نوبیل امن انعام ایک بروقت فیصلہ مگر

سیاست کے بین الاقوامی تناظر میں امن انعام کے لیے آئی کین کا انتخاب بے شک وقت کی اہم ضرورت ہے۔

2017 کا نوبیل امن انعام جس تنظیم آئی کین (انٹرنیشنل کیمپین ٹو ایبولش نیوکلیئر ویپن) کے حصے میں آیا ہے، آج سے قبل بہت کم لوگ اس کے نام سے واقف تھے ۔ آئی کین دراصل ایک سو ایک ممالک میں موجود 468 غیرسرکاری تنظیموں کا اتحاد ہے ۔ اس کا آغاز آسٹریلیا سے ہوا اور2007 میں ویانا میں اس کا باقاعدہ افتتاح کیا گیا ۔اس تنظیم نے سول سوسائٹی کوآرڈینیٹر کے طور پر خدمات پیش کرتے ہوئے نہ صرف بین الاقوامی تنظیموں اور تعلیمی اداروں کے ساتھ مل کرکام کیا ہے بلکہ حکومتوں سے بھی اپنے مقصد کے حصول میں اعانت لی ہے۔

اس سال نوبیل امن انعام کے حوالے سے اندازے لگائے جا رہے تھے کہ شاید یہ انعام شامی رضاکاروں کی تنظیم ''وائٹ ہیلمٹ'' کے حصے میں آئے گا، لیکن اس کی حق دار آئی کین قرار پائی، جو ایٹمی ہتھیاروں پر پابندی کی حمایت میں اضافے کی تحریک چلا رہی ہے۔ اس کے نتیجے میں 122 ممالک نے دنیا کو ایٹمی ہتھیاروں سے پاک کرنے کی غرض سے اقوام متحدہ کے پیش کردہ ایک معاہدے پر دستخط بھی کردیے ہیں، جو آئی کین کی شان دارکامیابی ہے۔

تنظیم کی ایگزیکٹیو ڈائریکٹر بیٹرس فہن نے نوبیل امن انعام حاصل کرنے کے بعد اپنی تقریر میں کہا کہ جنگی اصولوں کے تحت عام شہریوں کو نشانہ نہیں بنایا جاسکتا، لیکن ایٹمی ہتھیاروں کے استعمال کا مقصد ہی انسانی آبادی کو صفحہ ہستی سے مٹا کر خطے کو نیست ونابود کردینا ہے، جوکسی طور پر قبول نہیں کیا جاسکتا، لہٰذا اب ایٹمی ہتھیاروں کا کوئی بہانہ کارگر نہیں ہوسکے گا۔

آئی کین پوری دنیا میں ایٹمی ہتھیاروں کے متعلق شعور اجاگر کرنے کا فرض انجام دے رہی ہے ۔ اس کے لیے نہ صرف ریلیوں کا انعقاد کیا جاتا ہے بلکہ تعلیمی داروں میں جاکر اس موضوع پر طلبا سے گفتگوکی جاتی ہے اور انھیں ہیروشیما اور ناگا ساکی پر ایٹمی حملوں کے نتیجے میں ہونے والی تباہ کاریوں پر مبنی ویڈیوز بھی دکھائی جاتی ہیں۔اس کے علاوہ اس کا نہایت اہم کام ان بینکوں، انشورنس کمپنیوں اور دیگر مالیاتی اداروں کے بارے میں معلومات حاصل کرنا ہے، جہاں سے نیوکلیائی ہتھیاروں کے شعبے میں سرمایہ کاری کے لیے رقوم کے تبادلے کیے جاتے ہیں۔ یہ تنظیم ان معلومات پر مبنی سالانہ رپورٹ تیار کر کے حکومتی اداروں کو بھیجتی ہے۔

اس کی حالیہ رپورٹ کے مطابق امریکا، برطانیہ، فرانس اور بھارت بالترتیب ایٹمی ہتھیاروں کی تیاری میں سب سے زیادہ سرمایہ کاری کر رہے ہیں۔ آئی کین اس سرمایہ کاری کو روکنے کے لیے نہ صرف درخواست کرتی ہے اور خطوط لکھتی ہے بلکہ مالیاتی اداروں سے سرمایہ کاری کے اس عمل کو قانونی ثابت کرنے کا مطالبہ بھی کرتی ہے۔ اس کے مطابق یہ مالیاتی ادارے ایٹمی اسلحے کی تیاری کو آسان بنانے میں نہایت اہم کردار ادا کر رہے ہیں۔

