ہم پہ اس عہد کم نگاہی میں
یہ حقیقت ہے کہ 65 سال سے وہی کچھ ہورہا ہے جو الیکشن میں حصہ لینے والوں نے چاہا۔
الیکشن دوڑے چلے آرہے ہیں اور مسائل بھی پیدا ہوتے جا رہے ہیں۔ ہمارے ملک میں الیکشن الیکشن کھیلنے والے ان پابندیوں کے ذرہ برابر عادی نہیں ہیں، جن کا الیکشن کمیشن اعلان کررہا ہے۔ آئین پاکستان کی دفعات 62 اور 63 نے متوقع امیدواروں کو بڑی مشکل میں ڈال دیا ہے۔ وہ شدید جھنجھلاہٹ کا شکار ہیں، بہت غصے میں ہیں۔ آئین کی حد تک 62 اور63 صحیح ہیں، مگر ان پر عملدرآمد ۔۔۔۔! بھلا یہ کیا بات ہوئی؟ ایسا تو پہلے کبھی نہیں ہوا۔جھوٹ کے جزیرے میں احتساب و سچ کی ایسی پکڑ۔۔!
الیکشن کمیشن کا کچھ بھی پوچھنا، اسے ہمارے متوقع امیدواران الیکشن اپنی شدید توہین سمجھ رہے ہیں اور اقتدار و بے اقتدار دونوں کہہ رہے ہیں کہ کمیشن کو ہماری توہین کرنے کا اختیار کس نے دیا ہے۔ الیکشن کمیشن نے مندرجہ ذیل تفصیلات امیدواروں سے طلب کی ہیں:
1۔اپنی تعلیمی اسناد کی ہائر ایجوکیشن سے تصدیق شدہ کاپیاں
2۔بینکوں سے لیے گئے قرضوں کی تفصیلات اور معاف کرائے گئے قرضے
3۔بیرون ملک کے دورے اور ان کے اخراجات کی تفصیل۔
4۔بیرون ملک تعلیم حاصل کرنے والے بچوں کے اخراجات کی تفصیلات
5۔بجلی، ٹیلی فون، گیس، پانی کے بلوں کی ادائیگی اور ان کی تفصیلات
6۔ موجودہ دولت کی تفصیلات (Wealth Statement)
میرے محترم متوقع امیدواران اسمبلی ! اگر موجودہ الیکشن کمیشن نے مدت سے بند، آئین کی کتاب کو کھول ہی لیا ہے تو اب کیا کریں، کتاب کھلے گی، تو پڑھی بھی جائے گی اور پھر اس میں لکھے پر عمل بھی ہوگا۔ ع
پکڑے جاتے ہیں فرشتوں کے لکھے پر ناحق؟ جی نہیں۔ اب آئینی تقاضا ہے، بندہ پرور۔
یہ حقیقت ہے کہ 65 سال سے وہی کچھ ہورہا ہے جو الیکشن میں حصہ لینے والوں نے چاہا۔ وہ جعلی ڈگریاں ہوں یا جھوٹے گوشوارے۔ یہ کیسا انصاف ہے کہ تنخواہ دار ملازم تو انکم ٹیکس دے، مگر لاکھوں کی کاروں میں ہماری اسمبلیوں کے سامنے اترنے والے ایک روپیہ بھی انکم ٹیکس نہ دیں، ہمارے اسمبلی ممبران لاکھوں،کروڑوں روپے کا اسلحہ اٹھائے بیسیوں گارڈز کے ساتھ سڑکوں پر دندناتے نظر آئیں۔ یہ لوگ اپنے محلوں، حویلیوں، فارم ہاؤسز سے اسلحے کی بھری گاڑیوں کے دہشت پھیلاتے کانوائے کے ساتھ نکلیں تو غریب عوام ڈر کے مارے نظریں جھکا کر دیوار سے لگ جائیں۔ ان کے محلوں، حویلیوں میں خوشی کا دن ہو تو جدید ترین اسلحے سے لاکھوں روپوں کا بارود چلا دیا جائے اور غریب ہاری، کسان اپنے کچے نیم پکے گھروں میں، جھونپڑیوں میں دبکا بیٹھا رہے۔ بلندی سے واپس آنے والی گولیاں غریب کی چھت کو چیرتی ہوئی اندر گر رہی ہیں، کھلے صحن میں گر رہی ہیں، اور کوئی پوچھنے والا نہ ہو۔
