آزادی و خودمختاری اور مضبوط معیشت
یہ ایک طے شدہ اصول ہے کہ معیشت مضبوط ہوگی تو ہم اپنی خود مختاری کا دفاع بھی کر پائیں گے۔
KARACHI:
میاں نواز شریف سے تما م اختلاف کے باوجود ہم اِس حقیقت سے انکار نہیں کرسکتے ہیں کہ اُن کے چار سالا دور حکومت میںہمارے بہت سے مسائل حل بھی ہوئے۔ 2013ء میں جب ان کی حکومت نے کام شروع کیا تھا تو ملک و قوم کو کتنے سنگین مسائل در پیش تھے۔ دہشتگردی کسی طور ختم ہونے کا نام ہی نہیں لے رہی تھی۔ ہم آج وہ سب بھول چکے ہیں جو کچھ پرویز مشرف اور زرداری کے دور میں ہمارے یہاں ہورہا تھا۔ خود کش حملے اور بم دھماکے ہمارا مقدر تھے۔ ہر طرف مایوسی اور نا اُمیدی تھی۔ کراچی شہر ایک سیاسی تنظیم کے ہاتھوں لوگ یرغمال بنے ہوئے تھے۔
آئے دن کے احتجاج اور ہڑتالوں نے اُن کی زندگی اجیرن کرکے رکھ دی تھی۔ جبری چندے اور بھتہ وصولی نے ایک دہشت اور خوف کاسماں باندھا ہوا تھا۔ لوگ اپنا اپنا کاروبار سمیٹ کردوسرے شہروں کا رخ کررہے تھے۔بجلی کی کئی کئی گھنٹے کی لوڈ شیڈنگ اور مہنگائی نے سارے ملک میں لوگوں کو بدحال کیا ہوا تھا۔ پیپلز پارٹی کی حکومت نے جوجو وعدے کیے تھے وہ اُن کے پانچ سال مکمل ہونے پر بھی پورے نہیں ہوئے۔ این آئی سی ایل، او جی ڈی سی، ای او بی آئی اور حج کرپشن جیسے قصے کوئی زیادہ پرانے دنوں کی بات نہیں ہے کہ ہم سب کچھ بھلا کراُس دور کو سہانہ قرار دیتے پھریں۔
آج ایسی سنگین صورتحال نہیں ہے۔افواج پاکستان کی مدد سے دہشتگردی کے عفریت پر بڑی حد تک قابو پا لیا گیا ہے۔ بجلی کی لوڈ شیڈنگ پر 80% قابو پالیاگیا ہے۔ ملک کے اندر صنعتوں کو 24گھنٹے بجلی فراہم ہورہی ہے۔اگلے چند مہینوں میں باقی 20 فیصد کمی بھی پوری ہوجانے کا امکان ہے۔اِسی طرح گیس کی کمی پر بھی قابو پا لیاگیا ہے۔
مسلم لیگ (ن) کی حکومت نے اِن تمام مسائل کو حل کرنے کے ساتھ ساتھ ملک کے انفرا اسٹرکچرکو بھی بہتر بنانے کے کوششیں کی ہیں۔ سارے ملک میں سڑکوں اور شاہراہوں کاجال بچھایا گیا ہے، موٹر ویز بنائی گئی ہیں۔ سی پیک پر ہنگامی بنیادوں پر کام کوآگے بڑھایاگیا ہے۔ لاہور، راولپنڈی، اسلام آباد، ملتان اورکراچی میں پبلک ٹرانسپورٹ کو فعال اور بہتر بنانے کے لیے میٹروبس سروس فراہم کرنے کے ساتھ ساتھ اورنج ٹرین اور سرکلر ریلوے پر بھی پیشرفت ہوئی ہے۔ ملک کے زرمبادلہ کے ذخائر میں اضافہ اور اسٹاک مارکیٹ کے انڈکس میں نمایاں بہتری دیکھی گئی تھی۔ ملک 2030ء میں ایک بڑی معیشت کادرجہ حاصل کرنے والا تھا۔ بدقسمتی سے پاناما کیس پر سپریم کورٹ کے فیصلے نے اِن تمام کامیابیوں پرپانی پھیر کر رکھ دیا ہے۔
