وتایو فقیر
وتایوکی حکایات کے موضوع پر ان کی تصنیف آج بھی دلچسپی سے پڑھی جاتی ہے
PESHAWAR:
1981ء کی بات ہے، میں سندھی روزنامہ ہلالِ پاکستان کے ایڈیٹر کی حیثیت سے وتایو فقیر پر ہونے والے ایک مذاکرے میں شریک تھا۔ ادارتی عملے کے ایک رکن فقیر محمد لاشاری بھی میرے ساتھ تھے۔ ہم دوسری قطار میں ایک ہی صوفے پر بیٹھے تھے۔ جو صاحب اپنا مقالہ پڑھ رہے تھے انھوں نے جب یہ کہا کہ اب تک یہ طے نہیں ہوسکا ہے کہ وتایو فقیر نے کونسا زمانہ پایا تھا، تو میں نے ازراہ مذاق اپنے ساتھی لاشاری سے کہا ''طے کیسے نہیں ہوا ہے، میری تحقیق کے مطابق وتایوفقیر چینی دانشورکنفیوشس کے ہمعصر تھے۔''
ہمارے ساتھ والے دوسرے صوفے پر بیٹھے ہوئے صاحب نے سنا تو اپنے ساتھ بیٹھے ہوئے مہمان سے میرے بارے میں پوچھا جو شاید مجھے جانتا تھا اور اس نے ان صاحب کو بتا دیا کہ میں کون ہوں۔ بدقسمتی سے اگلا مقالہ انھوں نے ہی پڑھنا تھا، انھوں نے اپنا مقالہ پڑھنے سے پہلے میرے حوالے سے یہ انکشاف کرنا ضروری سمجھا کہ وتایو فقیرکنفیوشس دورکے سندھی دانشور تھے۔ ان صاحب کے بعد آنے والے مقررین نے میری ''تحقیق'' کو مزید کتنا آگے بڑھایا، ہم نہیں جان سکے کیونکہ اس انکشاف کے بعد ہم نے ''پتلی گلی'' سے نکل آنے میں ہی عافیت جانی اور اٹھ کر چلے آئے تھے۔
حقیقت میں وتایو فقیرکا زمانہ ہی نہیں وجود بھی متنازع ہے، اگرچہ حیدرآباد، میرپورخاص روڈ پر بْکیرا نام کے قصبے کے قریب ایک چھوٹا سا مزار ان کے نام سے منسوب ہے لیکن ایسے لوگوں کی بھی کمی نہیں جو وتایو فقیر کو ایک خیالی کردار قرار دیتے ہیں اور یہ تسلیم نہیں کرتے کہ وہ حقیقتاً کوئی وجود رکھتے تھے۔ جہاں تک میں جانتا ہوں کوئی چھ عشرے قبل معروف ماہر تعلیم مرحوم محمد اسماعیل عرسانی نے اس حوالے سے کافی تحقیق کی تھی لیکن کسی حتمی نتیجے پر نہیں پہنچ پائے تھے۔
وتایوکی حکایات کے موضوع پر ان کی تصنیف آج بھی دلچسپی سے پڑھی جاتی ہے اور سندھی لوک ادب میں گراں قدر اضافہ شمار ہوتی ہے۔ وتایوکسی زمانے کے سچ مچ کے کوئی انسان تھے یا محض ایک خیالی کردار، اگر وجود رکھتے تھے تو کس قسم کے انسان تھے،کس مذہب کے پیروکار تھے، کن خیالات، عقائد ونظریات کے حامل تھے، ان کے سماجی حالات کیسے تھے اور زندگی دینے والے کے ساتھ ان کا رویہ کیسا تھا، اس کا اندازہ آپ ذیل کی چند حکایات سے بخوبی کر سکتے ہیں۔
چاند رات کو سونے سے قبل وتایو نے دعا مانگی، پروردگار! کل عید ہے، تو خوب جانتا ہے کہ صبح سب گھروں میں سویاں پکیں گی۔ مالک! سویاں کھائے مدت ہوگئی ہے، کیا ہی اچھا ہو کہ جب سویاں پک کر تیار ہوں تو میرے اور اماں کے سوا سب مر جائیں، ہم جا کر سب کے گھروں سے سویاں اٹھا لائیں اور جب اپنے گھر پہنچیں تو اماں بھی مرجائیں، بس میں ہوں اور کھانے کے لیے سویاں ...
