعبوں میں ممتاز تھیں اور پھر تحریک پاکستان میں انہیں بیگم رعنا لیاقت علی کے نام سے شہرت ملی۔
برصغیر کی سیاسی تاریخ میں دوسری گول میز کانفرنس کے بعد، ایک نمایاں تبدیلی یہ ہوئی کہ قائداعظم محمد علی جناح نے سیاسی حالات کی ابتری دیکھتے ہوئے لندن میں مستقل قیام کا فیصلہ کرلیا اور پری وی کونسل (PRIVY COUNCIL) میں وکالت کی پریکٹس کرنے لگے۔ 1928ء سے 1937ء تک مسلمانان ہند کی سیاسی صورت حال پُرآشوب رہی، مسلم لیگ میں دھڑے بندی اور دیگر جماعتوں کے معرض وجود میں آنے کے سبب، مسلمانوں کا سیاسی منظر نامہ یکسر تبدیل ہوگیا تھا۔ ایسے میں اُن کے لیے بھرپور کردار ادا کرنا ممکن نہ رہا تھا۔ اس پر مستزاد یہ کہ مولانا محمد علی جوہرؔ جیسے جری اور بے باک قائد بھی اسی دور میں (چارجنوری سن انیس سو اکتیس کو ) رحلت فرماگئے۔ یہ ہندوستان کے مسلمانوں کے لیے بہت بڑا صدمہ تھا۔
1933ء میں لیاقت علی خان اور بیگم رعنالیاقت لندن پہنچے اور قائداعظم سے ملاقات میں لیاقت علی خان نے اُن سے وطن واپسی کا تقاضا کیا۔ لیاقت علی خان نے کہا کہ ایسے وقت میں مسلمانوں کو آپ جیسے قائد کی ضرورت ہے جسے خریدا نہ جاسکے۔ آپ ہی مسلم لیگ کو نئی زندگی دے سکتے ہیں۔ چناں چہ 1934ء میں قائداعظم واپس ہندوستان تشریف لائے اور آل انڈیا مسلم لیگ کی قیادت سنبھال لی۔ ایسے میں ہندوستان کی سیاسی فضاء اس نعرے نما شعر سے گونج اٹھی:
ملا ہے وراثت میں تختِ سیاست
محمد علی سے محمد علی کو!
1935ء میں منعقد ہونے والے انتخابات میں آل انڈیا مسلم لیگ، مسلم اکثریتی علاقوں سے بوجوہ خاطر خواہ کام یابی حاصل نہ کرپائی تو پنڈت جواہرلال نہرو نے کہا: ''ہندوستان میں دو ہی جماعتیں ہیں...ایک کانگریس، دوسری حکومت۔'' اس پر قائداعظم نے برملا تصحیح کی: ''نہیں ! ایک تیسری جماعت بھی ہے ....مسلم لیگ!''
لیاقت علی خان نے مسلم لیگ کی تنظیم نو میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ بارہ اپریل 1936ء کو بمبئی میں منعقد ہونے والے اجلاس میں انہیں قائداعظم کی تجویز پر، بِلامقابلہ، اعزازی جنرل سیکریٹری منتخب کرلیا گیا۔ 1937ء میں آل انڈیا مسلم لیگ نے گویا نیا جنم لیا۔ اب اس کی منزل آزادی تھی۔ پورے ہندوستان میں باقاعدہ رکنیت اور تنظیم نو کا سلسلہ شروع ہوا تو بطور جنرل سیکریٹری لیاقت علی خان نے اس میں نمایاں کردار ادا کیا۔
1938ء میں پٹنہ میں منعقد ہونے والے اجلاس میں قائداعظم کے پُرجوش خطاب نے مسلم لیگ کی بطور نمائندہ مسلمانان ہند کام یابی کی راہ ہموار کی۔ ہوتے ہوتے 1940ء آپہنچا۔ قائداعظم نے اپنی مصروفیات کے پیش نظر، لیاقت علی خان کو پارلیمان میں اپنا نائب مقررکردیا۔ اس اہم دور میں وہ بہ یک وقت آل انڈیا مسلم لیگ کے جنرل سیکریٹری، ڈپٹی پارلیمانی لیڈر، ایکشن کمیٹی کے کنوینر(CONVENOR) ، مرکزی پارلیمانی بورڈ کے سربراہ اور روزنامہ ڈان کے Managing Directorجیسے اہم عہدوں پر فائز تھے۔