آئی کین کو قدم جمانے کے لیے پلیٹ فارم ناروے نے فراہم کیا۔ میکسیکو کے ذریعے اس نے براعظم امریکا تک رسائی حاصل کی، آسٹریلیا نے حلف کی پاس داری کرتے ہوئے اپنی 127 ریاستوں کو غیرمسلح قرار دے دیا۔ آگے کی ذمے داری آئی کین نے خود سنبھالی، لیکن یہ سوال نہایت اہم ہے کہ کیا صرف معاہدوں کے ذریعے ایٹمی ہتھیاروں کی روک تھام کی جاسکتی ہے؟

ماضی میں بھی ایٹمی ہتھیاروں کی تخفیف کے کئی معاہدے پیش کیے گئے لیکن وہ معاہدے وقت کے ہاتھوں انھیں ریاستوں کی سرحدوں پر پامال ہوئے۔ اس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ جوہری ریاستوں کو یہ یقین دلانا سب سے مشکل امر ہے کہ وہ ان ہتھیاروں کے بغیر بھی محفوظ ہیں۔ آج بھی امریکا اور روس کے اٹھارہ سو طویل فاصلے پر مارکرنے والے میزائل دس سے پندرہ منٹ کے اندر قیامت برپا کردینے کو تیارکھڑے ہیں۔


ایٹمی طاقتوں میں سے توکوئی بھی ان ہتھیاروں میں تخفیف کا متمنی ہی نہیں بلکہ امریکا، روس اور چین اپنے اپنے ایٹمی میزائلوں اور آبدوزوں کو مزید جدت دینے میں مگن ہیں۔ اس خطرناک صورت حال میں آئی کین کی کاوشوں کو سراہنا بلاشبہ اہم ہے، لیکن اگر ان تحریکوں اورکاوشوں کا مقصد دیگر تحریکوں کی طرح یہی ہو کہ بس طاقتور ممالک ہی ایٹمی صلاحیت کے اہل ٹھہریں اور نافرمان اورکمزور ممالک کو ڈرا دھمکا کر دور رکھا جائے تو اس امتیازی رویے سے دنیا میں مزید بغاوت پھیلے گی، جس کے نتیجے میں ہر ملک ایٹمی ہتھیاروں کی تیاری کی جانب مائل ہوگا، اس طرح جوہری ہتھیاروں سے دنیا کبھی پاک نہیں ہو سکے گی۔ لہٰذا آئی کین کو اپنی تمام مہمات نیک نیتی اور انصاف کے اصولوں کے ساتھ آگے بڑھانی ہوں گی۔ ورنہ یہ کاوشیں کبھی بار آور ثابت نہیں ہوسکیں گی۔

سیاست کے بین الاقوامی تناظر میں امن انعام کے لیے آئی کین کا انتخاب بے شک وقت کی اہم ضرورت ہے۔ شمالی کوریا اور امریکا ایٹمی جنگ مسلط کرنے کو ایک دوسرے کے سر پر کھڑے ہیں۔ جنگ کی وجوہات کو ختم کرکے اقوام کو تنازعات کے سیاسی اور سفارتی حل کی طرف لانے سے ہی انسانیت کی ممکنہ ہونے والی بربادی کو روکا جا سکتا ہے۔

دیکھنے میں تو ایٹمی ہتھیار دنیا کے صرف نو ممالک کے پاس ہیں لیکن یہ پوری دنیا کے لیے سنگین خطرہ ہیں۔ امن کا نوبیل انعام اس سے قبل بھی ایٹمی ہتھیاروں کے خاتمے پرکام کرنے والے ادارے کو دیا جاچکا ہے، لیکن اب آئی کین کو اس کا حق دار بنانے سے وہ بحثیں پھر گرم ہوگئی ہیں جو ایٹمی اسلحے کے حوالے سے چھڑی ہوئی تھیں۔ شام میں کیمیائی بموں کے بدترین حملوں نے دنیا کو خواب غفلت سے جھنجھوڑ دیا اور اب ہر ذی شعور اس مسئلے کی سنگینی کو محسوس کررہا ہے۔