آخر کب تک یہ اندھیرا رہے گا، اب تو ہمارے شہر بھی عرصہ ہوا اس وبا کا شکار ہوچکے ہیں، اچھے اچھے مہذب اور دیندار گھروں کے نوجوان اپنی خوشیاں جدید اسلحے سے گولیاں چلاکر مناتے ہیں۔ قریب ہی اسپتال بھی ہوتے ہیں جہاں دل کے مریض بھی زیر علاج ہوتے ہیں، مگر شہریوں میں بھی احساس مر گیا ہے۔ احمد رشدی مرحوم نے ایک فلمی گانا گایا تھا، اس کا مکھڑا یاد آگیا، بڑا ہی بروقت ہے ''محبتوں کے قدرداں نہ شہر میں نہ گاؤں میں'' ایک گھرانے میں ایسی ہی خوشی کی فائرنگ ہورہی تھی جس سے بوڑھی بیمار ماں کی حالت بگڑ گئی تو ''شریر'' بچوں نے فائرنگ بند کی۔کوئی ہے جو ان شریر بچوں کو لگام دے؟ ایک 14 سالہ لڑکے کے ہاتھ میں 45 ہزار روپے کی گن کس نے تھما دی ہے؟
بات ہورہی تھی الیکشن کمیشن کی، جسے متفقہ طور پر پارلیمنٹ نے بنایا ہے۔ اب جب کہ آپ کا ہی بنایا ہوا الیکشن کمیشن ہے، تو پھر اس کی عزت بھی کرو، تابعداری بھی کرو، جو وہ مانگے طلب کرے،وہ اسے دے دو، اس میں کیا برائی ہے، اس میں کسی کی توہین کا بھلا کون سا پہلو ہے؟کسی بھی کام کی ایک حد ضرور ہوتی ہے، دنیا بہت آگے جاچکی ہے، ہر رات کے بعد سویر ضرور ہوتی ہے تو کچھ ایسا کرلو کہ بات آگے بڑھ جائے، کام رکنے نہ پائے اور کام رکنا بھی نہیں چاہیے۔ ہمارے ملک کی سیاسی جماعتوں پر بڑی بھاری ذمے داری آن پڑی ہے، انھیں اپنا ہوم ورک توجہ سے کرتے ہوئے ایسے ہی امیدوار سامنے لانے چاہئیں کہ جن کے دامن صاف ہوں، ایسا کرکے وہ الیکشن کمیشن کا بوجھ بھی کم کردیں گے اور خود اپنا بھی بھلا کریں گے، میں خصوصاً ان سیاسی رہنماؤں سے یہ توقع ضرور رکھتا ہوں اور پرامید ہوں کہ یہ اپنی اپنی جماعتوں سے صاف ستھرے امیدواروںکو الیکشن میں اتاریں گے، یہی اپنے جاوید ہاشمی، مشاہد اللہ خان، میاں رضاربانی اور افراسیاب خٹک۔ ان چاروں نے شفاف لوگ الیکشن میں اتارے، تو باقی امیدواروں کی اسکروٹنی کا کام سہل ہوجائے گا۔ ایم کیو ایم اور جمعیت علمائے اسلام (ف اور س) والوں کے اسکروٹنی والے معاملات کم ہی ہوں گے، باقی چھوٹی جماعتیں اور آزاد امیدوار رہ جائیں گے۔ اس طرح الیکشن کمیشن کا بہت سا کام ہوجائے گا اور سیاسی جماعتیں بھی سرخرو رہیں گی، دوسری صورت میں مرد آہن فخرالدین جی ابراہیم اپنی سربراہی میں بڑے بڑے طوفانوں سے بھی ٹکرا جانے کا حوصلہ رکھتے ہیں۔ انھوں نے مجھ سے کہا تھا ''اب میں صرف صاف ستھرا اور منصفانہ الیکشن کروانا چاہتا ہوں، خدا مجھ سے یہ کام لے لے'' ایک 86 سال کا شخص جس کی شہرت اس کی نیک نامی ہو، اس شخص کے بارے میں کوئی بھی کسی خوش فہمی میں نہ رہے کہ وہ پیچھے ہٹ جائے گا۔ ایسا کچھ نہیں ہوگا، کیونکہ فخر الدین جی ابراہیم کے پیچھے پاکستان کے 18کروڑ عوام کھڑے ہیں، اللہ اور رسولؐ کے بعد سب سے بڑی طاقت عوام ان کے ساتھ ہے۔الیکشن شفاف ہوجائیں اسی میں بھلائی ہے، اسی میں سب کی بہتری ہے، یہیں سے آگے جانے کا راستہ نکلے گا اور اگر راستہ رکا تو عوام راستہ خود بنالیں گے۔ بہت کچھ برا ہوچکا، بلکہ اب کچھ اور برا ہونے کو بچا ہی نہیں، ذرا سوچو! عوام کہہ رہے ہیں بقول جالبؔ:
