سیاسی مشاورت کا فقدان
سیاسی مشاورت میں فقدان کسی ایک جماعت کا نہیں ہر چھوٹی بڑی سیاسی جماعت کا مسئلہ ہے۔
ISLAMABAD:
یہ حقیقت ہے کہ ملک کی تمام سیاسی جماعتوں میں جمہوریت نہیں ہے۔ صرف جماعت اسلامی کے لیے کہا جاتا ہے کہ جماعت میں جمہوریت اس حد تک ہے کہ اس کے امیرکا باقاعدہ انتخاب وقت مقررہ پر جماعت کے اپنے طریقہ کارکے تحت خفیہ ووٹنگ کے ذریعے ہوتا ہے، جس میں ملک بھر کے مقررہ اہلیت کے ارکان خفیہ طور پر نئے امیرکو ووٹ دیتے ہیں۔ جماعت کے طریقہ کار کے مطابق کوئی رہنما ازخود امیدوار نہیں بنتا بلکہ تین رہنماؤں کے نام تجویز ہوتے ہیں جن میں زیادہ ووٹ لینے والے کو امیر منتخب کرلیا جاتا ہے اور نو منتخب امیر باہمی مشاورت سے جماعت کے دیگر عہدیداروں کا تقرر کرتے ہیں۔
جماعت اسلامی میں صرف امیر جماعت کا انتخاب ہوتا ہے اور باقی مرکزی اور صوبائی عہدوں پر نامزدگیاں ہوتی ہیں اور مقررہ مدت کے بعد ہی امیر سابق ہوتا ہے اور وہ بااختیار ہوتا ہے کہ وہ امیر کی حیثیت سے فیصلے کرے۔ جماعت اسلامی کے 2013 میں انتخابات کے بائیکاٹ کے فیصلے سے کراچی میں جماعت اسلامی کو نقصان پہنچا تھا اور غیر متوقع اور اچانک بائیکاٹ سے جماعت کراچی سے کوئی بھی نشست حاصل نہ کرسکی تھی جو غالباً جماعت اسلامی کے ذمے داروں کا آپس میں مشاورت نہ کرنے کا نتیجہ تھی۔
پنجاب کے وزیراعلیٰ میاں شہباز شریف نے مسلم لیگ(ن) کی مرکزی کونسل کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے اپنے بڑے بھائی نواز شریف کو (ن) لیگ کے سینئر رہنماؤں سے مشاورت کرنے کا جو مفید مشورہ دیا ہے وہ اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ ملک میں سیاسی مشاورت کا فقدان ہے۔ مسلم لیگ (ن) میں سیاسی مشاورت کے فقدان کو شہباز شریف نے بھی محسوس کیا۔ انھوں نے یہ بھی محسوس کیا کہ نواز شریف نے اپنے ایک سینئر ساتھی چوہدری نثار علی خان کو جو اہم وفاقی وزیر بھی تھے کو پانامہ لیکس کے معاملے میں مشاورت سے محروم رکھا جس کی شکایت خود چوہدری نثار نے بھی کی اور وہ نظرانداز کیے جانے پر خاقان عباسی کی کابینہ میں بھی شامل نہیں ہوئے تھے۔
سیاسی مشاورت میں فقدان کسی ایک جماعت کا نہیں ہر چھوٹی بڑی سیاسی جماعت کا مسئلہ ہے۔ میاں نواز شریف نے 1999 میں جنرل پرویز مشرف کی برطرفی کے وقت وزیر اعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف سے بھی مشورہ نہیں کیا تھا کیونکہ انھیں یقین تھا کہ شہباز شریف انھیں ایسا نہ کرنے دیتے اور نواز شریف کی حکومت بھی بچ جاتی مگر میاں نواز شریف نے اس وقت شہباز شریف کو اور اب چوہدری نثار کو نظرانداز کیا اور سیاسی مشاورت نہ کی۔
سابق وزیراعظم ذوالفقارعلی بھٹو اگر اپنے دور اقتدار میں اپنے سینئر رہنماؤں سے مشاورت کرتے تو ممکن ہے جولائی1977 کا ضیا مارشل لا نہ لگتا ۔ مرحوم بھٹوکے من مانے فیصلوں کے باعث ان کے سینئر ساتھی ڈاکٹرمبشر حسن، محمود قصوری، مختار رانا، معراج محمد خان، محمد حنیف رامے، رسول بخش تالپور، حاکم علی زرداری اور دیگر رہنما پی پی چھوڑنے پر مجبور نہ ہوتے۔