وتایوگھر کے صحن میں بیری کے درخت کی چھاؤں میں ٹوٹی ہوئی چارپائی پر سو رہے تھے کہ ماں نے سر پہ جوتی مار کے جگایا اور کہا آٹا ختم ہوگیا ہے، وتایو بولے تو اس میں پریشان ہونے کی کیا بات ہے، انھوں نے بیری کی ایک ٹہنی کو پکڑ کر جھنجھوڑا تو زمین پر اشرفیوں کا ڈھیر لگ گیا، ماں یہ دیکھ کر بد حواس ہوگئیں، دوڑ کرگئیں اور اشرفیاں بھرنے کے لیے خالی بوری اٹھا لائیں۔
وتایو نے ماں سے بوری لے کر ایک طرف رکھی، ایک اشرفی اٹھا کر ماں کو دی اورکہا آٹے کے لیے یہ کافی ہے، لالچ مت کر، وہ جس طرح دیتا ہے اسی طرح حساب بھی لیتا ہے۔ ایسے ہی ایک دوسرے موقعے پر وتایو نے اسکول جانے والے کسی بچے سے کاغذ قلم لیا اور مسجد کی چھت پر چڑھ گئے، آسمان کی طرف ہاتھ بڑھاتے ہوئے بولے ''کْھٹ گئے ہوں تو دستخط کردو، آیندہ نہیں مانگوں گا۔''
مسجد میں بیٹھے وعظ سن رہے تھے، جب واعظ نے کہا کہ اللہ رزاق ہے تو اٹھ کر ایک طرف چل دیے، جنگل میں پہنچ کر ایک اونچا درخت تلاش کیا اور اس پر چڑھ کر بیٹھ گئے کہ اگر رزاق ہے تو مجھے یہاں بھی دے گا، دو تین دن گزر گئے، بھوک پیاس سے حال برا تھا لیکن ابھی سانس چل رہی تھی، اتفاق سے شکاریوں کی ایک جماعت نے بھی اسی درخت کے نیچے آکر ڈیرہ ڈالا، جب کھانا پک کر تیار ہوا تو انھوں نے خادم سے کہا کہ پہلے ایک آدمی کا کھانا قریبی گاؤں میں کسی مسکین کو دے آئے۔
وتایو نے جب مسکین کے حصے کا کھانا جاتے دیکھا تو ان سے نہ رہا گیا اور زور سے کھانس پڑے، شکاریوں نے انھیں درخت پہ بیٹھا دیکھا تو اتارکرکھانا کھلایا، خوب پیٹ بھرکے کھایا اور واپس گاؤں پہنچے، لوگوں نے پوچھا دو تین روز کہاں غائب تھے، بولے دیکھنے گیا تھا کہ واعظ سچ کہہ رہا ہے یا جھوٹ، لوگوں نے پوچھا پھرکیا دیکھا، جواب دیا وہ بول تو سچ رہا تھا، اللہ کھانے کو دیتا تو ہے لیکن اس کے لیے پہلے کھانسنا پڑتا ہے۔
گاؤں میں کسی کے گھر چوری ہوگئی، شور مچا تو لوگ لالٹینیں اور لاٹھیاں لے کر چور کو پکڑنے نکلے، ماں نے جگایا تو وتایوکو بھی گھر سے نکلنا پڑا لیکن یہ چورکو تلاش کرنے کی بجائے قبرستان جا پہنچے اور بیٹھ کر انتظارکرنے لگے، لوگوں کے پوچھنے پر کہ یہاں بیٹھے کیا کر رہے ہو، بولے چورکا انتظار کررہا ہوں،کتنا بھاگے گا، آنا اس نے ایک دن یہیں ہے۔
دوران سفر رات گزارنے کے لیے کسی سرائے میں ٹھہرے اور سوتے میں چل بسے، منادی کرائی گئی کہ مرنے والے مسافر کی شناخت نہیں ہو پا رہی، لوگ دیکھنے پہنچے، کسی نے کہا ہندو دکھائی دیتا ہے توکوئی بولا شکل صورت سے مسلمان لگتا ہے، ہندو ان کا کریا کرم کرنا چاہتے تھے جب کہ مسلمان ان کی تجہیزوتکفین پر بضد تھے، تکرار اتنی بڑھی کہ لاٹھیاں اورکلہاڑیاں نکل آئیں، قبل اس کے کہ لڑائی شروع ہوجاتی، وتایو اٹھ بیٹھے، اپنا صافہ جھاڑکرکاندھے پہ رکھا اور یہ کہتے ہوئے چل دیے کہ ہم نے ایسی جگہ نہیں مرنا جہاں کوئی ہمیں جانتا نہ ہو۔
خربوزے بیچنے والا آواز لگا کر لوگوں کو متوجہ کر رہا تھا، وتایو کا بھی دل چاہا خربوزہ کھانے کو، انھوں نے اس سے اللہ کے نام پر ایک خربوزہ مانگا، اس نے ایک چھوٹا سا خراب اور پھسا ہوا دانا پکڑا دیا، وتایو نے پھر جیب سے ایک پیسے کا سکہ نکال کر دیا تو اس نے دوسرا اچھا سا بڑا اور میٹھا خربوزہ اٹھا کر دیا، انھوں نے دونوں دانے ہتھیلیوں پر رکھ کر ہاتھ اوپر اٹھائے اور آسمان کی طرف منہ کر کے بولے اپنے نام پر ملا ہوا خربوزہ دیکھ اور ایک پیسے میں خریدا ہوا دانا بھی دیکھ اور بتا کون بڑا ہے، تو کہ پیسہ ...
