کشش ثقل کی لہریں ایک نئی فلکیات کی ابتداء
اکیسویں صدی کی عظیم ترین سائنسی دریافت کا قصہ، جسے سمجھ کر آپ اس کائنات کو ایک الگ نگاہ سے دیکھنے لگیں گے
MUZAFFARABAD:
مشہور حیاتی کیمیا دان، جے بی ایس ہیلڈین نے کہا تھا: ''یہ کائنات صرف اس سے زیادہ پراسرار نہیں کہ جتنا تم سوچتے ہو، بلکہ یہ اس سے بھی کہیں زیادہ پراسرار ہے کہ جتنا تم سوچ سکتے ہو۔'' جب بھی کوئی نئی سائنسی دریافت، کوئی اہم پیش رفت سامنے آتی ہے، ہیلڈین کا یہ قول میرے ذہن میں گونجنے لگتا ہے۔ ہر نئی دریافت ہمیں احساس دلاتی ہے کہ ہم اس کائنات کے بارے میں، آفاق کی اس کارگۂ شیشہ گری کے بارے میں کتنا کم جانتے تھے؛ اور ہمیں نہیں معلوم کہ ابھی اور کیا کچھ جاننا، مزید کس قدر حیران ہونا باقی ہے۔
ہوسکتا ہے کہ دو ہفتے پہلے یہ خبر آپ کی نظروں سے بھی گزری ہو کہ اس سال یعنی 2017ء کا نوبل انعام برائے طبیعیات (فزکس) رینر وائیس، کِپ ایس تھورن اور بیری سی بیرش نامی تین سائنسدانوں کو مشترکہ طور پر دیا گیا ہے۔ طبیعیات کے میدان میں ان کی اہم ترین خدمت جس کے اعتراف میں انہیں اس سال کا نوبل انعام دیا گیا، یہ رہی کہ انہوں نے کششِ ثقل کی لہریں (گریوی ٹیشنل ویوز) دریافت کرنے والے عالمی منصوبوں ''لائیگو'' (LIGO) اور ''ورگو'' (VIRGO) کی منصوبہ بندی سے لے کر تکمیل تک، کم و بیش ہر مرحلے پر کلیدی کردار ادا کیا۔
اگر آپ سائنس سے سنجیدہ دلچسپی رکھتے ہیں تو پھر یہ بھی جانتے ہوں گے کہ کششِ ثقل کی لہریں دریافت کرنے کا پہلا اعلان پچھلے سال (فروری 2016ء میں) کیا گیا تھا اور اسے ''اکیسویں صدی کی عظیم ترین سائنسی دریافت'' بھی قرار دیا گیا تھا۔ ہوسکتا ہے کہ آپ نے یہ بھی پڑھ رکھا ہو کہ کششِ ثقل کی لہروں کی مذکورہ دریافت کو ''آئن اسٹائن کے عمومی نظریہ اضافیت کی حتمی فتح'' کہا جارہا ہے۔ یہ بات بھی بالکل درست ہے کیونکہ 1915ء میں، جب البرٹ آئن اسٹائن نے اپنا مشہور نظریہ اضافیت عمومی (جنرل تھیوری آف ریلیٹیویٹی) مکمل کیا تھا، تو اس نے کششِ ثقل کی لہروں کی پیش گوئی بھی کی تھی۔ مگر یہ لہریں کسی طور دریافت نہیں ہورہی تھیں اور ماہرین میں یہ خیال پروان چڑھنے لگا تھا کہ آئن اسٹائن سے کوئی غلطی ہوگئی تھی... آخر کو وہ بھی تو انسان ہی تھا ناں!
لیکن پورے سو سال بعد، بالترتیب 14 ستمبر 2015ء کو اور پھر 26 دسمبر 2015ء کے روز، امریکا میں عشروں سے جاری ایک عالمی تحقیقی منصوبے ''لائیگو'' (لیزر انٹرفیرومیٹر گریوی ٹیشنل ویو آبزرویٹری) نے زمین سے ایک ارب نوری سال سے بھی زیادہ فاصلے پر موجود دو بلیک ہولز میں تصادم سے پیدا ہونے والی ثقلی لہریں (گریوی ٹیشنل ویوز) دریافت کرلیں۔ البتہ آنجہانی کارل ساگان کے قول ''غیرمعمولی دعووں کو غیرمعمولی ثبوتوں کی ضرورت ہوتی ہے'' پر عمل کرتے ہوئے، یہ دریافت کرنے والے ماہرین نے اس کا اعلان کرنے سے پہلے اپنے مشاہدات پر باریک بینی سے نظرِ ثانی کرکے اطمینان کیا۔ یہی وجہ ہے کہ پہلی دریافت کا باضابطہ اعلان 11 فروری 2016ء کو کیا گیا۔ بعد ازاں 15 جون 2016ء کو اس دریافت کا باضابطہ اعلان کیا گیا جو 26 دسمبر 2015ء کے روز کی گئی تھی۔
قارئین کی دلچسپی کےلیے بتاتا چلوں کہ البرٹ آئن اسٹائن نے اسرائیل کے قیام کےلیے بہت جدوجہد کی تھی، لیکن جب اسے پیشکش ہوئی کہ وہ اسرائیل کا پہلا سربراہِ مملکت بنے تو اس نے شانِ بے نیازی سے کہا، ''سیاست چند روزہ چیز ہے، لیکن سائنس کی ایک مساوات ہمیشہ رہنے والی ہے،'' اور یہ پیشکش ٹھکرا دی۔ ثقلی لہروں کی دریافت نے اس قول کی صداقت ثابت کردی... آئن اسٹائن کی سو سال پرانی مساواتوں نے پوری ایک صدی بعد بھی خود کو زندۂ جاوید ثابت کر دکھایا۔
خیر، لائیگو نے جلد ہی ایک اور لہر دریافت کرلی، جس کا اعلان یکم جون 2017ء کے روز کیا گیا۔ دریں اثناء یورپ میں لائیگو جیسا ایک اور منصوبہ ''وِرگو'' (VIRGO) مکمل ہوگیا جس کی مشاہدہ گاہ (آبزرویٹری) نے یکم اگست 2017ء کے روز اٹلی کے تاریخی شہر پیسا میں اپنے کام کا آغاز کیا۔ 14 اگست 2017ء کے روز، جب پاکستان کی 70 ویں سالگرہ بڑے جوش و خروش سے منائی جارہی تھی، ان دونوں منصوبوں (لائیگو اور وِرگو) نے بیک وقت ایک اور ثقلی لہر دریافت کرلی؛ اور اب کی بار ہونے والا مشاہدہ پہلے کے مقابلے میں کہیں زیادہ درست اور کئی گنا بہتر بھی تھا۔ تاہم، استناد کے دستور پر سختی سے کاربند رہتے ہوئے انہوں نے ضابطے کی ساری کارروائیاں مکمل کیں اور یوں اس دریافت کا اعلان 26 ستمبر 2017ء کے روز کیا گیا۔
3 اکتوبر 2017ء کے روز رینر وائیس، بیری سی بیرش اور کِپ ایس تھورن کو ان ہی دریافتوں اور ان کے پسِ پشت کارفرما منصوبوں کی بنیاد پر طبیعیات (فزکس) کا نوبل انعام دیتے ہوئے دوام بخش دیا گیا؛ اور آئن اسٹائن بھی اپنے مرنے کے 62 سال بعد ایک بار پھر امر ہوگیا۔
مجھے یقین ہے کہ اگر آپ اس تحریر کو پڑھتے پڑھتے یہاں تک پہنچ گئے ہیں تو آپ پر اتنا ضرور واضح ہوگیا ہوگا کہ ثقلی لہروں (گریوی ٹیشنل ویوز) کی دریافت موجودہ صدی کا ایک غیرمعمولی واقعہ ہے۔ البتہ، قارئین کی اکثریت یہ سوچ رہی ہوگی (اور بجا طور پر یہ سوچ رہی ہوگی) کہ آخر یہ ماجرا کیا ہے؟ ثقلی لہریں ہوتی کیا ہیں؟ ان کی دریافت اتنی غیرمعمولی کیوں قرار دی جارہی ہے؟ اگلی سطور میں ایسے ہی کچھ سوالوں کے جوابات قدرے تفصیل سے دینے کی کوشش کروں گا۔
آئن اسٹائن کے نظریہ اضافیت عمومی (جنرل تھیوری آف ریلیٹیویٹی) نے کائنات کے بارے میں ہماری سمجھ بوجھ اور اندازِ نظر کو زبردست انقلاب سے ہم کنار کیا۔ مثلاً اس سے پہلے تک یہ سمجھا جاتا تھا کہ کائنات میں ''زمان'' یعنی وقت (ٹائم) اور ''مکان'' یعنی خلاء (اسپیس) دو الگ الگ چیزیں ہیں۔ لیکن نظریہ اضافیت عمومی میں آئن اسٹائن نے بتایا کہ زمان و مکان (ٹائم اینڈ اسپیس) آپس میں اس طرح ملے ہوئے ہیں جیسے کسی چادر میں تانے بانے (ایک دوسرے میں سے گزرتے ہوئے دھاگے) ہوتے ہیں؛ اور یہ دونوں مل کر ہی کائنات کو وجود بخشتے ہیں۔ یعنی ہم اس پوری کائنات کو زمان و مکان کی ایک ایسی (اور بہت ہی بڑی) چادر سمجھ سکتے ہیں جو بیک وقت بہت مضبوط بھی ہو اور انتہائی لچک دار بھی۔
جہاں بھی مادّہ ہوگا، وہاں کششِ ثقل (گریوی ٹیشنل فورس) بھی ضرور ہوگی۔ اور جہاں کششِ ثقل ہوگی، وہاں زمان و مکان کی اس چادر میں گڑھا بھی ضرور پڑے گا۔ اس بات کو سمجھنے کےلیے فرض کیجیے کہ آپ نے فوم کے نرم گدے پر ایک چادر بچھائی ہوئی ہے جس پر کوئی سلوٹ نہیں۔ جب اس چادر پر لوہے کا وزنی گولا رکھا جائے گا تو اس جگہ پر گڑھا بن جائے گا۔ گولے کا وزن جتنا زیادہ ہوگا، چادر میں پڑنے والا گڑھا بھی اتنا ہی گہرا اور نمایاں ہوگا، جبکہ اس سے چادر پر پڑنے والی سلوٹیں بھی اتنی ہی واضح ہوں گی۔
یہی وجہ ہے کہ آئن اسٹائن نے سیاروں سے لے کر عظیم الشان ستاروں اور کہکشاؤں تک کی کشش ثقل کو ''زمان و مکان میں پڑنے والی شکنیں'' قرار دیا۔ جس جگہ مادّہ جتنا زیادہ ہے، وہاں یہ شکنیں بھی اتنی ہی زیادہ ہیں۔ لیکن یہ تو صرف ابتداء تھی۔ (آگے بڑھنے سے پہلے اتنا واضح کردوں کہ کسی بھی جسم میں مادّے کی مقدار اس کی ''کمیت'' (ماس) کہلاتی ہے۔)
آئن اسٹائن کا یہ بھی کہنا تھا کہ اگر بہت زیادہ کمیت والا کوئی جسم، جس میں مادّے کی مقدار ہمارے سورج کے مقابلے میں بھی بہت زیادہ ہو، اپنی حرکت کی رفتار یا سمت تبدیل کرے گا تو اس سے زمان و مکان کی چادر میں زیادہ بڑی اور نمایاں سلوٹیں پیدا ہوں گی جو دور تک پھیلتی جائیں گی... جبکہ پھیلاؤ کے ساتھ ساتھ ان کی شدت بھی کم سے کم تر ہوتی چلی جائے گی۔ یہ بالکل ایسا ہی ہے کہ جب آپ کسی روشن بلب کے قریب ہوتے ہیں تو آپ کو اس کی روشنی بہت تیز محسوس ہوتی ہے۔ لیکن جیسے جیسے آپ اس سے دور ہوتے چلے جاتے ہیں، ویسے ویسے اس کی روشنی بھی مدھم اور کمزور پڑتی چلی جاتی ہے۔ یہاں تک کہ جب آپ اس بلب سے بہت دور نکل آئیں تو قریب رکھی ہوئی ایک موم بتی کی روشنی بھی آپ کو اس بلب کی روشنی سے زیادہ محسوس ہوگی۔ یہ سارا کھیل قربت اور دُوری کا ہے جناب!
