مسلم لیگی اسپرٹ
انھوں نے سب سے پہلے صوبے کی سرکش سرکاری مشینری کی ناک میں نکیل ڈال کر ایک صاف ستھری متحرک اور بیدار تنظیم میں تبدیل کیا، یہ کوئی آسان کام نہ تھا، لیکن خادم اعلیٰ نے اپنی خداداد صلاحیتوں سے یہ کارنامہ انجام دے کر اپنے ترقیاتی اور فلاحی منصوبوں کی کامیابی سے تکمیل کی بنیاد رکھ دی، پولیس اور دیگر محکموں کی تنظیم نو کرکے امن وامان اور سرکاری دفتروں کی کارکردگی کو بہتر بنایا، سیلاب اور بارشوں کی تباہ کاریاں ہوں، ڈینگی مچھر کی وبا ہو،خادم اعلیٰ نے بیوروکریسی سے کارکردگی کے بہترین نتائج حاصل کیے، وفاق میں حکمرانوں کی سازش سے بجلی اور گیس کی غیرمعمولی لوڈشیڈنگ ہو تو اپنے عوام کے ساتھ یک جہتی کے طور پر اپنے دفاتر مینار پاکستان کے گراؤنڈ میں کڑی دھوپ میں قائم کیے، تعلیمی میدان میں پسماندہ علاقوں میں دانش اسکولوں کا قیام لاکھوں مستحق طلباء میں لیپ ٹاپ اور سولر لیمپ تقسیم کیے، پنجاب اور دیگر صوبوں کے ہونہار طلبا کو سرکاری وظائف دیے، سرکاری اسکولوں کے اساتذہ اور طلبا کو بہتر تعلیمی سہولتیں دے کر معیار تعلیم بلند کیا، سستی روٹی اسکیم کے ذریعے لاکھوں غریبوں اور متوسط طبقے کے افراد کو فائدہ پہنچایا، پیپلز پارٹی کے وزراء کو فارغ کرکے قومی خزانے کو کروڑوں روپے کی بچت کرائی، ان کا تازہ کارنامہ دیکھیے لاہور شہر ایک کروڑ سے زائد آبادی کا گنجان آباد شہر بن چکا ہے اس میں ٹرانسپورٹ کا نظام نہایت ابتری کی حالت میں پہنچ چکا تھا، چھوٹی چھوٹی گاڑیوں، شکستہ بسوں، ٹیکسیوں اور رکشوں نے اچھی بھلی کشادہ شاہراہوں کو سائز کے حساب سے تنگ کردیا تھا، بے ہنگم ٹرانسپورٹ کی وجہ سے رش بڑھ جاتا تھا، گھنٹوں ٹریفک جام ہوجاتا تھا۔
ٹریفک کے شوروغل نے شہریوں کا سکون برباد کررکھا تھا اور پٹرول کے دھوئیں نے لاہور کی صحت افزا فضا کو مسموم کیا ہوا تھا اس صورت حال کو دیکھ کر خادم اعلی شہریوں کو اس مصیبت سے نجات دلانے کے لیے سوچا کرتے تھے، آخر انھوں نے بیرونی ممالک جاکر وہاں کے ٹرانسپورٹ کے نظام کو سمجھا جوکہ امریکا، ترکی، ایران، انڈیا اور انڈونیشیا وغیرہ میں کامیابی سے چل رہا ہے، وہ ترکی کے نظام سے بہت متاثر ہوئے اس لیے وہاں کی ٹرانسپورٹ انتظامیہ سے مل کر لاہور میں یہ سسٹم متعارف کروانے کا معاہدہ کیا، یہ ریپڈ بس ٹرانسپورٹ سسٹم ہے یہ ہمارے جیسے ملک کے لیے ایک انقلابی کاوش ہے۔ لاہور میں شہر کے بیچوں بیچ موجودہ سڑک کے اوپر 27 کلومیٹر لمبی دورویہ کشادہ سڑک گجومتہ سے شاہدرہ تک تعمیر کی گئی ہے اور اس پر کئی بس اسٹاپ بنائے گئے ہیں جن پر تیز رفتار آرام دہ، لمبی بسیں چلنا شروع ہوگئی ہیں اور یہ سفر 54 منٹ میں طے ہوگا جس سے سفر کرنے والوں کو وقت اور پیسے میں بچت ہوگی، اور سفر بھی آرام دہ ہوگیا ہے، اس میں غریب اور امیر خوشی خوشی اکٹھے سفر کر رہے ہیں، شہر میں ٹریفک کے شوروغل اور دھوئیں میں کمی ہوئی ہے، اس پروجیکٹ پر صرف 30 ارب روپے صرف ہوئے ہیں۔
اس طرح یہ ایک ریکارڈ بچت منصوبہ ہے اور یہ رقم بھی صرف ساڑھے چار سال میں وصول ہوجائے گی اتنا بڑا منصوبہ صرف 10 ماہ میں مکمل کرکے محیرالعقل کارنامہ سرانجام دیا ہے ، مخالفین کہتے ہیں اس پر 30 ارب نہیں بلکہ 100 ارب روپے سے زیادہ خرچ ہوا ہے، وہ صحیح کہتے ہیں، اگر وہ اس کام کو شروع کرتے تو ایک تو پانچ سے سات سال لگ جاتے اور دوسرے وہ 100 ارب روپے سے زائد میں ہی مکمل کرتے، ان کو چیلنج ہے کہ آکر ریکارڈ چیک کریں تو خود ہی شرمندہ ہوں گے، میاں شہباز شریف نے اپنی فطرت کے مطابق دن رات ایک کرکے جنگی بنیادوں پر اتنی کم مدت میں اور اتنی کم رقم میں اس پروجیکٹ کو مکمل کرکے ایک عجوبہ روزگار انقلابی کارنامے کا مظاہرہ کیا ہے جو ایک معجزے سے کم نہیں ہے، انھوں نے اپنا دن کا چین اور نہ رات کا سکون دیکھا رات کے 2,3 بجے بھی پائنچے چڑھاکر ریت اور سیمنٹ کے گارے میں کھڑے ہوکر کام کی نگرانی کیا کرتے تھے، اس منصوبے کو دیکھنے والے کہتے ہیں کہ میاں صاحب اتنا بڑا منصوبہ اتنے کم خرچ اور کم مدت میں کس طرح مکمل کرلیا؟کیا تم ''جن ہو یا جادوگر؟'' میاں صاحب صرف یہ جواب دیتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے میرے اندر ''تحریک پاکستان جیسی مسلم لیگی'' اسپرٹ بھردی ہے جس کی وجہ سے یہ کام مکمل کرنے میں کامیاب ہوا ہوں۔