ملزم یا مجرم
کتنی عجیب بات اپنے اغراض و مقاصد اتنے اہم ہوگئے کہ 22 کروڑ آبادی کے ملک کو نڈھال، کھوکھلا بنادیا۔
KARACHI:
کافی عرصہ قبل میں ایک سرکاری ادارے میں ایک کام کے سلسلے میں وہاں کے آفس سپرنٹنڈنٹ ایڈمن کے پاس گیا جب ان کے کمرے سے باہر آیا تو میرے عقب میں کسی شخص نے میرے کندھے پر ہاتھ رکھا، مڑ کر دیکھا تو وہ مجھ کو دیکھ کر مسکرا رہا تھا، مسکراتے ہوئے اس نے میرا نام لیا پوچھا، آپ کا یہی نام ہے۔
میں نے کہا ''ہاں بالکل آپ صحیح کہہ رہے ہیں میرا یہی نام ہے لیکن میں آپ کو نہیں پہچان سکا آپ کون ہیں آپ کی مسکراہٹ بتا رہی ہے یقینی طور پر میرے پرانے جاننے والے ہوں گے جن کو میں پہچاننے سے قاصر ہوں'' اس پر اس نے اپنا نام بتایا میں نے جیسے ہی اس کا نام سنا سینے سے لگا لیا۔ میرے دوست نے پوچھا یہاں کیسے آئے میں نے اس کو اپنا کام بتایا۔ کہنے لگا آپ نے مجھ کو نہیں دیکھا میں برابر والے کمرے میں ہوں میرے پاس تین شعبے ہیں جب کبھی کام ہو آپ میرے پاس آئیں۔ ہم دونوں باہر کی طرف آئے وہاں ایک چائے کے ہوٹل میں بیٹھے۔ چائے پیتے رہے اور باتیں جاری رہیں۔
اس نے بتایا شادی میں نے گاؤں میں کی تین بچے ہیں وہ اپنی پھوپھی یعنی میری بہن کے پاس رہتے ہیں۔ لڑکا پہلا ہے جس کی عمر 8 سال اس کے بعد لڑکی اس کی عمر 4 سال آخر میں ایک لڑکا جس کی عمر 2 سال ہے۔ میں نے کہا یہ کیا بات ہے بچے آپ کے بیوی کے ساتھ نہیں۔ کہنے لگا بیوی یہاں میرے ساتھ رہتی ہے اس کو کینسر کا مرض لاحق ہے وہ بھی آخری منزل کے بالکل کنارے پر ہے۔
علاج بدستور جاری ہے، مکان فروخت کیا، زرعی زمین نصف فروخت کردی۔ مرض کا علم دیر سے ہوا اگر شروع میں علم ہوجاتا تو شاید ٹھیک ہوجاتی لیکن اب ڈاکٹروں نے بالکل حتمی جواب دے دیا ہے کہ زیادہ سے زیادہ تین ماہ ہیں دوائیں کھاتی رہیں تاکہ اس کی زیادہ تکلیف محسوس نہ ہو۔ باقی مرض اب بالکل آخر پر آچکا ہے۔
اس لیے بچے میں نے گاؤں میں بہن کے پاس چھوڑ دیے ہیں۔ میں نے کہا کیا بہن کے بچے نہیں؟ بولا ایسی بات نہیں اس کے پانچ بچے ہیں ان کو بھی دیکھتی ہے وہ چونکہ میرے بچوں سے بڑے ہیں اس لیے اپنے بچوں سے اس کو زیادہ پریشانی نہیں۔ چونکہ میری بیوی سارا دن بستر پر پڑی رہتی ہے اگر چلتی ہے تو اس کو پکڑ کر چلاتے ہیں۔ بس یہ مجبوری ہے اب کیا کیا جائے جو ہونا ہے وہ تو ہوکر رہے گا لیکن افسوس اس بات پر کہ میری بیوی کی زیادہ عمر نہیں تم میری عمر سے اندازہ کرسکتے ہو۔ گاؤں میں تو ویسے بھی چھوٹی عمر میں شادی کردی جاتی ہے۔