1942ء میں جب تحریک پاکستان زوروں پر تھی، کانگریس نے 'ہندوستان چھوڑدو' (QUIT INDIA MOVEMENT) کی قرارداد منظور کی تو اُس کے تمام اہم راہ نماؤں کو گرفتار کرلیا گیا۔ ایسے موقع پر بھولا بھائی ڈیسائی جیسے بعض راہ نما اس قرارداد کی مخالفت اور اس مسئلے سے الگ تھلگ رہنے کے سبب آزاد رہے۔ چناں چہ لیاقت علی خان نے نجی حیثیت میں، ڈیسائی سے دس نکاتی معاہدہ کیا جو نظریہ پاکستان کے حق میں بڑی پیش رفت کا باعث ثابت ہوا۔
ادھر گاندھی جی نے بھی جیل سے رہا ہونے کے بعد قائداعظم سے مذاکرات کیے مگر کئی دن بعد انہیں ناکام قراردیا۔ اس تفصیل سے قطع نظر، کانگریس نے بالواسطہ طور پر مسلم لیگ کی نمائندہ حیثیت تسلیم کرلی۔ اس ضمن میں قائد ملت کا کردار ناقابل فراموش تھا۔
1943ء میں قائداعظم نے لیاقت علی خان کی خدمات سراہتے ہوئے انہیں اپنا دست راست قرار دیا۔ وہ 1945ء میں میرٹھ کے حلقے سے مرکزی قانون ساز اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے اور اسی برس منعقد ہونے والی شملہ کانفرنس میں مسلم لیگ کے وفد کے رکن کی حیثیت سے شریک ہوئے اور جب1946ء میں مسلم لیگ عبوری حکومت کا حصہ بنی تو لیاقت علی خان نے وزیر خزانہ کی حیثیت سے وہ تاریخی بجٹ پیش کیا جسے عوام کے لیے نہایت مفید ہونے کے سبب، کٹر کانگریسی پریس نے بھی عوامی بجٹ اور 'غریب آدمی کا بجٹ' قرار دیا تھا۔ اسی دور میںنوابزادہ صاحب نے کیبنٹ مشن سے مذاکرات میں قائداعظم کی مدد بھی کی تھی۔
پاکستان کے قیام کے وقت 11 اگست 1947ء کو قومی پرچم کی منظوری کی قرارداد اور اگلے دن محمدعلی جناح کو سرکاری طور پر قائداعظم قرار دینے کی تجویز بھی لیاقت علی خان نے پیش کی تھی۔ چودہ اگست 1947ء کو پاکستان نامی اسلامی ریاست معرض وجود میں آئی تو اگلے دن اس نام ور ہستی نے ملک کے اولین وزیراعظم کی حیثیت سے حلف اٹھایا، جب کہ وہ بہ یک وقت ملک کے اولین وزیرخارجہ نیز وزیربرائے تعلقات دولت مشترکہ (پندرہ اگست 1947ء تا ستائیس دسمبر1947ء) ، وزیردفاع (پندرہ اگست 1947ء تاسولہ اکتوبر 1951ء ) ، وزیربرائے امورکشمیر (اکتیس اکتوبر 1949تا 13اپریل 1950ء) اور وزیر برائے ریاستی وسرحدی امور(بارہ ستمبر1948ء تا سولہ اکتوبر 1951ء)کے عہدے پر بھی فائز تھے۔ سر ظفراللہ خان کو بعدازاں (ستائیس دسمبر1947ئکو) باقاعدہ وزیرخارجہ مقرر کیا گیا تھا، لہٰذا یہ کہنا درست نہیں کہ وہ پاکستان کے پہلے وزیرخارجہ تھے۔ (حوالے کے لیے ڈاکٹرصفدرمحمود کی کتاب ملاحظہ فرمائیں: پاکستان ڈیوائیڈڈ)۔
قائداعظم محمد علی جناح کی وفات کے بعد لیاقت علی خان نے نوزائدہ ملک کے جملہ مسائل کے حل کے لیے شبانہ روز اَن تھک محنت کی۔ سترہ جنوری 1948ء کو اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں پاکستانی وفد کے قائد، وزیر خارجہ سر ظفراللہ خان نے مسئلہ کشمیر پر تقریر کی اور اگلے روز وزیراعظم لیاقت علی خان نے اپنے بیان میں کہا تھا: ''جب تک ایک بھی پاکستانی زندہ ہے، کوئی دُنیوی طاقت، پاکستان کو نقصان نہیں پہنچاسکتی۔''