اب کیونکہ آئن اسٹائن نے کششِ ثقل ہی کو زمان و مکان میں پڑنے والی سلوٹیں قرار دیا تھا، اس لیے زمان و مکان میں پیدا ہونے والے اس اُتار چڑھاؤ کو ''ثقلی لہروں'' (گریوی ٹیشنل ویوز) کا نام دیا گیا۔ آئن اسٹائن نے کہا کہ یہ کسی بھی مادّی جسم سے اٹھنے والی ایسی لہریں ہیں جو روشنی کی رفتار سے (یعنی تین لاکھ کلومیٹر فی سیکنڈ کی رفتار سے) دُور تک پھیلتی چلی جاتی ہیں۔ مطلب یہ کہ کششِ ثقل کی لہریں نہ صرف ہر مادّی جسم سے ہر وقت خارج ہوتی رہتی ہیں بلکہ یہ ساری کائنات میں ہر طرف پھیلی ہوئی بھی ہیں۔
اگر آپ ان لہروں کو سمجھنا چاہتے ہیں تو ایک بڑی سی چادر لے کر فرش پر بچھا دیجیے اور اسے ایک کونے سے پکڑ کر لہرائیے (جیسے بچے کھیلتے ہیں)۔ چادر میں ایک کونے سے لہریں اٹھیں گی جو (پھیلتی ہوئی) دوسرے کونے تک چلی جائیں گی۔ فرق صرف اتنا ہے کہ آئن اسٹائن کی مذکورہ مثال میں یہ چادر زمان و مکان (اسپیس ٹائم) کی تھی اور اس میں اٹھنے والی لہریں کششِ ثقل (گریویٹی) کی۔ لیکن بات اب بھی ختم نہیں ہوئی۔
سائنس ثبوت مانگتی ہے اور جو کچھ بھی آئن اسٹائن نے کہا، وہ ایک پیش گوئی تھی جو ہم سے مشاہدے کا تقاضا کررہی تھی۔ زمان و مکان میں اتھل پتھل مچاتے ہوئے آگے بڑھنے والی لہروں کا تصور سمجھنا ہی محال تھا (اور آج تک ہے)؛ پھر انہیں دریافت کرنا بھی کچھ کم دردِ سری نہیں۔ اگر ثقلی لہروں کا وجود مان بھی لیا جائے تو انہیں دریافت کیسے کریں گے؟
اپنی روزمرہ زندگی میں ہر وقت ہمارا سامنا کششِ ثقل سے پڑتا ہے۔ یہ وہی قوت ہے جس کی بدولت ہم اس زمین پر آرام سے چل پھر سکتے ہیں۔ اگر زمین کی کششِ ثقل ختم ہوجائے تو یہاں موجود ہر چیز اُڑنے لگے گی... کیا ہم اور کیا ہمارے مکان، کیا پیڑ پودے اور کیا چرند پرند، کیا سمندر اور کیا پہاڑ، غرض ہر چیز روئی کے گالوں کی طرح اِدھر اُدھر اڑنے لگے گی۔ اب آپ خود اندازہ لگالیجیے کہ زمینی کششِ ثقل خود انسان کےلیے کتنی اہم ہے۔ اگر کائنات کی بات کریں تو اسی کششِ ثقل نے ساری کی ساری کائنات کو سنبھالا ہوا ہے؛ اور کائنات اُس شکل میں ہمارے سامنے ہے کہ جیسے ہم اسے دیکھ رہے ہیں۔ قصہ مختصر یہ کہ کششِ ثقل اس کائنات کی سب سے معمولی لیکن سب سے اہم قوت بھی ہے۔
کششِ ثقل کی لہریں ہر جگہ پھیلی ہوئی ہیں۔ مگر سوال پھر وہی آتا ہے کہ آخر ہم ان لہروں کا مشاہدہ کیسے کرسکتے ہیں؟
گھر کے باہر جب کسی گاڑی کا ہارن بجتا ہے تو اس سے آواز کی لہریں پیدا ہوتی ہیں جو ہمارے کانوں تک پہنچتی ہیں، اور ہمیں اندازہ ہوجاتا ہے کہ وہ گاڑی کہاں اور کس سمت میں ہے۔ کمرے کے ایک کونے میں جلتے ہوئے انرجی سیور کی روشنی جب ہماری آنکھوں تک پہنچتی ہے تو ہمیں معلوم ہوجاتا ہے کہ کمرے میں وہ کس جگہ لگا ہوا ہے۔ لیکن ثقلی لہروں (گریوی ٹیشنل ویوز) کا سراغ ہم کیسے لگائیں گے؟ ہم کیسے بتائیں گے کہ یہ ثقلی لہریں کس طرف سے آرہی ہیں اور ان کا ماخذ (سورس) کہاں واقع ہے؟
یہ سمجھنے کےلیے ہمارے تخیل کو بہت اونچی اُڑان بھرنا پڑے گی، بہت کچھ ایسا فرض کرنا پڑے گا جو حقیقی زندگی میں شاید ناممکن ہے... لیکن اگر کچھ ''ہٹ کر'' سمجھنا ہے تو کچھ ''ہٹ کر'' سوچنا بھی تو پڑے گا ناں!
فرض کیجیے کہ آپ کسی کھلے میدان میں بیٹھے ہیں جس کے بیچوں بیچ ایک بہت ہی بلند کلاک ٹاور (گھنٹہ گھر) نصب ہے۔ گھنٹہ گھر کی دیوقامت گھڑی میں سیکنڈ کی سوئیاں بھی حرکت کررہی ہیں جنہیں آپ دور سے دیکھ سکتے ہیں۔ آپ کے پاس بے حد حساس زلزلہ پیما ہے تاکہ زمین میں آنے والے معمولی سے زلزلے کو بھی محسوس کرسکیں۔ ہوا بھی بالکل رکی ہوئی ہے اور حبس کا عالم ہے۔ اچانک آپ کو لگتا ہے کہ کلاک ٹاور کی لمبائی کچھ کم ہوگئی ہے جبکہ اس کی گھڑی بھی سست پڑ گئی ہے۔ ابھی آپ ٹھیک سے حیران بھی نہیں ہوئے کہ اچانک ہی کلاک ٹاور اپنی اصل جسامت سے کچھ لمبا ہوگیا اور اس کی گھڑی بھی کچھ تیز ہوگئی... اور پھر اچانک سب کچھ معمول پر واپس آگیا، جیسے کچھ ہوا ہی نہیں تھا۔ آپ نے فوراً زلزلہ پیما کی طرف دیکھا لیکن وہاں بھی کسی زلزلے کے کوئی آثار دکھائی نہیں دیئے۔
اگر کچھ بھی نہیں ہوا تھا تو پھر یہ کیا ہوا تھا؟ کیا یہ آپ کے دماغ کا خلل تھا؟ کیا آپ کے دماغ میں ''کیمیکل لوچا'' ہوگیا تھا؟ نہیں! آپ کا دماغ صحیح سلامت تھا لیکن تخیل و تصور کی اس دنیا میں ایک ثقلی لہر اس کلاک ٹاور سے گزرتی ہوئی چلی گئی تھی۔ اسی نے کلاک ٹاور پر زمان و مکان کو اُتھل پتھل کیا تھا۔
کششِ ثقل کی کوئی بڑی لہر جب آگے بڑھتی ہے، تو اسی طرح سے زمان و مکان کو ہلاتی جلاتی ہوئی چلتی ہے... آپ اسے دیکھ نہیں سکتے، صرف اس کے ظاہری اثرات ہی محسوس کیے جاسکتے ہیں۔
اب (اگر یہ مثال آپ نے ہضم کرلی ہو) تو دوسرا سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ہمیں کیسے معلوم ہوگا کہ یہ ثقلی لہر (گریوی ٹیشنل ویو) کس سمت سے آرہی ہے۔ اس کےلیے بھی ایک اور خیالی منظرنامہ دیکھتے ہیں۔
تصور کیجیے کہ ایک بہت بڑا ہال ہے جہاں کوئی تقریب ہورہی ہے اور اس تقریب میں سارے شریف شرفاء موجود ہیں جو بڑی دھیمی آواز سے آپس میں باتیں کررہے ہیں۔ پورے ہال میں ہر طرف بھنبھناہٹ سی پھیلی ہوئی ہے۔ آپ سب سے الگ تھلگ، ایک کونے میں بیٹھے ہیں۔ آپ اتنا تو جانتے ہیں کہ ہال میں سارے لوگ بڑی دھیمی آواز میں باتیں کرنے میں مصروف ہیں، لیکن یہ نہیں بتاسکتے کہ اس بھنبھناہٹ میں سے کونسی آواز کس طرف سے آرہی ہے۔ اسی عالم میں دو شرارتی بچے بڑی خاموشی سے ہال کے اونچے اسٹیج پر چڑھ جاتے ہیں اور اپنے ہاتھوں میں پکڑے ہوئے غباروں کو ایک دوسرے سے ٹکراتے ہیں۔ آپس میں ٹکراتے ہی غبارے پھٹتے ہیں اور ایک زوردار دھماکا ہوتا ہے۔ ہال میں موجود سب لوگ دھماکے کی آواز سن کر اسٹیج کی طرف متوجہ ہوتے ہیں اور انہیں پتا چل جاتا ہے کہ یہ آواز اسٹیج کی طرف سے آئی ہے۔
کششِ ثقل کی لہریں بھی اس ہال میں ہر طرف پھیلی ہوئی بھنبھناہٹ کی مانند ہیں، یہ ہر طرف سے آرہی ہیں لیکن اس قدر مدھم اور کمزور ہیں کہ نہ تو ہم ان کا سراغ لگا سکتے ہیں اور نہ ہی ان کی سمت کا تعین کرسکتے ہیں۔ لیکن اگر بہت ہی زیادہ کمیت والے دو جسم (جن میں سے ہر ایک کی کمیت ہمارے سورج سے بھی کئی گنا زیادہ ہو) آپس میں ٹکرا جائیں تو اس سے زبردست ثقلی لہریں پیدا ہوں گی جو ارد گرد کے سارے زمان و مکان کو گویا اوپر نیچے ہلاتی ہوئی پھیلتی چلی جائیں گی۔
ہمارے پاس کششِ ثقل کی لہریں دریافت کرنے کا یہی ایک راستہ تھا، اور یہی راستہ ایک نئی تحقیقی جستجو کا نقطۂ آغاز بھی بنا۔
ہوا یوں کہ 1950ء کی دہائی میں عمومی نظریہ اضافیت (جنرل تھیوری آف ریلیٹیویٹی) پر تحقیق کے نتیجے میں انکشاف ہوا کہ کششِ ثقل کی لہروں میں توانائی بھی ہوتی ہے۔ لہٰذا یہ امید پیدا ہوئی کہ انہیں کسی نہ کسی طور پر دریافت ضرور کیا جاسکتا ہے۔ علاوہ ازیں، یہ امکان بھی سامنے آیا کہ اگر بہت زیادہ کمیت والا کوئی جسم اپنی حرکت کی رفتار یا سمت تبدیل کرے یا پھر بہت زیادہ کمیت والے دو جسم آپس میں ٹکرائیں تو اس سے بھی کششِ ثقل کی انتہائی شدید لہریں خارج ہوں گی جو زمان و مکان (اسپیس ٹائم) میں زبردست اتار چڑھاؤ کی وجہ بنیں گی؛ اور اصولی طور پر ہمیں انہیں دریافت کرنے کے قابل ہونا چاہیے۔ یہ ''بہت زیادہ کمیت والے اجسام'' ممکنہ طور پر ''بلیک ہولز'' (Black Holes) ہوسکتے تھے۔
بلیک ہولز ایسے مُردہ ستارے ہوتے ہیں جن کی کمیت (Mass) ہمارے سورج کے مقابلے میں کہیں زیادہ ہوتی ہے اور ان کی کششِ ثقل اتنی طاقتور ہوتی ہے کہ روشنی بھی ان سے فرار نہیں ہوسکتی (اسی لیے انہیں بلیک ہول یعنی ''سیاہ سوراخ'' کہا جاتا ہے)۔ مگر تب تک خود بلیک ہولز کا معاملہ بھی صرف ایک مفروضے کی حد تک تھا اور انہیں باقاعدہ طور پر تسلیم نہیں کیا گیا تھا۔
البتہ 1970ء کے عشرے میں دو امریکی ماہرینِ فلکیات نے ریڈیو دوربینوں کی مدد سے ایک دوہرے پلسر (Double Pulsar) کا مشاہدہ کیا۔ دو پلسرز پر مشتمل اس نظام میں موجود دونوں پلسر بڑی تیزی سے نہ صرف ایک دوسرے کے گرد چکر لگا رہے تھے بلکہ ہر چکر میں ایک دوسرے سے قریب تر بھی ہوتے جارہے تھے۔
بتاتا چلوں کہ ''پلسر'' ایسے مُردہ ستارے ہوتے ہیں جن کی کمیت ہمارے سورج سے زیادہ ہوتی ہے اور لیکن جسامت صرف چند کلومیٹر جتنی ہی ہوتی ہے۔ چونکہ یہ صرف ''نیوٹرون'' ذرّات سے بنے ہوتے ہیں اس لیے انہیں ''نیوٹرون ستارے'' بھی کہا جاتا ہے؛ جو اس قبیل کے ستاروں کا قدرے مشہور نام بھی ہے۔ علاوہ ازیں، یہ اپنے محور (ایکسس) پر بڑی تیزی سے گردش کررہے ہوتے ہیں جبکہ ان کے قطبین (پولز) سے ریڈیو شعاعیں خارج ہورہی ہوتی ہیں۔ کسی پلسر/ نیوٹرون ستارے کی کثافت اتنی زیادہ ہوتی ہے کہ اگر وہاں سے صرف ایک چمچے جتنا مادّہ لے لیا جائے تو اس کی کمیت پورے ہمالیہ پہاڑ کی کمیت سے بھی کچھ زیادہ ہوگی... کائنات واقعی ہماری سوچ سے بھی زیادہ پراسرار ہے!
