ایک وفاقی پولیس

مرکز اور ریاستوں کے مابین اختیارات کے تعین کا معاملہ پھر اٹھ کھڑا ہوا ہے۔

اب اس کے بارے میں ذرا سوچئے، یہ ایک چھوٹا سا معاملہ تھا۔ 1980ء میں ان پولیس افسروں کو تمغے دیے جانے تھے جنہوں نے اپنی ذمے داریوں کو بہت جرات مندانہ انداز سے نبھایا تھا۔ لیکن اس وقت یہ تقریب ضرورت سے زیادہ اہمیت اختیار کر گئی جب وزیر اعظم اندرا گاندھی نے، جو حال ہی میں اقتدار میں دوبارہ واپس آئی تھیں، تقریب رکوا دی اور خود واک آئوٹ کر گئیں۔ ان کو اس بات پر غصہ آیا تھا کہ ان افسروں کو میڈل دیے جا رہے تھے جنہوں نے اندرا کی ایمرجنسی کے دوران ظلم و تشدد کرنے والوں کو سزا دی تھی۔

میڈل تقسیم کرنے کی تقریب ایک معمول کا کام ہے۔ لیکن اصل نقصان یہ ہوا کہ نیشنل پولیس کمیشن کی رپورٹ جو اس تقریب میں اندرا گاندھی کو پیش کی گئی تھی اور جس کے لیے ایمرجنسی کے بعد قائم کیے جانے والے کمیشن نے تین سال تک بڑی محنت سے کام کر کے یہ تجویز کیا گیا تھا کہ پولیس کو سیاسی اثر و رسوخ سے یکسر الگ رکھا جائے۔ جب وہ اقتدار سے باہر تھیں تو اپنی ایمرجنسی کے دوران کیے جانے والے ظالمانہ اقدامات کے خلاف تنقید کو روکنے کے لیے آخری انتہا تک جانے کے لیے تیار تھیں۔ موصوفہ کی حکمرانی کا انداز بھی انتہائی جابر آمروں جیسا تھا۔

یہ بہت اچھی رپورٹ تھی مگر اندرا نے گویا ایک انگریزی ضرب المثل کے مطابق بچے کو ٹب میں نہلانے کے بعد گندے پانی کے ساتھ بچہ بھی نالی میں پھینک دیا۔ تینتیس برس بیت گئے ہیں لیکن یہ رپورٹ ریاستوں کی طرف سے اٹھائے گئے اعتراضات اور مرکزی حکومت کی لاپروائی کی بھینٹ چڑھ چکی ہے۔ حتیٰ کہ سپریم کورٹ نے بھی اس کے نفاذ کا حکم دیا مگر رکاوٹ یہ ہے کہ امن و امان آئینی طور پر ریاست کی ذمے داری ہے اور چونکہ ریاستیں خود مختار ہیں لہٰذا مرکزی حکومت اس میں مداخلت نہیں کر سکتی۔ اور آج جب حیدر آباد میں دھماکے ہو رہے ہیں اور دیگر مقامات پر دہشت گردی کی دھمکیاں دی جا رہی ہیں لہذا اس رپورٹ کی اہمیت بہت زیادہ بڑھ چکی ہے۔

ریاست مرکز کو مورد الزام ٹھہرا رہی ہے جس کا کہنا ہے کہ انھوں نے بم دھماکوں سے دو دن قبل آندھرا پردیش کو خبردار کر دیا تھا۔ بظاہر تعاون کی قلت نے بیورو کریسی کو نیشنل کائونٹر ٹیرر ازم سینٹر (این سی ٹی سی) کے قیام کی تجویز کی تجدید پر راغب کر لیا ہے تا کہ ریاستوں میں بھی ان کی بالادستی قائم ہو سکے۔ یہ اقدام اگرچہ نیم دلی سے اٹھایا جا رہا ہے، اس کے باوجود یہ خوش آیند ہے۔ نیشنل انویسٹی گیشن اتھارٹی (این آئی اے) جو کہ ریاستوں کے احتجاج کے باوجود قائم کر دی گئی تھی، وہ موثر ثابت نہیں ہو سکی۔ این آئی اے 26/11 کے ممبئی دھماکوں کے بعد قائم کی گئی تھی جس نے صرف 11 مقدمات پر کارروائی کی، ان میں بھی صرف دو مقدمات میں کچھ پیش رفت ہو سکی۔ ایک مقدمہ جس میں این آئی اے کے دائرہ اختیار کو چیلنج کیا گیا ہے وہ ممبئی ہائیکورٹ میں زیر التوا ہے جب کہ دوسرا مقدمہ کہیں اور جگہ پھنسا ہوا ہے۔

