پاکستان‘کہیں کھلتے پھول کہیں خون اور دھول
حکومت کو وزیرستان میں ان کے ٹھکانے تباہ کرنے کے بعد ان کے ساتھ طاقت ور پوزیشن کے ساتھ بات کرنی چاہیے۔
پچھلے چند ہفتوں میں بہت سے ایسے واقعات پیش آئے ہیں ،جنھوں نے عوام کی اکثریت کو ایک پریشان کن صورت حال سے دوچارکر دیا اور ان کے لیے یہ سمجھنا دشوار ہے کہ ملک کو کیوں ان بھول بھلیوں میں دھکیل دیا گیا ہے۔چند بڑے واقعات اور تبدیلیوں پر ایک نظر ڈالیے: اپنی میعاد پوری کرنیوالی کابینہ نے ایران پاکستان گیس پائپ لائن پراجیکٹ کو جاری رکھنے اور عسکری اعتبار سے اہم مقام پر واقع گوادر بندر گاہ کا انتظام ایک چینی کمپنی کے حوالے کرنے کے جرات مندانہ فیصلے کیے؛ فرقہ وارانہ قتل و غارت گری میں مزید شدت آئی اور کوئٹہ میں ہونیوالے ایک دھماکے میں86 انسانوں کو موت کی نیند سلا دیا گیا۔40 روز کے اندر ہزارہ شیعہ برادری کے خلاف یہ اپنی بہیمانہ نوعیت کا دوسرا حملہ تھا۔
کراچی اور لاہور میں مختلف مسالک کے لوگوں کی ٹارگٹ کلنگ بلا روک ٹوک جاری رہی، دہشت گردی کے واقعات میں ملوث گروپ تحریک طالبان پاکستان نے حکومت کو مذاکرات کی پیشکش کی مگر اس شرط کے ساتھ کہ باقی پاکستانی قبول نہیں؛ اے این پی نے تمام بڑی جماعتوں کی گول میز کانفرنس بلائی اور اس پیشکش کو اس شرط کے ساتھ قبول کر لیا کہ پہلے تحریک طالبان پاکستان جنگ بندی قبول کرے اور یہ کہ بات چیت آئین کے ڈھانچے میں رہتے ہوئے ہو گی۔جب یہ اعصاب شکن واقعات رونماہو رہے تھے ایک اعتدال پسند اور دلیل پر یقین رکھنے والے پاکستان کا اظہار جاری تھا۔کراچی میں،کراچی ادبی میلہ جاری تھا۔
بعد میں لاہور میں بھی اسی قسم کا فیسٹیول ہوا۔
کراچی ادبی میلے میں ایک ٹیلیویژن رپورٹر نے ٹی وی کی سدا بہار فنکارہ بشریٰ انصاری سے سوال کیا کہ ایسے وقت میں جب ملک دہشت گرد حملوں میں جل رہا ہے،اس قسم کے میلوں کا اہتمام کیا جانا چاہیے؟ بشریٰ نے بڑا خوبصورت جواب دیا اور کہا کہ ایسے مزید فیسٹیول ہونے چاہئیں تاکہ پاکستان کا اعتدال پسند اور انسانیت سے محبت کرنے والا چہرہ سامنے آئے جو اکثریت کی نمایندگی کرتا ہے۔ٹھیک ہے کہ ہمیں ان لوگوں کا غم بانٹنا چاہیے جو دہشت گردوں کے ہاتھوں مارے جاتے ہیں۔لیکن اگر ہم خود کو گھروں کی حفاظت تک محدود کر لیں گے اور معمول کے مطابق اپنے کام کاج نہیں کریں گے تو ہم ان بربریت پسندوں کے ہاتھوں یرغمال بن جائیں گے۔کوئٹہ کے واقعے،دھرنوں اور شہر میں کشیدگی کے باوجود ان تین دنوں میں ہزاروں کی تعداد میں جو لوگ کراچی ادبی میلے میں شامل ہونے کے لیے آئے اس سے ان کے حوصلے کا اظہار ہوتا ہے۔انتہا پسندوں کو شکست دینے کے لیے اسی حوصلے کی ضرورت ہے جو معاشرے کو واپس قرون وسطیٰ کے قبائلی نظام کی طرف دھکیلنا چاہتے ہیں۔