وتایوکی ماں نے ایک گائے پال رکھی تھی اور اس کے لیے مانگ تانگ کرگھاس جمع کرتی تھیں جو ایک آوارہ گدھی چر جایا کرتی اور گائے بھوکی رہ جاتی، ماں نے ایک دن دیکھ لیا تو لگیں وتایو پر چیخنے اور چلانے کہ بڑا اللہ والا بنا پھرتا ہے، یہ نہیں ہوتا کہ اللہ سے کہہ کر گدھی کو مروا دے، انھوں نے دعا مانگ کر منہ پہ ہاتھ پھیرا اور ماں کو یقین دلایا کہ وہ صبح گدھی کو مرا ہوا پائے گی لیکن جب ماں نے صبح اٹھ کر دیکھا تو گدھی کی جگہ گائے مری پڑی تھی۔
وتایو ماں کا رونا دھونا سن کر اٹھے اور گائے کو مرا ہوا دیکھ کر بغیر کچھ کہے سنے باہر نکل گئے، تھوڑی دیر بعد لوٹے تو ایک نابینا بھکاری ان کے ساتھ تھا، وتایو اسے ہاتھ سے پکڑ کر مردہ گائے کے پاس لائے اور کہا ٹٹول کر بتاؤ یہ کیا ہے، اس نے کہا یہ تو مری ہوئی گائے لگتی ہے، آسمان کی طرف دیکھ کر بولے یار، اندھے کو بھی پتہ چلتا ہے کہ یہ گدھی نہیں ہے پھر تو نے ہماری گائے کیسے مار دی؟
1981ء کی بات ہے، میں سندھی روزنامہ ہلالِ پاکستان کے ایڈیٹر کی حیثیت سے وتایو فقیر پر ہونے والے ایک مذاکرے میں شریک تھا۔ ادارتی عملے کے ایک رکن فقیر محمد لاشاری بھی میرے ساتھ تھے۔ ہم دوسری قطار میں ایک ہی صوفے پر بیٹھے تھے۔ جو صاحب اپنا مقالہ پڑھ رہے تھے انھوں نے جب یہ کہا کہ اب تک یہ طے نہیں ہوسکا ہے کہ وتایو فقیر نے کونسا زمانہ پایا تھا، تو میں نے ازراہ مذاق اپنے ساتھی لاشاری سے کہا ''طے کیسے نہیں ہوا ہے، میری تحقیق کے مطابق وتایوفقیر چینی دانشورکنفیوشس کے ہمعصر تھے۔''
ہمارے ساتھ والے دوسرے صوفے پر بیٹھے ہوئے صاحب نے سنا تو اپنے ساتھ بیٹھے ہوئے مہمان سے میرے بارے میں پوچھا جو شاید مجھے جانتا تھا اور اس نے ان صاحب کو بتا دیا کہ میں کون ہوں۔ بدقسمتی سے اگلا مقالہ انھوں نے ہی پڑھنا تھا، انھوں نے اپنا مقالہ پڑھنے سے پہلے میرے حوالے سے یہ انکشاف کرنا ضروری سمجھا کہ وتایو فقیرکنفیوشس دورکے سندھی دانشور تھے۔ ان صاحب کے بعد آنے والے مقررین نے میری ''تحقیق'' کو مزید کتنا آگے بڑھایا، ہم نہیں جان سکے کیونکہ اس انکشاف کے بعد ہم نے ''پتلی گلی'' سے نکل آنے میں ہی عافیت جانی اور اٹھ کر چلے آئے تھے۔
حقیقت میں وتایو فقیرکا زمانہ ہی نہیں وجود بھی متنازع ہے، اگرچہ حیدرآباد، میرپورخاص روڈ پر بْکیرا نام کے قصبے کے قریب ایک چھوٹا سا مزار ان کے نام سے منسوب ہے لیکن ایسے لوگوں کی بھی کمی نہیں جو وتایو فقیر کو ایک خیالی کردار قرار دیتے ہیں اور یہ تسلیم نہیں کرتے کہ وہ حقیقتاً کوئی وجود رکھتے تھے۔ جہاں تک میں جانتا ہوں کوئی چھ عشرے قبل معروف ماہر تعلیم مرحوم محمد اسماعیل عرسانی نے اس حوالے سے کافی تحقیق کی تھی لیکن کسی حتمی نتیجے پر نہیں پہنچ پائے تھے۔