آج اگر اسٹاک مارکیٹ ایک بار پھر زوال پذیر ہو رہی ہے تو اِس کی بھی صرف ایک یہی وجہ ہے کہ اِس ایک عدالتی فیصلے کے بعد ملک میں عدم اعتمادی اور بے یقینی کی فضا نے جنم لے لیا ہے۔ ہر طرف قیاس آرائیاں اور افواہیں گردش کررہی ہیں۔ وطن عزیز کو آج مشکل ترین حالات کا سامنا ہے۔ کبھی ختم نہ ہونے والے یہ مشکل حالات ہماری ستر سالا تاریخ کا لازمی جز بناکررکھ دیے گئے ہیں۔ جب اچھے دنوں کی کبھی کوئی آس اور اُمید بندھنی شروع ہوتی ہے۔ ملک ترقی و خوشحالی کی سمت بڑھنے لگتا ہے کوئی واقعہ یاکوئی حادثہ ہماری راہیں مسدود کرکے رکھ دیتا ہے۔
ہم جیسے تیسے ایک نئے خوشحالی کے سفر پرگامزن ہوئے ہی تھے کہ پھر اچانک ایک نئے بحران میں مبتلا کر دیے جاتے ہیں۔ ایسا لگتا ہے یہ سب کچھ ایک سوچے سمجھے منصوبے کا حصہ ہیں۔''سی پیک'' یا ''ون روڈ ون بیلٹ'' کا منصوبہ ہمارے دشمنوں کو ایک آنکھ نہیں بھاتا۔ عالمی طاقتیں ہمارے اِس منصوبے کو سبوتاژ کرنے کے درپے ہیں۔
ڈونلڈ ٹرمپ بھی ہمیں کسی اور بہانے اورطریقے سے متنبہ کرچکے ہیں۔ دہشتگردوں کوپناہ دینے یا انھیں سپورٹ کرنے کا الزام دراصل ایک بے بنیاد بہانہ ہے۔ امریکااِس کی آڑ میں ہمیں سی پیک کے منصوبے کی تکمیل سے روکنا چاہتا ہے۔ اِس لیے وہ ہمارے ملک کے اندر سیاسی عدم استحکام اور بداعتمادی کی فضا پیدا کرکے 1999ء کی طرح ایک''شخصی آمریت'' کی راہ ہموار کرنا چاہتا ہے تاکہ وہ اقتدار و اختیارات کے حامل اُس واحد حکمراں شخص کو ایک بار پھر''پتھروں کے دور میں بھیجے جانے'' کا خوف دلاکر اپنے مذموم عزائم پورے کرسکے۔
معیشت کے حوالے سے آج جو خطرات اور خدشات ہمارے سروں پر منڈلارہے ہیں اُس کی ایک بڑی وجہ ہمارے یہاں کا موجودہ سیاسی بحران ہے۔ یہ ایک طے شدہ اصول ہے کہ معیشت مضبوط ہوگی تو ہم اپنی خود مختاری کا دفاع بھی کر پائیں گے۔ہماری آزادی اور خود مختاری ہماری مضبوط معیشت ہی سے جڑی ہوئی ہے۔ ہم اگر آج دیوالیہ قرار دے دیے جائیں تو پھر ہمیں زوال و پستی سے کوئی بچا نہیں پائے گا۔ ہم نے آج سے چند ماہ پہلے آئی ایم ایف کو خیر باد کہہ دیا تھا۔
اب اگر ہمیں دوبارہ اُس سے امداد اور قرض کی درخواست کرنی پڑجائے تو یہ ہمارے لیے انتہائی ذلت کا مقام ہوگا۔دبئی کا اقامہ رکھنے پر ہم نے میاں ٗنواز شریف کو گھر بھیج کر عدل وانصاف کا بول بالا توکردیا لیکن اِس چھوٹے سے فیصلے کے نتائج اورمضمرات کا خمیازہ اب شاید ساری قوم کو بھگتنا پڑے گا۔ہمارے اِس فیصلے سے میاں نواز شریف کی مقبولیت پر تو کوئی کاری ضرب نہ لگ سکی البتہ ہمارے معیشت کو ایک بڑا دھچکا ضرور لگ چکا ہے۔