ان سائنسدانوں نے حساب لگا کر بتایا کہ ان پلسرز کی کمیت (یعنی مادّے کی مقدار) میں ہونے والی کمی، ان سے خارج ہونے والی ساری کی ساری قابلِ مشاہدہ توانائی کے مقابلے میں بھی زیادہ ہے۔ (واضح رہے کہ جدید طبیعیات کی دنیا میں مادّہ اور توانائی ایک ہی حقیقت کے دو روپ سمجھے جاتے ہیں۔) اب بھلا اس کا کیا مطلب تھا؟
اس کا مطلب یہ تھا کہ اِن پلسرز کا مادّہ کسی ایسی توانائی کی صورت میں بھی کم ہورہا تھا جس کا مشاہدہ ہم نہیں کرسکتے۔ جب انہوں نے عمومی نظریہ اضافیت استعمال کرتے ہوئے حساب لگایا تو معلوم ہوا کہ یہ مقدار تقریباً اتنی ہی تھی جتنی ثقلی لہروں کی شکل میں اس واقعے میں خارج ہونی چاہیے تھی۔ اس طرح ثقلی لہروں کے وجود کی اوّلین شہادت مل گئی، البتہ یہ انہیں ثابت کرنے کےلیے ناکافی تھی۔ انہیں پورے وثوق کے ساتھ دریافت کرنے کےلیے ہمیں کچھ اور بھی درکار تھا۔
1970ء کی دہائی بڑی تیزی سے گزرتی جارہی تھی اور اب تک ایک مرتبہ کششِ ثقل کی لہریں دریافت کرنے کا دعویٰ بھی کیا جاچکا تھا جو بعد ازاں غلط فہمی کا نتیجہ ثابت ہوا۔ البتہ تب تک فلکیات کے میدان میں کچھ نئی اور اہم پیش رفت ضرور ہوچکی تھی۔
مثلاً 1971ء میں ''سائگنس ایکس ون'' نامی ایک ستارے سے آنے والی ایکسریز کے بارے میں یہ خیال شدت اختیار کرگیا تھا کہ ان کی وجہ ایک ایسا بلیک ہول ہے جو اس چھوٹے ستارے سے اٹھنے والی گیس کو ہڑپ کررہا ہے؛ اور یہ گیس اس بلیک ہول میں گرنے سے ذرا پہلے زبردست ایکسریز خارج کرتی ہے جنہیں اس گیس کی ''آخری چیخ'' بھی کہا گیا۔
اگرچہ تب بھی ثقلی لہروں کا معاملہ ڈانواڈول تھا اور سائنسدانوں کی اکثریت یہ سمجھ رہی تھی کہ آئن اسٹائن کے عمومی نظریہ اضافیت میں کوئی نہ کوئی سنجیدہ خامی ضرور ہے جس کا نتیجہ یہ پیش گوئی ہے، لیکن پھر بھی چند ایک معتبر سائنسدانوں کو آئن اسٹائن کی اس پیش گوئی پر پورا یقین تھا۔ اسکاٹ لینڈ سے رونالڈ ڈریور جبکہ امریکا سے کِپ تھورن اور رینر وائیس ایسے ہی تین سائنسدان تھے۔ اگرچہ وہ یقین رکھتے تھے کہ ثقلی لہریں موجود ہیں لیکن وہ یہ بھی جانتے تھے کہ ان لہروں کو دریافت کرنا کوئی آسان کام نہیں؛ بلکہ اس کےلیے انہیں ایسے آلات وضع کرنے پڑیں گے جو کسی بھی قسم کی غلطی کے امکان سے پاک ہوں۔
یہ ہماری خوش نصیبی ہے کہ ہم کائنات کے ایک ایسے گوشے میں رہ رہے ہیں جو بہت پرسکون ہے۔ ہمارا سورج بھی اوسط درجے کا ایک ستارہ ہے جو بہت پرامن مزاج کا ہے۔ اس کے علاوہ ہمارے ''کائناتی پڑوس'' میں بھی نہ تو کوئی بلیک ہول ہے اور نہ کوئی ایسا خطرناک ستارہ جس سے اٹھنے والی بھیانک اور شدید لہریں ہمیں بھسم کرکے رکھ دیں۔ لیکن اس امن و سکون میں ایک خرابی بھی ہے: ہمارے ارد گرد ایسا کچھ نہیں جو غیرمعمولی طور پر شدید ثقلی لہریں خارج کرتا ہو، اور جنہیں ہم بہ آسانی دریافت بھی کرسکیں۔
ایسا کرنے کےلیے ضروری تھا کہ ہم دور دراز اجرامِ فلکی (خلاء میں پائے جانے والے اجسام) پر توجہ دیں۔ مگر یہاں بھی قباحت یہ تھی کہ بہت دُور سے آنے والی ثقلی لہریں بہت کمزور پڑجاتی ہیں؛ اور ان سے زمان و مکان میں پیدا ہونے والی اتھل پتھل بھی زمین تک پہنچتے پہنچتے بے حد معمولی رہ جاتی ہے۔ یہ اور ان جیسے دوسرے کئی علمی اور عملی مسائل کو مدنظر رکھتے ہوئے ان تینوں سائنسدانوں نے ایک اچھوتی چیز پر کام کرنے کا فیصلہ کیا۔
انہوں نے ایک بہت بڑے ''تداخل پیما'' (انٹرفیرومیٹر) کا تصور پیش کیا جس میں لیزر شعاعیں استعمال کی جانی تھیں۔ اصولی طور پر یہ ویسا ہی تداخل پیما تھا جس کا استعمال مائیکلسن اور مورلے نے اٹھارویں صدی کے اختتام پر اپنے مشہور تجربے میں کیا تھا؛ اور جس کی مدد سے انہوں نے ثابت کیا تھا کہ کائنات میں ''ایتھر'' (Ether) نامی چیز کا کوئی وجود نہیں۔ (انیسویں صدی میں یہ سمجھا جاتا تھا کہ خلاء میں سفر کرنے کرنے والی روشنی ایک نادیدہ واسطے (میڈیم) سے گزر کر ہم تک پہنچتی ہے، جسے ''ایتھر'' کا نام دیا گیا تھا۔ مائیکلسن اور مورلے نے اپنے مشہور تجربے سے ثابت کیا کہ ایتھر کا تصور ہماری خام خیالی تھا۔)
ڈریور، تھورن اور وائیس نے ایسے ہی ایک تداخل پیما پر کام شروع کیا جو مائیکلسن اور مورلے والے تجربے کے مقابلے میں بہت ہی بڑا تھا۔ بتاتا چلوں کہ یہی وہ آلہ ہے جو آج دنیا میں ''لائیگو'' (LIGO) یعنی ''لیزر انٹرفیرومیٹر گریوی ٹیشنل آبزرویٹری'' کے نام سے مشہور ہے اور جس کے چرچے آج کل سائنس کی خبروں میں ہو رہے ہیں۔
انگریزی حرف L کی شکل جیسا یہ آلہ (یعنی تداخل پیما یا انٹرفیرومیٹر) دو بازوؤں پر مشتمل ہوتا ہے جو ایک دوسرے سے عموداً (90 ڈگری کے زاویئے پر) مل رہے ہوتے ہیں۔ اس L کے ہر بازو کی لمبائی 3 کلومیٹر ہے۔ مائیکلسن اور مورلے نے اپنے تجربے میں عام روشنی استعمال کی تھی، لیکن ''لائیگو'' میں ایسی لیزر شعاعیں استعمال کی جاتی ہیں جن کا طول موج (wavelength) صرف 1064 نینومیٹر (یعنی ایک انسانی بال کے مقابلے میں بھی تقریباً 100 گنا باریک) ہوتا ہے۔
لائیگو کے L کی شکل والے ہر بازو میں دو بالکل یکساں لیزر شعاعیں ایک دوسرے سے 90 درجے کے زاویئے پر سفر کرتی ہیں۔ L کے دونوں بیرونی کناروں پر خاص آئینے لگے ہوتے ہیں جو اپنے سے ٹکرانے والی لیزر کو ٹھیک اسی سمت میں واپس لوٹا دیتے ہیں کہ جس سے وہ آئی ہوتی ہیں۔ واپس پلٹنے والی دونوں لیزر شعاعیں اس مقام پر ایک دوسرے سے ملتی ہیں جہاں اس دیو قامت L کے دونوں بازو ایک دوسرے سے مل رہے ہوتے ہیں۔
ایک دوسرے سے 90 درجے کا زاویہ بناتے ہوئے، ان دونوں لیزر شعاعوں کے آپس میں ملنے کی ترتیب کچھ یوں رکھی جاتی ہے کہ عام حالات میں یہ ایک دوسرے کی تنسیخ (cancellation) کردیتی ہیں؛ اور ان کے ملاپ والے مقام کے پیچھے نصب سراغ رساں آلے (ڈٹیکٹر) تک بہت ہی کم مقدار میں لیزر شعاعیں پہنچ پاتی ہیں۔
البتہ، اگر مناسب حد تک زیادہ شدت والی کوئی ثقلی لہر ''لائیگو'' میں سے گزرے گی تو (آئن اسٹائن کے عمومی نظریہ اضافیت کی بنیاد پر لگائے گئے حساب کتاب کے مطابق) اس کے دونوں بازوؤں کی لمبائی ایک دوسرے سے معمولی سی مختلف ہوجائے گی۔ تاہم یہ سب کچھ صرف ایک سیکنڈ کے ایک ہزارویں حصے سے بھی کم وقت میں ہوگا اور دونوں بازوؤں کی لمبائیوں میں آنے والا فرق بھی شاید ایک میٹر کے دس لاکھ ویں حصے سے کچھ کم ہی ہوگا۔
مگر اسی مختصر سے وقفے میں ہونے والی اس معمولی سی تبدیلی کا نتیجہ یہ نکلے گا کہ ڈٹیکٹر تک اچانک زیادہ مقدار میں لیزر شعاعیں پہنچیں گی اور چشمِ زدن میں سب کچھ معمول پر واپس آجائے گا۔ لائیگو کے خصوصی گراف پر یہ واقعہ معمول کی لہروں کے درمیان ایک واضح طور پر اونچی لہر کی حیثیت سے دیکھا جاسکے گا۔
اس اعلیٰ پائے کے حساس ترین مشاہدے کےلیے ضروری تھا کہ غلطی کا امکان بھی ہر ممکن حد تک کم رکھا جائے۔ اس مقصد کےلیے لیزر شعاعوں والے راستوں کو ہوا سے خالی یعنی ''ویکیوم'' بنایا گیا۔ ٹرکوں، انسانی قدموں اور زلزلوں سے زمین میں پیدا ہونے والے ارتعاش پر نظر رکھنے خصوصی آلات بنائے گئے تاکہ ان سے پیدا ہونے والے خلل کو اصل مشاہدے میں سے الگ کیا جاسکے۔ آئینوں کو انتہائی سرد ماحول میں اس طرح لٹکایا گیا کہ وہ بالکل ساکن رہیں؛ اور اگر ان میں معمولی سی بھی تھرتھراہٹ ہو تو اسے بھی نوٹ کیا جاتا رہے۔
غرض بہت سی تکنیکی مشکلوں اور مالی پریشانیوں سے گزرنے کے بعد، آخرکار لائیگو منصوبے کے تحت دو تجربہ گاہیں تعمیر ہو ہی گئیں: ایک ہینفرڈ، واشنگٹن میں اور دوسری لیونگسٹن، لیوزیانا میں۔ اگرچہ یہ دونوں تجربہ گاہیں بالکل ایک جیسی تھیں لیکن ان دونوں میں 3,000 کلومیٹر کا فاصلہ تھا۔ اتنے طویل فاصلے پر ایک جیسی دو تجربہ گاہیں بنانے کا مقصد مستند اور قابلِ بھروسہ مشاہدات کا حصول تھا، جبکہ بیک وقت دو تنصیبات سے ہونے والے یکساں مشاہدے کے ذریعے اس دُور دراز مقام کی نشاندہی بھی کسی حد تک ممکن تھی کہ جہاں سے یہ ثقلی لہریں پیدا ہوئی تھیں۔
لیکن ٹھہریئے جناب! جتنی آسانی سے یہ سب کچھ میں نے صرف چند پیراگرافوں میں بیان کردیا ہے، لائیگو اس کے مقابلے میں بے انتہاء مشکل منصوبہ ثابت ہوا۔ 1970ء سے 2010ء تک چالیس سال کے عرصے میں اس منصوبے پر تقریباً 42 کروڑ ڈالر خرچ ہوچکے تھے لیکن یہ کچھ بھی دریافت کرنے میں بالکل ناکام رہا تھا۔ اس کے باوجود، داد دیجیے اس سے وابستہ ماہرین کی ہمت کو کہ وہ پھر بھی ڈٹے رہے اور انہوں نے کہا کہ اگر کششِ ثقل کی لہریں دریافت کرنی ہیں تو پھر پہلے سے کہیں زیادہ حساس آلات (بشمول لیزر) درکار ہوں گے۔ انہوں نے جیسے تیسے کرکے امریکی کانگریس کو بھی اس بات پر قائل کرلیا اور یوں مزید 20 کروڑ ڈالر منظور کروالیے جو پانچ سالہ مدت میں خرچ ہونے تھے۔
لائیگو کی دونوں تنصیبات پانچ سال کےلیے بند کردی گئیں اور انہیں پہلے سے بھی بہتر، اور جدید تر بنانے کا کام شروع کردیا گیا۔ تب تک یہ صرف امریکی منصوبہ نہیں رہا تھا بلکہ اس میں دنیا بھر کے کم و بیش 70 ممالک سے تقریباً ایک ہزار سائنسدان شریک ہوچکے تھے۔ ستمبر 2015ء کی ابتداء میں ساری ضروری کارروائیاں مکمل ہوچکی تھیں جبکہ یہ تنصیبات اپنے ''سرکاری افتتاح'' سے پہلے ہی کام کا آغاز کرچکی تھیں۔
اور پھر یوں ہوا کہ افتتاحی تقریب سے صرف چار دن پہلے، یعنی 14 ستمبر 2015ء کی رات، لائیگو کی دونوں تنصیبات نے صرف ایک سیکنڈ کے ہزارویں حصے کے فرق سے پہلی بار کششِ ثقل کی لہریں دریافت کرلیں۔ یہ لہریں دو ایسے بلیک ہولز کے آپس میں ٹکرا کر ایک دوسرے میں ضم ہوجانے کے نتیجے میں پیدا ہوئی تھیں جو زمین سے 1 اَرب 30 کروڑ نوری سال دور واقع تھے۔ یعنی ان سے خارج ہونے والی ثقلی لہروں کو زمین تک پہنچنے میں 1 ارب 30 کروڑ سال لگے، اور تب تک وہ بہت ہی کمزور ہوچکی تھیں۔ البتہ لائیگو کے مزید ترقی یافتہ آلات اس قدر حساس تھے کہ انہوں نے یہ مدھم سی ثقلی لہریں (گریوی ٹیشنل ویوز) بھی ریکارڈ کرلیں۔
محتاط حساب لگانے پر معلوم ہوا کہ اس واقعے میں ایک دوسرے سے ٹکرانے والے بلیک ہولز کی کمیت ہمارے سورج کے مقابلے میں بالترتیب 29 اور 36 گنا زیادہ تھی۔ اس سے بھی زیادہ دلچسپ بات یہ معلوم ہوئی کہ اس تصادم کے نتیجے میں جو بلیک ہول وجود میں آیا تھا، اس کی کمیت ہمارے سورج سے 62 گنا زیادہ تھی۔ یعنی ایک سیکنڈ سے بھی کم وقت کےلیے ہونے والے اس بھیانک ٹکراؤ کے دوران ہمارے سورج جیسے 3 ستاروں جتنا مادّہ بڑی تیزی سے توانائی میں تبدیل ہوگیا، اور اس توانائی کا بڑا حصہ ثقلی لہروں کی صورت پوری کائنات میں ہر طرف پھیلتا چلا گیا۔
چند ماہ بعد، یعنی 11 فروری 2016ء کے روز، جب اس دریافت کا اعلان کیا گیا تو ساری دنیا کے سائنسی حلقوں میں ہلچل مچ گئی۔ سائنسدان اور سائنس کے چاہنے والے (جو اس دریافت کی اہمیت سے بخوبی واقف تھے) ایک دوسرے کو مبارکباد دینے لگے... اکیسویں صدی اپنی عظیم ترین سائنسی دریافت سے آشنا ہوئی۔
https://www.youtube.com/watch?v=wrqbfT8qcBc
لیکن یہ ''دی اینڈ'' نہیں ہے دوستو... پکچر ابھی باقی ہے میرے دوست!
