یہ فوج ہماری ہے
فوجی ترجمان نے اگر ملکی معیشت کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کیا ہے تو سچ کہا ہے
FAISALABAD:
پاکستان کے وزیر داخلہ کے بیان کا خلاصہ اور لبِ لباب یہ سمجھ میں آیا ہے کہ کسی فوجی ترجمان کے پاکستانی معیشت کی دگر گوںحالت زار کے بارے میں غیر ذمے دارانہ بیان سے پاکستان کی عالمی ساکھ متاثر ہو سکتی ہے۔ فوج کو ملک کی معیشت کے بارے میں بیانات اور تبصروں سے گریز کرنا چاہیے، فوج کے ترجمان نے کہا ہے کہ ان کا معیشت کے بارے میں بیان ان کی ذاتی رائے نہیں تھی بلکہ وہ جو کچھ بھی بولتے ہیں فوج کی ترجمانی میں ہی بولتے ہیں لیکن ان کو وزیر داخلہ کے بیان پر بطور سپاہی اور پاکستانی دکھ ہوا ہے۔
دوسری طرف ہمارے وزیرداخلہ نے کمال مہربانی کرتے ہوئے فوجی ترجمان کی پریس بریفنگ پر اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ وضاحت کے بعد معاملہ ختم ہو گیا ہے۔ پاکستان کے اہم ترین ادارے کی جانب سے سویلین حکومت کی معاشی پالیسی کے بارے میں اظہار رائے کے بعد ہماری حکومت کے وزیر داخلہ نے اپنی ناراضی کا اظہار کر کے کہیں واشنگٹن والوں کو خوش کرنے کی کوشش تو نہیں کی کیونکہ واشنگٹن والے ان دنوں شاید پاکستان کی سویلین حکومت کو اتنی زیادہ لفٹ نہیں کرا رہے اس لیے احسن اقبال صاحب نے وزارت خزانہ کے بارے میں فوج کے بیان کو آڑے ہاتھوں لیا کیونکہ ہمارے وزیر خزانہ اسحاق ڈار تو ان دنوں نیب کی پیشیاں بھگتنے میں مصروف ہیں ۔ سچی بات تو یہ ہے کہ مجھے اپنی آنکھوں اور کانوں پر یقین نہیں آیا لیکن غور سے دیکھا تو یہ سچ معلوم ہوا کہ وزیر داخلہ اپنی ہی فوج کے بارے میں بیان داغ رہے ہیں ۔
فوجی ترجمان نے اگر ملکی معیشت کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کیا ہے تو سچ کہا ہے کہ معیشت اور سیکیورٹی لازم و ملزوم ہیں اور آج کل کے جدید دور میں فوج کو اپنی پشت پر مضبوط معیشت کی بھی ضرورت ہے۔ بندوق کی گولی،آلات حرب ، فوجیوں کے روز مرہ کے اخراجات، تنخواہیں اور دوسری بے شمار ضروریات کے لیے مضبوط معیشت وقت کی اہم ترین ضرورت ہے۔
ہماری فوج میں جذبہ ایمانی بھی موجود ہے، اپنے نظریہ سے محبت بھی ہے، شہادت کی آرزو بھی ہے اور ان سب کے باوجود فوج وہ کامیاب ہوتی ہے جسے اس کے عوام اور سیاست دانوں کا اعتماد حاصل ہوتا ہے۔ہمارے حالات یہ ہیں کہ عوام تو ہر حال میں فوج کے شانہ بشانہ کھڑے ہیں لیکن ہمارے کم عقل سیاست دان ملک میں اپنی غلط پالیسیوں کی وجہ سے پیدا کی گئی خرابیوں کا ذمے دار فوج کو ٹھہرانے کی کوشش کر رہے ہیں اور اب تو صورتحال یہ سامنے آگئی ہے کہ کھلم کھلا اپنی ہی فوج کو تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے، اس کو سوکنوں کی طرح طعنے دیے جا رہے ہیں۔آپ اگر اپنے فوجی کو اس کی ضروریات کے مطابق رسد نہیں پہنچائیں گے تو وہ اپنے جذبہ ایمانی سے لڑتا تو رہے گا لیکن کب تک بغیر ہتھیاروں کے حفاظت کرے گا۔