اسلام سے والہانہ لگاؤ رکھنے والے، قائد ملت نے چار اپریل 1948ء کو ایک جلسہ عام سے خطاب کرتے ہوئے اس عزم کا اعادہ کیا تھا کہ پاکستان کا دستور، قرآن کریم اور شریعت کی بنیاد پر بنایا جائے گا۔ سات مارچ 1949 ء کو انہوں نے قرارداد مقاصد، مرکزی قانون ساز اسمبلی میں پیش کی، جس کے ذریعے پاکستان کے مجوزہ آئین کے راہ نما اصول فراہم کیے گئے تھے۔ یہ قرارداد بارہ مارچ1949 ء کو منظور ہوئی، مگر ایک طویل مدت تک آئین پاکستان کی اصل دستاویز کا اساسی حصہ نہیں رہی۔ یہ کام سابق صدر پاکستان جنرل محمد ضیاء الحق کے عہد حکومت میں، اُن کے ایماء پر ہوا تو اُن کے سیاسی و ذاتی مخالفین نے تب سے یہ پراپیگنڈا شروع کیا کہ پاکستان میں اسلامی نظام کے نفاذ کا کوئی تصور، اُن سے پہلے موجود نہ تھا۔
بائیس اپریل 1949 ء کو لندن میں دولت مشترکہ سربراہ کانفرنس کا آغاز ہوا تو پاکستان کے وفد نے اس میں وزیر اعظم لیاقت علی خان کی قیادت میں شرکت کی۔ اسی سال دس مئی کو وہ مصر کے دورے پر تشریف لے گئے، جہاں انہوں نے بارہ مئی کو ریڈیو قاہرہ کے ذریعے مصری عوام سے خطاب کیا ، جب کہ سولہ مئی کو وہ ایران تشریف لے گئے۔ علاوہ ازیں اُن کے مصر کے دورے کے نتیجے میں بائیس مئی1949 ء کو پاک مصر تجارتی معاہدہ طے پایا تھا۔
9جون 1949 ء کو سوویت یونین (سابق) نے وزیراعظم پاکستان محترم لیاقت علی خان کو دورے کی دعوت دی، مگر وہ نامعلوم وجوہ کی بناء پر وہاں تشریف نہ لے جاسکے۔ اس بارے میں بہت ابہام اور اختلاف پایا جاتا ہے کہ قائد ملت اس دورے پر کیوں تشریف نہ لے جاسکے۔ بعض اہل قلم نے یہاں تک لکھا ہے کہ انہیں فقط زبانی دعوت ملی اور باضابطہ دعوت، دونوں حکومتوں کی مشاورت سے تاریخ طے پانے کے مرحلے میں تھی کہ سات نومبر 1949ء کو امریکا نے انہیں سرکاری دورے کی دعوت دی اور یوں وہ امریکا تشریف لے گئے۔
قیام پاکستان کے وقت، اس نئی مملکت کو ہندوستان سے اپنی سرکاری رقم کے حصول میں مشکلات، دریائی پانی کی تقسیم پر اختلاف اور کشمیر سمیت بعض علاقوں کے الحاق پر محاذ آرائی جیسی دقتوں کا سامنا کرنا پڑا ۔ قائد ملت ہر مسئلے کے حل کے لیے ہمہ وقت ، ہمہ تن کوشاں رہے۔ پچیس اگست1949 ء کو لاہور میں خطاب کرتے ہوئے انہوں نے فرمایا: ''قوت کے بل بوتے پر کوئی طاقت کشمیر کو ہم سے نہیں چھین سکتی۔'' اُدھر مشرقی و مغربی بنگال میں ہندومسلم فسادات پھوٹ پڑے۔ قائد ملت 2اپریل 1949 ء کو ہندوستان تشریف لے گئے، جہاں انہوں نے 8اپریل 1950ء کو دہلی میں اقلیتوں کے حقوق کے تحفظ کے لیے ہندوستانی وزیراعظم جواہر لال نہرو سے معاہدہ کیا جو ''لیاقت۔نہروپیکٹ'' کہلایا۔
یہاں ایک بار پھر قائد ملت لیاقت علی خان کی ملک و ملت کے لیے مساعی اور بے خوف قیادت نیز دوراندیشی کا ذکر ناگزیر محسوس ہوتا ہے۔ جب ریڈکلف ایوارڈ میں یہ طے کیا گیا کہ کشمیر کو ملانے والی واحد شاہراہ کی بنیاد پر، انتہائی اہم ضلع گورداس پور کوہندوستان کے صوبے مشرقی پنجاب میں شامل کردیا جائے تو لیاقت علی خان نے لارڈ اِسمے (Lord Ismay)کو خبردار کیا تھا کہ مسلمان ایسے سیاسی فیصلے کو قول و قرار کی سنگین خلاف ورزی سمجھیں گے اور اس سے پاکستان اور برطانیہ کے آئندہ (استوار ہونے والے ) دوستانہ تعلقات متأثر ہوسکتے ہیں۔