26 دسمبر 2015ء کو لائیگو نے کششِ ثقل کی ایک اور لہر دریافت کی۔ یہ بھی دو بلیک ہولز کے آپس میں ٹکرا کر ضم ہونے کا نتیجہ تھی۔ یہ واقعہ ہم سے 1 ارب 40 کروڑ نوری سال دوری پر، آج سے 1 ارب 40 کروڑ سال پہلے رونما ہوا تھا۔ کششِ ثقل کی یہ والی لہریں، پچھلی دریافت شدہ لہروں کے مقابلے میں خاصی کمزور تھیں البتہ ان کا دورانیہ قدرے زیادہ یعنی تقریباً ایک سیکنڈ رہا تھا۔ حساب لگانے پر معلوم ہوا کہ یہ دو ایسے بلیک ہولز کے آپس میں ٹکرانے سے خارج ہوئی تھیں جن میں سے ایک کی کمیت ہمارے سورج سے تقریباً 14 گنا زیادہ جبکہ دوسرے کی کمیت ہمارے سورج سے لگ بھگ 8 گنا زیادہ تھی۔ البتہ، ان دونوں کے یکجا ہونے پر جو بڑا بلیک ہول وجود میں آیا تھا، اس کی اپنی کمیت ہمارے 21 سورجوں جتنی تھی۔ یعنی اس واقعے میں بھی ہمارے ایک سورج جتنا مادّہ صرف ایک سیکنڈ کے دوران توانائی میں تبدیل ہوگیا تھا؛ اور اس توانائی کا بڑا حصہ کششِ ثقل کی لہروں میں پھیلا تھا۔
2016ء میں تقریباً دس ماہ تک لائیگو کے آلات کو پہلے سے طے شدہ پروگرام کے تحت مزید بہتر اور اپ گریڈ کرنے کےلیے بند رکھا گیا۔ البتہ نومبر 2016ء وہ ایک بار پھر سے کائنات کی کھوج میں مصروف ہوگئے۔ جلد ہی تیسری کامیابی نے قدم چومے۔
4 جنوری 2017ء کو لائیگو نے ایک اور ثقلی لہر دریافت کی جو ہم سے تقریباً 3 ارب نوری سال دوری پر دو بلیک ہولز کے آپس میں ٹکرانے اور ایک دوسرے میں ضم ہوجانے سے پیدا ہوئی تھی۔ اب تک تو آپ اس کا مطلب بھی سمجھ گئے ہوں گے کہ یہ واقعہ آج سے تقریباً تین ارب سال پہلے پیش آیا تھا۔ اب کی بار ٹکرانے والے بلیک ہولز میں سے ایک کی کمیت ہمارے سورج سے 31 گنا زیادہ جبکہ دوسرے کی 19 گنا زیادہ معلوم ہوئی۔ محتاط تخمینہ جات سے یہ بھی معلوم ہوا کہ اس تصادم سے بننے والے بلیک ہول کی کمیت ہمارے سورج سے 48 گنا زیادہ تھی۔ یعنی، ایک بار پھر، بہت ہی مختصر وقت میں ہمارے 2 سورجوں جتنے مادّے نے توانائی کی صورت اختیار کرلی تھی، جس کا بڑا حصہ ثقلی لہروں کی شکل میں، زمان و مکان کے تانے بانے میں سونامی مچاتا ہوا، کائنات میں ہر طرف پھیل گیا تھا۔
یکم اگست 2017ء سے پیسا، اٹلی میں بھی لائیگو کی جڑواں یورپی تنصیبات ''وِرگو'' اپنے کام کا آغاز کرچکی تھیں۔ لائیگو کی دونوں تنصیبات سے اس کا فاصلہ تقریباً 7,000 کلومیٹر سے 9,000 کلومیٹر تک ہے۔ 14 اگست 2017ء کو لائیگو اور وِرگو کی تنصیبات نے کششِ ثقل کی ایک اور لہر دریافت کرلی۔ اب کی بار ہونے والا مشاہدہ پچھلے تین مشاہدات سے کم از کم 10 گنا زیادہ درست تھا۔ یہی نہیں بلکہ ان تینوں تنصیبات کی بنیاد پر اس جگہ کے بارے میں بھی اندازہ لگا لیا گیا تھا کہ جہاں سے یہ لہر آئی تھی۔ تخمینہ جات کے مطابق، کششِ ثقل کی یہ لہر دو ایسے بلیک ہولز کے آپس میں ٹکرانے اور ایک ہوجانے سے پیدا ہوئی تھی جن میں سے ایک ہمارے سورج سے 25 گنا جبکہ دوسرا 30 گنا زیادہ کمیت کا حامل تھا۔ اس تصادم سے وجود میں آنے والے بلیک ہول کی کمیت ہمارے سورج سے 52 گنا زیادہ تھی۔ یعنی اس واقعے میں ہمارے 3 سورجوں جتنا مادّہ یکایک توانائی میں بدل گیا تھا۔ پہلے کی طرح اس بار بھی وجود میں آنے والی توانائی کا بڑا حصہ کششِ ثقل کی لہروں کی صورت ساری کائنات میں پھیل گیا تھا۔ اور ہاں! یہ بتانا تو میں بھول ہی گیا کہ یہ واقعہ 1 ارب 4 کروڑ نوری سال سے 2 ارب 20 کروڑ نوری سال دوری پر کہیں ہوا تھا۔
ثقلی لہروں (گریوی ٹیشنل ویوز) کی دریافت سے پہلے تک ہمارے پاس کائنات کا مشاہدہ کرنے کےلیے صرف برقی مقناطیسی لہریں ہی موجود تھیں؛ چاہے وہ ریڈیو لہریں ہوں، انفراریڈ ہوں، مرئی روشنی (visible light) ہو، الٹرا وائیلٹ شعاعیں ہوں، ایکسریز ہوں، گیما شعاعیں ہوں یا پھر کائناتی شعاعیں۔ کائنات کو کھنگالنے اور کھوجنے کےلیے ہم صرف برقی مقناطیسی طیف (الیکٹرو میگنیٹک اسپیکٹرم) پر انحصار کرنے پر مجبور تھے۔
لیکن استادِ محترم ڈاکٹر شاہد قریشی (ڈائریکٹر، انسٹی ٹیوٹ آف اسپیس اینڈ پلینٹری ایسٹروفزکس) کے بقول، ''ثقلی لہروں کی دریافت نے ہمارے لیے ایک نئی کھڑکی کھول دی ہے، تحقیق و جستجو کا ایک نیا دریچہ کھول دیا ہے۔'' ثقلی فلکیات (گریوی ٹیشنل ایسٹرونومی) کا ظہور ہوچکا ہے، جس کی مدد سے ہم کائنات کے اُن سربستہ رازوں سے بھی پردہ اٹھا سکیں گے کہ جنہیں بے نقاب کرنا پہلے ہمارے بس میں نہیں تھا۔
اب تک جتنی بھی ثقلی لہریں دریافت ہوئی ہیں، وہ سب کی سب صرف بلیک ہولز کے آپس میں ملنے سے وجود میں آئی تھیں۔ لیکن سائنسی تحقیق ایک ایسی جدوجہد کا نام ہے جو کبھی نہیں رکتی۔ اس وقت بھی جبکہ میں یہ طولانی تحریر ٹائپ کررہا ہوں، لائیگو اور وِرگو کو مزید بہتر بنانے کے منصوبے موجود ہیں۔
اس بات کا تقریباً یقین ہے کہ عن قریب یہ منصوبے نیوٹرون ستاروں وغیرہ میں تصادم سے اٹھنے والی ثقلی لہریں بھی دریافت کرنا شروع ہوجائیں گے۔
ان دو منصوبوں کے علاوہ ٹوکیو یونیورسٹی، جاپان میں بھی ''کاگرا'' (KAGRA) کے نام سے ثقلی لہروں کا ایک اور سراغرساں اپنی تکمیل کے آخری مراحل پر ہے۔ امید ہے کہ یہ 2018ء تک کام شروع کردے گا۔
ہمارے پڑوس میں بھارت بھی ''انڈیگو'' (INDIGO) نامی منصوبے کے ذریعے ثقلی فلکیات کے میدان میں اُترنے کی تیاریاں کررہا ہے۔ سرِدست یہ منصوبہ اپنے ابتدائی مراحل پر ہے اس لیے یہ نہیں کہا جاسکتا کہ یہ کب تک پایہ تکمیل کو پہنچے گا (کیونکہ ابھی تک اس کےلیے جگہ کا تعین بھی نہیں کیا جاسکا ہے)۔
یورپی یونین میں بھی ''آئن اسٹائن ٹیلی اسکوپ'' کے نام سے ثقلی لہریں کھنگالنے کےلیے ایک منصوبے پر کام کیا جارہا ہے۔ کہا جارہا ہے کہ یہ ''تیسری نسل'' کی ثقلی رصد گاہ (گریوی ٹیشنل آبزرویٹری) ہوگی جس کی کارکردگی لائیگو اور وِرگو سے کہیں بہتر ہوگی۔ خیال ہے کہ اس کی تیاری بھی 2030ء کے عشرے میں کسی وقت مکمل ہوجائے گی۔
یہ تو ہوگئی زمین کی بات، لیکن خلاء میں بھی ایسی رصد گاہیں بھیجنے کے منصوبوں پر کام ہورہا ہے جو غالباً 2025ء سے 2040ء تک اپنے اپنے مداروں میں جاپہنچیں گے۔
اصولی طور پر ایسا ہر منصوبہ تین مصنوعی سیارچوں پر مشتمل ہوگا جو خلاء میں اس طرح سورج کے گرد چکر لگائیں گے کہ ان کا آپس میں فاصلہ بالکل بھی تبدیل نہیں ہوگا۔ زمین کی مانند خلاء میں بھی ان تینوں سیارچوں کی ترتیب ایسی ہوگی کہ جیسے تین نقطوں کی مدد سے انگریزی حرف L لکھ دیا گیا ہو۔ ان میں بھی لیزر شعاعیں استعمال کی جائیں گی، البتہ ان کے ہر بازو کی لمبائی (مجوزہ طور پر) کئی لاکھ کلومیٹر ہوگی۔
اس سلسلے کا پہلا منصوبہ ''لیزا'' (LISA) ہے جو امریکی خلائی تحقیقی ادارے ''ناسا'' اور یورپی خلائی ایجنسی (ای ایس اے) نے مشترکہ طور پر بنایا ہے۔ اگر سب کچھ ٹھیک رہا تو یہ 2035ء تک اپنے مدار میں پہنچ جائے گا اور، ممکنہ طور پر، آج کے مقابلے میں کہیں زیادہ درستگی کے ساتھ ثقلی لہروں کو دریافت کرسکے گا۔
جاپان بھی کسی سے پیچھے نہیں اور اس نے بھی ''ڈیسیگو'' (DECIGO) کے نام سے تین مصنوعی سیارچوں پر مشتمل منصوبہ خلاء میں بھیجنے کا ارادہ باندھ لیا ہے۔ اس کی متوقع تاریخ 2027ء بتائی گئی ہے۔
''تیانکن'' (TianQin) کے عنوان سے چین میں بھی ثقلی لہریں دریافت کرنے کے خلائی منصوبے پر کام ہورہا ہے جبکہ اس کے تینوں سیارچے خلاء میں پہنچا کر کام شروع کرنے کی تاریخ 2025ء تک مقرر کی گئی ہے۔
ان تمام معلومات سے ظاہر ہوتا ہے کہ ثقلی فلکیات نہ صرف وجود میں آچکی ہے بلکہ اپنی ترقی کی راہ پر گامزن بھی ہے۔ ہوسکتا ہے کہ آنے والے وقت میں نت نئی ثقلی لہروں اور ان کے طفیل ہونے والی منفرد دریافتوں کا معاملہ ہم انسانوں کےلیے معمول بن جائے۔ تب شاید کسی کو حیرت نہ ہو لیکن اگر ہم سنجیدگی سے، گہرائی میں اُتر کر غور و فکر کریں تو ہمیں جے بی ایس ہیلڈین کا قول بار بار یاد آئے گا:
یہ کائنات صرف یہ کائنات صرف اس سے زیادہ پراسرار نہیں کہ جتنا تم سوچتے ہو، بلکہ یہ اس سے بھی کہیں زیادہ پراسرار ہے کہ جتنا تم سوچ سکتے ہو۔
ہوسکتا ہے کہ اتنا سب کچھ پڑھنے اور دماغ کی دہی بنانے کے بعد آپ یہ سوچ رہے ہوں کہ آخر یہ اس سے مجھے کیا فائدہ ہوگا؟ تو اے میرے پیارے قارئین! یقین کیجیے اس سے آپ کو مادّی یا مالی طور پر کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔
یہ تحریر پڑھنے کے بعد جمہوریت مضبوط نہیں ہوگی، ملکی معیشت بھی بہتر نہیں ہوگی۔ نہ آئین بدلے گا اور نہ کوئی نیا قانون وجود میں آئے گا۔ ملازمتوں کے نئے مواقع بھی صرف معدودے چند لوگوں کےلیے ہی پیدا ہوں گے اور تنخواہیں بھی کچھ مخصوص افراد ہی کی بڑھیں گی؛ مجھے اور آپ کو کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔
لیکن اس سے انسانیت کا فائدہ ضرور ہوگا۔ کم از کم ایسے انسانوں کو ضرور فائدہ ہوگا جو اٹھتے بیٹھے اور اپنی کروٹوں پر لیٹے ہوئے غور و فکر کرتے ہیں کہ یہ سب کچھ کیسے وجود میں آیا ہے؟ اور یہ کہ آخر یہ ساری کی ساری کائنات، یہ تمام کا تمام کارخانۂ قدرت ایسا ہی کیوں ہے جیسا کہ یہ ہے؟ اگر آپ بھی ان ہی لوگوں میں شامل ہیں تو مجھے آپ کے تبصروں کا شدت سے انتظار رہے گا۔
اردو داں طبقہ آئے دن یہ شکایت کرتا رہتا ہے کہ انٹرنیٹ پر اُردو زبان میں سائنس اور ٹیکنالوجی کے بارے میں بہت کم مواد دستیاب ہے۔ ایسے تمام احباب سے گزارش ہے کہ یہ تحریر پڑھنے کے بعد وہ اس کے حسن و قبح سے اس ناچیز کو ضرور آگاہ کریں۔ اپنے طور پر پوری کوشش کی ہے کہ ایک بہت ہی دقیق، پیچیدہ اور مشکل موضوع کو ہر ممکن حد تک آسان، عام فہم اور دلچسپ بنایا جائے۔
میری یہ کوشش کس حد تک کامیاب رہی؟ یہ آپ کی رائے ہی سے مجھے پتا چل پائے گا۔ یہ بھی بتادوں کہ کششِ ثقل کی لہروں سے متعلق یہ مضمون میرے سائنسی صحافتی کیریئر کی مشکل ترین تحریروں میں سے ایک ہے؛ اور اسے پایہ تکمیل تک پہنچانے کےلیے میں نے اپنی کئی راتوں کی نیند خراب کی ہے۔ مگر پھر بھی میں نہیں جانتا کہ قارئین کے نقطہ نگاہ سے یہ محنت کامیاب ثابت ہوئی بھی یا نہیں۔
آپ سب کا بہت شکریہ
مشہور حیاتی کیمیا دان، جے بی ایس ہیلڈین نے کہا تھا: ''یہ کائنات صرف اس سے زیادہ پراسرار نہیں کہ جتنا تم سوچتے ہو، بلکہ یہ اس سے بھی کہیں زیادہ پراسرار ہے کہ جتنا تم سوچ سکتے ہو۔'' جب بھی کوئی نئی سائنسی دریافت، کوئی اہم پیش رفت سامنے آتی ہے، ہیلڈین کا یہ قول میرے ذہن میں گونجنے لگتا ہے۔ ہر نئی دریافت ہمیں احساس دلاتی ہے کہ ہم اس کائنات کے بارے میں، آفاق کی اس کارگۂ شیشہ گری کے بارے میں کتنا کم جانتے تھے؛ اور ہمیں نہیں معلوم کہ ابھی اور کیا کچھ جاننا، مزید کس قدر حیران ہونا باقی ہے۔
ہوسکتا ہے کہ دو ہفتے پہلے یہ خبر آپ کی نظروں سے بھی گزری ہو کہ اس سال یعنی 2017ء کا نوبل انعام برائے طبیعیات (فزکس) رینر وائیس، کِپ ایس تھورن اور بیری سی بیرش نامی تین سائنسدانوں کو مشترکہ طور پر دیا گیا ہے۔ طبیعیات کے میدان میں ان کی اہم ترین خدمت جس کے اعتراف میں انہیں اس سال کا نوبل انعام دیا گیا، یہ رہی کہ انہوں نے کششِ ثقل کی لہریں (گریوی ٹیشنل ویوز) دریافت کرنے والے عالمی منصوبوں ''لائیگو'' (LIGO) اور ''ورگو'' (VIRGO) کی منصوبہ بندی سے لے کر تکمیل تک، کم و بیش ہر مرحلے پر کلیدی کردار ادا کیا۔
اگر آپ سائنس سے سنجیدہ دلچسپی رکھتے ہیں تو پھر یہ بھی جانتے ہوں گے کہ کششِ ثقل کی لہریں دریافت کرنے کا پہلا اعلان پچھلے سال (فروری 2016ء میں) کیا گیا تھا اور اسے ''اکیسویں صدی کی عظیم ترین سائنسی دریافت'' بھی قرار دیا گیا تھا۔ ہوسکتا ہے کہ آپ نے یہ بھی پڑھ رکھا ہو کہ کششِ ثقل کی لہروں کی مذکورہ دریافت کو ''آئن اسٹائن کے عمومی نظریہ اضافیت کی حتمی فتح'' کہا جارہا ہے۔ یہ بات بھی بالکل درست ہے کیونکہ 1915ء میں، جب البرٹ آئن اسٹائن نے اپنا مشہور نظریہ اضافیت عمومی (جنرل تھیوری آف ریلیٹیویٹی) مکمل کیا تھا، تو اس نے کششِ ثقل کی لہروں کی پیش گوئی بھی کی تھی۔ مگر یہ لہریں کسی طور دریافت نہیں ہورہی تھیں اور ماہرین میں یہ خیال پروان چڑھنے لگا تھا کہ آئن اسٹائن سے کوئی غلطی ہوگئی تھی... آخر کو وہ بھی تو انسان ہی تھا ناں!