ہم پہ اس عہد کم نگاہی میں
کون سا جرم ناروا نہ ہوا
الیکشن کمیشن کا کچھ بھی پوچھنا، اسے ہمارے متوقع امیدواران الیکشن اپنی شدید توہین سمجھ رہے ہیں اور اقتدار و بے اقتدار دونوں کہہ رہے ہیں کہ کمیشن کو ہماری توہین کرنے کا اختیار کس نے دیا ہے۔ الیکشن کمیشن نے مندرجہ ذیل تفصیلات امیدواروں سے طلب کی ہیں:
1۔اپنی تعلیمی اسناد کی ہائر ایجوکیشن سے تصدیق شدہ کاپیاں
2۔بینکوں سے لیے گئے قرضوں کی تفصیلات اور معاف کرائے گئے قرضے
3۔بیرون ملک کے دورے اور ان کے اخراجات کی تفصیل۔
4۔بیرون ملک تعلیم حاصل کرنے والے بچوں کے اخراجات کی تفصیلات
5۔بجلی، ٹیلی فون، گیس، پانی کے بلوں کی ادائیگی اور ان کی تفصیلات
6۔ موجودہ دولت کی تفصیلات (Wealth Statement)
میرے محترم متوقع امیدواران اسمبلی ! اگر موجودہ الیکشن کمیشن نے مدت سے بند، آئین کی کتاب کو کھول ہی لیا ہے تو اب کیا کریں، کتاب کھلے گی، تو پڑھی بھی جائے گی اور پھر اس میں لکھے پر عمل بھی ہوگا۔ ع
پکڑے جاتے ہیں فرشتوں کے لکھے پر ناحق؟ جی نہیں۔ اب آئینی تقاضا ہے، بندہ پرور۔
یہ حقیقت ہے کہ 65 سال سے وہی کچھ ہورہا ہے جو الیکشن میں حصہ لینے والوں نے چاہا۔ وہ جعلی ڈگریاں ہوں یا جھوٹے گوشوارے۔ یہ کیسا انصاف ہے کہ تنخواہ دار ملازم تو انکم ٹیکس دے، مگر لاکھوں کی کاروں میں ہماری اسمبلیوں کے سامنے اترنے والے ایک روپیہ بھی انکم ٹیکس نہ دیں، ہمارے اسمبلی ممبران لاکھوں،کروڑوں روپے کا اسلحہ اٹھائے بیسیوں گارڈز کے ساتھ سڑکوں پر دندناتے نظر آئیں۔ یہ لوگ اپنے محلوں، حویلیوں، فارم ہاؤسز سے اسلحے کی بھری گاڑیوں کے دہشت پھیلاتے کانوائے کے ساتھ نکلیں تو غریب عوام ڈر کے مارے نظریں جھکا کر دیوار سے لگ جائیں۔ ان کے محلوں، حویلیوں میں خوشی کا دن ہو تو جدید ترین اسلحے سے لاکھوں روپوں کا بارود چلا دیا جائے اور غریب ہاری، کسان اپنے کچے نیم پکے گھروں میں، جھونپڑیوں میں دبکا بیٹھا رہے۔ بلندی سے واپس آنے والی گولیاں غریب کی چھت کو چیرتی ہوئی اندر گر رہی ہیں، کھلے صحن میں گر رہی ہیں، اور کوئی پوچھنے والا نہ ہو۔
آخر کب تک یہ اندھیرا رہے گا، اب تو ہمارے شہر بھی عرصہ ہوا اس وبا کا شکار ہوچکے ہیں، اچھے اچھے مہذب اور دیندار گھروں کے نوجوان اپنی خوشیاں جدید اسلحے سے گولیاں چلاکر مناتے ہیں۔ قریب ہی اسپتال بھی ہوتے ہیں جہاں دل کے مریض بھی زیر علاج ہوتے ہیں، مگر شہریوں میں بھی احساس مر گیا ہے۔ احمد رشدی مرحوم نے ایک فلمی گانا گایا تھا، اس کا مکھڑا یاد آگیا، بڑا ہی بروقت ہے ''محبتوں کے قدرداں نہ شہر میں نہ گاؤں میں'' ایک گھرانے میں ایسی ہی خوشی کی فائرنگ ہورہی تھی جس سے بوڑھی بیمار ماں کی حالت بگڑ گئی تو ''شریر'' بچوں نے فائرنگ بند کی۔کوئی ہے جو ان شریر بچوں کو لگام دے؟ ایک 14 سالہ لڑکے کے ہاتھ میں 45 ہزار روپے کی گن کس نے تھما دی ہے؟
