معاشی ابتری میں ٹیکس چوروں کا کردار

ملک کے روزمرہ کے معاملات، ترقیاتی امور اور عوامی بہبود کے منصوبے چلانے کے لیے بھاری سرمایہ درکار ہوتا ہے


Ashar Najmi February 28, 2013

بااثر طبقہ اشرافیہ، وڈیرہ شاہی اور جاگیردارانہ سامراجیوں کے ٹیکس ادا نہ کرنے کے طرز عمل اور ٹیکس وصولی کی کمزور مشینری نے حالات کو اس مقام تک پہنچادیا ہے کہ حکومت کو اپنی عام ضروریات کے لیے بھی اندرونی و بیرونی قرضے لینے اور بڑے پیمانے پر نوٹ چھاپ کر گزارا کرنا پڑرہا ہے۔ عالمی مالیاتی اداروں کی رپورٹس اور ہمارے مرکزی بینک کے جائزے کسی طور بھی معیشت کی صورتحال کو قابل رشک ظاہر نہیں کرتے۔ وطن عزیز توازن ادائیگی کے ایک بحران کی طرف بڑھتا ہوا نظر آرہا ہے۔ زرمبادلہ کے ذخائر تیزی سے کم ہونے کے باعث روپے کی قدر ہر گزرتے دن کے ساتھ گھٹ رہی ہے اور مہنگائی میں اضافہ ہو رہا ہے۔ پاکستان میں ٹیکس چوری کرنا یا سرے سے ادا ہی نہ کرنے کا کلچر گہری جڑیں رکھتا ہے۔

ملک کے روزمرہ کے معاملات، ترقیاتی امور اور عوامی بہبود کے منصوبے چلانے کے لیے بھاری سرمایہ درکار ہوتا ہے اور ٹیکس اس سرمائے کے حصول کا ایک بڑا ذریعہ ہیں۔ مگر بدقسمتی سے ہمارے ملک میں چھوٹے سرکاری ملازمین اور عام شہریوں کے سوا بڑے بڑے جاگیردار، وڈیرے اور بااثر افراد جن کی روزانہ آمدنی بھی لاکھوں میں ہے، حکومت کو انکم ٹیکس کی مد میں ایک روپیہ بھی ادا نہیں کرتے۔ امداد، ریلیف یا بحالی کے کاموں کے لیے قومی خزانے میں سرمائے کی موجودگی نہایت ضروری ہے جو ٹیکس سے حاصل ہوتا ہے۔ پڑوسی ملک بھارت میں ٹیکس ادائیگی کا کلچر اتنا عام ہے کہ ہر شخص کو اپنا قومی ٹیکس نمبر زبانی یاد رہتا ہے۔

اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ اسے بار بار متعدد امور میں اپنے ٹیکس نمبر کا حوالہ دینے کی ضرورت پڑتی ہے۔ اسی طرح امریکا اور یورپ میں ٹیکس ادا نہ کرنے کو بہت برا سمجھا جاتا ہے۔ جو ٹیکس چوری میں کامیاب بھی ہوجاتے ہیں ان کی چوری کا جب بھی بھانڈا پھوٹ جائے تو ان سے ٹیکس چوری کی پوری مدت کا حساب لیا جاتا ہے، کوئی رعایت نہیں دی جاتی۔ شاید یہی وجہ ہے کہ ان ملکوں میں شہری پولیس سے اتنا نہیں ڈرتے جتنا ریونیو محکمے سے ڈرتے ہیں اور دھوکا دینے کے نتائج سے بچنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ان ممالک میں ملازمین، کاروباری افراد، کاشتکار اور دیگر مختلف پیشوں سے وابستہ افراد اپنا ٹیکس نمبر یاد رکھتے ہیں، صرف یہی نہیں بلکہ ٹیکس وصول کرنیوالے اہلکار بھی شہریوں کے کوائف سے پوری طرح باخبر رہتے ہیں۔