29اپریل 1950ء کو امریکا جاتے ہوئے لیاقت علی خان نے لندن میں مختصر قیام کیا، جہاں سے وہ یکم مئی کو امریکی صدر ہیری ایس ٹرومین(Trueman)کے خصوصی طیارے INDEPENDENCEکے ذریعے امریکا تشریف لے گئے۔ چار مئی 1950ء کو انہوں نے امریکی سینیٹ اور ایوان نمائندگان سے خطاب کیا۔ ان کے دورے کی ایک خاص بات یہ تھی کہ انہوں نے وائس آف امریکا کے ذریعے امریکی عوام سے بھی خطاب کیا۔ 30مئی 1950ء کو شہید ملت کینیڈا کے دورے پر روانہ ہوئے، جب کہ بیس جولائی 1950ء کو انہوں نے ایک مرتبہ پھر بھارت کا دورہ کیا۔
9 اکتوبر 1950ء کو لیاقت علی خان، پاکستان مسلم لیگ کے صدر منتخب ہوئے۔ ستائیس دسمبر 1950ء کو انہیں سندھ یونی ورسٹی کی جانب سے ڈاکٹریٹ آف لا کی اعزازی سند عطا کی گئی۔ سات جنوری 1951ء کو وہ ایک بار پھر لندن تشریف لے گئے،اس مرتبہ ان کے دورے کا مقصد دولت مشترکہ کی سربراہ کانفرنس میں شرکت تھا۔ 9 مارچ 1951ء کو انہوں نے راول پنڈی سازش کیس کے سلسلے میں اپنا بیان جاری کیا۔
سولہ اکتوبر 1951ء کو کمپنی باغ، راول پنڈی میں جلسہ عام کا آغاز ہوا تو بلدیہ کمیٹی کے سربراہ شیخ مسعود صادق نے سپاس نامہ پیش کیا۔ قائد ملت نے خطاب کا آغاز ہی کیا تھا کہ کرائے کے قاتل سَید(Sayd)اکبر نے اُن پر گولیاں برسادیں۔ تحریک پاکستان کے عظیم راہ نما اور اولین وزیراعظم، لیاقت علی خان اس حملے کی تاب نہ لاسکے اور اس دعا کے ساتھ دنیائے فانی سے کوچ فرماگئے:''خدا پاکستان کی حفاظت کرے!''
لیاقت علی خان کی شہادت کے بعد کمپنی باغ کو 'لیاقت باغ' کا نام دیا گیا۔ اس سانحے کے چھپن سال بعد، اسی جگہ پاکستان کی سابق وزیر اعظم بے نظیر بھٹو بھی قاتلانہ حملے میں جا ں بحق ہوگئیں.... یوں یہ مقام دو راہ نماؤں کے لیے مقتل ثابت ہوا۔ آج پاکستان کی بقاء اور استحکام کے لیے شہید ملت کی جیسی لیاقت اور بے لوث قیادت، نیز قربانی کے جذبے کی اشد ضرورت ہے۔ n
راقم کا خیال ہے کہ انہیں بجا طور پر محسن ملت کا خطاب بھی دیا جاسکتا ہے۔
انہوں نے بچپن اپنی آبائی جاگیر میں گزارا جو یوپی میں واقع تھی اور اپنی والدہ محترمہ کی نگرانی میں قرآن و حدیث کی بنیادی تعلیم حاصل کی۔ انہوں نے اپنے وقت کی مشہور درس گاہ محمڈ ن اینگلو اوریئنٹل (MAO)کالج علی گڑھ سے سیاسیات میں گریجویشن اور 1918 ء میں بیچلر آف لا کی سند حاصل کی۔ اس کالج کو بعدازاں جامعہ کا درجہ ملا، یوں سرسید احمد خان کا دیرینہ خواب پورا ہوگیا۔
قائد ملت لیاقت علی خان نے 1918ء میں اپنی کزن جہانگیرہ بیگم سے شادی کی اور پھر اپنے والد کے انتقال کے بعد، قانون کی اعلیٰ تعلیم کے حصول کے لیے انگلستان تشریف لے گئے۔1921ء میں آکسفورڈ کے ایگزیکٹر(EXECTER) کالج سے قانون کے شعبے میں ماسٹرز ڈگری حاصل کرنے والے نوابزادہ لیاقت علی خان نے اِنر ٹیمپل (INNER TEMPLE)اور 1922ء میں بارایٹ لا کیا۔
علی گڑھ کے یہ لائق فائق فرزند ملکی سیاست میں اپنا کردار ادا کرنے کے خواہش مند تھے۔ حسن اتفاق سے انہیں آکسفورڈ کی انڈین مجلس کا اعزازی خازن منتخب کرلیا گیا اور یوں اُن کی قومی خدمات کا آغاز ہوا۔ بعض کتب میں یہ روایت بھی ملتی ہے کہ وہ اس مجلس کے صدر بھی منتخب ہوئے تھے۔ بہرحال قانون کی اعلیٰ تعلیم کے حصول کے بعد لیاقت علی خان 1923ء میں ہندوستان واپس تشریف لے آئے۔ انہیں انڈین نیشنل کانگریس نے رکنیت کی پیش کش کی جو انہوں نے رَد کردی اور مسلمانان ہند کی نمائندہ جماعت آل انڈیا مسلم لیگ میں شامل ہوگئے۔