وہ معیشت جس کی ترقی و کامیابی کے اشارے دنیا کے تمام مالیاتی ادارے دے رہے تھے اچانک یوں زمیں بوس ہوجائے گی اس کاشاید ہمیں اندازہ نہیں تھا۔اب اگر ہم قرضے ادا کرنے میں ڈیفالٹ کرجائیں تو ہماری یہ مجبوری ہوگی کہ ہم اِس کا الزام میاں نواز شریف کے سر بھی نہیں تھوپ سکتے۔ ہم نے تو انھیں اقتدار سے قبل ازوقت معزول کرکے انھیں اور بھی معصوم اور مظلوم بنادیا ہے۔انھیں اگر اپنے پانچ سال پورے کرنے دے دیے جاتے تو آج اِس ساری صورتحال کے وہ خود ذمے دار ہوتے۔اقتدار واختیارات کی حامل اصل قوتوں کے پاس بھی اب اِس کا کوئی حل موجود نہیں ہے۔ہماری کوئی قومی حکومت یاٹیکنوکریٹس پر مشتمل حکومت ہماری یہ مشکل حل نہیں کرپائے گی۔
اِس سلسلے میں جتنی تاخیرکی جائے گی بحران اورشدت اختیار کرتا جائے گا۔جن لوگوںنے قوم کواِس عذاب میں مبتلاکیا ہے انھیں ہی اب اِس کاحل تلاش کرنا ہوگا۔ ملک کی سالمیت اور خود مختاری داؤ پر لگی ہوئی ہے اور ہم آپس میں گتھم گتھا ہوئے جارہے ہیں۔ سی پیک کی کامیاب تکمیل صرف برادر ملک چائنا ہی کی ذمے داری نہیں ہے بلکہ ہماری بھی ضرور ت اور مجبوری ہے۔ اِ سے ہر صورت میں دشمنوں کی نظروں سے بچانا ہوگا۔اور اِس کے لیے ہمیں اپنی آزادی اور خود مختاری کو ہر صورت میں برقرار رکھنا ہوگا مگریاد رکھا جائے کہ جو کمزور اور ناتواں معیشت کے ساتھ کبھی بھی برقرار نہیں رکھی جاسکتی۔
میاں نواز شریف سے تما م اختلاف کے باوجود ہم اِس حقیقت سے انکار نہیں کرسکتے ہیں کہ اُن کے چار سالا دور حکومت میںہمارے بہت سے مسائل حل بھی ہوئے۔ 2013ء میں جب ان کی حکومت نے کام شروع کیا تھا تو ملک و قوم کو کتنے سنگین مسائل در پیش تھے۔ دہشتگردی کسی طور ختم ہونے کا نام ہی نہیں لے رہی تھی۔ ہم آج وہ سب بھول چکے ہیں جو کچھ پرویز مشرف اور زرداری کے دور میں ہمارے یہاں ہورہا تھا۔ خود کش حملے اور بم دھماکے ہمارا مقدر تھے۔ ہر طرف مایوسی اور نا اُمیدی تھی۔ کراچی شہر ایک سیاسی تنظیم کے ہاتھوں لوگ یرغمال بنے ہوئے تھے۔
آئے دن کے احتجاج اور ہڑتالوں نے اُن کی زندگی اجیرن کرکے رکھ دی تھی۔ جبری چندے اور بھتہ وصولی نے ایک دہشت اور خوف کاسماں باندھا ہوا تھا۔ لوگ اپنا اپنا کاروبار سمیٹ کردوسرے شہروں کا رخ کررہے تھے۔بجلی کی کئی کئی گھنٹے کی لوڈ شیڈنگ اور مہنگائی نے سارے ملک میں لوگوں کو بدحال کیا ہوا تھا۔ پیپلز پارٹی کی حکومت نے جوجو وعدے کیے تھے وہ اُن کے پانچ سال مکمل ہونے پر بھی پورے نہیں ہوئے۔ این آئی سی ایل، او جی ڈی سی، ای او بی آئی اور حج کرپشن جیسے قصے کوئی زیادہ پرانے دنوں کی بات نہیں ہے کہ ہم سب کچھ بھلا کراُس دور کو سہانہ قرار دیتے پھریں۔