لیکن پورے سو سال بعد، بالترتیب 14 ستمبر 2015ء کو اور پھر 26 دسمبر 2015ء کے روز، امریکا میں عشروں سے جاری ایک عالمی تحقیقی منصوبے ''لائیگو'' (لیزر انٹرفیرومیٹر گریوی ٹیشنل ویو آبزرویٹری) نے زمین سے ایک ارب نوری سال سے بھی زیادہ فاصلے پر موجود دو بلیک ہولز میں تصادم سے پیدا ہونے والی ثقلی لہریں (گریوی ٹیشنل ویوز) دریافت کرلیں۔ البتہ آنجہانی کارل ساگان کے قول ''غیرمعمولی دعووں کو غیرمعمولی ثبوتوں کی ضرورت ہوتی ہے'' پر عمل کرتے ہوئے، یہ دریافت کرنے والے ماہرین نے اس کا اعلان کرنے سے پہلے اپنے مشاہدات پر باریک بینی سے نظرِ ثانی کرکے اطمینان کیا۔ یہی وجہ ہے کہ پہلی دریافت کا باضابطہ اعلان 11 فروری 2016ء کو کیا گیا۔ بعد ازاں 15 جون 2016ء کو اس دریافت کا باضابطہ اعلان کیا گیا جو 26 دسمبر 2015ء کے روز کی گئی تھی۔
قارئین کی دلچسپی کےلیے بتاتا چلوں کہ البرٹ آئن اسٹائن نے اسرائیل کے قیام کےلیے بہت جدوجہد کی تھی، لیکن جب اسے پیشکش ہوئی کہ وہ اسرائیل کا پہلا سربراہِ مملکت بنے تو اس نے شانِ بے نیازی سے کہا، ''سیاست چند روزہ چیز ہے، لیکن سائنس کی ایک مساوات ہمیشہ رہنے والی ہے،'' اور یہ پیشکش ٹھکرا دی۔ ثقلی لہروں کی دریافت نے اس قول کی صداقت ثابت کردی... آئن اسٹائن کی سو سال پرانی مساواتوں نے پوری ایک صدی بعد بھی خود کو زندۂ جاوید ثابت کر دکھایا۔
خیر، لائیگو نے جلد ہی ایک اور لہر دریافت کرلی، جس کا اعلان یکم جون 2017ء کے روز کیا گیا۔ دریں اثناء یورپ میں لائیگو جیسا ایک اور منصوبہ ''وِرگو'' (VIRGO) مکمل ہوگیا جس کی مشاہدہ گاہ (آبزرویٹری) نے یکم اگست 2017ء کے روز اٹلی کے تاریخی شہر پیسا میں اپنے کام کا آغاز کیا۔ 14 اگست 2017ء کے روز، جب پاکستان کی 70 ویں سالگرہ بڑے جوش و خروش سے منائی جارہی تھی، ان دونوں منصوبوں (لائیگو اور وِرگو) نے بیک وقت ایک اور ثقلی لہر دریافت کرلی؛ اور اب کی بار ہونے والا مشاہدہ پہلے کے مقابلے میں کہیں زیادہ درست اور کئی گنا بہتر بھی تھا۔ تاہم، استناد کے دستور پر سختی سے کاربند رہتے ہوئے انہوں نے ضابطے کی ساری کارروائیاں مکمل کیں اور یوں اس دریافت کا اعلان 26 ستمبر 2017ء کے روز کیا گیا۔
3 اکتوبر 2017ء کے روز رینر وائیس، بیری سی بیرش اور کِپ ایس تھورن کو ان ہی دریافتوں اور ان کے پسِ پشت کارفرما منصوبوں کی بنیاد پر طبیعیات (فزکس) کا نوبل انعام دیتے ہوئے دوام بخش دیا گیا؛ اور آئن اسٹائن بھی اپنے مرنے کے 62 سال بعد ایک بار پھر امر ہوگیا۔
مجھے یقین ہے کہ اگر آپ اس تحریر کو پڑھتے پڑھتے یہاں تک پہنچ گئے ہیں تو آپ پر اتنا ضرور واضح ہوگیا ہوگا کہ ثقلی لہروں (گریوی ٹیشنل ویوز) کی دریافت موجودہ صدی کا ایک غیرمعمولی واقعہ ہے۔ البتہ، قارئین کی اکثریت یہ سوچ رہی ہوگی (اور بجا طور پر یہ سوچ رہی ہوگی) کہ آخر یہ ماجرا کیا ہے؟ ثقلی لہریں ہوتی کیا ہیں؟ ان کی دریافت اتنی غیرمعمولی کیوں قرار دی جارہی ہے؟ اگلی سطور میں ایسے ہی کچھ سوالوں کے جوابات قدرے تفصیل سے دینے کی کوشش کروں گا۔
زمان و مکان کی چادر میں سلوٹیں
آئن اسٹائن کے نظریہ اضافیت عمومی (جنرل تھیوری آف ریلیٹیویٹی) نے کائنات کے بارے میں ہماری سمجھ بوجھ اور اندازِ نظر کو زبردست انقلاب سے ہم کنار کیا۔ مثلاً اس سے پہلے تک یہ سمجھا جاتا تھا کہ کائنات میں ''زمان'' یعنی وقت (ٹائم) اور ''مکان'' یعنی خلاء (اسپیس) دو الگ الگ چیزیں ہیں۔ لیکن نظریہ اضافیت عمومی میں آئن اسٹائن نے بتایا کہ زمان و مکان (ٹائم اینڈ اسپیس) آپس میں اس طرح ملے ہوئے ہیں جیسے کسی چادر میں تانے بانے (ایک دوسرے میں سے گزرتے ہوئے دھاگے) ہوتے ہیں؛ اور یہ دونوں مل کر ہی کائنات کو وجود بخشتے ہیں۔ یعنی ہم اس پوری کائنات کو زمان و مکان کی ایک ایسی (اور بہت ہی بڑی) چادر سمجھ سکتے ہیں جو بیک وقت بہت مضبوط بھی ہو اور انتہائی لچک دار بھی۔
جہاں بھی مادّہ ہوگا، وہاں کششِ ثقل (گریوی ٹیشنل فورس) بھی ضرور ہوگی۔ اور جہاں کششِ ثقل ہوگی، وہاں زمان و مکان کی اس چادر میں گڑھا بھی ضرور پڑے گا۔ اس بات کو سمجھنے کےلیے فرض کیجیے کہ آپ نے فوم کے نرم گدے پر ایک چادر بچھائی ہوئی ہے جس پر کوئی سلوٹ نہیں۔ جب اس چادر پر لوہے کا وزنی گولا رکھا جائے گا تو اس جگہ پر گڑھا بن جائے گا۔ گولے کا وزن جتنا زیادہ ہوگا، چادر میں پڑنے والا گڑھا بھی اتنا ہی گہرا اور نمایاں ہوگا، جبکہ اس سے چادر پر پڑنے والی سلوٹیں بھی اتنی ہی واضح ہوں گی۔
یہی وجہ ہے کہ آئن اسٹائن نے سیاروں سے لے کر عظیم الشان ستاروں اور کہکشاؤں تک کی کشش ثقل کو ''زمان و مکان میں پڑنے والی شکنیں'' قرار دیا۔ جس جگہ مادّہ جتنا زیادہ ہے، وہاں یہ شکنیں بھی اتنی ہی زیادہ ہیں۔ لیکن یہ تو صرف ابتداء تھی۔ (آگے بڑھنے سے پہلے اتنا واضح کردوں کہ کسی بھی جسم میں مادّے کی مقدار اس کی ''کمیت'' (ماس) کہلاتی ہے۔)
آئن اسٹائن کا یہ بھی کہنا تھا کہ اگر بہت زیادہ کمیت والا کوئی جسم، جس میں مادّے کی مقدار ہمارے سورج کے مقابلے میں بھی بہت زیادہ ہو، اپنی حرکت کی رفتار یا سمت تبدیل کرے گا تو اس سے زمان و مکان کی چادر میں زیادہ بڑی اور نمایاں سلوٹیں پیدا ہوں گی جو دور تک پھیلتی جائیں گی... جبکہ پھیلاؤ کے ساتھ ساتھ ان کی شدت بھی کم سے کم تر ہوتی چلی جائے گی۔ یہ بالکل ایسا ہی ہے کہ جب آپ کسی روشن بلب کے قریب ہوتے ہیں تو آپ کو اس کی روشنی بہت تیز محسوس ہوتی ہے۔ لیکن جیسے جیسے آپ اس سے دور ہوتے چلے جاتے ہیں، ویسے ویسے اس کی روشنی بھی مدھم اور کمزور پڑتی چلی جاتی ہے۔ یہاں تک کہ جب آپ اس بلب سے بہت دور نکل آئیں تو قریب رکھی ہوئی ایک موم بتی کی روشنی بھی آپ کو اس بلب کی روشنی سے زیادہ محسوس ہوگی۔ یہ سارا کھیل قربت اور دُوری کا ہے جناب!