مئی 1924ء میں قائداعظم محمد علی جناح کی زیرقیادت منعقد ہونے والے سالانہ اجلاس میں دیگر راہ نماؤں کے علاوہ لیاقت علی خان بھی شریک تھے۔ انہیں1926ء میں مظفرنگر، یوپی کے حلقے سے یوپی کی مجلس قانون ساز میں مسلم نمائندہ چنا گیا۔ یہ گویا اُن کی عملی سیاست کا آغاز تھا۔ اُن کی کام یابی اور مقبولیت کا یہ عالم تھا کہ انہیں1932ء میں یوپی کی مجلس قانون ساز کا بِلامقابلہ نائب صدر منتخب کیا گیا ، وہ 1940 ء تک اس مجلس سے منسلک رہے اور پھر مرکزی مجلس قانون ساز ( CENTRAL LEGISLATIVE COUNCIL) کے رکن منتخب ہوئے۔
یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ مرکزی سطح پر مقننہ میں اہم کردار ادا کرنے والے یہ عظیم راہ نما 1928ء میں کلکتہ کے قومی کنوینشن میں شریک ہونے والے مسلم لیگی وفد کے رکن بھی تھے۔ یہ کنوینشن موتی لال نہرو رپورٹ پر غوروخوض کی غرض سے منعقد کیا گیا تھا۔
1932ء میں لیاقت علی خان کی نجی زندگی میں ایک نیا موڑ آیا۔ انہوں نے ایک خاتون کو، اُن کے مشرف بہ اسلام ہونے کے بعد، 'رعنا' نام دیا اور اُن سے شادی کرلی۔ یہ خاتون تعلیم اور معاشیات کے شعبوں میں ممتاز تھیں اور پھر تحریک پاکستان میں انہیں بیگم رعنا لیاقت علی کے نام سے شہرت ملی۔
برصغیر کی سیاسی تاریخ میں دوسری گول میز کانفرنس کے بعد، ایک نمایاں تبدیلی یہ ہوئی کہ قائداعظم محمد علی جناح نے سیاسی حالات کی ابتری دیکھتے ہوئے لندن میں مستقل قیام کا فیصلہ کرلیا اور پری وی کونسل (PRIVY COUNCIL) میں وکالت کی پریکٹس کرنے لگے۔ 1928ء سے 1937ء تک مسلمانان ہند کی سیاسی صورت حال پُرآشوب رہی، مسلم لیگ میں دھڑے بندی اور دیگر جماعتوں کے معرض وجود میں آنے کے سبب، مسلمانوں کا سیاسی منظر نامہ یکسر تبدیل ہوگیا تھا۔ ایسے میں اُن کے لیے بھرپور کردار ادا کرنا ممکن نہ رہا تھا۔ اس پر مستزاد یہ کہ مولانا محمد علی جوہرؔ جیسے جری اور بے باک قائد بھی اسی دور میں (چارجنوری سن انیس سو اکتیس کو ) رحلت فرماگئے۔ یہ ہندوستان کے مسلمانوں کے لیے بہت بڑا صدمہ تھا۔
1933ء میں لیاقت علی خان اور بیگم رعنالیاقت لندن پہنچے اور قائداعظم سے ملاقات میں لیاقت علی خان نے اُن سے وطن واپسی کا تقاضا کیا۔ لیاقت علی خان نے کہا کہ ایسے وقت میں مسلمانوں کو آپ جیسے قائد کی ضرورت ہے جسے خریدا نہ جاسکے۔ آپ ہی مسلم لیگ کو نئی زندگی دے سکتے ہیں۔ چناں چہ 1934ء میں قائداعظم واپس ہندوستان تشریف لائے اور آل انڈیا مسلم لیگ کی قیادت سنبھال لی۔ ایسے میں ہندوستان کی سیاسی فضاء اس نعرے نما شعر سے گونج اٹھی:
ملا ہے وراثت میں تختِ سیاست
محمد علی سے محمد علی کو!
1935ء میں منعقد ہونے والے انتخابات میں آل انڈیا مسلم لیگ، مسلم اکثریتی علاقوں سے بوجوہ خاطر خواہ کام یابی حاصل نہ کرپائی تو پنڈت جواہرلال نہرو نے کہا: ''ہندوستان میں دو ہی جماعتیں ہیں...ایک کانگریس، دوسری حکومت۔'' اس پر قائداعظم نے برملا تصحیح کی: ''نہیں ! ایک تیسری جماعت بھی ہے ....مسلم لیگ!''