آج ایسی سنگین صورتحال نہیں ہے۔افواج پاکستان کی مدد سے دہشتگردی کے عفریت پر بڑی حد تک قابو پا لیا گیا ہے۔ بجلی کی لوڈ شیڈنگ پر 80% قابو پالیاگیا ہے۔ ملک کے اندر صنعتوں کو 24گھنٹے بجلی فراہم ہورہی ہے۔اگلے چند مہینوں میں باقی 20 فیصد کمی بھی پوری ہوجانے کا امکان ہے۔اِسی طرح گیس کی کمی پر بھی قابو پا لیاگیا ہے۔
مسلم لیگ (ن) کی حکومت نے اِن تمام مسائل کو حل کرنے کے ساتھ ساتھ ملک کے انفرا اسٹرکچرکو بھی بہتر بنانے کے کوششیں کی ہیں۔ سارے ملک میں سڑکوں اور شاہراہوں کاجال بچھایا گیا ہے، موٹر ویز بنائی گئی ہیں۔ سی پیک پر ہنگامی بنیادوں پر کام کوآگے بڑھایاگیا ہے۔ لاہور، راولپنڈی، اسلام آباد، ملتان اورکراچی میں پبلک ٹرانسپورٹ کو فعال اور بہتر بنانے کے لیے میٹروبس سروس فراہم کرنے کے ساتھ ساتھ اورنج ٹرین اور سرکلر ریلوے پر بھی پیشرفت ہوئی ہے۔ ملک کے زرمبادلہ کے ذخائر میں اضافہ اور اسٹاک مارکیٹ کے انڈکس میں نمایاں بہتری دیکھی گئی تھی۔ ملک 2030ء میں ایک بڑی معیشت کادرجہ حاصل کرنے والا تھا۔ بدقسمتی سے پاناما کیس پر سپریم کورٹ کے فیصلے نے اِن تمام کامیابیوں پرپانی پھیر کر رکھ دیا ہے۔
آج اگر اسٹاک مارکیٹ ایک بار پھر زوال پذیر ہو رہی ہے تو اِس کی بھی صرف ایک یہی وجہ ہے کہ اِس ایک عدالتی فیصلے کے بعد ملک میں عدم اعتمادی اور بے یقینی کی فضا نے جنم لے لیا ہے۔ ہر طرف قیاس آرائیاں اور افواہیں گردش کررہی ہیں۔ وطن عزیز کو آج مشکل ترین حالات کا سامنا ہے۔ کبھی ختم نہ ہونے والے یہ مشکل حالات ہماری ستر سالا تاریخ کا لازمی جز بناکررکھ دیے گئے ہیں۔ جب اچھے دنوں کی کبھی کوئی آس اور اُمید بندھنی شروع ہوتی ہے۔ ملک ترقی و خوشحالی کی سمت بڑھنے لگتا ہے کوئی واقعہ یاکوئی حادثہ ہماری راہیں مسدود کرکے رکھ دیتا ہے۔
ہم جیسے تیسے ایک نئے خوشحالی کے سفر پرگامزن ہوئے ہی تھے کہ پھر اچانک ایک نئے بحران میں مبتلا کر دیے جاتے ہیں۔ ایسا لگتا ہے یہ سب کچھ ایک سوچے سمجھے منصوبے کا حصہ ہیں۔''سی پیک'' یا ''ون روڈ ون بیلٹ'' کا منصوبہ ہمارے دشمنوں کو ایک آنکھ نہیں بھاتا۔ عالمی طاقتیں ہمارے اِس منصوبے کو سبوتاژ کرنے کے درپے ہیں۔
ڈونلڈ ٹرمپ بھی ہمیں کسی اور بہانے اورطریقے سے متنبہ کرچکے ہیں۔ دہشتگردوں کوپناہ دینے یا انھیں سپورٹ کرنے کا الزام دراصل ایک بے بنیاد بہانہ ہے۔ امریکااِس کی آڑ میں ہمیں سی پیک کے منصوبے کی تکمیل سے روکنا چاہتا ہے۔ اِس لیے وہ ہمارے ملک کے اندر سیاسی عدم استحکام اور بداعتمادی کی فضا پیدا کرکے 1999ء کی طرح ایک''شخصی آمریت'' کی راہ ہموار کرنا چاہتا ہے تاکہ وہ اقتدار و اختیارات کے حامل اُس واحد حکمراں شخص کو ایک بار پھر''پتھروں کے دور میں بھیجے جانے'' کا خوف دلاکر اپنے مذموم عزائم پورے کرسکے۔
