پاک ایران گیس پائپ لائن کی تعمیر

پاک ایران گیس پائپ لائن کی تعمیر سے یقیناً دونوں برادر پڑوسیوں کے تعلقات میں استحکام و یگانگت کو فروغ حاصل ہو گا۔

آیت اللہ خامنہ ای نے کہا کہ محفوظ توانائی کے ذرایع تک رسائی حاصل کرنا پاکستان سمیت کسی بھی ملک کی پہلی ترجیح ہوتی ہے۔ فوٹو: اے ایف پی

امریکا اورمغربی ممالک کی طرف سے مخالفت کے باوجود پاکستان نے ایران سے گیس پائپ لائن کے منصوبے کی تعمیر کا فیصلہ کر لیا ہے جس کے لیے صدر آصف علی زرداری کے دورہ ایران کو بہت اہمیت دی جارہی ہے۔ صدر مملکت آصف علی زرداری کی ایران میں اپنے ہم منصب صدر محمود احمدی نژاد اور ایران کے سپریم کمانڈر آیت اللہ علی خامنہ ای سمیت بہت سی دیگر اہم شخصیات سے ملاقات ہوئی جن میں ایران پاکستان گیس پائپ لائن منصوبے پر جلد از جلد کام شروع کرانے کا فیصلہ کیا گیا۔پاک ایران تعلقات کے تناظر میں یہ اہم پیش رفت ہے۔ ایرانی صدر احمدی نژاد کا کہنا ہے کہ عالمی اور علاقائی کھلاڑیوں نے پاک ایران تعلقات کو ناکام بنانے کی بہت کوشش کی لیکن لوگوں کو معلوم ہے کہ کس طرح مخالفوں کا مقابلہ کرنا ہے۔

یہ اعلان بھی کیا گیا ہے کہ گیس پائپ لائن کی تعمیر کا باقاعدہ آغاز 4 مارچ کو پاک ایران سرحد سے کردیا جائے گا۔ اخباری اطلاعات کے مطابق پاکستان نے امریکی دبائو مسترد کرتے ہوئے ڈیڑھ ارب ڈالر مالیت کے پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبے کے پاکستانی علاقے میں پائپ لائن بچھانے کا ٹھیکہ ایرانی کمپنی کو دیدیا ہے۔ روس اور چین کی طرف سے اس منصوبے کی حمایت ختم کرنے کے بعد پاکستان نے اپنے علاقے میں پائپ لائن کی تعمیر کے لیے ایرانی پیشکش سے فائدہ اٹھانے کا فیصلہ کیا تھا۔

ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای نے پاک ایران پائپ لائن منصوبے کو دونوں ممالک کے مابین مستحکم تعلقات کی مثال قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ یہی وجہ ہے کہ اسے تمام تر اعتراضات کے باوجود مکمل کرنا دونوں ممالک کے وسیع ترمفاد میں ہے۔ آیت اللہ خامنہ ای نے مزید کہا کہ ''محفوظ توانائی کے ذرایع تک رسائی حاصل کرنا پاکستان سمیت کسی بھی ملک کی پہلی ترجیح ہوتی ہے جب کہ اس خطے میں اسلامی جمہوریہ ایران واحد ملک ہے جس کے پاس محفوظ توانائی کے ذخائر موجود ہیں اور ہم پاکستان کو اس کی ضروریات کے مطابق محفوظ توانائی بہم پہنچانے کے لیے تیار ہیں''۔ آیت اﷲ خامنہ ای کے بیان سے اندازہ ہوجاتا ہے کہ ایرانی قیادت پاکستان کے ساتھ تعلقات کو کس قدر اہمیت دیتی ہے۔گیس پائپ لائن منصوبہ دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات کے نئے دور کا آغاز ہے۔


امریکا اور مغربی ممالک اس منصوبے سے خوش نہیں ہیں۔ان کی ناراضی کی وجہ ایران کا ایٹمی پروگرام ہے۔ امریکا اور اس کے مغربی اتحادیوں کی طرف سے ایران کے جوہری پروگرام کے حوالے سے اس کی کردار کشی اور مذمت کے ساتھ اب پاکستان پر دباؤ ڈالنے کی کوششیں جاری ہیں۔ امریکا چونکہ ایران کو عالمی تنہائی کا شکار بنانا چاہتا ہے لہٰذا ایران کے ساتھ تعلق استوار کرنے والے دیگر ممالک بھی امریکا کے نشانے پر آ جاتے ہیں اور ان پر بھی اقتصادی پابندیاں عاید کرنے کی دھمکیوں سے گویا ان کا حقہ پانی بند کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ذرایع ابلاغ میں اس قسم کی خبریں آتی رہتی ہیں کہ امریکا چاہتا ہے کہ پاکستان ایران سے گیس لینے کے بجائے ترکمانستان سے براستہ افغانستان پاکستان پہنچنے والی پائپ لائن کو قبول کرے جو پاکستان سے آگے بھارت تک بھی جائے گی۔ لیکن اس متبادل پیشکش کرنے والوں کے پاس اس بارے میں کیا ضمانت ہے کہ افغانستان جیسے جنگ زدہ ملک سے پائپ لائن محفوظ طور پر گزر سکے گی۔

