ڈرون حملے…امریکا کی نئی پالیسی کا امکان
زیادہ سے زیادہ فرق یہ پڑے گا کہ ڈرون حملوں کا کنٹرول ایک ادارے سے نکل کر دوسرے کے ہاتھ میں چلا جائے گا۔
ڈرون حملوں اور ان کے نتیجے میں ہونے والی ہلاکتوں کے قانونی جواز کے حوالے سے امریکا میں جو بحث و مباحثے ہو رہے ہیں' اس کی وجہ سے اوباما انتظامیہ خاصے دبائو میں ہے۔ امریکا کے ذرایع ابلاغ کے مطابق اب صدر بارک اوباما نے مختلف ممالک میں ہونے والے ڈرون حملوں کا کنٹرول امریکا کی فوج کو دینے پر غور شروع کرناکردیا ہے ۔ان خبروں یا اطلاعات میں کس حد تک صداقت ہے، اس کے حوالے سے فی الحال کچھ نہیں کہا جا سکتا لیکن اگر ایسا ہوتا ہے تو اس سے امریکا کی ڈرون پالیسی میں شاید کوئی بڑی تبدیلی نہ ہوسکے۔
زیادہ سے زیادہ فرق یہ پڑے گا کہ ڈرون حملوں کا کنٹرول ایک ادارے سے نکل کر دوسرے کے ہاتھ میں چلا جائے گا۔ یعنی پہلے یہ حملے سی آئی اے کی نگرانی میں ہوتے تھے تو اب امریکی فوج کیا کرے گی۔ پاکستان میں ڈرون کارروائیوں کے بارے میں فیصلہ بدستور سی آئی اے ہی کرے گی۔ ایک غیرملکی خبررساں ادارے کی رپورٹ کے مطابق اوباما انتظامیہ کئی ممالک میں ڈرون حملوں کا کنٹرول سی آئی اے سے لے کر فوج کو دینے پر غور کررہی ہے۔اس رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اس کا اطلاق پاکستان میں ہونے والے ڈرون حملوں پر نہیں ہوگا۔
رپورٹ کے مطابق یہ فیصلہ امریکی کانگریس اور عوام کی جانب سے ڈرون حملوں کے قانونی جواز پراٹھائے جانے والے سوالات کے بعد کیا گیا ہے۔اب تک سب سے زیادہ ڈرون حملے پاکستان ، یمن اور صومالیہ میں کیے گئے ہیں، جن کا کنٹرول امریکی خفیہ ادارے سی آئی اے کے پاس تھا۔ امریکی حکام کا موقف ہے کہ فوج کی تمام کارروائیاں سخت قوانین کے تحت ہوتی ہیں اور ڈرون حملوں کا کنٹرول فوج کوملنے سے اِن کے قانونی جواز پر اعتراضات بھی ختم ہو جائیں گے۔
امریکا کے ذرایع ابلاغ میں ڈرون حملوں کے حوالے سے جو باتیں منظر عام پر آ رہی ہیں' ان سے یہی نتیجہ نکلتا ہے کہ پاکستان اور افغانستان میں جو حملے ہو رہے ہیں' وہ بدستور سی آئی اے کے ذریعے ہی ہوں گے لہذا اس علاقے میں امریکا کی ڈرون پالیسی میں کوئی شفٹ نہیں آئے گی البتہ صومالیہ اور یمن میں صورتحال مختلف ہو سکتی ہے' ویسے بھی ان ممالک میں اتنے ڈرون حملے نہیں ہوتے جتنے کہ پاکستان میں ہوتے ہیں۔ پاکستان کی حکومت کو ڈرون حملوں کے بارے میں امریکی پالیسی میں ہونے والی متوقع تبدیلی پر گہری نظر رکھنی چاہیے' امریکا اور پاکستان کے درمیان تنائو اور کھچائو کی بڑی وجہ ڈرون حملے ہی ہیں' ان ڈرون حملوں کی وجہ سے بے گناہوں کی ہلاکتوں کی تعداد میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے' یوں پاکستان کی حکومت کے لیے اندرون ملک بے شمار مسائل پیدا ہورہے ہیں۔
سوچنے والی بات یہ ہے کہ اگر صومالیہ یا یمن میں ڈرون حملے امریکی فوج کی کمان میں دیے جاسکتے ہیں تو پھر افغانستان میں ایسا کیوں نہیں ہو سکتا۔ دوسرا نکتہ یہ ہے کہ پاکستان کے قبائلی علاقوں میں براہ راست ڈرون حملوں کا کوئی جواز نہیں ہے' کہیں اگر دہشت گرد مقیم بھی ہیں تو ان کی اطلاع پاکستان کو دی جانی چاہیے۔ پاکستان اپنے علاقوں میں دہشت گردوں کے خلاف خود آپریشن کرے' پاکستان اور امریکا کے درمیان اگر کہیں بداعتمادی موجود بھی ہے تو اس میں ممکن ہے کہ سی آئی اے کی مبہم یا نا مکمل معلومات کا عمل دخل ہو' اگر معلومات کے تبادلے میں پاکستان کو اعتماد میں لیا جائے تو پاکستان اور امریکا کے درمیان غلط فہمیاں بھی دور ہو سکتی ہیں۔ امریکا میں ڈرون حملوں کے حوالے سے خاصے عرصے سے بحث و مباحثے ہو رہے ہیں' اب یہ اپنے نتیجہ خیز دور میں داخل ہو رہے ہیں' پاکستان کو اس مرحلے پر اپنے مفادات کو سامنے رکھ کر پاکستان میں ڈرون حملوں کو رکوانے یا کسی قابل قبول فارمولے کی تیاری کے لیے کوشش کرنی چاہیے تاکہ ڈرون حملوں کے حوالے سے ابہام دور ہو سکے اور پاکستان کی مشکلات میں کمی آ سکے۔