وتایوکی حکایات کے موضوع پر ان کی تصنیف آج بھی دلچسپی سے پڑھی جاتی ہے اور سندھی لوک ادب میں گراں قدر اضافہ شمار ہوتی ہے۔ وتایوکسی زمانے کے سچ مچ کے کوئی انسان تھے یا محض ایک خیالی کردار، اگر وجود رکھتے تھے تو کس قسم کے انسان تھے،کس مذہب کے پیروکار تھے، کن خیالات، عقائد ونظریات کے حامل تھے، ان کے سماجی حالات کیسے تھے اور زندگی دینے والے کے ساتھ ان کا رویہ کیسا تھا، اس کا اندازہ آپ ذیل کی چند حکایات سے بخوبی کر سکتے ہیں۔
چاند رات کو سونے سے قبل وتایو نے دعا مانگی، پروردگار! کل عید ہے، تو خوب جانتا ہے کہ صبح سب گھروں میں سویاں پکیں گی۔ مالک! سویاں کھائے مدت ہوگئی ہے، کیا ہی اچھا ہو کہ جب سویاں پک کر تیار ہوں تو میرے اور اماں کے سوا سب مر جائیں، ہم جا کر سب کے گھروں سے سویاں اٹھا لائیں اور جب اپنے گھر پہنچیں تو اماں بھی مرجائیں، بس میں ہوں اور کھانے کے لیے سویاں ...
وتایوگھر کے صحن میں بیری کے درخت کی چھاؤں میں ٹوٹی ہوئی چارپائی پر سو رہے تھے کہ ماں نے سر پہ جوتی مار کے جگایا اور کہا آٹا ختم ہوگیا ہے، وتایو بولے تو اس میں پریشان ہونے کی کیا بات ہے، انھوں نے بیری کی ایک ٹہنی کو پکڑ کر جھنجھوڑا تو زمین پر اشرفیوں کا ڈھیر لگ گیا، ماں یہ دیکھ کر بد حواس ہوگئیں، دوڑ کرگئیں اور اشرفیاں بھرنے کے لیے خالی بوری اٹھا لائیں۔
وتایو نے ماں سے بوری لے کر ایک طرف رکھی، ایک اشرفی اٹھا کر ماں کو دی اورکہا آٹے کے لیے یہ کافی ہے، لالچ مت کر، وہ جس طرح دیتا ہے اسی طرح حساب بھی لیتا ہے۔ ایسے ہی ایک دوسرے موقعے پر وتایو نے اسکول جانے والے کسی بچے سے کاغذ قلم لیا اور مسجد کی چھت پر چڑھ گئے، آسمان کی طرف ہاتھ بڑھاتے ہوئے بولے ''کْھٹ گئے ہوں تو دستخط کردو، آیندہ نہیں مانگوں گا۔''
مسجد میں بیٹھے وعظ سن رہے تھے، جب واعظ نے کہا کہ اللہ رزاق ہے تو اٹھ کر ایک طرف چل دیے، جنگل میں پہنچ کر ایک اونچا درخت تلاش کیا اور اس پر چڑھ کر بیٹھ گئے کہ اگر رزاق ہے تو مجھے یہاں بھی دے گا، دو تین دن گزر گئے، بھوک پیاس سے حال برا تھا لیکن ابھی سانس چل رہی تھی، اتفاق سے شکاریوں کی ایک جماعت نے بھی اسی درخت کے نیچے آکر ڈیرہ ڈالا، جب کھانا پک کر تیار ہوا تو انھوں نے خادم سے کہا کہ پہلے ایک آدمی کا کھانا قریبی گاؤں میں کسی مسکین کو دے آئے۔
وتایو نے جب مسکین کے حصے کا کھانا جاتے دیکھا تو ان سے نہ رہا گیا اور زور سے کھانس پڑے، شکاریوں نے انھیں درخت پہ بیٹھا دیکھا تو اتارکرکھانا کھلایا، خوب پیٹ بھرکے کھایا اور واپس گاؤں پہنچے، لوگوں نے پوچھا دو تین روز کہاں غائب تھے، بولے دیکھنے گیا تھا کہ واعظ سچ کہہ رہا ہے یا جھوٹ، لوگوں نے پوچھا پھرکیا دیکھا، جواب دیا وہ بول تو سچ رہا تھا، اللہ کھانے کو دیتا تو ہے لیکن اس کے لیے پہلے کھانسنا پڑتا ہے۔
