اب تو مرنا ہی دوا ہو جیسے
میرے خیال میں ’’خراب ملکی معاشی صورتحال‘‘ ہی حکومت کے ’’بچاؤ‘‘ کا موجب بن رہی ہے۔
آج لوگ حیران ہیں کہ حکمران جماعت اس قدر کمزور معاشی اور خارجہ پالیسی اور کرپشن کی بھرمار کے باوجود ''بچ''کیوں رہی ہے؟ پچھلے چند دنوں میں کیا کچھ نہیں ہوا۔وفاقی وزیر داخلہ نے رینجرز کے خلاف بیان دیا لیکن مارشل لا نہیں آیا ، مریم نواز کی احتساب عدالت میں پیشی پر عدالت کے اندر نعرے بازی ہوئی عدالت کے باہر ہنگامہ ہوا لیکن مار شل لا نہیں آیا۔
آرمی چیف نے خراب معیشت کے حوالے سے بیان دیا، پھر فوج کے ترجمان نے ایک ٹی وی انٹرویو میں کہا کہ معیشت بہت بری نہیں تو بہت اچھی بھی نہیں۔اس بیان کو وزیر داخلہ احسن اقبال نے غیر ذمے دارانہ کہا، جواب میں مارشل لا کے بجائے فوجی ترجمان کی وضاحت آگئی ، جان بوجھ کر معاملات کو خاصا اُلجھایا جاتا رہامگر سویلین حکومت کو ''حکومت''کرنے دی گئی۔
یہاں تک کہ وزیر داخلہ نے ''سوفٹ'' بیان دے کر پاک فوج کے ترجمان کی وضاحت قبول بھی کی اور اُسے سراہا بھی اور پھر وزیر اعظم کو یہ کہنا پڑا کہ آرمی چیف ملکی معیشت پر بات کر سکتے ہیں، لیکن سوال پھر وہی ہے کہ آخرحکومت بچ کیوں گئی ہے؟کیوں اسٹیبلشمنٹ سیاسی حکومت کو مواقع فراہم کر رہی ہے؟ کیوں 1999 کی طرح کرپٹ حکومت کو چلتا نہیں کیا جا رہا اور کیوں آج مسلم لیگ ن بھی یہی چاہتی ہے کہ اُس کا تختہ اُلٹ دیا جائے تاکہ وہ آیندہ متوقع احتساب سے بچ جائے اور عوام کی ہمدردیاں بھی حاصل کرلے۔
میرے خیال میں ''خراب ملکی معاشی صورتحال'' ہی حکومت کے ''بچاؤ'' کا موجب بن رہی ہے۔جس کا میں اپنے گزشتہ کالم میں بھی ذکر بھی کر چکا ہوںاور یہ بھی کہہ چکا ہوں کہ آنے والے دن پاکستان کے لیے ''الارمنگ'' ہو سکتے ہیں، جب پاکستان نے اندرون و بیرون اداروں کے اربوں ڈالر کے قرضے چکانے ہیںورنہ پاکستان ڈیفالٹ کی طرف بڑھ سکتا ہے۔یہ راقم ہی نہیں کہہ رہا بلکہ آج ڈھکے چھپے الفاظ میں ملک کا ہر ادارہ بات کر رہا ہے۔
پاکستان آج تمام اسٹیک ہولڈرز کے لیے کانٹوں کی سیج بن چکا ہے۔ کیونکہ عالمی مالیاتی فنڈ (IMF) کے تازہ ترین جائزے کے مطابق پاکستان کو اس سال 16.2 ارب ڈالرز کے خسارے کا سامنا ہے، جس کی بڑی وجہ 32.6 ارب ڈالرز کا تجارتی خسارہ ہے۔ صرف چین سے ہمارا اقتصادی خسارہ 9 ارب ڈالرز ہے، جس میں ایک بڑا حصہ مشینری کی درآمدات کا ہے۔ 19 فیصد برآمدات ایسی ہیں جو آدھی کی جا سکتی ہیں، لیکن ہماری اشرافیہ اور مڈل کلاس کی شاہ خرچیاں ہیں کہ ختم ہونے میں نہیں۔
ہماری قومی پیداوار کا 94 فیصد کھپت میں صرف ہو جاتا ہے۔ یہ جو کھانے پینے،آسائش و زیبائش اور چمکتے دمکتے لائف اسٹائل کے سامان کی ہر جگہ بھرمار ہے، اگر یہی ختم کر دی جائے تو تقریباً 5 ارب ڈالرز زرِ مبادلہ بچ سکتا ہے۔ مگر ہماری حکو مت کو سمجھائے کون؟