معیشت کے حوالے سے آج جو خطرات اور خدشات ہمارے سروں پر منڈلارہے ہیں اُس کی ایک بڑی وجہ ہمارے یہاں کا موجودہ سیاسی بحران ہے۔ یہ ایک طے شدہ اصول ہے کہ معیشت مضبوط ہوگی تو ہم اپنی خود مختاری کا دفاع بھی کر پائیں گے۔ہماری آزادی اور خود مختاری ہماری مضبوط معیشت ہی سے جڑی ہوئی ہے۔ ہم اگر آج دیوالیہ قرار دے دیے جائیں تو پھر ہمیں زوال و پستی سے کوئی بچا نہیں پائے گا۔ ہم نے آج سے چند ماہ پہلے آئی ایم ایف کو خیر باد کہہ دیا تھا۔
اب اگر ہمیں دوبارہ اُس سے امداد اور قرض کی درخواست کرنی پڑجائے تو یہ ہمارے لیے انتہائی ذلت کا مقام ہوگا۔دبئی کا اقامہ رکھنے پر ہم نے میاں ٗنواز شریف کو گھر بھیج کر عدل وانصاف کا بول بالا توکردیا لیکن اِس چھوٹے سے فیصلے کے نتائج اورمضمرات کا خمیازہ اب شاید ساری قوم کو بھگتنا پڑے گا۔ہمارے اِس فیصلے سے میاں نواز شریف کی مقبولیت پر تو کوئی کاری ضرب نہ لگ سکی البتہ ہمارے معیشت کو ایک بڑا دھچکا ضرور لگ چکا ہے۔
وہ معیشت جس کی ترقی و کامیابی کے اشارے دنیا کے تمام مالیاتی ادارے دے رہے تھے اچانک یوں زمیں بوس ہوجائے گی اس کاشاید ہمیں اندازہ نہیں تھا۔اب اگر ہم قرضے ادا کرنے میں ڈیفالٹ کرجائیں تو ہماری یہ مجبوری ہوگی کہ ہم اِس کا الزام میاں نواز شریف کے سر بھی نہیں تھوپ سکتے۔ ہم نے تو انھیں اقتدار سے قبل ازوقت معزول کرکے انھیں اور بھی معصوم اور مظلوم بنادیا ہے۔انھیں اگر اپنے پانچ سال پورے کرنے دے دیے جاتے تو آج اِس ساری صورتحال کے وہ خود ذمے دار ہوتے۔اقتدار واختیارات کی حامل اصل قوتوں کے پاس بھی اب اِس کا کوئی حل موجود نہیں ہے۔ہماری کوئی قومی حکومت یاٹیکنوکریٹس پر مشتمل حکومت ہماری یہ مشکل حل نہیں کرپائے گی۔
اِس سلسلے میں جتنی تاخیرکی جائے گی بحران اورشدت اختیار کرتا جائے گا۔جن لوگوںنے قوم کواِس عذاب میں مبتلاکیا ہے انھیں ہی اب اِس کاحل تلاش کرنا ہوگا۔ ملک کی سالمیت اور خود مختاری داؤ پر لگی ہوئی ہے اور ہم آپس میں گتھم گتھا ہوئے جارہے ہیں۔ سی پیک کی کامیاب تکمیل صرف برادر ملک چائنا ہی کی ذمے داری نہیں ہے بلکہ ہماری بھی ضرور ت اور مجبوری ہے۔ اِ سے ہر صورت میں دشمنوں کی نظروں سے بچانا ہوگا۔اور اِس کے لیے ہمیں اپنی آزادی اور خود مختاری کو ہر صورت میں برقرار رکھنا ہوگا مگریاد رکھا جائے کہ جو کمزور اور ناتواں معیشت کے ساتھ کبھی بھی برقرار نہیں رکھی جاسکتی۔