لیاقت علی خان نے مسلم لیگ کی تنظیم نو میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ بارہ اپریل 1936ء کو بمبئی میں منعقد ہونے والے اجلاس میں انہیں قائداعظم کی تجویز پر، بِلامقابلہ، اعزازی جنرل سیکریٹری منتخب کرلیا گیا۔ 1937ء میں آل انڈیا مسلم لیگ نے گویا نیا جنم لیا۔ اب اس کی منزل آزادی تھی۔ پورے ہندوستان میں باقاعدہ رکنیت اور تنظیم نو کا سلسلہ شروع ہوا تو بطور جنرل سیکریٹری لیاقت علی خان نے اس میں نمایاں کردار ادا کیا۔
1938ء میں پٹنہ میں منعقد ہونے والے اجلاس میں قائداعظم کے پُرجوش خطاب نے مسلم لیگ کی بطور نمائندہ مسلمانان ہند کام یابی کی راہ ہموار کی۔ ہوتے ہوتے 1940ء آپہنچا۔ قائداعظم نے اپنی مصروفیات کے پیش نظر، لیاقت علی خان کو پارلیمان میں اپنا نائب مقررکردیا۔ اس اہم دور میں وہ بہ یک وقت آل انڈیا مسلم لیگ کے جنرل سیکریٹری، ڈپٹی پارلیمانی لیڈر، ایکشن کمیٹی کے کنوینر(CONVENOR) ، مرکزی پارلیمانی بورڈ کے سربراہ اور روزنامہ ڈان کے Managing Directorجیسے اہم عہدوں پر فائز تھے۔
1942ء میں جب تحریک پاکستان زوروں پر تھی، کانگریس نے 'ہندوستان چھوڑدو' (QUIT INDIA MOVEMENT) کی قرارداد منظور کی تو اُس کے تمام اہم راہ نماؤں کو گرفتار کرلیا گیا۔ ایسے موقع پر بھولا بھائی ڈیسائی جیسے بعض راہ نما اس قرارداد کی مخالفت اور اس مسئلے سے الگ تھلگ رہنے کے سبب آزاد رہے۔ چناں چہ لیاقت علی خان نے نجی حیثیت میں، ڈیسائی سے دس نکاتی معاہدہ کیا جو نظریہ پاکستان کے حق میں بڑی پیش رفت کا باعث ثابت ہوا۔
ادھر گاندھی جی نے بھی جیل سے رہا ہونے کے بعد قائداعظم سے مذاکرات کیے مگر کئی دن بعد انہیں ناکام قراردیا۔ اس تفصیل سے قطع نظر، کانگریس نے بالواسطہ طور پر مسلم لیگ کی نمائندہ حیثیت تسلیم کرلی۔ اس ضمن میں قائد ملت کا کردار ناقابل فراموش تھا۔
1943ء میں قائداعظم نے لیاقت علی خان کی خدمات سراہتے ہوئے انہیں اپنا دست راست قرار دیا۔ وہ 1945ء میں میرٹھ کے حلقے سے مرکزی قانون ساز اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے اور اسی برس منعقد ہونے والی شملہ کانفرنس میں مسلم لیگ کے وفد کے رکن کی حیثیت سے شریک ہوئے اور جب1946ء میں مسلم لیگ عبوری حکومت کا حصہ بنی تو لیاقت علی خان نے وزیر خزانہ کی حیثیت سے وہ تاریخی بجٹ پیش کیا جسے عوام کے لیے نہایت مفید ہونے کے سبب، کٹر کانگریسی پریس نے بھی عوامی بجٹ اور 'غریب آدمی کا بجٹ' قرار دیا تھا۔ اسی دور میںنوابزادہ صاحب نے کیبنٹ مشن سے مذاکرات میں قائداعظم کی مدد بھی کی تھی۔
پاکستان کے قیام کے وقت 11 اگست 1947ء کو قومی پرچم کی منظوری کی قرارداد اور اگلے دن محمدعلی جناح کو سرکاری طور پر قائداعظم قرار دینے کی تجویز بھی لیاقت علی خان نے پیش کی تھی۔ چودہ اگست 1947ء کو پاکستان نامی اسلامی ریاست معرض وجود میں آئی تو اگلے دن اس نام ور ہستی نے ملک کے اولین وزیراعظم کی حیثیت سے حلف اٹھایا، جب کہ وہ بہ یک وقت ملک کے اولین وزیرخارجہ نیز وزیربرائے تعلقات دولت مشترکہ (پندرہ اگست 1947ء تا ستائیس دسمبر1947ء) ، وزیردفاع (پندرہ اگست 1947ء تاسولہ اکتوبر 1951ء ) ، وزیربرائے امورکشمیر (اکتیس اکتوبر 1949تا 13اپریل 1950ء) اور وزیر برائے ریاستی وسرحدی امور(بارہ ستمبر1948ء تا سولہ اکتوبر 1951ء)کے عہدے پر بھی فائز تھے۔ سر ظفراللہ خان کو بعدازاں (ستائیس دسمبر1947ئکو) باقاعدہ وزیرخارجہ مقرر کیا گیا تھا، لہٰذا یہ کہنا درست نہیں کہ وہ پاکستان کے پہلے وزیرخارجہ تھے۔ (حوالے کے لیے ڈاکٹرصفدرمحمود کی کتاب ملاحظہ فرمائیں: پاکستان ڈیوائیڈڈ)۔
قائداعظم محمد علی جناح کی وفات کے بعد لیاقت علی خان نے نوزائدہ ملک کے جملہ مسائل کے حل کے لیے شبانہ روز اَن تھک محنت کی۔ سترہ جنوری 1948ء کو اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں پاکستانی وفد کے قائد، وزیر خارجہ سر ظفراللہ خان نے مسئلہ کشمیر پر تقریر کی اور اگلے روز وزیراعظم لیاقت علی خان نے اپنے بیان میں کہا تھا: ''جب تک ایک بھی پاکستانی زندہ ہے، کوئی دُنیوی طاقت، پاکستان کو نقصان نہیں پہنچاسکتی۔''
اسلام سے والہانہ لگاؤ رکھنے والے، قائد ملت نے چار اپریل 1948ء کو ایک جلسہ عام سے خطاب کرتے ہوئے اس عزم کا اعادہ کیا تھا کہ پاکستان کا دستور، قرآن کریم اور شریعت کی بنیاد پر بنایا جائے گا۔ سات مارچ 1949 ء کو انہوں نے قرارداد مقاصد، مرکزی قانون ساز اسمبلی میں پیش کی، جس کے ذریعے پاکستان کے مجوزہ آئین کے راہ نما اصول فراہم کیے گئے تھے۔ یہ قرارداد بارہ مارچ1949 ء کو منظور ہوئی، مگر ایک طویل مدت تک آئین پاکستان کی اصل دستاویز کا اساسی حصہ نہیں رہی۔ یہ کام سابق صدر پاکستان جنرل محمد ضیاء الحق کے عہد حکومت میں، اُن کے ایماء پر ہوا تو اُن کے سیاسی و ذاتی مخالفین نے تب سے یہ پراپیگنڈا شروع کیا کہ پاکستان میں اسلامی نظام کے نفاذ کا کوئی تصور، اُن سے پہلے موجود نہ تھا۔
بائیس اپریل 1949 ء کو لندن میں دولت مشترکہ سربراہ کانفرنس کا آغاز ہوا تو پاکستان کے وفد نے اس میں وزیر اعظم لیاقت علی خان کی قیادت میں شرکت کی۔ اسی سال دس مئی کو وہ مصر کے دورے پر تشریف لے گئے، جہاں انہوں نے بارہ مئی کو ریڈیو قاہرہ کے ذریعے مصری عوام سے خطاب کیا ، جب کہ سولہ مئی کو وہ ایران تشریف لے گئے۔ علاوہ ازیں اُن کے مصر کے دورے کے نتیجے میں بائیس مئی1949 ء کو پاک مصر تجارتی معاہدہ طے پایا تھا۔
9جون 1949 ء کو سوویت یونین (سابق) نے وزیراعظم پاکستان محترم لیاقت علی خان کو دورے کی دعوت دی، مگر وہ نامعلوم وجوہ کی بناء پر وہاں تشریف نہ لے جاسکے۔ اس بارے میں بہت ابہام اور اختلاف پایا جاتا ہے کہ قائد ملت اس دورے پر کیوں تشریف نہ لے جاسکے۔ بعض اہل قلم نے یہاں تک لکھا ہے کہ انہیں فقط زبانی دعوت ملی اور باضابطہ دعوت، دونوں حکومتوں کی مشاورت سے تاریخ طے پانے کے مرحلے میں تھی کہ سات نومبر 1949ء کو امریکا نے انہیں سرکاری دورے کی دعوت دی اور یوں وہ امریکا تشریف لے گئے۔
