اندرون سندھ کالعدم تنظیموں کا نیٹ ورک
ووٹوں کی سیاست کرنے والا شخص اپنے علاقے کے بارے میں کسی بھی نام نہاد ایجنسی یا حکومت سے کہیں زیادہ با خبر ہوتا ہے۔
غوث بخش مہر ایک وڈیرے اور قبائلی سردار ہیں۔2001ء سے مختلف انتخابات اور پھر سیلابوں کے بارے میں رپورٹنگ کرتے ہوئے میں سکھر سے شکار پور اور وہاں سے جیکب آباد جاتے ہوئے ان کی سیاسی طاقت اور سماجی اثر کو کافی حد تک سمجھ چکا ہوں۔ مشرف کی سرپرستی میں آپ قاف لیگ میں شامل ہو کر قومی اسمبلی کے رکن اور پھر مرکزی وزیر بنے۔ 2008ء کے انتخابات میں بے نظیر بھٹو کے قتل کے بعد پیپلز پارٹی کے لیے پائی جانے والی ہمدردی بھی انھیں کوئی سیاسی نقصان نہ پہنچا پائی۔ زرداری صاحب نے ''قاتل لیگ'' کو گلے لگا کر انھیں ایک بار پھر وزیر بنوا دیا۔ چند ماہ پہلے دہرے بلدیاتی نظام کے خلاف احتجاج کے طور پر انھوں نے پہلے وزارت سے استعفیٰ دیا اور بالآخر چوہدریوں سے الگ ہو کر پیر پگاڑا والی مسلم لیگ میں چلے گئے۔
مجھے اس انتہائی با اثر اور طاقتور شخص پر اس وقت بڑا رحم آیا جب وہ قومی اسمبلی میں ایک پوائنٹ آف آرڈر پر کھڑے ہوئے اور ڈاکٹر فہمیدہ مرزا کو یاد دلایا کہ ان کے حلقہ انتخاب میں ایک درگاہ کو بم سے اڑانے کی کوشش ہوئی۔کافی دن گزرنے کے بعد بھی وہاں کی پولیس مجرموں تک نہیں پہنچ پائی۔ مہر صاحب کے لیے پولیس کی بے بسی کو سمجھنا بہت مشکل ہو رہا تھا۔ دیہات میں لوگ ایک دوسروں کو بہت اچھی طرح جانتے ہیں۔ کوئی اجنبی ان کے علاقوں میں چلا جائے تو فوری طور پر پتہ چل جاتا ہے۔ اس کے لیے یہ ممکن نہیں کہ وہ ایسے علاقوں میں گھس کر کوئی واردات کر سکے۔ یہ ساری باتیں کرتے ہوئے مہر صاحب نے کھل کر یہ تو نہیں کہا کہ شکار پور میں چند روز پہلے ہونے والے دھماکے میں کوئی مقامی آدمی ملوث تھا۔ مگر ان کا لہجہ اور انداز صاف بتا رہا تھا کہ وہ بڑی شدت سے یہ محسوس کرتے ہیں کہ پولیس کو یہ واردات کرنے والے اور اس کے سرپرستوں کا اچھی طرح پتہ ہے۔
شکار پور سے پہلے جیکب آباد کے قریب بھی ایک روحانی رہنما پر حال ہی میں دہشت گردوں نے حملہ کیا تھا۔ صدر زرداری نے ان دونوں واقعات پر بڑی تشویش کا اظہار کیا اور صوبائی حکومت میں امن عامہ قائم رکھنے والے افسران کے ساتھ براہ راست رابطوں کے ذریعے اپنے غصے کا اظہار بھی کیا۔ شمالی سندھ سے تعلق رکھنے والے اراکین اسمبلی اور سینیٹ سے بات کیجیے تو وہ اس خدشے کا اظہار کرتے سنائی دیتے ہیں کہ کوئی ''غیبی'' طاقتیں اور عناصر ان کے علاقوں میں درگاہوں کو نشانہ بنا کر فرقہ وارانہ فسادات کرانا چاہ رہے ہیں تا کہ انتخابات اپنے وقت پر منعقد نہ ہو سکیں۔ ہمارے ساتھ ان خدشات کا اظہار کرنے والے عوامی نمایندے اگر واقعی انتخابات کو معینہ وقت پر کرانے کی خواہش رکھتے ہیں تو انھیں ان ''غیبی طاقتوں'' کا پتہ لگا کر ان کا راستہ روکنا چاہیے۔
