حکمرانی کا شوق
حالیہ دنوں میں کریکر حملے بھی ایک خاصا بن گئے ہیں عام طور پر یہ کریکر بھتہ خور گروپ استعمال کرتے ہیں
ایک دور تھا جب لیڈری ان مرد و زن کا شیوہ تھا جو تعلیم یافتہ ہونے کے ساتھ ساتھ علوم روزگار سے بھی آشنا ہوتے تھے، قیام پاکستان سے قبل بھی لیڈری ان ہی حضرات کے ہاتھوں میں تھی کیونکہ یہ کسی کو راہ دکھا سکتے تھے اور اپنا سیاسی نظریہ بھی رکھتے تھے، مگر قیام پاکستان کے بعد رفتہ رفتہ لیڈری پر وہ طلبا اور نام نہاد رہنما قابض ہوگئے جو تعلیمی اعتبار سے نہایت پست تھے، بمشکل گریجویشن کے پل کو پار کرسکتے تھے، ایسے طالب علم جو نہ تو کسی مقابلے کے امتحان میں پاس ہوسکتے تھے اور نہ جن کو علوم سے دلچسپی تھی وہ لیڈری کی چوکھٹ پر ٹکریں مارنے لگے۔
بالآخر 80 کی دہائی سے پاکستان میں ایسے دور کا آغاز ہوا جب کم تعلیم یافتہ اور نیم خواندہ، کوتاہ نظر قیادت نے ہر شعبہ زندگی میں قدم جمالیا، جس کی بدولت دولت کمانے کے رجحان کو تقویت ملی اور قومی اداروں کو پسماندہ کیا جانے لگا۔ اسٹیل مل، ریلوے، قومی ایئرلائن اور دوسرے سرکاری ادارے بحران کا شکار ہونے لگے اور کرسی پر براجمان افراد مضبوط تر اور معاشی طور پر مضبوط تر ہوتے گئے، ان گروہوں کی سرپرستی کی جانے لگی جو علمی اعتبار سے کمتر ہوں اور مار دھاڑ پر یقین رکھتے ہوں۔
ایسی صورت میں ملک میں ایسی لیڈرشپ فروغ پائی جو ہتھیار بند ہو، نتیجہ یہ ہوا کہ سیاسی پارٹیوں میں جرائم پیشہ افراد اپنی حفاظت اور مراتب کے لیے شامل ہوگئے۔ اب صورت حال یہ ہے کہ بیشتر سیاسی پارٹیوں اور بعض مذہبی پارٹیوں میں اسلحے کی نمائش ہوتی ہے، اس کلچر نے اب ایک نئی تہذیب کو جنم دے دیا۔ تمام دنیا میں نئے سال کی آمد پر ورائٹی شو، آتش بازی کے مظاہرے ہوتے ہیں، مگر پاکستان کے گلی کوچوں میں ہوائی فائرنگ ہوتی ہے، جس سے لوگوں کو گولیاں لگتی ہیں اور راہگیر لقمہ اجل بن جاتے ہیں، گولیوں کی بوچھاڑ عید کی آمد ہو چاند رات، کھیل میں جیت ہو یا شادی بیاہ غرض ہر خوشی کا استقبال فائرنگ سے ہوتا ہے۔ یہ ہماری پستی ہے اور مخالفین کا بھی استقبال انھی گولیوں سے کیا جاتا ہے۔ کراچی چونکہ کاسمو پولیٹن سٹی ہے اس لیے یہاں بھانت بھانت کے اسلحے اور گولیاں استعمال ہورہی ہیں۔
حالیہ دنوں میں کریکر حملے بھی ایک خاصا بن گئے ہیں عام طور پر یہ کریکر بھتہ خور گروپ استعمال کرتے ہیں، اب بھتہ خوروں کی بھی مختلف سیاسی گروپوں سے وابستگی ہے جو اپنے مخالفین پر کریکر اور دستی بم استعمال کر رہے ہیں، گویا لاقانونیت کا ایک راج ہے اور اس پر تماشا یہ کہ دہشت گردی کے خلاف گزشتہ 10 برسوں سے زائد عرصے سے ایک جنگ بھی جاری ہے، پہلے یہ جنگ فوجی حکمران کے تابع تھی اور اب یہ جنگ گزشتہ پانچ برسوں سے ایک جمہوری حکومت کے تابع ہے۔ اس جمہوری دور میں اس جنگ نے کافی عروج حاصل کرلیا ہے۔ ہزاروں دہشت گرد گرفتار ہوئے اور رہا ہوگئے، کسی کی شکل معصوم تھی تو کسی کے گواہ نہ تھے۔