قیام پاکستان کے وقت، اس نئی مملکت کو ہندوستان سے اپنی سرکاری رقم کے حصول میں مشکلات، دریائی پانی کی تقسیم پر اختلاف اور کشمیر سمیت بعض علاقوں کے الحاق پر محاذ آرائی جیسی دقتوں کا سامنا کرنا پڑا ۔ قائد ملت ہر مسئلے کے حل کے لیے ہمہ وقت ، ہمہ تن کوشاں رہے۔ پچیس اگست1949 ء کو لاہور میں خطاب کرتے ہوئے انہوں نے فرمایا: ''قوت کے بل بوتے پر کوئی طاقت کشمیر کو ہم سے نہیں چھین سکتی۔'' اُدھر مشرقی و مغربی بنگال میں ہندومسلم فسادات پھوٹ پڑے۔ قائد ملت 2اپریل 1949 ء کو ہندوستان تشریف لے گئے، جہاں انہوں نے 8اپریل 1950ء کو دہلی میں اقلیتوں کے حقوق کے تحفظ کے لیے ہندوستانی وزیراعظم جواہر لال نہرو سے معاہدہ کیا جو ''لیاقت۔نہروپیکٹ'' کہلایا۔
یہاں ایک بار پھر قائد ملت لیاقت علی خان کی ملک و ملت کے لیے مساعی اور بے خوف قیادت نیز دوراندیشی کا ذکر ناگزیر محسوس ہوتا ہے۔ جب ریڈکلف ایوارڈ میں یہ طے کیا گیا کہ کشمیر کو ملانے والی واحد شاہراہ کی بنیاد پر، انتہائی اہم ضلع گورداس پور کوہندوستان کے صوبے مشرقی پنجاب میں شامل کردیا جائے تو لیاقت علی خان نے لارڈ اِسمے (Lord Ismay)کو خبردار کیا تھا کہ مسلمان ایسے سیاسی فیصلے کو قول و قرار کی سنگین خلاف ورزی سمجھیں گے اور اس سے پاکستان اور برطانیہ کے آئندہ (استوار ہونے والے ) دوستانہ تعلقات متأثر ہوسکتے ہیں۔
29اپریل 1950ء کو امریکا جاتے ہوئے لیاقت علی خان نے لندن میں مختصر قیام کیا، جہاں سے وہ یکم مئی کو امریکی صدر ہیری ایس ٹرومین(Trueman)کے خصوصی طیارے INDEPENDENCEکے ذریعے امریکا تشریف لے گئے۔ چار مئی 1950ء کو انہوں نے امریکی سینیٹ اور ایوان نمائندگان سے خطاب کیا۔ ان کے دورے کی ایک خاص بات یہ تھی کہ انہوں نے وائس آف امریکا کے ذریعے امریکی عوام سے بھی خطاب کیا۔ 30مئی 1950ء کو شہید ملت کینیڈا کے دورے پر روانہ ہوئے، جب کہ بیس جولائی 1950ء کو انہوں نے ایک مرتبہ پھر بھارت کا دورہ کیا۔
9 اکتوبر 1950ء کو لیاقت علی خان، پاکستان مسلم لیگ کے صدر منتخب ہوئے۔ ستائیس دسمبر 1950ء کو انہیں سندھ یونی ورسٹی کی جانب سے ڈاکٹریٹ آف لا کی اعزازی سند عطا کی گئی۔ سات جنوری 1951ء کو وہ ایک بار پھر لندن تشریف لے گئے،اس مرتبہ ان کے دورے کا مقصد دولت مشترکہ کی سربراہ کانفرنس میں شرکت تھا۔ 9 مارچ 1951ء کو انہوں نے راول پنڈی سازش کیس کے سلسلے میں اپنا بیان جاری کیا۔
سولہ اکتوبر 1951ء کو کمپنی باغ، راول پنڈی میں جلسہ عام کا آغاز ہوا تو بلدیہ کمیٹی کے سربراہ شیخ مسعود صادق نے سپاس نامہ پیش کیا۔ قائد ملت نے خطاب کا آغاز ہی کیا تھا کہ کرائے کے قاتل سَید(Sayd)اکبر نے اُن پر گولیاں برسادیں۔ تحریک پاکستان کے عظیم راہ نما اور اولین وزیراعظم، لیاقت علی خان اس حملے کی تاب نہ لاسکے اور اس دعا کے ساتھ دنیائے فانی سے کوچ فرماگئے:''خدا پاکستان کی حفاظت کرے!''
لیاقت علی خان کی شہادت کے بعد کمپنی باغ کو 'لیاقت باغ' کا نام دیا گیا۔ اس سانحے کے چھپن سال بعد، اسی جگہ پاکستان کی سابق وزیر اعظم بے نظیر بھٹو بھی قاتلانہ حملے میں جا ں بحق ہوگئیں.... یوں یہ مقام دو راہ نماؤں کے لیے مقتل ثابت ہوا۔ آج پاکستان کی بقاء اور استحکام کے لیے شہید ملت کی جیسی لیاقت اور بے لوث قیادت، نیز قربانی کے جذبے کی اشد ضرورت ہے۔ n