عمران خان نے تحریک انصاف بنائی تو انھیں جمہوریت پسند سمجھ کر ملک کے مشہور سیاستدان پی ٹی آئی میں شامل ہوگئے تھے مگر بعد میں عمران خان کی پارٹی سے معراج محمد خان، جسٹس وجیہہ الدین، اکبر ایس بابر اور دیگر رہنما کیوں مایوس ہوکر، پی ٹی آئی چھوڑگئے تھے اس پر عمران خان نے کبھی نہیں سوچا۔ مسلم لیگ (ن) میں طویل عرصہ اقتدار میں رہ کر میاں نواز شریف نے کبھی سوچا کہ سردار ذوالفقار کھوسہ، غوث علی شاہ، لیاقت جتوئی، ظفر علی شاہ اور دیگر سینئر لیگی رہنما ان سے جدا ہونے پرکیوں مجبور ہوئے۔
سابق صدر آصف علی زرداری نے اپنے کہے الفاظ اور پی پی کے اصولوں کو نظرانداز کرکے چوہدریوں کو حکومت میں شامل کرنے کا فیصلہ کیا تھا مگر آج کے اصول پرست میاں رضا ربانی، چوہدری اعتزاز کو اس وقت اعتراض کرنے کی ہمت نہیں ہوئی تھی ۔ آج بھی پیپلز پارٹی میں اصول پرست کہلانے والے رہنماؤں میں جرأت نہیں کہ وہ زرداری صاحب کے من مانے فیصلے کی مخالفت کرسکیں یہ جرأت زرداری کی بیٹیوں نے کی تو عرفان اللہ مروت پیپلز پارٹی میں شامل نہ ہوسکے۔ مسلم لیگ (ن) میں نواز شریف کے فیصلے سے اختلاف شہباز شریف اور چوہدری نثار ہی کرنے کی جرأت رکھتے ہیں اور مخدوم جاوید ہاشمی پی ٹی آئی کے صدر ہوکر عمران خان سے اختلاف کی سزا بھگت چکے ہیں۔
من مانے فیصلوں پر تو اے این پی میں اسفند یار ولی نے اپنی والدہ کو ناراض کردیا تھا اور بڑھاپے میں قوم پرست رسول بخش پلیجو بھی بیٹے سے خفا ہوکر اپنی عوامی تحریک بحال کرنے پر مجبور ہوئے۔
الطاف حسین کی خودسری اور من مانی متحدہ میں برداشت کی جاتی رہی جو مصطفی کمال نے چیلنج کی اور پھر ایک سال پہلے متحدہ اپنے بانی سے الگ ہونے پر مجبور ہوئی جس کی ساری ذمے داری خود الطاف حسین پر عائد ہوتی ہے جو ساتھیوں پر حکم چلاتے تھے اور مشاورت نہیں کرتے تھے۔ یہ حقیقت ہے کہ جماعت اسلامی کے سوا ہر سیاسی جماعت اپنے بانی کی جاگیر ہے جس میں اختلاف رائے برداشت کرنے کا اصول ہے ہی نہیں بلکہ پارٹی میں اختلافی باتیں میڈیا پر آجانے کے بعد دعویٰ کیا جاتا ہے کہ پارٹی میں اختلاف رائے جمہوریت کا حسن ہے۔
ہر پارٹی میں سینئر اور نظریاتی رہنما پیچھے ہوگئے ہیں اور پارٹی سربراہ پر دولت نچھاورکرنے والے اور خوشامدی صف اول میں بیٹھے نظر آتے ہیں ان کی سب سے بڑی خوبی سربراہ کی ہاں میں ہاں ملانا رہ گیا ہے اور عہدے بھی ایسے لوگوں کو دیے جاتے ہیں ۔ ہر پارٹی میں سینئر رہنماؤں کو نظراندازکرنا ان کے سربراہوں نے اپنا اصول بنا رکھا ہے۔ جنرل پرویز مشرف کی آمریت میں اقتدارکے مزے لوٹنے والے آج مسلم لیگ (ن)، پیپلز پارٹی اور پی ٹی آئی میں نمایاں ہیں اور ان کی شمولیت کی کہیں مخالفت نہیں ہوئی کیونکہ ایسے لوگ ہر سیاسی پارٹی کی ضرورت بنے ہوئے ہیں۔