ووٹوں کی سیاست کرنے والا شخص اپنے علاقے کے بارے میں کسی بھی نام نہاد ایجنسی یا حکومت سے کہیں زیادہ با خبر ہوتا ہے۔ وڈیروں کے ڈیرے ہوتے ہیں جہاں روزانہ بے تحاشا لوگ صبح، دوپہر اور رات گئے تک بیٹھے ''حال دینے'' میں مصروف رہتے ہیں۔ ایسے لوگ اسلام آباد میں بیٹھے میرے جیسے صحافیوں کے سامنے اپنے حلقہ ہائے نیابت میں ہونے والے واقعات کے بارے میں لا علمی اور بے بسی کا اظہار کرتے ہوئے کم از کم مجھے تو پریشان کر دیتے ہیں۔ ان کی لا علمی اور بے بسی اس بات کو ثابت کرتی ہے کہ ہمارے حکمرانوں کی طرح نام نہاد عوامی نمایندوں کی اکثریت بھی اپنے اپنے علاقوں میں بینکروں میں محصور ہوکر رہ گئی ہے۔
ان کا اپنے لوگوں سے اس طرح کا جاندار رشتہ اب برقرار نہیں رہا جو آج سے صرف دس سال پہلے تک بڑی شدت سے نظر آیا کرتا تھا۔ ''عوامی نمایندہ'' شاید اب اپنے لوگوں سے ''حال'' نہیں لیتا۔ ان سے سرسری ملاقاتوں کے دوران ان کی کسی درخواست پر کچھ لکھ کر اپنے دستخط کر دیتا ہے یا ان کے لیے دو تین لوگوں کو سفارشی ٹیلی فون کرنے کے بعد کسی دوسرے مہمان کا مسئلہ سمجھنے میں مصروف ہو جاتا ہے۔ مجھے سیاست میں کبھی نہیں آنا نہ مجھے کوئی الیکشن لڑنے کی خواہش ہے۔ اس کے باوجود 2001ء میں جب میں رحیم یار خان سے سکھر شہر کے قلب میں پہنچا تو مجھے اندازہ ہو گیا کہ وہاں بہت ساری تنظیمیں جنھیں بعد ازاں کالعدم قرار دے دیا گیا بڑے منظم انداز میں کام کر رہی ہیں۔
میں نے چند صحافی دوستوں اور سنجیدہ سیاستدانوں سے اس کا تذکرہ کیا تو اکثر لوگوں نے میرا مذاق اڑایا۔ ان کا خیال تھا کہ ایک پنجابی ہوتے ہوئے میں سمجھ ہی نہیں سکتا کہ بھٹائی کا سندھ کتنا وسیع القلب ہے۔ وہاں مسلمانوں کے درمیان فرقہ واردانہ منافرت تو دور کی بات ہے مسلمانوں اور غیر مسلموں کے درمیان کسی جنونی تفریق کا سوچا بھی نہیں جا سکتا۔ بحیثیت ایک غیر سندھی مہمان کے میں اپنے مہربان میزبانوں کے آگے شرمندہ ہو کر چپ ہو جاتا۔ مگر چند سال قبل سے میرے سندھی دوستوں نے ہی بڑے تواتر اور تفصیل کے ساتھ ہندو سیٹھوں کے اغواء برائے تاوان والی وارداتوں کا ذکر شروع کر دیا۔ ان وارداتوں کے ساتھ ہی ساتھ شمالی سندھ میں مختلف قبائل کے درمیان مورچہ بند ہو کر لڑی جانے والی جنگوں کی داستانیں بھی آنا شروع ہو گئیں اور پھر بہت ساری ایسی خبریں جن کے ذریعے ہندو لڑکیوں کو مبینہ اغواء کے بعد مسلمان بنا لینے والی کہانیوں کا ذکر شروع ہو گیا۔ قومی اسمبلی اور سینیٹ میں بیٹھے عوامی نمایندے ان سب باتوں کا ذکر ایوانوں میں بڑی شدت سے کرتے رہے۔
مگر جو ناخوشگوار تبدیلیاں ان کے علاقوں میں نمایاں طور پر نظر آنا شروع ہو گئی تھیں، ان کو پرخلوص انداز میں سمجھ کر دور کرنے کے لیے کوئی ٹھوس کوشش کسی نے بھی نہیں کی۔ اب بھی وقت ہے کہ ہمارے عوامی نمایندے بالآخر یہ بات جان لیں کہ سندھ اب وہ نہیں رہا جیسا انگریز چھوڑ گیا تھا۔ وہاں ریاستی مشینری کے کل پرزے بدعنوان تو ہیں مگر انتہائی نا اہل بھی۔ ان کی نا اہلی اور بدعنوانی کا خلاء مقامی وڈیروں نے اپنے اپنے علاقوں میں ''مائی باپ'' بن کر پورا کرنے کی کوشش کی۔ اب حالات ان کے قابو سے بھی باہر ہو گئے ہیں۔