کس کو اپنی جان عزیز نہیں کیونکہ گواہی دینے والا خود دہشت گردوں کی زد پر ہوتا ہے، ان دہشت گردوں کے چھوٹ جانے کی اصل وجہ یہ بھی ہے کہ دہشت گردی کے خلاف کوئی قانون 5 برسوں میں وضع نہ کیے گئے، البتہ ان قوانین کو دوام بخشا گیا اور بڑے اہتمام سے اسمبلی میں بل لائے گئے جن میں حکمرانوں کو شوق و ذوق سے حکومت کرنے کے مواقع ملے۔ عوام کی خیر ہے، یہ تو پیدا ہی مرنے کے لیے ہوتے ہیں یا اپاہج ہونے کے لیے، جو زخموں سے نہ مرے گھر پر بوجھ بن گئے۔ البتہ آئین پاکستان میں حکمرانوں کے لیے 62 اور 63 ایسی شقیں ہیں جو ان کے ماضی کا آئینہ ہیں جس کی عوامی تشریحات علامہ طاہر القادری نے اپنے جلسوں اور انٹرویوز میں کی ہیں، اب وہ زبان عام پر ہیں اور الیکشن کمیشن نے بھی اس کو اہمیت دی ہے۔
الیکشن میں حصہ لینے والوں کو الیکشن کمیشن نے خطوط بھی جاری کیے اور جن لوگوں نے جعلی ڈگریوں کو جمع کرایا تھا ان کی باز پرس بھی اس میں شامل تھی، ایسی باز پرس کا نامہ قائد حزب اختلاف جناب چوہدری نثار تک بھی آیا، اس پر وہ بہت چراغ پا ہوئے اور جواباً الیکشن کمیشن نے ان کو فون بھی کرایا۔ یہ عجیب بات ہے کہ اصولی بات پر ان کو اعتراض ہونا کیا معنی جب کہ ان کو یہ خط خصوصی طور پر تحریر نہ کیا گیا تھا بلکہ عام اسمبلی کے ممبران کے نام تھا، اس پر تبصرہ کیا کریں۔
اس ناگواری کا مطلب الیکشن کمیشن پر دباؤ بڑھانے کے علاوہ اور کچھ نہیں، ظاہر ہے جس طرف یہ معاملات جارہے ہیں الیکشن کمیشن خود جوابدہ ہوتا جارہا ہے، جب قائد حزب اختلاف کے اختلاف کا یہ عالم ہے تو عام حزب اقتدار کا کیا عالم ہوگا؟ اٹھارہویں، انیسویں ترامیم پر سال بھر بات ہوتی رہی، مگر دہشت گردی پر کوئی بحث نہ ہوئی، جب اسمبلی کے ممبران پر تعلیم کی کوئی قدغن نہیں تو پھر اسمبلی کیونکر فعال ہوگی، وہ تو عوام سے ترقی کے نام پر زرکثیر اکٹھا کر رہی ہے اور یہی اس کے مقاصد ہیں۔ وزیر اعظم صاحب اربوں روپے کے ترقیاتی اخراجات اپنے حلقے سے کر رہے ہیں، کون ہے جو الیکشن کمیشن کے اعتراضات پر کان دھرے گا؟ بقول اسمبلی کے عہدے داروں کے اسمبلی اعلیٰ ترین ادارہ ہے جو قانون ساز ہے پھر وہ قانون کی پاسداری کیوں کرے۔