زیادہ سے زیادہ فرق یہ پڑے گا کہ ڈرون حملوں کا کنٹرول ایک ادارے سے نکل کر دوسرے کے ہاتھ میں چلا جائے گا۔ یعنی پہلے یہ حملے سی آئی اے کی نگرانی میں ہوتے تھے تو اب امریکی فوج کیا کرے گی۔ پاکستان میں ڈرون کارروائیوں کے بارے میں فیصلہ بدستور سی آئی اے ہی کرے گی۔ ایک غیرملکی خبررساں ادارے کی رپورٹ کے مطابق اوباما انتظامیہ کئی ممالک میں ڈرون حملوں کا کنٹرول سی آئی اے سے لے کر فوج کو دینے پر غور کررہی ہے۔اس رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اس کا اطلاق پاکستان میں ہونے والے ڈرون حملوں پر نہیں ہوگا۔
رپورٹ کے مطابق یہ فیصلہ امریکی کانگریس اور عوام کی جانب سے ڈرون حملوں کے قانونی جواز پراٹھائے جانے والے سوالات کے بعد کیا گیا ہے۔اب تک سب سے زیادہ ڈرون حملے پاکستان ، یمن اور صومالیہ میں کیے گئے ہیں، جن کا کنٹرول امریکی خفیہ ادارے سی آئی اے کے پاس تھا۔ امریکی حکام کا موقف ہے کہ فوج کی تمام کارروائیاں سخت قوانین کے تحت ہوتی ہیں اور ڈرون حملوں کا کنٹرول فوج کوملنے سے اِن کے قانونی جواز پر اعتراضات بھی ختم ہو جائیں گے۔
امریکا کے ذرایع ابلاغ میں ڈرون حملوں کے حوالے سے جو باتیں منظر عام پر آ رہی ہیں' ان سے یہی نتیجہ نکلتا ہے کہ پاکستان اور افغانستان میں جو حملے ہو رہے ہیں' وہ بدستور سی آئی اے کے ذریعے ہی ہوں گے لہذا اس علاقے میں امریکا کی ڈرون پالیسی میں کوئی شفٹ نہیں آئے گی البتہ صومالیہ اور یمن میں صورتحال مختلف ہو سکتی ہے' ویسے بھی ان ممالک میں اتنے ڈرون حملے نہیں ہوتے جتنے کہ پاکستان میں ہوتے ہیں۔ پاکستان کی حکومت کو ڈرون حملوں کے بارے میں امریکی پالیسی میں ہونے والی متوقع تبدیلی پر گہری نظر رکھنی چاہیے' امریکا اور پاکستان کے درمیان تنائو اور کھچائو کی بڑی وجہ ڈرون حملے ہی ہیں' ان ڈرون حملوں کی وجہ سے بے گناہوں کی ہلاکتوں کی تعداد میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے' یوں پاکستان کی حکومت کے لیے اندرون ملک بے شمار مسائل پیدا ہورہے ہیں۔
سوچنے والی بات یہ ہے کہ اگر صومالیہ یا یمن میں ڈرون حملے امریکی فوج کی کمان میں دیے جاسکتے ہیں تو پھر افغانستان میں ایسا کیوں نہیں ہو سکتا۔ دوسرا نکتہ یہ ہے کہ پاکستان کے قبائلی علاقوں میں براہ راست ڈرون حملوں کا کوئی جواز نہیں ہے' کہیں اگر دہشت گرد مقیم بھی ہیں تو ان کی اطلاع پاکستان کو دی جانی چاہیے۔ پاکستان اپنے علاقوں میں دہشت گردوں کے خلاف خود آپریشن کرے' پاکستان اور امریکا کے درمیان اگر کہیں بداعتمادی موجود بھی ہے تو اس میں ممکن ہے کہ سی آئی اے کی مبہم یا نا مکمل معلومات کا عمل دخل ہو' اگر معلومات کے تبادلے میں پاکستان کو اعتماد میں لیا جائے تو پاکستان اور امریکا کے درمیان غلط فہمیاں بھی دور ہو سکتی ہیں۔ امریکا میں ڈرون حملوں کے حوالے سے خاصے عرصے سے بحث و مباحثے ہو رہے ہیں' اب یہ اپنے نتیجہ خیز دور میں داخل ہو رہے ہیں' پاکستان کو اس مرحلے پر اپنے مفادات کو سامنے رکھ کر پاکستان میں ڈرون حملوں کو رکوانے یا کسی قابل قبول فارمولے کی تیاری کے لیے کوشش کرنی چاہیے تاکہ ڈرون حملوں کے حوالے سے ابہام دور ہو سکے اور پاکستان کی مشکلات میں کمی آ سکے۔