اب تحریک طالبان پاکستان کی امن شرائط کی طرف آتے ہیں۔انھوں نے آئین کو ختم کرنے اور ایک اسلامی نظریاتی مملکت قائم کرنے کے لیے کہا ہے۔ان کا یہ مطالبہ سوات کے صوفی محمد کی ان شرائط سے زیادہ مختلف نہیں ہے جو اس نے امن کے لیے پیشگی شرائط کے طور پر رکھی تھیں۔اگرچہ پاکستان کا آئین یہ کہتا ہے کہ پاکستان میں 'قرآن اور سنت' کے منافی کوئی قانون نہیں بنایا جائے گا مگر پاکستان کے عوام کوتحریک طالبان پاکستان برانڈ کا اسلام قبول نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ٹی ٹی پی کی طرف سے عوامی نیشنل پارٹی کو دی جانے والی اس دھمکی کے باوجود کہ انتخابات میں اس کے امیدواروں کو قتل کر دیا جائے گا ،تمام بڑی جماعتیں طالبان کو مزید رعایت دینے پرآمادہ نہیں ہیں۔
کچھ بھی ہو ،حکومت کو وزیرستان میں ان کے ٹھکانے تباہ کرنے کے بعد ان کے ساتھ طاقت ور پوزیشن کے ساتھ بات کرنی چاہیے۔ حکومت کی جانب سے کوئی بھی کمزوری تمام دہشت گرد تنظیموں کی حوصلہ افزائی کرے گی ، جو پاکستان میںنام نہاد اسلامی خلافت قائم کرنا چاہتی ہیں۔اس کے بر عکس ہمیں ایک مضبوط پاکستان کے لیے ،ان سنگین غلطیوں کا ازالہ کرتے ہوئے،جو اس ملک کے حکمران کر چکے ہیں، مذہب اور سیاست کو ایک دوسرے سے علیحدہ کرنے کی ضرورت ہے ۔جب تک ریاست سیکولر نہیں ہو گی پاکستان سچا جمہوری ملک نہیں بن سکتا۔ہم نے سرکاری طور پر جو موقف اپنا رکھا ہے ،اس نے انتہا پسندوں کو زندگی کے ہر شعبے میں دبائو ڈالنے کے لیے بہت زیادہ گنجائش مہیا کی ہے جس سے دلیل اور ایک سے زیادہ نکتہ ہائے نظر کی منطق کو نقصان پہنچ رہا ہے۔
تاہم ایک اچھی تبدیلی یہ ہے کہ پہلی بار یوں لگتا ہے کہ اسٹیبلشمنٹ کو یہ احساس ہوا ہے کہ اس وقت پاکستان کو اصل خطرہ داخلی دہشت گردی سے ہے۔جب ہم اس سمت میں آگے بڑھیں گے تو اسٹیبلشمنٹ کو اپنی صفوں کو یہ بات سمجھانے کے لیے بہت کچھ کرنا ہو گا،جنھیں اس سے پہلے یہ بتایا جاتا رہا کہ بھارت کی طرف سے لاحق خطرے کا مقابلہ کرنے کے لیے جہادی گروپ ہمارا اثاثہ ہیں۔
تاہم،اسٹیبلشمنٹ کو خدشہ ہے کہ خلیج عرب/ فارس کے دروازے گوادر پر چین کو بٹھا دینے کا فیصلہ امریکا کے لیے قابل قبول نہیںہو گا۔ اسی طرح سے پاکستان میں بچھائی جانیوالی ایران پاکستان گیس پائپ لائن کے اخراجات پورے کرنے کے لیے ایرانی قرضے کو قبول کرنے کے فیصلے پر امریکا پہلے ہی کھلے عام تنقید کر رہا ہے۔