میں اپنی بیوی کو صحیح نہیں کرسکا۔ میں نے کہا ایسی بات نہیں آپ سے جو ہوسکا وہ کیا اس کے علاج کے لیے مکان فروخت کردیا، زمین نصف فروخت کردی اور جو جمع پونجی تھی وہ بھی لگا دی اس میں آپ کیا دخل ، جو کرسکتے تھے وہ کیا شاید اللہ کی اس میں کوئی مصلحت ہو۔ کہنے لگا تم نے بالکل صحیح کہا جو کوشش ہے وہ کر رہا ہوں اور کرتا رہوں گا۔ عموماً میں پندرہ دن بعد ملنے جاتا رہا حالات کی آگاہی رہی آخر ایک دن خبر سن لی اس کی بیوی فوت ہوگئی۔ کافی دن وہ اپنی بیوی کے انتقال پر افسردہ، غمزدہ رہا۔ اکثر میں اس کو ہنسانے کے لیے اپنے ماضی کی باتیں کرتا کوشش کرتا کہ وہ غم بھول جائے۔ بمشکل ایک سال بعد وہ نارمل ہوا۔
ایک دن میں نے اس سے کہا تم دوسری شادی کیوں نہیں کرلیتے، ابھی تمہاری اتنی زیادہ عمر نہیں اور بچے بھی چھوٹے ہیں۔ بمشکل راضی ہوا، دو سال بیت چکے تھے گاؤں میں ماموں کی لڑکی سے شادی ہوگئی لڑکی کی عمر 19 سال تھی، میرے دوست کی عمر 37 سال ہوچکی تھی۔ بچوں کو ساتھ رکھا دوسری بیوی نے سارا گھر سنبھالا، بچوں کی دیکھ بھال، اسکول بھیجنا، ہر لحاظ سے خیال رکھتی۔
ایک دن ایسے ہی ذکر ہو رہا تھا تو مجھے پرانی بات یاد آئی جب میں نے کہا کہ اللہ کی بہتری اس میں بھی اس کی کوئی مصلحت ہوگی۔ میں نے کہا تمہیں یاد ہے میں نے کہا تھا۔ بولا ہاں یاد ہے لیکن ابھی اس کی کیا ضرورت جو یہ بات دہرائی۔ میں نے کہا عموماً ہمارے ساتھ جس قسم کے حالات ہوتے ہیں ہم نہیں سمجھ سکتے۔
اللہ تعالیٰ کو معلوم ہوتا ہے آگے کیا ہوگا۔ پہلی بیوی کی عمر جتنی تھی وہ اس نے پوری کی۔ یادگار کے طور پر تین بچے دے گئی، دوسری بیوی بھی نہایت نیک سعادت مند ملی۔ اب تم خود سوچو اس میں اللہ کی مصلحت تھی؟ کہنے لگا بالکل صحیح کہہ رہے ہو۔ مانتا ہوں میں سمجھتا ہوں جو تکالیف پریشانیاں اٹھائیں اب ان کی راحت ملے گی۔ میں نے کہا تمہارے بچے بھی اچھے گھل مل گئے امی کہتے ہیں اور وہ اپنی جان سے زیادہ عزیز سمجھتی ہوگی کیوں صحیح کہہ رہا ہوں یا غلط۔ بولا نہیں بالکل صحیح کہہ رہے ہو۔
حقیقت یہ ہے تم نے مجھے جن پریشانیوں، تکالیف میں سمجھا ساتھ دیا اور پھر مفید مشورہ دیا اس کو سراہتا ہوں۔ ایسا کوئی دوست نہ تھا جو مجھے اس طرح سمجھتا قدرت نے ایسے وقت میں ملایا جب مجھے تمہاری ضرورت تھی۔ میں مسکرانے لگا۔ میں نے کہا میرے پیارے دوست تم یا میں اکیلے اس دنیا میں نہیں تم سوچو بہت سے لوگ ایسے ہیں جو آپ سے بھی زیادہ مجبور پریشان ہیں ان کا کوئی غمگسار تک نہیں تم تو پھر بھی میرے خاندان والے ہو۔ پورا خاندان گاؤں میں ہے پھر تم کو کیا فکر۔