میں معیشت دان تو نہیں ہوں مگر کامیاب معیشت دانوں کے تجربات سے فائدہ اُٹھانے پر یقین ضرور رکھتا ہوں،میرے سامنے ابن خلدون کی کتاب ''مقدمہ تاریخ'' کھلی پڑی ہے، جس میں وہ لکھتا ہے کہ دولت کا واحد ذریعہ ''پیداوار'' ہے۔ اگر کسی ملک نے معاشی خوشحالی حاصل کرنی ہے تواسے اپنی پیداواری صلاحیتوں میں اضافہ لانا ہو گا۔ حیران کن طور پر ابن خلدون سونے و چاندی کو دولت نہیں سمجھتے تھے بلکہ ان کو صرف دھاتوں میں شمار کرتا تھا۔ اس کے نزدیک دولت صرف ''پیداوار'' ہے۔ وہ ان سکوں کو محض تبادلہ کا ذریعہ سمجھتا تھا جس میں قوت خرید پائی جاتی ہے۔آج وزیر خزانہ اسحاق ڈار یورپ میں اپنے سکوک بانڈ بیچنے جاتے ہیں وہاں سے دو ارب ڈالر قرض لے کر آتے ہیں اور ملک میں منادی کرادیتے ہیں کہ مبارک ہو، ہمیں یورپی اداروں سے دو ارب روپے ''بھیک بطور قرض ''مل گئے ہیں۔
وزیر خزانہ نے ملک میں ٹیکس بڑھائے جس سے تاجر برادری بنگلہ دیش اور دوسرے ملکوں کی طرف بھاگ گئی ، یہی اگر ٹیکس کم ہوں گے اور کاروباری سرگرمیوں میں نفع زیادہ ہو گا تو معیشت پھلے پھولے گی ، معیشت میں ترقی سے حکومت کو زیادہ ٹیکس ملے گا جس سے ترقیاتی کام ہو گا۔ یوں مزید پیداوار سے مزید خوشحالی جنم لے گی، یہ عروج کا راستہ ہے ۔
مگر افسوس ہماری نسلیں بھوک، جہالت اور افلاس کے ہاتھوں تباہ ہو رہی ہیں، اربوں روپے کے پراجیکٹس برباد کر دیے گئے ہیں،کھربوں روپے منی لانڈرنگ کے ذریعے بیرون ملک بھجوائے جارہے ہیں الغرض 70سالوں میں ہر طریقے سے سیاستدانوں و فوجی ڈکٹیٹروں نے اپنے ذاتی مفادات کی خاطر ملک کو داؤ پر لگادیا۔ سیاسی، فوجی، ٹیکنوکریٹک حکومتوں کا بس ایک فارمولہ رہا: قرض لو اور پیٹ بھرو اور برآمدات کو اُن کا بوجھ ہلکا کرنے کے لیے (Subsidise) استعمال کرو۔کسی نے معیشت کا پیداواری ڈھانچہ بدلنے کی کوشش نہیں کی اور قومی ذرایع اور عوام کی محنت کی کمائی کو غیرپیداواری خرچوں کے لیے استعمال کیا۔
اور آج جب پوری دنیا میں ہم رسوا ہو رہے ہیں تو امریکا کے لیے ہم نے ''ڈومور'' کی پالیسی اپنا لی ہے ۔
آج پورے ملک میں قومی معیشت کی تباہی کا جو ماتم کیا جا رہا ہے۔ جس میں مضبوط ترین ملکی ادارہ بھی شامل ہو گیا ہے۔ اس کے پس پردہ عوامی عدالتوں والی جمہوری حکومت کی کارکردگی کا اندازہ اس امر سے لگا لیں کہ نااہل قائد کے نامزد وزیراعظم کی کابینہ 98وزراء ، وزراء مملکت، مشیروں اور معاونین خصوصی پر مشتمل ہے۔ اتنے سفید ہاتھیوں کا بوجھ پہلے کبھی دیکھا ہے ؟ وہ بھی تب جب قومی معیشت زمین سے لگی ہے ۔ اتنی بھاری اور اللے تللوں پر مشتمل کابینہ کا آخر کیا معنی ؟ اب قومی معیشت سنبھالنی ہے تو ان 200بلین ڈالر کی بات کرو جن کی نشاندہی خود سوئس حکومتی ذرایع سے ہو چکی ہے ! پروین شاکر کا شعر یاد آرہا ہے۔
چارہ گر، ہار گیا ہو جیسے
اب تو مرنا ہی دَوا ہو جیسے