ایک اور اہم بات جو ان دنوں ہونے والی بحث ہے جو پورے تارکین وطن، سمندر پار پاکستانیوں کو مایوس کرگئی ہے وہ ہے دہری شہریت کے قوانین، جس پر بیرون ملک خصوصاً لندن کے نوجوان یہ کہہ رہے ہیں کہ لندن میں مقیم پاکستانی تو پاکستان کو زرکثیر بھیجتے ہیں اور پاکستان کو زرمبادلہ دیتے ہیں جب کہ پاکستانی حکمران اپنے ملک کا سرمایہ لندن اور بیرون ملک جمع کراتے ہیں لہٰذا ان پر شک کے بجائے ان پاکستانیوں پر شک کیا جانا چاہیے جن کی پراپرٹی بیرون ملک جب کہ وہ اپنی پراپرٹی پاکستان میں بناتی ہیں۔ دہری شہریت پر علامہ طاہر القادری کی پٹیشن تو خارج ہوگئی مگر کئی سوالات چھوڑ گئی ہے۔ ایم کیو ایم کے فاروق ستار نے ابھی فرمایا کہ وہ دہری شہریت کا بل پیش کریں گے اور منظور کراکے دم لیں گے، جن میں سمندر پار پاکستانیوں کو مساوی حقوق دلائیں گے۔
یقیناً یہ ایک اچھا عمل ہوگا کیونکہ اگر سمندر پار پاکستانی زرمبادلہ نہ بھیجیں تو پاکستانی کرنسی کہاں پر کھڑی ہوگی؟ غرض پاکستانی عوام طرح طرح کی آزمائش سے گزر رہے ہیں اور اب ایسا محسوس ہوتا ہے کہ جو کچھ عوام کے ساتھ کیا جارہا ہے وہ ایک ایسا عمل ہے کہ پاکستانی عوام کا ریاست پر سے اعتماد اٹھ جائے۔ نسل کشی، عقائد کی بنیاد پر قتل ایسی ہولناک تدبیریں ہیں کہ جن کی بنیاد پر کوئی نسل بھی اقوام متحدہ کو رجوع کرسکتی ہے۔ گزشتہ دنوں ہزارہ برادری کی جانب سے کھلے عام تقریریں کی گئی تھیں کہ وہ اقوام متحدہ سے رجوع کریں گے۔ ریاستی ڈھانچے کا عالم یہ ہے کہ ووٹوں کی خاطر کالعدم جماعتوں کی حکومتی سطح پر پرورش اور حفاظت کا عمل رحمن ملک کی گفتگو سے واضح ہوتا ہے کہ پنجاب میں ان گروپوں کی سرپرستی ہوتی ہے۔
صوبائی اور مرکزی حکومت کے تضادات نہ صرف اب پاکستانی سطح پر نمایاں ہیں بلکہ یہ خبریں اب دنیا بھر میں سنی اور سمجھی جارہی ہیں۔ پاکستانی عوام جمہوریت کے جن تحائف سے گزر رہے ہیں اس سے جمہوریت کے معنی یہ سمجھ میں آرہے ہیں کہ جان و مال، عزت و آبرو کا خطرہ، معاشی بدحالی اور دیگر بدامنی کے معاملات ہیں۔ یہ بدامنی پاکستانی عوام کو مایوسی کی سمت لے جارہی ہے اور عوام کا یہ کہنا ہے کہ صورت حال بد سے بدتر ہونے جارہی ہے۔ انتخابات لیڈروں کی قسمت کو تو مزید بہتر کردیں گے مگر ساکنان پاکستان کو بد سے بدتری کی طرف لے جائیں گے۔
جس طرح پارٹیوں کی صف بندی اور ظاہری تضادات نظر آرہے ہیں وہ کسی اچھے مستقبل کا پتہ نہیں دیتے اور مزید حالات بدتر ہوں گے کیونکہ اقتدار میں نئے حلیف آنے والے وقت میں شامل ہوں گے۔ سندھ کے دیہی علاقوں میں ایک نئی صف بندی ہے، کیونکہ موجودہ بلدیاتی نظام کو سندھ کے قوم پرست اس کو وقتی انتخابی حکمت عملی قرار دے رہے ہیں بلکہ بعض حلقے تو اب یہاں تک کہہ رہے ہیں کہ موجودہ حالات دانستہ خراب کیے جارہے ہیں تاکہ غیرملکی مداخلت کے لیے راستہ ہموار ہوسکے۔ بظاہر ملک دشمنی اور حکمرانی کا شوق ملک کو کہاں لے جارہا ہے، یہ قابل غور ہے۔