اب کیونکہ آئن اسٹائن نے کششِ ثقل ہی کو زمان و مکان میں پڑنے والی سلوٹیں قرار دیا تھا، اس لیے زمان و مکان میں پیدا ہونے والے اس اُتار چڑھاؤ کو ''ثقلی لہروں'' (گریوی ٹیشنل ویوز) کا نام دیا گیا۔ آئن اسٹائن نے کہا کہ یہ کسی بھی مادّی جسم سے اٹھنے والی ایسی لہریں ہیں جو روشنی کی رفتار سے (یعنی تین لاکھ کلومیٹر فی سیکنڈ کی رفتار سے) دُور تک پھیلتی چلی جاتی ہیں۔ مطلب یہ کہ کششِ ثقل کی لہریں نہ صرف ہر مادّی جسم سے ہر وقت خارج ہوتی رہتی ہیں بلکہ یہ ساری کائنات میں ہر طرف پھیلی ہوئی بھی ہیں۔
اگر آپ ان لہروں کو سمجھنا چاہتے ہیں تو ایک بڑی سی چادر لے کر فرش پر بچھا دیجیے اور اسے ایک کونے سے پکڑ کر لہرائیے (جیسے بچے کھیلتے ہیں)۔ چادر میں ایک کونے سے لہریں اٹھیں گی جو (پھیلتی ہوئی) دوسرے کونے تک چلی جائیں گی۔ فرق صرف اتنا ہے کہ آئن اسٹائن کی مذکورہ مثال میں یہ چادر زمان و مکان (اسپیس ٹائم) کی تھی اور اس میں اٹھنے والی لہریں کششِ ثقل (گریویٹی) کی۔ لیکن بات اب بھی ختم نہیں ہوئی۔
سائنس ثبوت مانگتی ہے اور جو کچھ بھی آئن اسٹائن نے کہا، وہ ایک پیش گوئی تھی جو ہم سے مشاہدے کا تقاضا کررہی تھی۔ زمان و مکان میں اتھل پتھل مچاتے ہوئے آگے بڑھنے والی لہروں کا تصور سمجھنا ہی محال تھا (اور آج تک ہے)؛ پھر انہیں دریافت کرنا بھی کچھ کم دردِ سری نہیں۔ اگر ثقلی لہروں کا وجود مان بھی لیا جائے تو انہیں دریافت کیسے کریں گے؟
اپنی روزمرہ زندگی میں ہر وقت ہمارا سامنا کششِ ثقل سے پڑتا ہے۔ یہ وہی قوت ہے جس کی بدولت ہم اس زمین پر آرام سے چل پھر سکتے ہیں۔ اگر زمین کی کششِ ثقل ختم ہوجائے تو یہاں موجود ہر چیز اُڑنے لگے گی... کیا ہم اور کیا ہمارے مکان، کیا پیڑ پودے اور کیا چرند پرند، کیا سمندر اور کیا پہاڑ، غرض ہر چیز روئی کے گالوں کی طرح اِدھر اُدھر اڑنے لگے گی۔ اب آپ خود اندازہ لگالیجیے کہ زمینی کششِ ثقل خود انسان کےلیے کتنی اہم ہے۔ اگر کائنات کی بات کریں تو اسی کششِ ثقل نے ساری کی ساری کائنات کو سنبھالا ہوا ہے؛ اور کائنات اُس شکل میں ہمارے سامنے ہے کہ جیسے ہم اسے دیکھ رہے ہیں۔ قصہ مختصر یہ کہ کششِ ثقل اس کائنات کی سب سے معمولی لیکن سب سے اہم قوت بھی ہے۔
کششِ ثقل کی لہریں ہر جگہ پھیلی ہوئی ہیں۔ مگر سوال پھر وہی آتا ہے کہ آخر ہم ان لہروں کا مشاہدہ کیسے کرسکتے ہیں؟
خیالی تجربات اور تخیل کی پرواز
گھر کے باہر جب کسی گاڑی کا ہارن بجتا ہے تو اس سے آواز کی لہریں پیدا ہوتی ہیں جو ہمارے کانوں تک پہنچتی ہیں، اور ہمیں اندازہ ہوجاتا ہے کہ وہ گاڑی کہاں اور کس سمت میں ہے۔ کمرے کے ایک کونے میں جلتے ہوئے انرجی سیور کی روشنی جب ہماری آنکھوں تک پہنچتی ہے تو ہمیں معلوم ہوجاتا ہے کہ کمرے میں وہ کس جگہ لگا ہوا ہے۔ لیکن ثقلی لہروں (گریوی ٹیشنل ویوز) کا سراغ ہم کیسے لگائیں گے؟ ہم کیسے بتائیں گے کہ یہ ثقلی لہریں کس طرف سے آرہی ہیں اور ان کا ماخذ (سورس) کہاں واقع ہے؟
یہ سمجھنے کےلیے ہمارے تخیل کو بہت اونچی اُڑان بھرنا پڑے گی، بہت کچھ ایسا فرض کرنا پڑے گا جو حقیقی زندگی میں شاید ناممکن ہے... لیکن اگر کچھ ''ہٹ کر'' سمجھنا ہے تو کچھ ''ہٹ کر'' سوچنا بھی تو پڑے گا ناں!
فرض کیجیے کہ آپ کسی کھلے میدان میں بیٹھے ہیں جس کے بیچوں بیچ ایک بہت ہی بلند کلاک ٹاور (گھنٹہ گھر) نصب ہے۔ گھنٹہ گھر کی دیوقامت گھڑی میں سیکنڈ کی سوئیاں بھی حرکت کررہی ہیں جنہیں آپ دور سے دیکھ سکتے ہیں۔ آپ کے پاس بے حد حساس زلزلہ پیما ہے تاکہ زمین میں آنے والے معمولی سے زلزلے کو بھی محسوس کرسکیں۔ ہوا بھی بالکل رکی ہوئی ہے اور حبس کا عالم ہے۔ اچانک آپ کو لگتا ہے کہ کلاک ٹاور کی لمبائی کچھ کم ہوگئی ہے جبکہ اس کی گھڑی بھی سست پڑ گئی ہے۔ ابھی آپ ٹھیک سے حیران بھی نہیں ہوئے کہ اچانک ہی کلاک ٹاور اپنی اصل جسامت سے کچھ لمبا ہوگیا اور اس کی گھڑی بھی کچھ تیز ہوگئی... اور پھر اچانک سب کچھ معمول پر واپس آگیا، جیسے کچھ ہوا ہی نہیں تھا۔ آپ نے فوراً زلزلہ پیما کی طرف دیکھا لیکن وہاں بھی کسی زلزلے کے کوئی آثار دکھائی نہیں دیئے۔
اگر کچھ بھی نہیں ہوا تھا تو پھر یہ کیا ہوا تھا؟ کیا یہ آپ کے دماغ کا خلل تھا؟ کیا آپ کے دماغ میں ''کیمیکل لوچا'' ہوگیا تھا؟ نہیں! آپ کا دماغ صحیح سلامت تھا لیکن تخیل و تصور کی اس دنیا میں ایک ثقلی لہر اس کلاک ٹاور سے گزرتی ہوئی چلی گئی تھی۔ اسی نے کلاک ٹاور پر زمان و مکان کو اُتھل پتھل کیا تھا۔
کششِ ثقل کی کوئی بڑی لہر جب آگے بڑھتی ہے، تو اسی طرح سے زمان و مکان کو ہلاتی جلاتی ہوئی چلتی ہے... آپ اسے دیکھ نہیں سکتے، صرف اس کے ظاہری اثرات ہی محسوس کیے جاسکتے ہیں۔
اب (اگر یہ مثال آپ نے ہضم کرلی ہو) تو دوسرا سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ہمیں کیسے معلوم ہوگا کہ یہ ثقلی لہر (گریوی ٹیشنل ویو) کس سمت سے آرہی ہے۔ اس کےلیے بھی ایک اور خیالی منظرنامہ دیکھتے ہیں۔
تصور کیجیے کہ ایک بہت بڑا ہال ہے جہاں کوئی تقریب ہورہی ہے اور اس تقریب میں سارے شریف شرفاء موجود ہیں جو بڑی دھیمی آواز سے آپس میں باتیں کررہے ہیں۔ پورے ہال میں ہر طرف بھنبھناہٹ سی پھیلی ہوئی ہے۔ آپ سب سے الگ تھلگ، ایک کونے میں بیٹھے ہیں۔ آپ اتنا تو جانتے ہیں کہ ہال میں سارے لوگ بڑی دھیمی آواز میں باتیں کرنے میں مصروف ہیں، لیکن یہ نہیں بتاسکتے کہ اس بھنبھناہٹ میں سے کونسی آواز کس طرف سے آرہی ہے۔ اسی عالم میں دو شرارتی بچے بڑی خاموشی سے ہال کے اونچے اسٹیج پر چڑھ جاتے ہیں اور اپنے ہاتھوں میں پکڑے ہوئے غباروں کو ایک دوسرے سے ٹکراتے ہیں۔ آپس میں ٹکراتے ہی غبارے پھٹتے ہیں اور ایک زوردار دھماکا ہوتا ہے۔ ہال میں موجود سب لوگ دھماکے کی آواز سن کر اسٹیج کی طرف متوجہ ہوتے ہیں اور انہیں پتا چل جاتا ہے کہ یہ آواز اسٹیج کی طرف سے آئی ہے۔
کششِ ثقل کی لہریں بھی اس ہال میں ہر طرف پھیلی ہوئی بھنبھناہٹ کی مانند ہیں، یہ ہر طرف سے آرہی ہیں لیکن اس قدر مدھم اور کمزور ہیں کہ نہ تو ہم ان کا سراغ لگا سکتے ہیں اور نہ ہی ان کی سمت کا تعین کرسکتے ہیں۔ لیکن اگر بہت ہی زیادہ کمیت والے دو جسم (جن میں سے ہر ایک کی کمیت ہمارے سورج سے بھی کئی گنا زیادہ ہو) آپس میں ٹکرا جائیں تو اس سے زبردست ثقلی لہریں پیدا ہوں گی جو ارد گرد کے سارے زمان و مکان کو گویا اوپر نیچے ہلاتی ہوئی پھیلتی چلی جائیں گی۔
ہمارے پاس کششِ ثقل کی لہریں دریافت کرنے کا یہی ایک راستہ تھا، اور یہی راستہ ایک نئی تحقیقی جستجو کا نقطۂ آغاز بھی بنا۔
ہوا یوں کہ 1950ء کی دہائی میں عمومی نظریہ اضافیت (جنرل تھیوری آف ریلیٹیویٹی) پر تحقیق کے نتیجے میں انکشاف ہوا کہ کششِ ثقل کی لہروں میں توانائی بھی ہوتی ہے۔ لہٰذا یہ امید پیدا ہوئی کہ انہیں کسی نہ کسی طور پر دریافت ضرور کیا جاسکتا ہے۔ علاوہ ازیں، یہ امکان بھی سامنے آیا کہ اگر بہت زیادہ کمیت والا کوئی جسم اپنی حرکت کی رفتار یا سمت تبدیل کرے یا پھر بہت زیادہ کمیت والے دو جسم آپس میں ٹکرائیں تو اس سے بھی کششِ ثقل کی انتہائی شدید لہریں خارج ہوں گی جو زمان و مکان (اسپیس ٹائم) میں زبردست اتار چڑھاؤ کی وجہ بنیں گی؛ اور اصولی طور پر ہمیں انہیں دریافت کرنے کے قابل ہونا چاہیے۔ یہ ''بہت زیادہ کمیت والے اجسام'' ممکنہ طور پر ''بلیک ہولز'' (Black Holes) ہوسکتے تھے۔
بلیک ہولز ایسے مُردہ ستارے ہوتے ہیں جن کی کمیت (Mass) ہمارے سورج کے مقابلے میں کہیں زیادہ ہوتی ہے اور ان کی کششِ ثقل اتنی طاقتور ہوتی ہے کہ روشنی بھی ان سے فرار نہیں ہوسکتی (اسی لیے انہیں بلیک ہول یعنی ''سیاہ سوراخ'' کہا جاتا ہے)۔ مگر تب تک خود بلیک ہولز کا معاملہ بھی صرف ایک مفروضے کی حد تک تھا اور انہیں باقاعدہ طور پر تسلیم نہیں کیا گیا تھا۔
البتہ 1970ء کے عشرے میں دو امریکی ماہرینِ فلکیات نے ریڈیو دوربینوں کی مدد سے ایک دوہرے پلسر (Double Pulsar) کا مشاہدہ کیا۔ دو پلسرز پر مشتمل اس نظام میں موجود دونوں پلسر بڑی تیزی سے نہ صرف ایک دوسرے کے گرد چکر لگا رہے تھے بلکہ ہر چکر میں ایک دوسرے سے قریب تر بھی ہوتے جارہے تھے۔
بتاتا چلوں کہ ''پلسر'' ایسے مُردہ ستارے ہوتے ہیں جن کی کمیت ہمارے سورج سے زیادہ ہوتی ہے اور لیکن جسامت صرف چند کلومیٹر جتنی ہی ہوتی ہے۔ چونکہ یہ صرف ''نیوٹرون'' ذرّات سے بنے ہوتے ہیں اس لیے انہیں ''نیوٹرون ستارے'' بھی کہا جاتا ہے؛ جو اس قبیل کے ستاروں کا قدرے مشہور نام بھی ہے۔ علاوہ ازیں، یہ اپنے محور (ایکسس) پر بڑی تیزی سے گردش کررہے ہوتے ہیں جبکہ ان کے قطبین (پولز) سے ریڈیو شعاعیں خارج ہورہی ہوتی ہیں۔ کسی پلسر/ نیوٹرون ستارے کی کثافت اتنی زیادہ ہوتی ہے کہ اگر وہاں سے صرف ایک چمچے جتنا مادّہ لے لیا جائے تو اس کی کمیت پورے ہمالیہ پہاڑ کی کمیت سے بھی کچھ زیادہ ہوگی... کائنات واقعی ہماری سوچ سے بھی زیادہ پراسرار ہے!