افغانستان کی جو صورتحال ہے ، وہ سب کے سامنے ہے۔یہاں جلد امن قائم ہونا خاصا مشکل ہے۔اس کے علاوہ پاکستان کے قبائلی علاقوںمیں بھی بہتر صورتحال نہیں ہے۔ ترکمانستان سے آنے والی گیس پائپ لائن کی حفاظت کرنا انتہائی مشکل کام ہے۔ پاک ایران گیس پائپ لائن کے مجوزہ منصوبے میں ابتدائی طور پر بھارت کو بھی شامل کیا گیا تھا یعنی ایران سے چل کر اس پائپ لائن نے پاکستان سے گزرتے ہوئے بھارت تک جانا تھا لیکن امریکا نے بھارت کے ساتھ سول جوہری توانائی فراہم کرنے کا معاہدہ کر کے اسے ایران پائپ لائن سے دستبردار کرا دیا۔ اس عنایت خسروانہ کا پاکستان نے برا منایا اور اپنے لیے بھی اسی نعمت کا تقاضا کیا جو بھارت کو اتنی آسانی سے دیدی گئی تھی۔

لیکن امریکا کی طرف سے اس مطالبے کی سنی ان سنی کر دی گئی اور پاکستان کو اس طویل پائپ لائن پر رضا مند ہونے کے لیے زور دیا گیا جس کا زمینی حقائق کی روشنی میں معرض وجود میں آنا انتہائی مشکل کام ہے۔ ایران کے ساتھ پائپ لائن کی تعمیر پاکستان کے لیے سب سے زیادہ قابل عمل منصوبہ ہے جس میں ایران پاکستان کے حصے کی پائپ لائن بھی خود تعمیر کرنے اور اس کے لیے 50 کروڑ ڈالر کا قرضہ دینے پر بھی تیار ہے۔پاکستان کو اپنے مفادات کو سامنے رکھ کر فیصلہ کرنے کا حق حاصل ہے۔ افغانستان سے امریکی افواج کے انخلاء کے بعد اس خطے میں وسیع پیمانے پر اتھل پتھل کا احتمال ہے، ایسی صورت میں پاکستانی قیادت کے لیے دانشمندی کا تقاضا یہی ہے کہ وہ علاقائی تعلقات کو مضبوط اور مستحکم بنائے۔

پاک ایران گیس پائپ لائن کی تعمیر سے یقیناً دونوں برادر پڑوسیوں کے تعلقات میں استحکام و یگانگت کو فروغ حاصل ہو گا۔ لیکن اس کے ساتھ ہی اس منصوبے کے خلاف سازشوں کا دروازہ بھی کھلا ہوا ہے جس پر وطن سے محبت رکھنے والوں کو گہری نظر رکھنا ہو گی۔ تہران میں صدر آصف علی زرداری نے ایرانی صدر محمود احمدی نژاد کے ساتھ ملاقات میں پاکستان میں ایران کی مدد سے مکمل ہونے والے دیگر بڑے منصوبوں پر بھی تبادلہ خیال کیا، ان منصوبوں میں گیس پائپ لائن کے علاوہ بلوچستان کے ایرانی سرحد کے قریبی علاقوں میں سستی بجلی فراہم کرنے کا منصوبہ بھی شامل ہے۔پاکستان کو اس وقت توانائی کی اشد ضرورت ہے۔توانائی کی کمی سے پاکستان کی معیشت بری طرح متاثرہورہی ہے۔ایران کے پاس توانائی موجود ہے۔یوں دیکھا جائے تو پاکستان نے غیرملکی دباؤ کو خاطر میں نہ لاتے ہوئے ایران کے ساتھ گیس پائپ لائن کا جو معاہدہ کیا ہے، وہ بروقت ہے اور اس پر پوری توجہ سے کام ہونا چاہیے تاکہ پاکستان اپنی توانائی کی ضروریات پوری کرسکے۔
Load Next Story