اب جنگوں کی نوعیت بدل گئی ہے ،جذبہ ایمانی کے ساتھ ساتھ جدید آلات حرب بھی درکار ہیں اور ان آلات کو استعمال کرنے لیے ان میں گولیاں بھی ڈالنی پڑتی ہیں۔ ہمارے جوانوں میں جذبہ شہادت کی آرزو ہمیشہ زندہ رہی ہے۔ زیادہ پرانی بات نہیں کارگل کی جنگ میں ہمارے بہادر سپاہی کرنل شیر خان جس جرات سے لڑے ان کی بہادری کا اعتراف دشمن کی طرف سے بھی کیا گیا اور ان کے لیے نشان حید ر کی سفارش بھی کی۔
نپولین جیسا منصوبہ ساز سپہ سالار بھی روس پر حملہ کے بعد بھوک کے ہاتھوں مجبور ہو کر واپس لوٹنے پر مجبور ہو گیا تھا کیونکہ روسیوں نے بہتر جنگی حکمت عملی سے سرحدی دیہات خالی کر دیے اور وہاں سے ہر قسم کی خورو نوش کی اشیاء اور مویشی تک غائب کر دیے، جب نپولین کی فوج روس کو فتح کرنے ان کے سرحدی دیہات میں پہنچی پہلے تو اس کا سردی نے استقبال کیا اور بعد میں اشیائے خوردو نوش کے نہ ہونے سے نپولین کی آدھی سے زیادہ سپاہ ختم ہو گئی کیونکہ اس کو پیچھے سامان رسد نہیں مل سکا تھا، اس کے پیچھے صرف انقلاب فرانس کے نعرے تھے لیکن وہ نعرے فوج کی بھوک نہ مٹا سکے بلکہ آدھی فوج کو ہی کھا گئے اور نپولین لٹی پٹی فوج کے ساتھ واپس فرانس پہنچا ۔ دوسری جنگ عظیم میں روسیوں کا بھی سب سے زیادہ جانی نقصان رسد کی کمی کی وجہ سے ہی ہوا تھا اور فوج مرنا شروع ہو گئی تھی۔
یہ تو زیادہ پرانی باتیں تھیں، تازہ ترین مثال افغانستان میں موجود نیٹو افواج کے لیے مختلف اشیاء کی سپلائی کی ہے جب پاکستان کے راستے یہ سپلائی بند ہوئی تو امریکا جیساوسائل رکھنے والا ملک مشکلات میں گھر گیا ۔ سیاچن میں ہم اپنی سپاہ کو جس مشکل اور جاں جوکھوں میں ڈال کر سامان خورو نوش پہنچاتے ہیں وہ دنیا کے لیے ایک ناقابل یقین اور دیومالائی قصے ہیں۔
موجودہ دور میں قومی سلامتی کی تعریف وسیع ہو گئی ہے اور معیشت اس کا ایک بڑا حصہ ہے، فوج کا ساتھ ہر طبقہ فکر کے لوگ دیتے ہیں تب ہی فوج کا جذبہ جوان رہتا ہے اور فوج کامیاب ہوتی ہے۔ فوجی کے جذبات دل و دماغ میں پرورش پاتے ہیں اور جنگ کے موقع پر وہ ان کا اظہار کرتے ہیں، ہماری فوج کے نیچے سے تو سیاستدان زمین کھینچنے کی کو شش کر رہے ہیں اور ان کی طلب و رسد کے بارے میں ان کے تحفظات ہیںاور سیاستدان یہ چاہتے ہیں کہ فوج آئین وقانون کے تحت ان کے تابع رہے، بات درست ہے لیکن سیاست دان بھی تو اپنا قبلہ درست رکھیں، اب تو فوج نے یہ بات بھی واضح کر دی ہے کہ کوئی ٹیکنو کریٹ حکومت یا مارشل لاء نہیں آرہا ۔
خدارا فوج سے غیریت نہ برتیئے، اس کو اپنی ہی فوج سمجھئے، آپ کے لاکھ سیاسی اختلافات ہوں گے، آپ کی پسند نا پسند مختلف ہو گی لیکن فوج تو اپنی ہی ہے اور آپ کی حفاظت پر مامور ہے جس کی وجہ سے آپ کی سیاست بھی قائم ہے، ملک قائم ہے اور ملک کی سلامتی کی ذمے دار فوج ہے، آپ کی جمہوریت کو فوج نہیں جمہوری تقاضے پورے نہ ہونے سے خطرہ ہے۔