مرکز اور ریاستوں کے مابین اختیارات کے تعین کا معاملہ پھر اٹھ کھڑا ہوا ہے۔ عمومی طور پر اس قسم کے معاملات سے صورتحال بے قابو نہیں ہوتی لیکن اگر یہ پوچھا جائے کہ کوئی اطمینان بخش حل کیوں نہیں نکالا جا سکا تو اس کا جواب ہے اداروں کو سیاسی رنگ دیدیا گیا ہے۔ ریاستوں میں مختلف مزاج کی حکومتیں ہوتی ہیں مگر ان سب کو گلہ ہے کہ مرکزی حکومت نے اپنے دامن سے ریاستی امور میں مداخلت بے جا کا داغ مٹانے کے لیے کچھ نہیں کیا۔ مرکز اور ریاستوں کے تعلقات کے بارے میں ''سرکاریہ کمیشن'' کی رپورٹ کو بہت کم ریاستوں نے نافذ کیا ہے۔


یہاں بھی انھیں یہ ڈر ہے کہ مبادہ ریاست اپنی انفرادی شناخت نہ کھو دے۔ اداروں کو سیاست میں ملوث کرنے کا الزام سب سے زیادہ کانگریس پر عاید ہوتا ہے۔ اس نے کوئی ایک بھی ایسا ادارہ باقی نہیں چھوڑا جس میں اس نے اپنا تعصب متعارف نہ کرایا ہو۔ یہ پہلی پارٹی تھی جس نے جسے چاہا اسے انعام کے طور پر ریاست کا گورنر نامزد کر دیا۔ یہ پارٹی ریاستوں سے باہمی مشاورت کا دعویٰ تو کرتی تھی مگر گورنروں کے تقرر کے بارے میں ان کی مرضی معلوم نہیں کرتی تھی۔ یہ اقدام آئین کی روح کے منافی تھا۔ نئی دہلی حکومت بار بار دعویٰ کرتی تھی کہ آئین اسے ریاستوں سے مشورہ کرنے کی ضرور تلقین کرتا ہے مگر ان کی منظوری لینے کی نہیں۔ اور یوں بتدریج مرکز نے ریاستوں سے مشورہ لینا بھی ترک کر دیا اور گورنروں کی براہ راست تعیناتی ہونے لگی۔

اخلاقی قدروں پر بھی سیاست غالب آ گئی۔ نتیجے کے طور پر اداروں کی کارکردگی انتہائی ناقص ہو گئی۔ سب سے بڑا نقصان پولیس کو سیاست میں ملوث کرنے پر ہوا۔ پولیس کلیتاً ریاست کے وزیراعلیٰ کے رحم و کرم پر ہوتی ہے، جو اسے اپنی ذاتی فورس کے طور پر استعمال کرتے ہیں۔ تازہ ترین مثال مغربی بنگال کی خاتون وزیر اعلیٰ ممتا بینرجی کی ہے جس نے ڈائریکٹر جنرل آف پولیس رنجیت کمار کو کھڑے کھڑے برطرف کر دیا۔ ادھر مرکز بھی ریاستوں میں پولیس کی کارکردگی پر نگاہ رکھتا ہے اور یوں ریاست میں مداخلت کے لیے اپنا اختیار جتاتا ہے۔ اگر مرکز اور ریاست اپنے وسائل باہم اکٹھے کریں تو یقینی طور پر ملک کے اندر دہشت گردی پر قابو پایا جا سکتا ہے، بلکہ سرحد پار کی در اندازی پر بھی۔ اس وقت مرکز اور ریاستیں مختلف سمتوں میں کام کر رہی ہیں اور عمومی محکمہ انٹیلی جنس کی مفید اطلاعات پر بھی عمل نہیں کیا جا رہا۔