موجودہ دور کے بارے میں خاص سے زیادہ عام انسان سمجھ رہا ہے پوری عوام بہت اچھی طرح جان چکی ہے کہ اس ہرے بھرے سرسبز و شاداب ملک کو کس نے نقصان پہنچایا وہ بھی صرف اپنے فائدے کی خاطر۔ کتنی عجیب بات اپنے اغراض و مقاصد اتنے اہم ہوگئے کہ 22 کروڑ آبادی کے ملک کو نڈھال، کھوکھلا بنادیا۔ دلچسپ بات یہ ہے ابھی بھی لانچوں کے ذریعے منی لانڈرنگ ہو رہی ہے۔ پوری پوری لانچیں بھر کے رقومات کی سمندری راستے ایسے ملک جا رہی ہیں جہاں سے آگے رقم پہنچانا مشکل نہیں۔ جب عام آدمی کو اس قدر معلومات ہیں تو ان لوگوں کو کیسے علم نہ ہوگا جو ملک و ملت کے وفادار، محنتی، ایماندار ہیں۔
وہ میرا دوست جس نے اپنی بیوی کے علاج معالجے میں مکان فروخت کیا زرعی زمین سستے داموں بیچ دی، لیکن وہ بیوی کو نہ بچا سکا۔
میرا دل اس وقت بہت دکھا جب میرے ایک ساتھی نے بتایا کہ میں ایک لاوارث غریب لڑکے کو دیکھنے گیا۔ پہلی دفعہ کسی جیل کا رخ کیا نہیں معلوم کہاں کہاں اور کس مقصد کے لیے رقم دینی ہوتی ہے جو بالکل کھلی ہے اس میں کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں۔
میری ملاقات ہوئی خیر و عافیت لی بتایا جب عدالت کی پیشی ہوتی ہے تو جیل کی گاڑی میں باوردی پولیس اہلکار مذکورہ عدالت میں پیش کرتے ہیں۔ پیشی کے بعد واپس اس کو جیل میں لے آتے ہیں۔ میں نے پوچھا اس جیل میں لگتا ہے بہت زیادہ ملزمان و مجرمان ہیں۔ کہنے لگا انگریز نے اس جیل کو صرف سو افراد کے لیے بنایا تھا۔ اب ہزار سے بھی زیادہ ہوں گے۔ قطعی نہیں کہہ سکتا اس لیے میں نے گنے نہیں جس طرح رش دیکھاہے اسی اندازے میں بتا رہا ہوں۔ میں نے پوچھا بڑے سرمایہ دار، وڈیرے، جاگیردار، خان و ملک بھی ہوں گے۔
میری بات سن کر یہ لاوارث دوست ہنسنے لگا۔ بولا سوائے غریب افراد کے کوئی مالدار امیر نہیں۔ خیر یہ بات تو عام ہے ساری جیلوں میں سوائے چھوٹے چوروں کے بڑا چور کوئی نہیں۔ نہ تم موبائل چھینتے نہ عدالت میں قید ہوتے۔ دوست کہنے لگا کیا کروں ساتھ میں جو لڑکے رہتے تھے وہ بھی یہی کام کرتے ہیں۔ مجھے بھی انھوں نے یہی ٹریننگ دی لیکن میں ناکام رہا پہلا موبائل چھیننے پر ہی پولیس کے حوالے کردیا گیا۔
پولیس نے چار دفعات لگادیں جن کا کوئی تعلق نہیں۔ میرے پاس تو وکیل کرنے کے لیے رقم نہیں، فرد جرم عائد کردی گئی ہے اس پیشی میں عدالت نے کہا کہ ابھی تک آپ کا کوئی وکیل نہیں۔ میں نے جج صاحب کو بتادیا میرے اختیار میں نہیں جج کرسکوں۔ جج اچھے انسان ہیں انھوں نے کہا آپ کے لیے سرکاری وکیل کروا دیں گے جو حکومت کی طرف سے ہوگا لیکن ضمانت تو پھر بھی کسی کو لینی ہوگی۔
اپنے دوست کی زبانی تمام باتیں سننے کے بعد کف افسوس ملنے کے سوا کیا کرسکتا ہوں صرف ایک کروڑ روپے میں ایک جیل کے یہ سارے چھوٹے چور آزاد ہوسکتے ہیں اور اچھی تربیت ملازمت کے ساتھ اچھی زندگی بسر کرسکتے ہیں لیکن ایک کروڑ روپیہ ان کے لیے خرچ نہیں ہوسکتا۔