کافر ہے تو شمشیر پرکرتا ہے بھروسہ
مومن ہے تو بے تیغ بھی لڑتا ہے سپاہی
پاکستان کے وزیر داخلہ کے بیان کا خلاصہ اور لبِ لباب یہ سمجھ میں آیا ہے کہ کسی فوجی ترجمان کے پاکستانی معیشت کی دگر گوںحالت زار کے بارے میں غیر ذمے دارانہ بیان سے پاکستان کی عالمی ساکھ متاثر ہو سکتی ہے۔ فوج کو ملک کی معیشت کے بارے میں بیانات اور تبصروں سے گریز کرنا چاہیے، فوج کے ترجمان نے کہا ہے کہ ان کا معیشت کے بارے میں بیان ان کی ذاتی رائے نہیں تھی بلکہ وہ جو کچھ بھی بولتے ہیں فوج کی ترجمانی میں ہی بولتے ہیں لیکن ان کو وزیر داخلہ کے بیان پر بطور سپاہی اور پاکستانی دکھ ہوا ہے۔
دوسری طرف ہمارے وزیرداخلہ نے کمال مہربانی کرتے ہوئے فوجی ترجمان کی پریس بریفنگ پر اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ وضاحت کے بعد معاملہ ختم ہو گیا ہے۔ پاکستان کے اہم ترین ادارے کی جانب سے سویلین حکومت کی معاشی پالیسی کے بارے میں اظہار رائے کے بعد ہماری حکومت کے وزیر داخلہ نے اپنی ناراضی کا اظہار کر کے کہیں واشنگٹن والوں کو خوش کرنے کی کوشش تو نہیں کی کیونکہ واشنگٹن والے ان دنوں شاید پاکستان کی سویلین حکومت کو اتنی زیادہ لفٹ نہیں کرا رہے اس لیے احسن اقبال صاحب نے وزارت خزانہ کے بارے میں فوج کے بیان کو آڑے ہاتھوں لیا کیونکہ ہمارے وزیر خزانہ اسحاق ڈار تو ان دنوں نیب کی پیشیاں بھگتنے میں مصروف ہیں ۔ سچی بات تو یہ ہے کہ مجھے اپنی آنکھوں اور کانوں پر یقین نہیں آیا لیکن غور سے دیکھا تو یہ سچ معلوم ہوا کہ وزیر داخلہ اپنی ہی فوج کے بارے میں بیان داغ رہے ہیں ۔
فوجی ترجمان نے اگر ملکی معیشت کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کیا ہے تو سچ کہا ہے کہ معیشت اور سیکیورٹی لازم و ملزوم ہیں اور آج کل کے جدید دور میں فوج کو اپنی پشت پر مضبوط معیشت کی بھی ضرورت ہے۔ بندوق کی گولی،آلات حرب ، فوجیوں کے روز مرہ کے اخراجات، تنخواہیں اور دوسری بے شمار ضروریات کے لیے مضبوط معیشت وقت کی اہم ترین ضرورت ہے۔
ہماری فوج میں جذبہ ایمانی بھی موجود ہے، اپنے نظریہ سے محبت بھی ہے، شہادت کی آرزو بھی ہے اور ان سب کے باوجود فوج وہ کامیاب ہوتی ہے جسے اس کے عوام اور سیاست دانوں کا اعتماد حاصل ہوتا ہے۔ہمارے حالات یہ ہیں کہ عوام تو ہر حال میں فوج کے شانہ بشانہ کھڑے ہیں لیکن ہمارے کم عقل سیاست دان ملک میں اپنی غلط پالیسیوں کی وجہ سے پیدا کی گئی خرابیوں کا ذمے دار فوج کو ٹھہرانے کی کوشش کر رہے ہیں اور اب تو صورتحال یہ سامنے آگئی ہے کہ کھلم کھلا اپنی ہی فوج کو تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے، اس کو سوکنوں کی طرح طعنے دیے جا رہے ہیں۔آپ اگر اپنے فوجی کو اس کی ضروریات کے مطابق رسد نہیں پہنچائیں گے تو وہ اپنے جذبہ ایمانی سے لڑتا تو رہے گا لیکن کب تک بغیر ہتھیاروں کے حفاظت کرے گا۔
