لاپتہ افراد کے معاملے پر انتظامیہ بے کس پارلیمان بے بس ہے قائمہ کمیٹی انسانی حقوق

خواتین کو چھرا مارنے والے ملزمان کی گرفتاری کیلیے سندھ حکومت موثر اقدامات کرے، سینیٹر نسرین جلیل

وسیم کے کراچی آنے کے شواہد نہیں ملے، ڈی آئی جی سلطان خواجہ۔ فوٹو: فائل

سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے انسانی حقوق نے لاپتہ افرادکی عدم بازیابی پر پارلیمنٹ کی بے بسی پرتشویش کا اظہار کیا ہے۔

سینیٹ کی فنکشنل کمیٹی کا اجلاس سینیٹر نسرین جلیل کی صدرات میں سندھ سیکریٹریٹ میں ہوا اجلاس میں سینیٹر فرحت اللہ بابر سمیت کمیٹی کے دیگر ارکان شریک ہوئے۔ اجلاس میں کمیٹی کے اراکین نے لاپتہ افراد کے معاملے پر پیشرفت نہ ہونے پر اپنی تشویش کا اظہار کیا اور کہا کہ آج طے ہوگیا کہ پارلیمان بے بس ہے لاپتہ افراد کے معاملے میں انتظامیہ بے کس اور پارلیمان بے بس ہے لاپتہ افراد کی تعداد میں مسلسل اضافے پر تشویش ہے پارلیمان اور انتظامیہ کو پیغام دیاہے کہ لاپتہ افراد کے مسئلے پر ملکر آوازاٹھائیں۔

سینیٹ کی فنکشنل کمیٹی برائے انسانی حقوق نے کراچی میں خواتین پر حملوں کی تفتیش کے حواالے سے پولیس کی رپورٹ اطمینان کا اظہار کیا اس موقع پر کمیٹی کو ایڈیشنل آئی جی کراچی مشتاق مہر اور ڈی آئی جی سلطان خواجہ نے چھرا مار کارروائیوں اور اب تک کی پیشرفت پرتفصیلی بریفنگ دی۔

ایڈیشنل آئی جی کراچی مشتاق مہر نے بریفنگ کے دوران کمیٹی کو بتایا کہ ہمیں احساس ذمے داری ہے، خواتین پر حملوں کومیڈیا نے بڑھا کرپیش کیا،کراچی میں پہلے سیریل کلنگ ہوتی تھی30,40 ذہنی مریضوں سے تفتیش کی گئی ، 40 چھوٹے کرمنلز کو پکڑا،خواتین پر حملوں کے الزام.میں ماضی کے عسکری ونگز کے کارندوں کو بھی گرفتار کیا گیا۔


مشتاق مہر نے بتایا کہ رینجرز کے 100 اور پولیس کے 200 اہلکار گلشن اقبال اور جوہر میں تعنیات کیے گئے،کراچی میں امن واپس لوٹایا ہے، خواتین حملہ واقعات میں کئی زاویوں پر کام کررہے ہیں ذہنی مریض اور ماضی کے عسکری ونگ پر بھی نظر ہے،2016 میں 75 پولیس آرمی جوان ٹارگٹ کلنگ کیے گئے،یہ تمام ٹارگٹ کلنگ2 دہشت گردوں نے کی جب کہ انصارالشریعہ نے بھی 25 افراد کو ٹارگٹ کرکے مارا،ان واقعات میں بھی 2ہی ملزمان تھے۔

سینیٹر فرحت اللہ بابر نے کہا کہ اگر پنڈی،ساہیوال چیچہ وطنی اور کراچی میں خواتین پرحملے ہوئے تو گینگ ملوث ہوگا،ایک ملزم کئی شہروں میں تونہیں جاسکتا،واقعات میں مماثلت تلاش نہ کریں تفتیش کے دوسرے زاویوں پر بھی کام کری تیز دھارآلے کے 13 واقعات میں مماثلت ہے۔

ڈی آئی جی سلطان خواجہ نے بتایا کہ تین نفسیاتی اسپتالوں سے مریضوں کا ڈیٹا لے لیا گیا،مبینہ ملزم وسیم نے16 مختلف سمز اور موبائل فون سیٹس استعمال کیے،زیادہ تر موبائل سمز رشتے داروں کے نام پر ہیں،خواتین پر حملوں کا مبینہ ملزم وسیم بری ہوسکتا ہے۔ وسیم کے زیر استعمال سولہ سمز کا ڈیٹا لیا،ایک بھی سم سے کراچی میں کال کی گئی نہ وصول ہوئی، انھوں نے بتایا کہ وسیم کے کراچی آنے کے شواہد بھی نہیں ملے،38 مشتبہ ملزمان گرفتار کیے، 200 موبائل نمبرز کا ڈیٹا چیک کیا، 15 ہزارکالز کو ٹریس کیا گیا،گلستان جوہر میں سرخ رنگ کی1500 موٹرسائیکلز رجسٹرڈہیں۔

سلطان خواجہ کا کہنا تھا کہ بدقسمتی سے کراچی میں سی سی ٹی وی کیمرہ کا نظام ہی نہیں، ایس ایس پی انوسٹی گیشن 10 روز سے ساہیوال میں ہیں، اگر وسیم بے گناہ ہوا تو چھوڑ دیں گے، وسیم کے دوست شہزاد کو لانڈھی سے گرفتار کیا۔
Load Next Story