ان سائنسدانوں نے حساب لگا کر بتایا کہ ان پلسرز کی کمیت (یعنی مادّے کی مقدار) میں ہونے والی کمی، ان سے خارج ہونے والی ساری کی ساری قابلِ مشاہدہ توانائی کے مقابلے میں بھی زیادہ ہے۔ (واضح رہے کہ جدید طبیعیات کی دنیا میں مادّہ اور توانائی ایک ہی حقیقت کے دو روپ سمجھے جاتے ہیں۔) اب بھلا اس کا کیا مطلب تھا؟
اس کا مطلب یہ تھا کہ اِن پلسرز کا مادّہ کسی ایسی توانائی کی صورت میں بھی کم ہورہا تھا جس کا مشاہدہ ہم نہیں کرسکتے۔ جب انہوں نے عمومی نظریہ اضافیت استعمال کرتے ہوئے حساب لگایا تو معلوم ہوا کہ یہ مقدار تقریباً اتنی ہی تھی جتنی ثقلی لہروں کی شکل میں اس واقعے میں خارج ہونی چاہیے تھی۔ اس طرح ثقلی لہروں کے وجود کی اوّلین شہادت مل گئی، البتہ یہ انہیں ثابت کرنے کےلیے ناکافی تھی۔ انہیں پورے وثوق کے ساتھ دریافت کرنے کےلیے ہمیں کچھ اور بھی درکار تھا۔
لائیگو (LIGO) کی آمد
1970ء کی دہائی بڑی تیزی سے گزرتی جارہی تھی اور اب تک ایک مرتبہ کششِ ثقل کی لہریں دریافت کرنے کا دعویٰ بھی کیا جاچکا تھا جو بعد ازاں غلط فہمی کا نتیجہ ثابت ہوا۔ البتہ تب تک فلکیات کے میدان میں کچھ نئی اور اہم پیش رفت ضرور ہوچکی تھی۔
مثلاً 1971ء میں ''سائگنس ایکس ون'' نامی ایک ستارے سے آنے والی ایکسریز کے بارے میں یہ خیال شدت اختیار کرگیا تھا کہ ان کی وجہ ایک ایسا بلیک ہول ہے جو اس چھوٹے ستارے سے اٹھنے والی گیس کو ہڑپ کررہا ہے؛ اور یہ گیس اس بلیک ہول میں گرنے سے ذرا پہلے زبردست ایکسریز خارج کرتی ہے جنہیں اس گیس کی ''آخری چیخ'' بھی کہا گیا۔
اگرچہ تب بھی ثقلی لہروں کا معاملہ ڈانواڈول تھا اور سائنسدانوں کی اکثریت یہ سمجھ رہی تھی کہ آئن اسٹائن کے عمومی نظریہ اضافیت میں کوئی نہ کوئی سنجیدہ خامی ضرور ہے جس کا نتیجہ یہ پیش گوئی ہے، لیکن پھر بھی چند ایک معتبر سائنسدانوں کو آئن اسٹائن کی اس پیش گوئی پر پورا یقین تھا۔ اسکاٹ لینڈ سے رونالڈ ڈریور جبکہ امریکا سے کِپ تھورن اور رینر وائیس ایسے ہی تین سائنسدان تھے۔ اگرچہ وہ یقین رکھتے تھے کہ ثقلی لہریں موجود ہیں لیکن وہ یہ بھی جانتے تھے کہ ان لہروں کو دریافت کرنا کوئی آسان کام نہیں؛ بلکہ اس کےلیے انہیں ایسے آلات وضع کرنے پڑیں گے جو کسی بھی قسم کی غلطی کے امکان سے پاک ہوں۔
یہ ہماری خوش نصیبی ہے کہ ہم کائنات کے ایک ایسے گوشے میں رہ رہے ہیں جو بہت پرسکون ہے۔ ہمارا سورج بھی اوسط درجے کا ایک ستارہ ہے جو بہت پرامن مزاج کا ہے۔ اس کے علاوہ ہمارے ''کائناتی پڑوس'' میں بھی نہ تو کوئی بلیک ہول ہے اور نہ کوئی ایسا خطرناک ستارہ جس سے اٹھنے والی بھیانک اور شدید لہریں ہمیں بھسم کرکے رکھ دیں۔ لیکن اس امن و سکون میں ایک خرابی بھی ہے: ہمارے ارد گرد ایسا کچھ نہیں جو غیرمعمولی طور پر شدید ثقلی لہریں خارج کرتا ہو، اور جنہیں ہم بہ آسانی دریافت بھی کرسکیں۔
ایسا کرنے کےلیے ضروری تھا کہ ہم دور دراز اجرامِ فلکی (خلاء میں پائے جانے والے اجسام) پر توجہ دیں۔ مگر یہاں بھی قباحت یہ تھی کہ بہت دُور سے آنے والی ثقلی لہریں بہت کمزور پڑجاتی ہیں؛ اور ان سے زمان و مکان میں پیدا ہونے والی اتھل پتھل بھی زمین تک پہنچتے پہنچتے بے حد معمولی رہ جاتی ہے۔ یہ اور ان جیسے دوسرے کئی علمی اور عملی مسائل کو مدنظر رکھتے ہوئے ان تینوں سائنسدانوں نے ایک اچھوتی چیز پر کام کرنے کا فیصلہ کیا۔
انہوں نے ایک بہت بڑے ''تداخل پیما'' (انٹرفیرومیٹر) کا تصور پیش کیا جس میں لیزر شعاعیں استعمال کی جانی تھیں۔ اصولی طور پر یہ ویسا ہی تداخل پیما تھا جس کا استعمال مائیکلسن اور مورلے نے اٹھارویں صدی کے اختتام پر اپنے مشہور تجربے میں کیا تھا؛ اور جس کی مدد سے انہوں نے ثابت کیا تھا کہ کائنات میں ''ایتھر'' (Ether) نامی چیز کا کوئی وجود نہیں۔ (انیسویں صدی میں یہ سمجھا جاتا تھا کہ خلاء میں سفر کرنے کرنے والی روشنی ایک نادیدہ واسطے (میڈیم) سے گزر کر ہم تک پہنچتی ہے، جسے ''ایتھر'' کا نام دیا گیا تھا۔ مائیکلسن اور مورلے نے اپنے مشہور تجربے سے ثابت کیا کہ ایتھر کا تصور ہماری خام خیالی تھا۔)
ڈریور، تھورن اور وائیس نے ایسے ہی ایک تداخل پیما پر کام شروع کیا جو مائیکلسن اور مورلے والے تجربے کے مقابلے میں بہت ہی بڑا تھا۔ بتاتا چلوں کہ یہی وہ آلہ ہے جو آج دنیا میں ''لائیگو'' (LIGO) یعنی ''لیزر انٹرفیرومیٹر گریوی ٹیشنل آبزرویٹری'' کے نام سے مشہور ہے اور جس کے چرچے آج کل سائنس کی خبروں میں ہو رہے ہیں۔
انگریزی حرف L کی شکل جیسا یہ آلہ (یعنی تداخل پیما یا انٹرفیرومیٹر) دو بازوؤں پر مشتمل ہوتا ہے جو ایک دوسرے سے عموداً (90 ڈگری کے زاویئے پر) مل رہے ہوتے ہیں۔ اس L کے ہر بازو کی لمبائی 3 کلومیٹر ہے۔ مائیکلسن اور مورلے نے اپنے تجربے میں عام روشنی استعمال کی تھی، لیکن ''لائیگو'' میں ایسی لیزر شعاعیں استعمال کی جاتی ہیں جن کا طول موج (wavelength) صرف 1064 نینومیٹر (یعنی ایک انسانی بال کے مقابلے میں بھی تقریباً 100 گنا باریک) ہوتا ہے۔
لائیگو کے L کی شکل والے ہر بازو میں دو بالکل یکساں لیزر شعاعیں ایک دوسرے سے 90 درجے کے زاویئے پر سفر کرتی ہیں۔ L کے دونوں بیرونی کناروں پر خاص آئینے لگے ہوتے ہیں جو اپنے سے ٹکرانے والی لیزر کو ٹھیک اسی سمت میں واپس لوٹا دیتے ہیں کہ جس سے وہ آئی ہوتی ہیں۔ واپس پلٹنے والی دونوں لیزر شعاعیں اس مقام پر ایک دوسرے سے ملتی ہیں جہاں اس دیو قامت L کے دونوں بازو ایک دوسرے سے مل رہے ہوتے ہیں۔
ایک دوسرے سے 90 درجے کا زاویہ بناتے ہوئے، ان دونوں لیزر شعاعوں کے آپس میں ملنے کی ترتیب کچھ یوں رکھی جاتی ہے کہ عام حالات میں یہ ایک دوسرے کی تنسیخ (cancellation) کردیتی ہیں؛ اور ان کے ملاپ والے مقام کے پیچھے نصب سراغ رساں آلے (ڈٹیکٹر) تک بہت ہی کم مقدار میں لیزر شعاعیں پہنچ پاتی ہیں۔
البتہ، اگر مناسب حد تک زیادہ شدت والی کوئی ثقلی لہر ''لائیگو'' میں سے گزرے گی تو (آئن اسٹائن کے عمومی نظریہ اضافیت کی بنیاد پر لگائے گئے حساب کتاب کے مطابق) اس کے دونوں بازوؤں کی لمبائی ایک دوسرے سے معمولی سی مختلف ہوجائے گی۔ تاہم یہ سب کچھ صرف ایک سیکنڈ کے ایک ہزارویں حصے سے بھی کم وقت میں ہوگا اور دونوں بازوؤں کی لمبائیوں میں آنے والا فرق بھی شاید ایک میٹر کے دس لاکھ ویں حصے سے کچھ کم ہی ہوگا۔
مگر اسی مختصر سے وقفے میں ہونے والی اس معمولی سی تبدیلی کا نتیجہ یہ نکلے گا کہ ڈٹیکٹر تک اچانک زیادہ مقدار میں لیزر شعاعیں پہنچیں گی اور چشمِ زدن میں سب کچھ معمول پر واپس آجائے گا۔ لائیگو کے خصوصی گراف پر یہ واقعہ معمول کی لہروں کے درمیان ایک واضح طور پر اونچی لہر کی حیثیت سے دیکھا جاسکے گا۔
اس اعلیٰ پائے کے حساس ترین مشاہدے کےلیے ضروری تھا کہ غلطی کا امکان بھی ہر ممکن حد تک کم رکھا جائے۔ اس مقصد کےلیے لیزر شعاعوں والے راستوں کو ہوا سے خالی یعنی ''ویکیوم'' بنایا گیا۔ ٹرکوں، انسانی قدموں اور زلزلوں سے زمین میں پیدا ہونے والے ارتعاش پر نظر رکھنے خصوصی آلات بنائے گئے تاکہ ان سے پیدا ہونے والے خلل کو اصل مشاہدے میں سے الگ کیا جاسکے۔ آئینوں کو انتہائی سرد ماحول میں اس طرح لٹکایا گیا کہ وہ بالکل ساکن رہیں؛ اور اگر ان میں معمولی سی بھی تھرتھراہٹ ہو تو اسے بھی نوٹ کیا جاتا رہے۔
غرض بہت سی تکنیکی مشکلوں اور مالی پریشانیوں سے گزرنے کے بعد، آخرکار لائیگو منصوبے کے تحت دو تجربہ گاہیں تعمیر ہو ہی گئیں: ایک ہینفرڈ، واشنگٹن میں اور دوسری لیونگسٹن، لیوزیانا میں۔ اگرچہ یہ دونوں تجربہ گاہیں بالکل ایک جیسی تھیں لیکن ان دونوں میں 3,000 کلومیٹر کا فاصلہ تھا۔ اتنے طویل فاصلے پر ایک جیسی دو تجربہ گاہیں بنانے کا مقصد مستند اور قابلِ بھروسہ مشاہدات کا حصول تھا، جبکہ بیک وقت دو تنصیبات سے ہونے والے یکساں مشاہدے کے ذریعے اس دُور دراز مقام کی نشاندہی بھی کسی حد تک ممکن تھی کہ جہاں سے یہ ثقلی لہریں پیدا ہوئی تھیں۔
لیکن ٹھہریئے جناب! جتنی آسانی سے یہ سب کچھ میں نے صرف چند پیراگرافوں میں بیان کردیا ہے، لائیگو اس کے مقابلے میں بے انتہاء مشکل منصوبہ ثابت ہوا۔ 1970ء سے 2010ء تک چالیس سال کے عرصے میں اس منصوبے پر تقریباً 42 کروڑ ڈالر خرچ ہوچکے تھے لیکن یہ کچھ بھی دریافت کرنے میں بالکل ناکام رہا تھا۔ اس کے باوجود، داد دیجیے اس سے وابستہ ماہرین کی ہمت کو کہ وہ پھر بھی ڈٹے رہے اور انہوں نے کہا کہ اگر کششِ ثقل کی لہریں دریافت کرنی ہیں تو پھر پہلے سے کہیں زیادہ حساس آلات (بشمول لیزر) درکار ہوں گے۔ انہوں نے جیسے تیسے کرکے امریکی کانگریس کو بھی اس بات پر قائل کرلیا اور یوں مزید 20 کروڑ ڈالر منظور کروالیے جو پانچ سالہ مدت میں خرچ ہونے تھے۔
لائیگو کی دونوں تنصیبات پانچ سال کےلیے بند کردی گئیں اور انہیں پہلے سے بھی بہتر، اور جدید تر بنانے کا کام شروع کردیا گیا۔ تب تک یہ صرف امریکی منصوبہ نہیں رہا تھا بلکہ اس میں دنیا بھر کے کم و بیش 70 ممالک سے تقریباً ایک ہزار سائنسدان شریک ہوچکے تھے۔ ستمبر 2015ء کی ابتداء میں ساری ضروری کارروائیاں مکمل ہوچکی تھیں جبکہ یہ تنصیبات اپنے ''سرکاری افتتاح'' سے پہلے ہی کام کا آغاز کرچکی تھیں۔
ابھی تو پارٹی شروع ہوئی ہے!
اور پھر یوں ہوا کہ افتتاحی تقریب سے صرف چار دن پہلے، یعنی 14 ستمبر 2015ء کی رات، لائیگو کی دونوں تنصیبات نے صرف ایک سیکنڈ کے ہزارویں حصے کے فرق سے پہلی بار کششِ ثقل کی لہریں دریافت کرلیں۔ یہ لہریں دو ایسے بلیک ہولز کے آپس میں ٹکرا کر ایک دوسرے میں ضم ہوجانے کے نتیجے میں پیدا ہوئی تھیں جو زمین سے 1 اَرب 30 کروڑ نوری سال دور واقع تھے۔ یعنی ان سے خارج ہونے والی ثقلی لہروں کو زمین تک پہنچنے میں 1 ارب 30 کروڑ سال لگے، اور تب تک وہ بہت ہی کمزور ہوچکی تھیں۔ البتہ لائیگو کے مزید ترقی یافتہ آلات اس قدر حساس تھے کہ انہوں نے یہ مدھم سی ثقلی لہریں (گریوی ٹیشنل ویوز) بھی ریکارڈ کرلیں۔
محتاط حساب لگانے پر معلوم ہوا کہ اس واقعے میں ایک دوسرے سے ٹکرانے والے بلیک ہولز کی کمیت ہمارے سورج کے مقابلے میں بالترتیب 29 اور 36 گنا زیادہ تھی۔ اس سے بھی زیادہ دلچسپ بات یہ معلوم ہوئی کہ اس تصادم کے نتیجے میں جو بلیک ہول وجود میں آیا تھا، اس کی کمیت ہمارے سورج سے 62 گنا زیادہ تھی۔ یعنی ایک سیکنڈ سے بھی کم وقت کےلیے ہونے والے اس بھیانک ٹکراؤ کے دوران ہمارے سورج جیسے 3 ستاروں جتنا مادّہ بڑی تیزی سے توانائی میں تبدیل ہوگیا، اور اس توانائی کا بڑا حصہ ثقلی لہروں کی صورت پوری کائنات میں ہر طرف پھیلتا چلا گیا۔
چند ماہ بعد، یعنی 11 فروری 2016ء کے روز، جب اس دریافت کا اعلان کیا گیا تو ساری دنیا کے سائنسی حلقوں میں ہلچل مچ گئی۔ سائنسدان اور سائنس کے چاہنے والے (جو اس دریافت کی اہمیت سے بخوبی واقف تھے) ایک دوسرے کو مبارکباد دینے لگے... اکیسویں صدی اپنی عظیم ترین سائنسی دریافت سے آشنا ہوئی۔
https://www.youtube.com/watch?v=wrqbfT8qcBc
لیکن یہ ''دی اینڈ'' نہیں ہے دوستو... پکچر ابھی باقی ہے میرے دوست!