حکومت کے ناقدین،جو اسے ہمیشہ امریکی پٹھو قرار دیتے ہیں،موجودہ حکومت کو اس بات کا کریڈٹ دینے میں ناکام رہے کہ وہ ان دو معاملات پر امریکا کے سامنے ڈٹ گئی اور اس کی بات نہیں مانی۔اسٹیبلشمنٹ کے ایک حلقے کا خیال ہے کہ امریکا،ایران پاکستان گیس پائپ لائن پروجیکٹ کو سبو تاژ کرنے کے لیے بلوچستان میں پاکستان کو عدم استحکام سے دوچار کرنے کی کوشش کر سکتا ہے۔وہ لوگ جو سازشی نظریے پر یقین رکھتے ہیں،کہتے ہیں کہ بعض بڑے دہشت گرد حملے ' اصل میں ہمیں ایک طرح کا پیغام دیناہے کہ باز آ جائو'۔مگر اس نظریے میں ایک بہت بڑا سقم ہے: امریکا ایک ایسے مرحلے پر پاکستان کو عدم استحکام سے دوچار کرنے کا متحمل نہیں ہو سکتا جب اسے افغانستان کی دلدل سے نکلنے کے لیے ہماری حمایت کی ضرورت ہے۔چنانچہ پاکستان نے ایک مناسب وقت پر یہ فیصلے کیے ہیں۔
یہ ایک ایسا وقت ہے کہ جب امریکا کو افغانستان سے نکلنے کے لیے پاکستان کی ضرورت ہے اس لیے وہ ایک ایسے ملک کو کمزور کرنا نہیں چاہیں گے جس کی انھیں اتحادی کے طور پر ضرورت ہے۔ امریکا نے 1980کی دہائی میں پاکستان کے جوہری پروگرام کی ترقی کو نظر انداز کر دیا تھا اور پابندیاں اٹھا لی گئی تھیں،کیونکہ اسے افغانستان میں شر پسند بھیجنے کے لیے ہماری ضرورت تھی۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ دوسرا موقع ہے کہ افغانستان میں عدم استحکام اور داخلی خانہ جنگی نے امریکی پابندیوں سے بچنے میں پاکستان کی مدد کی ہے۔آخری بات: جب کوئٹہ میں فرقہ وارانہ نفرت نے ہزارہ برادری کے 86 افراد کی جان لی، اس وقت ایک صوفی منش فلسطینی ادیب عزل الدین ابو علیش اپنی کتاب ' I Shall Not Hate: A Gaza Doctor's Journey کی تقریب رونمائی کے لیے کراچی ادبی میلے میں آئے ہوئے تھے۔جنوری2009میں غزہ پر اسرائیلی فوج کے حملے میں ان کی تین بیٹیاں جاں بحق ہو گئی تھیں مگر پھر بھی ابو علیش کہتے ہیں نفرت کا بہترین مقابلہ محبت اور دلیل سے کیا جاسکتا ہے، بندوق اٹھا کر انتقام لینے سے نہیں کیا جا سکتا ۔کیا پاکستان میں نفرت کے پجاریوں کے لیے یہ ایک سبق نہیں ہے؟ مگر وہ اپنی طرز کے ایک روشن خیال انسان ہیں۔ایسے لوگ بہت کم ہوتے ہیں۔
کراچی اور لاہور میں مختلف مسالک کے لوگوں کی ٹارگٹ کلنگ بلا روک ٹوک جاری رہی، دہشت گردی کے واقعات میں ملوث گروپ تحریک طالبان پاکستان نے حکومت کو مذاکرات کی پیشکش کی مگر اس شرط کے ساتھ کہ باقی پاکستانی قبول نہیں؛ اے این پی نے تمام بڑی جماعتوں کی گول میز کانفرنس بلائی اور اس پیشکش کو اس شرط کے ساتھ قبول کر لیا کہ پہلے تحریک طالبان پاکستان جنگ بندی قبول کرے اور یہ کہ بات چیت آئین کے ڈھانچے میں رہتے ہوئے ہو گی۔جب یہ اعصاب شکن واقعات رونماہو رہے تھے ایک اعتدال پسند اور دلیل پر یقین رکھنے والے پاکستان کا اظہار جاری تھا۔کراچی میں،کراچی ادبی میلہ جاری تھا۔
بعد میں لاہور میں بھی اسی قسم کا فیسٹیول ہوا۔