یہ حقیقت ہے کہ ملک کی تمام سیاسی جماعتوں میں جمہوریت نہیں ہے۔ صرف جماعت اسلامی کے لیے کہا جاتا ہے کہ جماعت میں جمہوریت اس حد تک ہے کہ اس کے امیرکا باقاعدہ انتخاب وقت مقررہ پر جماعت کے اپنے طریقہ کارکے تحت خفیہ ووٹنگ کے ذریعے ہوتا ہے، جس میں ملک بھر کے مقررہ اہلیت کے ارکان خفیہ طور پر نئے امیرکو ووٹ دیتے ہیں۔ جماعت کے طریقہ کار کے مطابق کوئی رہنما ازخود امیدوار نہیں بنتا بلکہ تین رہنماؤں کے نام تجویز ہوتے ہیں جن میں زیادہ ووٹ لینے والے کو امیر منتخب کرلیا جاتا ہے اور نو منتخب امیر باہمی مشاورت سے جماعت کے دیگر عہدیداروں کا تقرر کرتے ہیں۔
جماعت اسلامی میں صرف امیر جماعت کا انتخاب ہوتا ہے اور باقی مرکزی اور صوبائی عہدوں پر نامزدگیاں ہوتی ہیں اور مقررہ مدت کے بعد ہی امیر سابق ہوتا ہے اور وہ بااختیار ہوتا ہے کہ وہ امیر کی حیثیت سے فیصلے کرے۔ جماعت اسلامی کے 2013 میں انتخابات کے بائیکاٹ کے فیصلے سے کراچی میں جماعت اسلامی کو نقصان پہنچا تھا اور غیر متوقع اور اچانک بائیکاٹ سے جماعت کراچی سے کوئی بھی نشست حاصل نہ کرسکی تھی جو غالباً جماعت اسلامی کے ذمے داروں کا آپس میں مشاورت نہ کرنے کا نتیجہ تھی۔
پنجاب کے وزیراعلیٰ میاں شہباز شریف نے مسلم لیگ(ن) کی مرکزی کونسل کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے اپنے بڑے بھائی نواز شریف کو (ن) لیگ کے سینئر رہنماؤں سے مشاورت کرنے کا جو مفید مشورہ دیا ہے وہ اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ ملک میں سیاسی مشاورت کا فقدان ہے۔ مسلم لیگ (ن) میں سیاسی مشاورت کے فقدان کو شہباز شریف نے بھی محسوس کیا۔ انھوں نے یہ بھی محسوس کیا کہ نواز شریف نے اپنے ایک سینئر ساتھی چوہدری نثار علی خان کو جو اہم وفاقی وزیر بھی تھے کو پانامہ لیکس کے معاملے میں مشاورت سے محروم رکھا جس کی شکایت خود چوہدری نثار نے بھی کی اور وہ نظرانداز کیے جانے پر خاقان عباسی کی کابینہ میں بھی شامل نہیں ہوئے تھے۔
سیاسی مشاورت میں فقدان کسی ایک جماعت کا نہیں ہر چھوٹی بڑی سیاسی جماعت کا مسئلہ ہے۔ میاں نواز شریف نے 1999 میں جنرل پرویز مشرف کی برطرفی کے وقت وزیر اعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف سے بھی مشورہ نہیں کیا تھا کیونکہ انھیں یقین تھا کہ شہباز شریف انھیں ایسا نہ کرنے دیتے اور نواز شریف کی حکومت بھی بچ جاتی مگر میاں نواز شریف نے اس وقت شہباز شریف کو اور اب چوہدری نثار کو نظرانداز کیا اور سیاسی مشاورت نہ کی۔
سابق وزیراعظم ذوالفقارعلی بھٹو اگر اپنے دور اقتدار میں اپنے سینئر رہنماؤں سے مشاورت کرتے تو ممکن ہے جولائی1977 کا ضیا مارشل لا نہ لگتا ۔ مرحوم بھٹوکے من مانے فیصلوں کے باعث ان کے سینئر ساتھی ڈاکٹرمبشر حسن، محمود قصوری، مختار رانا، معراج محمد خان، محمد حنیف رامے، رسول بخش تالپور، حاکم علی زرداری اور دیگر رہنما پی پی چھوڑنے پر مجبور نہ ہوتے۔