پڑھے لکھے اور اپنے مستقبل سے مکمل طور پر مایوس نوجوانوں کی ایک بہت بڑی کھیپ اندرونِ سندھ اور خاص طور پر اس کے شمالی علاقوں اور شہروں میں آ چکی ہے۔ وہ جنھیں کالعدم تنظیمیں کہا جاتا ہے،ایسے نوجوانوں کو اپنی پناہ میں لے کر انھیں اسلحہ کی بنیاد پر طاقتور بننے کا احساس دے رہی ہیں اور یہ سب کچھ بظاہر ایک بڑے ہی نیک اور مقدس مشن کے نام پر کیا جا رہا ہے۔ ہماری ریاست اور سیاسی اشرافیہ نہ اس تیزی سے بڑھتی ہوئی روایت کو سمجھتی ہے نہ اس کا تدارک کرنا چاہتی ہے ۔
مجھے اس انتہائی با اثر اور طاقتور شخص پر اس وقت بڑا رحم آیا جب وہ قومی اسمبلی میں ایک پوائنٹ آف آرڈر پر کھڑے ہوئے اور ڈاکٹر فہمیدہ مرزا کو یاد دلایا کہ ان کے حلقہ انتخاب میں ایک درگاہ کو بم سے اڑانے کی کوشش ہوئی۔کافی دن گزرنے کے بعد بھی وہاں کی پولیس مجرموں تک نہیں پہنچ پائی۔ مہر صاحب کے لیے پولیس کی بے بسی کو سمجھنا بہت مشکل ہو رہا تھا۔ دیہات میں لوگ ایک دوسروں کو بہت اچھی طرح جانتے ہیں۔ کوئی اجنبی ان کے علاقوں میں چلا جائے تو فوری طور پر پتہ چل جاتا ہے۔ اس کے لیے یہ ممکن نہیں کہ وہ ایسے علاقوں میں گھس کر کوئی واردات کر سکے۔ یہ ساری باتیں کرتے ہوئے مہر صاحب نے کھل کر یہ تو نہیں کہا کہ شکار پور میں چند روز پہلے ہونے والے دھماکے میں کوئی مقامی آدمی ملوث تھا۔ مگر ان کا لہجہ اور انداز صاف بتا رہا تھا کہ وہ بڑی شدت سے یہ محسوس کرتے ہیں کہ پولیس کو یہ واردات کرنے والے اور اس کے سرپرستوں کا اچھی طرح پتہ ہے۔
شکار پور سے پہلے جیکب آباد کے قریب بھی ایک روحانی رہنما پر حال ہی میں دہشت گردوں نے حملہ کیا تھا۔ صدر زرداری نے ان دونوں واقعات پر بڑی تشویش کا اظہار کیا اور صوبائی حکومت میں امن عامہ قائم رکھنے والے افسران کے ساتھ براہ راست رابطوں کے ذریعے اپنے غصے کا اظہار بھی کیا۔ شمالی سندھ سے تعلق رکھنے والے اراکین اسمبلی اور سینیٹ سے بات کیجیے تو وہ اس خدشے کا اظہار کرتے سنائی دیتے ہیں کہ کوئی ''غیبی'' طاقتیں اور عناصر ان کے علاقوں میں درگاہوں کو نشانہ بنا کر فرقہ وارانہ فسادات کرانا چاہ رہے ہیں تا کہ انتخابات اپنے وقت پر منعقد نہ ہو سکیں۔ ہمارے ساتھ ان خدشات کا اظہار کرنے والے عوامی نمایندے اگر واقعی انتخابات کو معینہ وقت پر کرانے کی خواہش رکھتے ہیں تو انھیں ان ''غیبی طاقتوں'' کا پتہ لگا کر ان کا راستہ روکنا چاہیے۔
ووٹوں کی سیاست کرنے والا شخص اپنے علاقے کے بارے میں کسی بھی نام نہاد ایجنسی یا حکومت سے کہیں زیادہ با خبر ہوتا ہے۔ وڈیروں کے ڈیرے ہوتے ہیں جہاں روزانہ بے تحاشا لوگ صبح، دوپہر اور رات گئے تک بیٹھے ''حال دینے'' میں مصروف رہتے ہیں۔ ایسے لوگ اسلام آباد میں بیٹھے میرے جیسے صحافیوں کے سامنے اپنے حلقہ ہائے نیابت میں ہونے والے واقعات کے بارے میں لا علمی اور بے بسی کا اظہار کرتے ہوئے کم از کم مجھے تو پریشان کر دیتے ہیں۔ ان کی لا علمی اور بے بسی اس بات کو ثابت کرتی ہے کہ ہمارے حکمرانوں کی طرح نام نہاد عوامی نمایندوں کی اکثریت بھی اپنے اپنے علاقوں میں بینکروں میں محصور ہوکر رہ گئی ہے۔