گاؤں میں کسی کے گھر چوری ہوگئی، شور مچا تو لوگ لالٹینیں اور لاٹھیاں لے کر چور کو پکڑنے نکلے، ماں نے جگایا تو وتایوکو بھی گھر سے نکلنا پڑا لیکن یہ چورکو تلاش کرنے کی بجائے قبرستان جا پہنچے اور بیٹھ کر انتظارکرنے لگے، لوگوں کے پوچھنے پر کہ یہاں بیٹھے کیا کر رہے ہو، بولے چورکا انتظار کررہا ہوں،کتنا بھاگے گا، آنا اس نے ایک دن یہیں ہے۔
دوران سفر رات گزارنے کے لیے کسی سرائے میں ٹھہرے اور سوتے میں چل بسے، منادی کرائی گئی کہ مرنے والے مسافر کی شناخت نہیں ہو پا رہی، لوگ دیکھنے پہنچے، کسی نے کہا ہندو دکھائی دیتا ہے توکوئی بولا شکل صورت سے مسلمان لگتا ہے، ہندو ان کا کریا کرم کرنا چاہتے تھے جب کہ مسلمان ان کی تجہیزوتکفین پر بضد تھے، تکرار اتنی بڑھی کہ لاٹھیاں اورکلہاڑیاں نکل آئیں، قبل اس کے کہ لڑائی شروع ہوجاتی، وتایو اٹھ بیٹھے، اپنا صافہ جھاڑکرکاندھے پہ رکھا اور یہ کہتے ہوئے چل دیے کہ ہم نے ایسی جگہ نہیں مرنا جہاں کوئی ہمیں جانتا نہ ہو۔
خربوزے بیچنے والا آواز لگا کر لوگوں کو متوجہ کر رہا تھا، وتایو کا بھی دل چاہا خربوزہ کھانے کو، انھوں نے اس سے اللہ کے نام پر ایک خربوزہ مانگا، اس نے ایک چھوٹا سا خراب اور پھسا ہوا دانا پکڑا دیا، وتایو نے پھر جیب سے ایک پیسے کا سکہ نکال کر دیا تو اس نے دوسرا اچھا سا بڑا اور میٹھا خربوزہ اٹھا کر دیا، انھوں نے دونوں دانے ہتھیلیوں پر رکھ کر ہاتھ اوپر اٹھائے اور آسمان کی طرف منہ کر کے بولے اپنے نام پر ملا ہوا خربوزہ دیکھ اور ایک پیسے میں خریدا ہوا دانا بھی دیکھ اور بتا کون بڑا ہے، تو کہ پیسہ ...
وتایوکی ماں نے ایک گائے پال رکھی تھی اور اس کے لیے مانگ تانگ کرگھاس جمع کرتی تھیں جو ایک آوارہ گدھی چر جایا کرتی اور گائے بھوکی رہ جاتی، ماں نے ایک دن دیکھ لیا تو لگیں وتایو پر چیخنے اور چلانے کہ بڑا اللہ والا بنا پھرتا ہے، یہ نہیں ہوتا کہ اللہ سے کہہ کر گدھی کو مروا دے، انھوں نے دعا مانگ کر منہ پہ ہاتھ پھیرا اور ماں کو یقین دلایا کہ وہ صبح گدھی کو مرا ہوا پائے گی لیکن جب ماں نے صبح اٹھ کر دیکھا تو گدھی کی جگہ گائے مری پڑی تھی۔
وتایو ماں کا رونا دھونا سن کر اٹھے اور گائے کو مرا ہوا دیکھ کر بغیر کچھ کہے سنے باہر نکل گئے، تھوڑی دیر بعد لوٹے تو ایک نابینا بھکاری ان کے ساتھ تھا، وتایو اسے ہاتھ سے پکڑ کر مردہ گائے کے پاس لائے اور کہا ٹٹول کر بتاؤ یہ کیا ہے، اس نے کہا یہ تو مری ہوئی گائے لگتی ہے، آسمان کی طرف دیکھ کر بولے یار، اندھے کو بھی پتہ چلتا ہے کہ یہ گدھی نہیں ہے پھر تو نے ہماری گائے کیسے مار دی؟