اب جنگوں کی نوعیت بدل گئی ہے ،جذبہ ایمانی کے ساتھ ساتھ جدید آلات حرب بھی درکار ہیں اور ان آلات کو استعمال کرنے لیے ان میں گولیاں بھی ڈالنی پڑتی ہیں۔ ہمارے جوانوں میں جذبہ شہادت کی آرزو ہمیشہ زندہ رہی ہے۔ زیادہ پرانی بات نہیں کارگل کی جنگ میں ہمارے بہادر سپاہی کرنل شیر خان جس جرات سے لڑے ان کی بہادری کا اعتراف دشمن کی طرف سے بھی کیا گیا اور ان کے لیے نشان حید ر کی سفارش بھی کی۔
نپولین جیسا منصوبہ ساز سپہ سالار بھی روس پر حملہ کے بعد بھوک کے ہاتھوں مجبور ہو کر واپس لوٹنے پر مجبور ہو گیا تھا کیونکہ روسیوں نے بہتر جنگی حکمت عملی سے سرحدی دیہات خالی کر دیے اور وہاں سے ہر قسم کی خورو نوش کی اشیاء اور مویشی تک غائب کر دیے، جب نپولین کی فوج روس کو فتح کرنے ان کے سرحدی دیہات میں پہنچی پہلے تو اس کا سردی نے استقبال کیا اور بعد میں اشیائے خوردو نوش کے نہ ہونے سے نپولین کی آدھی سے زیادہ سپاہ ختم ہو گئی کیونکہ اس کو پیچھے سامان رسد نہیں مل سکا تھا، اس کے پیچھے صرف انقلاب فرانس کے نعرے تھے لیکن وہ نعرے فوج کی بھوک نہ مٹا سکے بلکہ آدھی فوج کو ہی کھا گئے اور نپولین لٹی پٹی فوج کے ساتھ واپس فرانس پہنچا ۔ دوسری جنگ عظیم میں روسیوں کا بھی سب سے زیادہ جانی نقصان رسد کی کمی کی وجہ سے ہی ہوا تھا اور فوج مرنا شروع ہو گئی تھی۔
یہ تو زیادہ پرانی باتیں تھیں، تازہ ترین مثال افغانستان میں موجود نیٹو افواج کے لیے مختلف اشیاء کی سپلائی کی ہے جب پاکستان کے راستے یہ سپلائی بند ہوئی تو امریکا جیساوسائل رکھنے والا ملک مشکلات میں گھر گیا ۔ سیاچن میں ہم اپنی سپاہ کو جس مشکل اور جاں جوکھوں میں ڈال کر سامان خورو نوش پہنچاتے ہیں وہ دنیا کے لیے ایک ناقابل یقین اور دیومالائی قصے ہیں۔
موجودہ دور میں قومی سلامتی کی تعریف وسیع ہو گئی ہے اور معیشت اس کا ایک بڑا حصہ ہے، فوج کا ساتھ ہر طبقہ فکر کے لوگ دیتے ہیں تب ہی فوج کا جذبہ جوان رہتا ہے اور فوج کامیاب ہوتی ہے۔ فوجی کے جذبات دل و دماغ میں پرورش پاتے ہیں اور جنگ کے موقع پر وہ ان کا اظہار کرتے ہیں، ہماری فوج کے نیچے سے تو سیاستدان زمین کھینچنے کی کو شش کر رہے ہیں اور ان کی طلب و رسد کے بارے میں ان کے تحفظات ہیںاور سیاستدان یہ چاہتے ہیں کہ فوج آئین وقانون کے تحت ان کے تابع رہے، بات درست ہے لیکن سیاست دان بھی تو اپنا قبلہ درست رکھیں، اب تو فوج نے یہ بات بھی واضح کر دی ہے کہ کوئی ٹیکنو کریٹ حکومت یا مارشل لاء نہیں آرہا ۔
خدارا فوج سے غیریت نہ برتیئے، اس کو اپنی ہی فوج سمجھئے، آپ کے لاکھ سیاسی اختلافات ہوں گے، آپ کی پسند نا پسند مختلف ہو گی لیکن فوج تو اپنی ہی ہے اور آپ کی حفاظت پر مامور ہے جس کی وجہ سے آپ کی سیاست بھی قائم ہے، ملک قائم ہے اور ملک کی سلامتی کی ذمے دار فوج ہے، آپ کی جمہوریت کو فوج نہیں جمہوری تقاضے پورے نہ ہونے سے خطرہ ہے۔
کافر ہے تو شمشیر پرکرتا ہے بھروسہ
مومن ہے تو بے تیغ بھی لڑتا ہے سپاہی