اس وقت پوری دنیا میں سترہ ہزار ایٹمی ہتھیار ہیں جن کا نوے فی صد امریکا اور روس کے پاس ہے۔ یہ ہتھیار مہلک نہیں بلکہ مہلک ترین ہیں، جو تباہی لانے کے لیے جنبشِ ابروکے منتظر ہیں۔ سرد جنگ کے خاتمے کے بعد امریکا، روس، برطانیہ اور فرانس نے ایٹمی ہتھیاروں میں تخفیف کی تھی، لیکن اس دہائی میں یہ جنون پھر اپنی انتہا کو پہنچ چکا ہے۔ شمالی کوریا بھی نیوکلیائی کلب میں شامل ہو چکا ہے۔ اس کے علاوہ ان ممالک کی تعداد بھی بہت ہے جہاں خفیہ طور ایٹمی صلاحیت کے حصول کی کاوشیں تیزی سے جاری ہیں، جس کی بڑی وجہ ان ملکوں میں پیدا ہونے والا احساسِ عدم تحفظ ہے۔

میرے نزدیک ایٹمی ہتھیاروں میں اضافے کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ اب خالد بن ولیدؓ، طارق بن زیاد اور صلاح الدین ایوبی جیسی جری اور بہادر شخصیات سے دنیا محروم ہے بلکہ زمام کار بزدلوں اور کمزوروں کے ہاتھ میں ہے، جن کا اپنی سلامتی کے لیے مکمل انحصار ایٹمی ہتھیاروں پر ہے۔

دفاعی ضرورت کے نام پر ایٹمی ہتھیاروں کی تیاری کا کوئی جواز قبول ہی نہیں کیا جاسکتا۔ یہ ایٹمی ہتھیار انسانیت کو نیست و نابود کرکے زمین کا امن تو تاراج بعد میں کریں گے، پہلے تو ان کی وجہ سے انسان ایسی دنیا میں سانس لینے پر مجبور کیا جا رہا ہے جہاں ہر طرف خوف ہی خوف ہے۔ وہی خوف جس سے بچنے کے لیے حضرت انسان نے دن رات کا سکون خود پر حرام کرکے ترقی کا سفر شروع کیا تھا۔ لیکن یہی ترقی واپس انسان کو اسی خوف اور احساس عدم تحفظ میں دھکیل دے گی، اس کا یقیناً کبھی سوچا بھی نہ ہو گا۔ لگتا ہے جس اندھیرے، ظلم، ناانصافی اور جہالت سے انسان نے سفر شروع کیا تھا وقت کا چکر اس کو گھما کر پھر اسی نقطہ آغاز پر لے جا رہا ہے جہاں وہ انسانیت کے ہر تصور سے نابلد تھا۔

دنیا بھر میں جنگوں اور نیوکلیائی اسلحے کے خلاف تحریکیں اور تنظیمیں جنم لے رہی ہیں، عوامی شعور پہلے سے کہیں زیادہ بلند ہے، لیکن دنیا کی ٹھیکے داری پر مامور طبقات کا غرور یوں ہی قائم رہا اور اپنے سیاسی مفادات کے حصول کے لیے طاقت کا ایسے ہی سفاکانہ استعمال کیا جاتا رہا تو کسی بھی معاہدے پر کامیابی سے عمل نہیں ہو سکے گا اور ساری تحریکیں رائیگاں جائیں گی، کسی بھی تنظیم کو امن کے نوبیل انعام سے نوازکر اس کی خدمات کا اعتراف تو کیا جا سکتا ہے لیکن اس سے دنیا میں حقیقی امن قائم نہیں کیا جا سکتا۔

دنیا کو جوہری ہتھیاروں سے پاک کرنے کا واحد حل یہ ہے کہ جو ممالک اس دوڑ میں شریک ہیں، وہ اپنے ہتھیار یکسر تلف کر دیں۔ ایٹم بم جیسے مہلک کھلونے صرف حاکموں کی وحشی ذہنیت کی تسکین کا باعث ہیں، اپنے اس شوق کو پورا کرنے کے لیے وہ عوام کی بنیادی ضرورتوں کا سودا کرتے ہیں اور میزائل پر میزائل داغ کر کامیابی کا ڈھنڈورا پیٹتے ہیں ۔ کاش اس لغو اور بے ہودہ تصور سے دنیا کو نجات مل سکے اور امن کا نوبیل انعام حقیقی امن قائم کرنے والوں کے حصے میں آئے۔
Load Next Story