کراچی ادبی میلے میں ایک ٹیلیویژن رپورٹر نے ٹی وی کی سدا بہار فنکارہ بشریٰ انصاری سے سوال کیا کہ ایسے وقت میں جب ملک دہشت گرد حملوں میں جل رہا ہے،اس قسم کے میلوں کا اہتمام کیا جانا چاہیے؟ بشریٰ نے بڑا خوبصورت جواب دیا اور کہا کہ ایسے مزید فیسٹیول ہونے چاہئیں تاکہ پاکستان کا اعتدال پسند اور انسانیت سے محبت کرنے والا چہرہ سامنے آئے جو اکثریت کی نمایندگی کرتا ہے۔ٹھیک ہے کہ ہمیں ان لوگوں کا غم بانٹنا چاہیے جو دہشت گردوں کے ہاتھوں مارے جاتے ہیں۔لیکن اگر ہم خود کو گھروں کی حفاظت تک محدود کر لیں گے اور معمول کے مطابق اپنے کام کاج نہیں کریں گے تو ہم ان بربریت پسندوں کے ہاتھوں یرغمال بن جائیں گے۔کوئٹہ کے واقعے،دھرنوں اور شہر میں کشیدگی کے باوجود ان تین دنوں میں ہزاروں کی تعداد میں جو لوگ کراچی ادبی میلے میں شامل ہونے کے لیے آئے اس سے ان کے حوصلے کا اظہار ہوتا ہے۔انتہا پسندوں کو شکست دینے کے لیے اسی حوصلے کی ضرورت ہے جو معاشرے کو واپس قرون وسطیٰ کے قبائلی نظام کی طرف دھکیلنا چاہتے ہیں۔
اب تحریک طالبان پاکستان کی امن شرائط کی طرف آتے ہیں۔انھوں نے آئین کو ختم کرنے اور ایک اسلامی نظریاتی مملکت قائم کرنے کے لیے کہا ہے۔ان کا یہ مطالبہ سوات کے صوفی محمد کی ان شرائط سے زیادہ مختلف نہیں ہے جو اس نے امن کے لیے پیشگی شرائط کے طور پر رکھی تھیں۔اگرچہ پاکستان کا آئین یہ کہتا ہے کہ پاکستان میں 'قرآن اور سنت' کے منافی کوئی قانون نہیں بنایا جائے گا مگر پاکستان کے عوام کوتحریک طالبان پاکستان برانڈ کا اسلام قبول نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ٹی ٹی پی کی طرف سے عوامی نیشنل پارٹی کو دی جانے والی اس دھمکی کے باوجود کہ انتخابات میں اس کے امیدواروں کو قتل کر دیا جائے گا ،تمام بڑی جماعتیں طالبان کو مزید رعایت دینے پرآمادہ نہیں ہیں۔
کچھ بھی ہو ،حکومت کو وزیرستان میں ان کے ٹھکانے تباہ کرنے کے بعد ان کے ساتھ طاقت ور پوزیشن کے ساتھ بات کرنی چاہیے۔ حکومت کی جانب سے کوئی بھی کمزوری تمام دہشت گرد تنظیموں کی حوصلہ افزائی کرے گی ، جو پاکستان میںنام نہاد اسلامی خلافت قائم کرنا چاہتی ہیں۔اس کے بر عکس ہمیں ایک مضبوط پاکستان کے لیے ،ان سنگین غلطیوں کا ازالہ کرتے ہوئے،جو اس ملک کے حکمران کر چکے ہیں، مذہب اور سیاست کو ایک دوسرے سے علیحدہ کرنے کی ضرورت ہے ۔جب تک ریاست سیکولر نہیں ہو گی پاکستان سچا جمہوری ملک نہیں بن سکتا۔ہم نے سرکاری طور پر جو موقف اپنا رکھا ہے ،اس نے انتہا پسندوں کو زندگی کے ہر شعبے میں دبائو ڈالنے کے لیے بہت زیادہ گنجائش مہیا کی ہے جس سے دلیل اور ایک سے زیادہ نکتہ ہائے نظر کی منطق کو نقصان پہنچ رہا ہے۔
تاہم ایک اچھی تبدیلی یہ ہے کہ پہلی بار یوں لگتا ہے کہ اسٹیبلشمنٹ کو یہ احساس ہوا ہے کہ اس وقت پاکستان کو اصل خطرہ داخلی دہشت گردی سے ہے۔جب ہم اس سمت میں آگے بڑھیں گے تو اسٹیبلشمنٹ کو اپنی صفوں کو یہ بات سمجھانے کے لیے بہت کچھ کرنا ہو گا،جنھیں اس سے پہلے یہ بتایا جاتا رہا کہ بھارت کی طرف سے لاحق خطرے کا مقابلہ کرنے کے لیے جہادی گروپ ہمارا اثاثہ ہیں۔