بہت سے بم دھماکوں کے بعد تحقیقات سے یہ نتیجہ نکالا گیا کہ اگر انٹیلی جنس والوں کی بات کو سنجیدگی سے لیا جاتا تو بم دھماکوں سے قبل ہی انھیں ناکارہ کیا جا سکتا تھا۔ امریکا میں 9/11 کے نیو یارک اور واشنگٹن پر حملوں کے بعد ایک مربوط کمان بنائی گئی جس کے بعد ان کے ملک میں آج تک دوبارہ کوئی ایسی واردات نہیں ہو سکی، کیونکہ نئے مرکزی ادارے کو تمام اختیارات دیدیے گئے تھے جن میں خفیہ معلومات اکٹھی کرنا' اور ان پر بغیر کسی سیاستدان کی مداخلت فی الفور عمل کرنا شامل تھا۔ بھارت بھی اس مثال پر عمل کر سکتا ہے بشرطیکہ ریاست مرکز پر عدم اعتماد کا اظہار نہ کرے اور پولیس کو سیاسی رنگ نہ دے۔

تاہم تجربہ یہ بتاتا ہے کہ ریاستوں کے اپنے معاملات جب تک بہ سہولت چل رہے ہوں ان کو مرکز یا ملک کے مجموعی مفاد سے کوئی غرض نہیں ہوتی۔ مجھے یاد پڑتا ہے کہ ایک مرتبہ کیرالہ میں نئی دہلی حکومت نے ڈاک خانوں اور دیگر سرکاری املاک کی حفاظت کے لیے مرکز کی نگرانی میں انڈین پولیس سروس کے افسروں کو تعینات کر دیا تا کہ وہاں ریاست کے ایما پر ہونے والی ہڑتال میں ان املاک کو نقصان نہ پہنچے۔ تاہم اس حوالے سے وفاق کی جانب سے پیش کی جانے والی کسی دلیل کو بھی ریاست نے قبول نہ کیا۔ البتہ انڈین پولیس سروس کے افسروں نے وفاقی حکومت کی درخواست مان لی حالانکہ آئین کی رو سے یہ درخواست جائز نہیں تھی۔ حقیقت یہ ہے کہ ملک کو ایک وفاقی پولیس کی ضرورت ہے جو امریکی نمونے پر قائم کی جائے تا کہ ایسے جرائم جو سرحدوں کو بھی عبور کر جائیں، ان پر موثر طور پر قابو پایا جا سکے۔ اس سے نچلی ذاتوں اور پسماندہ طبقات (او بی سیز) کے خلاف امتیازی سلوک کی شکایات کا بھی مداوا ہو سکے گا کیونکہ ریاستیں ایسے معاملات میں اپنے ووٹ بینک کی مجبوریوں کی بنا پر منصفانہ اقدامات کرنے سے کتراتی ہیں۔ وفاقی پولیس کو مکمل طور پر خود مختار ہونا چاہیے جو صرف پارلیمنٹ کو جوابدہ ہو تا کہ مرکز میں حکمران جماعت کو سیاسی وجوہات کی خاطر کسی مبالغہ آرائی کا سہارا نہ لینا پڑے۔ ملک میں بڑھتی ہوئی تفریق اور انتشار کا بہتر جواب وفاقی پولیس فورس کی صورت میں دیا جا سکتا ہے۔

(ترجمہ: مظہر منہاس)
Load Next Story