ان کا اپنے لوگوں سے اس طرح کا جاندار رشتہ اب برقرار نہیں رہا جو آج سے صرف دس سال پہلے تک بڑی شدت سے نظر آیا کرتا تھا۔ ''عوامی نمایندہ'' شاید اب اپنے لوگوں سے ''حال'' نہیں لیتا۔ ان سے سرسری ملاقاتوں کے دوران ان کی کسی درخواست پر کچھ لکھ کر اپنے دستخط کر دیتا ہے یا ان کے لیے دو تین لوگوں کو سفارشی ٹیلی فون کرنے کے بعد کسی دوسرے مہمان کا مسئلہ سمجھنے میں مصروف ہو جاتا ہے۔ مجھے سیاست میں کبھی نہیں آنا نہ مجھے کوئی الیکشن لڑنے کی خواہش ہے۔ اس کے باوجود 2001ء میں جب میں رحیم یار خان سے سکھر شہر کے قلب میں پہنچا تو مجھے اندازہ ہو گیا کہ وہاں بہت ساری تنظیمیں جنھیں بعد ازاں کالعدم قرار دے دیا گیا بڑے منظم انداز میں کام کر رہی ہیں۔
میں نے چند صحافی دوستوں اور سنجیدہ سیاستدانوں سے اس کا تذکرہ کیا تو اکثر لوگوں نے میرا مذاق اڑایا۔ ان کا خیال تھا کہ ایک پنجابی ہوتے ہوئے میں سمجھ ہی نہیں سکتا کہ بھٹائی کا سندھ کتنا وسیع القلب ہے۔ وہاں مسلمانوں کے درمیان فرقہ واردانہ منافرت تو دور کی بات ہے مسلمانوں اور غیر مسلموں کے درمیان کسی جنونی تفریق کا سوچا بھی نہیں جا سکتا۔ بحیثیت ایک غیر سندھی مہمان کے میں اپنے مہربان میزبانوں کے آگے شرمندہ ہو کر چپ ہو جاتا۔ مگر چند سال قبل سے میرے سندھی دوستوں نے ہی بڑے تواتر اور تفصیل کے ساتھ ہندو سیٹھوں کے اغواء برائے تاوان والی وارداتوں کا ذکر شروع کر دیا۔ ان وارداتوں کے ساتھ ہی ساتھ شمالی سندھ میں مختلف قبائل کے درمیان مورچہ بند ہو کر لڑی جانے والی جنگوں کی داستانیں بھی آنا شروع ہو گئیں اور پھر بہت ساری ایسی خبریں جن کے ذریعے ہندو لڑکیوں کو مبینہ اغواء کے بعد مسلمان بنا لینے والی کہانیوں کا ذکر شروع ہو گیا۔ قومی اسمبلی اور سینیٹ میں بیٹھے عوامی نمایندے ان سب باتوں کا ذکر ایوانوں میں بڑی شدت سے کرتے رہے۔
مگر جو ناخوشگوار تبدیلیاں ان کے علاقوں میں نمایاں طور پر نظر آنا شروع ہو گئی تھیں، ان کو پرخلوص انداز میں سمجھ کر دور کرنے کے لیے کوئی ٹھوس کوشش کسی نے بھی نہیں کی۔ اب بھی وقت ہے کہ ہمارے عوامی نمایندے بالآخر یہ بات جان لیں کہ سندھ اب وہ نہیں رہا جیسا انگریز چھوڑ گیا تھا۔ وہاں ریاستی مشینری کے کل پرزے بدعنوان تو ہیں مگر انتہائی نا اہل بھی۔ ان کی نا اہلی اور بدعنوانی کا خلاء مقامی وڈیروں نے اپنے اپنے علاقوں میں ''مائی باپ'' بن کر پورا کرنے کی کوشش کی۔ اب حالات ان کے قابو سے بھی باہر ہو گئے ہیں۔
پڑھے لکھے اور اپنے مستقبل سے مکمل طور پر مایوس نوجوانوں کی ایک بہت بڑی کھیپ اندرونِ سندھ اور خاص طور پر اس کے شمالی علاقوں اور شہروں میں آ چکی ہے۔ وہ جنھیں کالعدم تنظیمیں کہا جاتا ہے،ایسے نوجوانوں کو اپنی پناہ میں لے کر انھیں اسلحہ کی بنیاد پر طاقتور بننے کا احساس دے رہی ہیں اور یہ سب کچھ بظاہر ایک بڑے ہی نیک اور مقدس مشن کے نام پر کیا جا رہا ہے۔ ہماری ریاست اور سیاسی اشرافیہ نہ اس تیزی سے بڑھتی ہوئی روایت کو سمجھتی ہے نہ اس کا تدارک کرنا چاہتی ہے ۔