عمران خان نے تحریک انصاف بنائی تو انھیں جمہوریت پسند سمجھ کر ملک کے مشہور سیاستدان پی ٹی آئی میں شامل ہوگئے تھے مگر بعد میں عمران خان کی پارٹی سے معراج محمد خان، جسٹس وجیہہ الدین، اکبر ایس بابر اور دیگر رہنما کیوں مایوس ہوکر، پی ٹی آئی چھوڑگئے تھے اس پر عمران خان نے کبھی نہیں سوچا۔ مسلم لیگ (ن) میں طویل عرصہ اقتدار میں رہ کر میاں نواز شریف نے کبھی سوچا کہ سردار ذوالفقار کھوسہ، غوث علی شاہ، لیاقت جتوئی، ظفر علی شاہ اور دیگر سینئر لیگی رہنما ان سے جدا ہونے پرکیوں مجبور ہوئے۔
سابق صدر آصف علی زرداری نے اپنے کہے الفاظ اور پی پی کے اصولوں کو نظرانداز کرکے چوہدریوں کو حکومت میں شامل کرنے کا فیصلہ کیا تھا مگر آج کے اصول پرست میاں رضا ربانی، چوہدری اعتزاز کو اس وقت اعتراض کرنے کی ہمت نہیں ہوئی تھی ۔ آج بھی پیپلز پارٹی میں اصول پرست کہلانے والے رہنماؤں میں جرأت نہیں کہ وہ زرداری صاحب کے من مانے فیصلے کی مخالفت کرسکیں یہ جرأت زرداری کی بیٹیوں نے کی تو عرفان اللہ مروت پیپلز پارٹی میں شامل نہ ہوسکے۔ مسلم لیگ (ن) میں نواز شریف کے فیصلے سے اختلاف شہباز شریف اور چوہدری نثار ہی کرنے کی جرأت رکھتے ہیں اور مخدوم جاوید ہاشمی پی ٹی آئی کے صدر ہوکر عمران خان سے اختلاف کی سزا بھگت چکے ہیں۔
من مانے فیصلوں پر تو اے این پی میں اسفند یار ولی نے اپنی والدہ کو ناراض کردیا تھا اور بڑھاپے میں قوم پرست رسول بخش پلیجو بھی بیٹے سے خفا ہوکر اپنی عوامی تحریک بحال کرنے پر مجبور ہوئے۔
الطاف حسین کی خودسری اور من مانی متحدہ میں برداشت کی جاتی رہی جو مصطفی کمال نے چیلنج کی اور پھر ایک سال پہلے متحدہ اپنے بانی سے الگ ہونے پر مجبور ہوئی جس کی ساری ذمے داری خود الطاف حسین پر عائد ہوتی ہے جو ساتھیوں پر حکم چلاتے تھے اور مشاورت نہیں کرتے تھے۔ یہ حقیقت ہے کہ جماعت اسلامی کے سوا ہر سیاسی جماعت اپنے بانی کی جاگیر ہے جس میں اختلاف رائے برداشت کرنے کا اصول ہے ہی نہیں بلکہ پارٹی میں اختلافی باتیں میڈیا پر آجانے کے بعد دعویٰ کیا جاتا ہے کہ پارٹی میں اختلاف رائے جمہوریت کا حسن ہے۔
ہر پارٹی میں سینئر اور نظریاتی رہنما پیچھے ہوگئے ہیں اور پارٹی سربراہ پر دولت نچھاورکرنے والے اور خوشامدی صف اول میں بیٹھے نظر آتے ہیں ان کی سب سے بڑی خوبی سربراہ کی ہاں میں ہاں ملانا رہ گیا ہے اور عہدے بھی ایسے لوگوں کو دیے جاتے ہیں ۔ ہر پارٹی میں سینئر رہنماؤں کو نظراندازکرنا ان کے سربراہوں نے اپنا اصول بنا رکھا ہے۔ جنرل پرویز مشرف کی آمریت میں اقتدارکے مزے لوٹنے والے آج مسلم لیگ (ن)، پیپلز پارٹی اور پی ٹی آئی میں نمایاں ہیں اور ان کی شمولیت کی کہیں مخالفت نہیں ہوئی کیونکہ ایسے لوگ ہر سیاسی پارٹی کی ضرورت بنے ہوئے ہیں۔