تاہم،اسٹیبلشمنٹ کو خدشہ ہے کہ خلیج عرب/ فارس کے دروازے گوادر پر چین کو بٹھا دینے کا فیصلہ امریکا کے لیے قابل قبول نہیںہو گا۔ اسی طرح سے پاکستان میں بچھائی جانیوالی ایران پاکستان گیس پائپ لائن کے اخراجات پورے کرنے کے لیے ایرانی قرضے کو قبول کرنے کے فیصلے پر امریکا پہلے ہی کھلے عام تنقید کر رہا ہے۔
حکومت کے ناقدین،جو اسے ہمیشہ امریکی پٹھو قرار دیتے ہیں،موجودہ حکومت کو اس بات کا کریڈٹ دینے میں ناکام رہے کہ وہ ان دو معاملات پر امریکا کے سامنے ڈٹ گئی اور اس کی بات نہیں مانی۔اسٹیبلشمنٹ کے ایک حلقے کا خیال ہے کہ امریکا،ایران پاکستان گیس پائپ لائن پروجیکٹ کو سبو تاژ کرنے کے لیے بلوچستان میں پاکستان کو عدم استحکام سے دوچار کرنے کی کوشش کر سکتا ہے۔وہ لوگ جو سازشی نظریے پر یقین رکھتے ہیں،کہتے ہیں کہ بعض بڑے دہشت گرد حملے ' اصل میں ہمیں ایک طرح کا پیغام دیناہے کہ باز آ جائو'۔مگر اس نظریے میں ایک بہت بڑا سقم ہے: امریکا ایک ایسے مرحلے پر پاکستان کو عدم استحکام سے دوچار کرنے کا متحمل نہیں ہو سکتا جب اسے افغانستان کی دلدل سے نکلنے کے لیے ہماری حمایت کی ضرورت ہے۔چنانچہ پاکستان نے ایک مناسب وقت پر یہ فیصلے کیے ہیں۔
یہ ایک ایسا وقت ہے کہ جب امریکا کو افغانستان سے نکلنے کے لیے پاکستان کی ضرورت ہے اس لیے وہ ایک ایسے ملک کو کمزور کرنا نہیں چاہیں گے جس کی انھیں اتحادی کے طور پر ضرورت ہے۔ امریکا نے 1980کی دہائی میں پاکستان کے جوہری پروگرام کی ترقی کو نظر انداز کر دیا تھا اور پابندیاں اٹھا لی گئی تھیں،کیونکہ اسے افغانستان میں شر پسند بھیجنے کے لیے ہماری ضرورت تھی۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ دوسرا موقع ہے کہ افغانستان میں عدم استحکام اور داخلی خانہ جنگی نے امریکی پابندیوں سے بچنے میں پاکستان کی مدد کی ہے۔آخری بات: جب کوئٹہ میں فرقہ وارانہ نفرت نے ہزارہ برادری کے 86 افراد کی جان لی، اس وقت ایک صوفی منش فلسطینی ادیب عزل الدین ابو علیش اپنی کتاب ' I Shall Not Hate: A Gaza Doctor's Journey کی تقریب رونمائی کے لیے کراچی ادبی میلے میں آئے ہوئے تھے۔جنوری2009میں غزہ پر اسرائیلی فوج کے حملے میں ان کی تین بیٹیاں جاں بحق ہو گئی تھیں مگر پھر بھی ابو علیش کہتے ہیں نفرت کا بہترین مقابلہ محبت اور دلیل سے کیا جاسکتا ہے، بندوق اٹھا کر انتقام لینے سے نہیں کیا جا سکتا ۔کیا پاکستان میں نفرت کے پجاریوں کے لیے یہ ایک سبق نہیں ہے؟ مگر وہ اپنی طرز کے ایک روشن خیال انسان ہیں۔ایسے لوگ بہت کم ہوتے ہیں۔