بات ہورہی تھی الیکشن کمیشن کی، جسے متفقہ طور پر پارلیمنٹ نے بنایا ہے۔ اب جب کہ آپ کا ہی بنایا ہوا الیکشن کمیشن ہے، تو پھر اس کی عزت بھی کرو، تابعداری بھی کرو، جو وہ مانگے طلب کرے،وہ اسے دے دو، اس میں کیا برائی ہے، اس میں کسی کی توہین کا بھلا کون سا پہلو ہے؟کسی بھی کام کی ایک حد ضرور ہوتی ہے، دنیا بہت آگے جاچکی ہے، ہر رات کے بعد سویر ضرور ہوتی ہے تو کچھ ایسا کرلو کہ بات آگے بڑھ جائے، کام رکنے نہ پائے اور کام رکنا بھی نہیں چاہیے۔ ہمارے ملک کی سیاسی جماعتوں پر بڑی بھاری ذمے داری آن پڑی ہے، انھیں اپنا ہوم ورک توجہ سے کرتے ہوئے ایسے ہی امیدوار سامنے لانے چاہئیں کہ جن کے دامن صاف ہوں، ایسا کرکے وہ الیکشن کمیشن کا بوجھ بھی کم کردیں گے اور خود اپنا بھی بھلا کریں گے، میں خصوصاً ان سیاسی رہنماؤں سے یہ توقع ضرور رکھتا ہوں اور پرامید ہوں کہ یہ اپنی اپنی جماعتوں سے صاف ستھرے امیدواروںکو الیکشن میں اتاریں گے، یہی اپنے جاوید ہاشمی، مشاہد اللہ خان، میاں رضاربانی اور افراسیاب خٹک۔ ان چاروں نے شفاف لوگ الیکشن میں اتارے، تو باقی امیدواروں کی اسکروٹنی کا کام سہل ہوجائے گا۔ ایم کیو ایم اور جمعیت علمائے اسلام (ف اور س) والوں کے اسکروٹنی والے معاملات کم ہی ہوں گے، باقی چھوٹی جماعتیں اور آزاد امیدوار رہ جائیں گے۔ اس طرح الیکشن کمیشن کا بہت سا کام ہوجائے گا اور سیاسی جماعتیں بھی سرخرو رہیں گی، دوسری صورت میں مرد آہن فخرالدین جی ابراہیم اپنی سربراہی میں بڑے بڑے طوفانوں سے بھی ٹکرا جانے کا حوصلہ رکھتے ہیں۔ انھوں نے مجھ سے کہا تھا ''اب میں صرف صاف ستھرا اور منصفانہ الیکشن کروانا چاہتا ہوں، خدا مجھ سے یہ کام لے لے'' ایک 86 سال کا شخص جس کی شہرت اس کی نیک نامی ہو، اس شخص کے بارے میں کوئی بھی کسی خوش فہمی میں نہ رہے کہ وہ پیچھے ہٹ جائے گا۔ ایسا کچھ نہیں ہوگا، کیونکہ فخر الدین جی ابراہیم کے پیچھے پاکستان کے 18کروڑ عوام کھڑے ہیں، اللہ اور رسولؐ کے بعد سب سے بڑی طاقت عوام ان کے ساتھ ہے۔الیکشن شفاف ہوجائیں اسی میں بھلائی ہے، اسی میں سب کی بہتری ہے، یہیں سے آگے جانے کا راستہ نکلے گا اور اگر راستہ رکا تو عوام راستہ خود بنالیں گے۔ بہت کچھ برا ہوچکا، بلکہ اب کچھ اور برا ہونے کو بچا ہی نہیں، ذرا سوچو! عوام کہہ رہے ہیں بقول جالبؔ:
ہم پہ اس عہد کم نگاہی میں
کون سا جرم ناروا نہ ہوا