26 دسمبر 2015ء کو لائیگو نے کششِ ثقل کی ایک اور لہر دریافت کی۔ یہ بھی دو بلیک ہولز کے آپس میں ٹکرا کر ضم ہونے کا نتیجہ تھی۔ یہ واقعہ ہم سے 1 ارب 40 کروڑ نوری سال دوری پر، آج سے 1 ارب 40 کروڑ سال پہلے رونما ہوا تھا۔ کششِ ثقل کی یہ والی لہریں، پچھلی دریافت شدہ لہروں کے مقابلے میں خاصی کمزور تھیں البتہ ان کا دورانیہ قدرے زیادہ یعنی تقریباً ایک سیکنڈ رہا تھا۔ حساب لگانے پر معلوم ہوا کہ یہ دو ایسے بلیک ہولز کے آپس میں ٹکرانے سے خارج ہوئی تھیں جن میں سے ایک کی کمیت ہمارے سورج سے تقریباً 14 گنا زیادہ جبکہ دوسرے کی کمیت ہمارے سورج سے لگ بھگ 8 گنا زیادہ تھی۔ البتہ، ان دونوں کے یکجا ہونے پر جو بڑا بلیک ہول وجود میں آیا تھا، اس کی اپنی کمیت ہمارے 21 سورجوں جتنی تھی۔ یعنی اس واقعے میں بھی ہمارے ایک سورج جتنا مادّہ صرف ایک سیکنڈ کے دوران توانائی میں تبدیل ہوگیا تھا؛ اور اس توانائی کا بڑا حصہ کششِ ثقل کی لہروں میں پھیلا تھا۔
2016ء میں تقریباً دس ماہ تک لائیگو کے آلات کو پہلے سے طے شدہ پروگرام کے تحت مزید بہتر اور اپ گریڈ کرنے کےلیے بند رکھا گیا۔ البتہ نومبر 2016ء وہ ایک بار پھر سے کائنات کی کھوج میں مصروف ہوگئے۔ جلد ہی تیسری کامیابی نے قدم چومے۔
4 جنوری 2017ء کو لائیگو نے ایک اور ثقلی لہر دریافت کی جو ہم سے تقریباً 3 ارب نوری سال دوری پر دو بلیک ہولز کے آپس میں ٹکرانے اور ایک دوسرے میں ضم ہوجانے سے پیدا ہوئی تھی۔ اب تک تو آپ اس کا مطلب بھی سمجھ گئے ہوں گے کہ یہ واقعہ آج سے تقریباً تین ارب سال پہلے پیش آیا تھا۔ اب کی بار ٹکرانے والے بلیک ہولز میں سے ایک کی کمیت ہمارے سورج سے 31 گنا زیادہ جبکہ دوسرے کی 19 گنا زیادہ معلوم ہوئی۔ محتاط تخمینہ جات سے یہ بھی معلوم ہوا کہ اس تصادم سے بننے والے بلیک ہول کی کمیت ہمارے سورج سے 48 گنا زیادہ تھی۔ یعنی، ایک بار پھر، بہت ہی مختصر وقت میں ہمارے 2 سورجوں جتنے مادّے نے توانائی کی صورت اختیار کرلی تھی، جس کا بڑا حصہ ثقلی لہروں کی شکل میں، زمان و مکان کے تانے بانے میں سونامی مچاتا ہوا، کائنات میں ہر طرف پھیل گیا تھا۔
یکم اگست 2017ء سے پیسا، اٹلی میں بھی لائیگو کی جڑواں یورپی تنصیبات ''وِرگو'' اپنے کام کا آغاز کرچکی تھیں۔ لائیگو کی دونوں تنصیبات سے اس کا فاصلہ تقریباً 7,000 کلومیٹر سے 9,000 کلومیٹر تک ہے۔ 14 اگست 2017ء کو لائیگو اور وِرگو کی تنصیبات نے کششِ ثقل کی ایک اور لہر دریافت کرلی۔ اب کی بار ہونے والا مشاہدہ پچھلے تین مشاہدات سے کم از کم 10 گنا زیادہ درست تھا۔ یہی نہیں بلکہ ان تینوں تنصیبات کی بنیاد پر اس جگہ کے بارے میں بھی اندازہ لگا لیا گیا تھا کہ جہاں سے یہ لہر آئی تھی۔ تخمینہ جات کے مطابق، کششِ ثقل کی یہ لہر دو ایسے بلیک ہولز کے آپس میں ٹکرانے اور ایک ہوجانے سے پیدا ہوئی تھی جن میں سے ایک ہمارے سورج سے 25 گنا جبکہ دوسرا 30 گنا زیادہ کمیت کا حامل تھا۔ اس تصادم سے وجود میں آنے والے بلیک ہول کی کمیت ہمارے سورج سے 52 گنا زیادہ تھی۔ یعنی اس واقعے میں ہمارے 3 سورجوں جتنا مادّہ یکایک توانائی میں بدل گیا تھا۔ پہلے کی طرح اس بار بھی وجود میں آنے والی توانائی کا بڑا حصہ کششِ ثقل کی لہروں کی صورت ساری کائنات میں پھیل گیا تھا۔ اور ہاں! یہ بتانا تو میں بھول ہی گیا کہ یہ واقعہ 1 ارب 4 کروڑ نوری سال سے 2 ارب 20 کروڑ نوری سال دوری پر کہیں ہوا تھا۔
ثقلی فلکیات، ایک نیا دریچہ
ثقلی لہروں (گریوی ٹیشنل ویوز) کی دریافت سے پہلے تک ہمارے پاس کائنات کا مشاہدہ کرنے کےلیے صرف برقی مقناطیسی لہریں ہی موجود تھیں؛ چاہے وہ ریڈیو لہریں ہوں، انفراریڈ ہوں، مرئی روشنی (visible light) ہو، الٹرا وائیلٹ شعاعیں ہوں، ایکسریز ہوں، گیما شعاعیں ہوں یا پھر کائناتی شعاعیں۔ کائنات کو کھنگالنے اور کھوجنے کےلیے ہم صرف برقی مقناطیسی طیف (الیکٹرو میگنیٹک اسپیکٹرم) پر انحصار کرنے پر مجبور تھے۔
لیکن استادِ محترم ڈاکٹر شاہد قریشی (ڈائریکٹر، انسٹی ٹیوٹ آف اسپیس اینڈ پلینٹری ایسٹروفزکس) کے بقول، ''ثقلی لہروں کی دریافت نے ہمارے لیے ایک نئی کھڑکی کھول دی ہے، تحقیق و جستجو کا ایک نیا دریچہ کھول دیا ہے۔'' ثقلی فلکیات (گریوی ٹیشنل ایسٹرونومی) کا ظہور ہوچکا ہے، جس کی مدد سے ہم کائنات کے اُن سربستہ رازوں سے بھی پردہ اٹھا سکیں گے کہ جنہیں بے نقاب کرنا پہلے ہمارے بس میں نہیں تھا۔
اب تک جتنی بھی ثقلی لہریں دریافت ہوئی ہیں، وہ سب کی سب صرف بلیک ہولز کے آپس میں ملنے سے وجود میں آئی تھیں۔ لیکن سائنسی تحقیق ایک ایسی جدوجہد کا نام ہے جو کبھی نہیں رکتی۔ اس وقت بھی جبکہ میں یہ طولانی تحریر ٹائپ کررہا ہوں، لائیگو اور وِرگو کو مزید بہتر بنانے کے منصوبے موجود ہیں۔
اس بات کا تقریباً یقین ہے کہ عن قریب یہ منصوبے نیوٹرون ستاروں وغیرہ میں تصادم سے اٹھنے والی ثقلی لہریں بھی دریافت کرنا شروع ہوجائیں گے۔
ان دو منصوبوں کے علاوہ ٹوکیو یونیورسٹی، جاپان میں بھی ''کاگرا'' (KAGRA) کے نام سے ثقلی لہروں کا ایک اور سراغرساں اپنی تکمیل کے آخری مراحل پر ہے۔ امید ہے کہ یہ 2018ء تک کام شروع کردے گا۔
ہمارے پڑوس میں بھارت بھی ''انڈیگو'' (INDIGO) نامی منصوبے کے ذریعے ثقلی فلکیات کے میدان میں اُترنے کی تیاریاں کررہا ہے۔ سرِدست یہ منصوبہ اپنے ابتدائی مراحل پر ہے اس لیے یہ نہیں کہا جاسکتا کہ یہ کب تک پایہ تکمیل کو پہنچے گا (کیونکہ ابھی تک اس کےلیے جگہ کا تعین بھی نہیں کیا جاسکا ہے)۔
یورپی یونین میں بھی ''آئن اسٹائن ٹیلی اسکوپ'' کے نام سے ثقلی لہریں کھنگالنے کےلیے ایک منصوبے پر کام کیا جارہا ہے۔ کہا جارہا ہے کہ یہ ''تیسری نسل'' کی ثقلی رصد گاہ (گریوی ٹیشنل آبزرویٹری) ہوگی جس کی کارکردگی لائیگو اور وِرگو سے کہیں بہتر ہوگی۔ خیال ہے کہ اس کی تیاری بھی 2030ء کے عشرے میں کسی وقت مکمل ہوجائے گی۔
یہ تو ہوگئی زمین کی بات، لیکن خلاء میں بھی ایسی رصد گاہیں بھیجنے کے منصوبوں پر کام ہورہا ہے جو غالباً 2025ء سے 2040ء تک اپنے اپنے مداروں میں جاپہنچیں گے۔
اصولی طور پر ایسا ہر منصوبہ تین مصنوعی سیارچوں پر مشتمل ہوگا جو خلاء میں اس طرح سورج کے گرد چکر لگائیں گے کہ ان کا آپس میں فاصلہ بالکل بھی تبدیل نہیں ہوگا۔ زمین کی مانند خلاء میں بھی ان تینوں سیارچوں کی ترتیب ایسی ہوگی کہ جیسے تین نقطوں کی مدد سے انگریزی حرف L لکھ دیا گیا ہو۔ ان میں بھی لیزر شعاعیں استعمال کی جائیں گی، البتہ ان کے ہر بازو کی لمبائی (مجوزہ طور پر) کئی لاکھ کلومیٹر ہوگی۔
اس سلسلے کا پہلا منصوبہ ''لیزا'' (LISA) ہے جو امریکی خلائی تحقیقی ادارے ''ناسا'' اور یورپی خلائی ایجنسی (ای ایس اے) نے مشترکہ طور پر بنایا ہے۔ اگر سب کچھ ٹھیک رہا تو یہ 2035ء تک اپنے مدار میں پہنچ جائے گا اور، ممکنہ طور پر، آج کے مقابلے میں کہیں زیادہ درستگی کے ساتھ ثقلی لہروں کو دریافت کرسکے گا۔
جاپان بھی کسی سے پیچھے نہیں اور اس نے بھی ''ڈیسیگو'' (DECIGO) کے نام سے تین مصنوعی سیارچوں پر مشتمل منصوبہ خلاء میں بھیجنے کا ارادہ باندھ لیا ہے۔ اس کی متوقع تاریخ 2027ء بتائی گئی ہے۔
''تیانکن'' (TianQin) کے عنوان سے چین میں بھی ثقلی لہریں دریافت کرنے کے خلائی منصوبے پر کام ہورہا ہے جبکہ اس کے تینوں سیارچے خلاء میں پہنچا کر کام شروع کرنے کی تاریخ 2025ء تک مقرر کی گئی ہے۔
ان تمام معلومات سے ظاہر ہوتا ہے کہ ثقلی فلکیات نہ صرف وجود میں آچکی ہے بلکہ اپنی ترقی کی راہ پر گامزن بھی ہے۔ ہوسکتا ہے کہ آنے والے وقت میں نت نئی ثقلی لہروں اور ان کے طفیل ہونے والی منفرد دریافتوں کا معاملہ ہم انسانوں کےلیے معمول بن جائے۔ تب شاید کسی کو حیرت نہ ہو لیکن اگر ہم سنجیدگی سے، گہرائی میں اُتر کر غور و فکر کریں تو ہمیں جے بی ایس ہیلڈین کا قول بار بار یاد آئے گا:
یہ کائنات صرف یہ کائنات صرف اس سے زیادہ پراسرار نہیں کہ جتنا تم سوچتے ہو، بلکہ یہ اس سے بھی کہیں زیادہ پراسرار ہے کہ جتنا تم سوچ سکتے ہو۔
مجھے کیا فائدہ ہوگا؟
ہوسکتا ہے کہ اتنا سب کچھ پڑھنے اور دماغ کی دہی بنانے کے بعد آپ یہ سوچ رہے ہوں کہ آخر یہ اس سے مجھے کیا فائدہ ہوگا؟ تو اے میرے پیارے قارئین! یقین کیجیے اس سے آپ کو مادّی یا مالی طور پر کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔
یہ تحریر پڑھنے کے بعد جمہوریت مضبوط نہیں ہوگی، ملکی معیشت بھی بہتر نہیں ہوگی۔ نہ آئین بدلے گا اور نہ کوئی نیا قانون وجود میں آئے گا۔ ملازمتوں کے نئے مواقع بھی صرف معدودے چند لوگوں کےلیے ہی پیدا ہوں گے اور تنخواہیں بھی کچھ مخصوص افراد ہی کی بڑھیں گی؛ مجھے اور آپ کو کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔
لیکن اس سے انسانیت کا فائدہ ضرور ہوگا۔ کم از کم ایسے انسانوں کو ضرور فائدہ ہوگا جو اٹھتے بیٹھے اور اپنی کروٹوں پر لیٹے ہوئے غور و فکر کرتے ہیں کہ یہ سب کچھ کیسے وجود میں آیا ہے؟ اور یہ کہ آخر یہ ساری کی ساری کائنات، یہ تمام کا تمام کارخانۂ قدرت ایسا ہی کیوں ہے جیسا کہ یہ ہے؟ اگر آپ بھی ان ہی لوگوں میں شامل ہیں تو مجھے آپ کے تبصروں کا شدت سے انتظار رہے گا۔
اختتامی گزارشات
اردو داں طبقہ آئے دن یہ شکایت کرتا رہتا ہے کہ انٹرنیٹ پر اُردو زبان میں سائنس اور ٹیکنالوجی کے بارے میں بہت کم مواد دستیاب ہے۔ ایسے تمام احباب سے گزارش ہے کہ یہ تحریر پڑھنے کے بعد وہ اس کے حسن و قبح سے اس ناچیز کو ضرور آگاہ کریں۔ اپنے طور پر پوری کوشش کی ہے کہ ایک بہت ہی دقیق، پیچیدہ اور مشکل موضوع کو ہر ممکن حد تک آسان، عام فہم اور دلچسپ بنایا جائے۔
میری یہ کوشش کس حد تک کامیاب رہی؟ یہ آپ کی رائے ہی سے مجھے پتا چل پائے گا۔ یہ بھی بتادوں کہ کششِ ثقل کی لہروں سے متعلق یہ مضمون میرے سائنسی صحافتی کیریئر کی مشکل ترین تحریروں میں سے ایک ہے؛ اور اسے پایہ تکمیل تک پہنچانے کےلیے میں نے اپنی کئی راتوں کی نیند خراب کی ہے۔ مگر پھر بھی میں نہیں جانتا کہ قارئین کے نقطہ نگاہ سے یہ محنت کامیاب ثابت ہوئی بھی یا نہیں۔
آپ سب کا بہت شکریہ