ہمارے ملک میں صورتحال کچھ ایسی ہے کہ ٹیکس دینے اور وصول کرنیوالے دونوں ہی اپنی اپنی ذمے داریوں سے پہلو تہی کرتے ہیں۔ کرپشن کا راستہ کھولنے کے لیے ہمارے ملک میں رشوت کے چلن کو اتنا عام کردیا گیا ہے کہ اب جن لوگوں نے اربوں روپے کے ٹیکس دینے ہیں وہ متعلقہ اہلکاروں کو لاکھوں کروڑوں کی رشوت دے کر اربوں روپوں کے ٹیکس کو با آسانی بچالیتے ہیں، جس کے نتیجے میں قومی خزانہ اپنے جائز حصے سے محروم رہتا ہے۔ اس کی ایک بڑی وجہ قومی وسائل پر قابض اشرافیہ کا طرز عمل ہے۔ یہ طبقہ ٹیکس سے بچنے کے راستے تلاش کرتا رہتا ہے۔ دیکھا دیکھی کاروباری اور دیگر شعبوں کے لوگ بھی ٹیکسوں سے بچنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ایسا بھی نہیں ہے کہ ہماری حکومت ٹیکس چوروں کے متعلق آگاہی نہیں رکھتی۔

حالیہ حکومتی سروے خود انکشاف کررہا ہے کہ پاکستان میں 23 لاکھ 59 ہزار 926 کاروباری شخصیات کے پاس نیشنل ٹیکس نمبر تک نہیں ہیں جو قانون کی کھلی خلاف ورزی کے مترادف ہے۔ ان میں 62 ہزار 779 ٹریڈرز، 36 ہزار 270 کنٹریکٹرز، 17 ہزار 853 امپورٹرز و ایکسپورٹرز، 13 ہزار 531 جنرل اسٹورز، 10 ہزار 728 جیولرز، 10 ہزار 105 چھوٹے صنعتکار، 9 ہزار 569 کنسٹرکٹرز، 9 ہزار 330 میڈیکل شعبے والے، 5 ہزار 426 ٹریول ایجنٹ، 766 پٹرول پمپس و سی این جی فلنگ اسٹیشن مالکان شامل ہیں۔ اب اس سروے رپورٹ کے بعد ان افراد کے خلاف کسی حکومتی کارروائی کا نہ ہونا کیا واضح کرتا ہے، یہ قارئین خود اندازہ لگا سکتے ہیں کہ یا تو ہماری حکومت قومی سرمائے کی وصولیابی کے لیے خود ہی مخلص نہیں ہے یا پھر ٹیکس نادہندگان حکومت کے مقابلے میں زیادہ بااثر ہیں۔

ریاست کا پورا نظام ٹیکسوں سے چلتا ہے، ہم جب ٹیکس دیتے ہیں تو ریاست کو چلانے کا اور ریاست کے ساتھ چلنے کا عہد کرتے ہیں۔ ریاستی ادارے نہ ہوں تو انسان جنگل کے معاشرے میں چلا جاتا ہے۔ ہمیں یہ بات ذہن نشین رکھنی چاہیے کہ ٹیکس دینے سے ہمارا ملک ترقی کرے گا۔ لوڈشیڈنگ سے بڑا مسئلہ ٹیکس وصولی کا ہے۔ بلاشبہ ملک میں جاری دہشتگردی کی بڑی لہر کا تعلق کہیں نہ کہیں کسی نہ کسی سرے پر جاکر مہنگائی اور بیروزگاری سے جڑ جاتا ہے، اگر ہر طبقہ اپنے حصے کا ٹیکس پوری ایمانداری سے ادا کرنے کی روش اپنا لے تو ہم مہنگائی، بیروزگاری اور دہشتگردی کو روکنے میں کسی حد تک کامیاب ہوسکتے ہیں۔ آج تک ہمارے ملک میں صورتحال یہ ہے کہ عام صارف جو ٹیکس ادائیگی میں کوتاہی نہیں برتتا، چلچلاتی دھوپ و گرمی میں لمبی قطاروں کے اندر گھنٹوں کھڑا ہوکر گیس، بجلی، پانی اور ٹیلیفون کے بلوں کی مد میں قومی خزانے میں ٹیکس جمع کرارہا ہوتا ہے، ہر قسم کی مراعات اور بنیادی سہولتوں سے یکسر محروم نظر آتا ہے جب کہ ملک کے مختلف طبقوں کے امرا اور بااثر افراد جو ٹیکس چوری میں ملوث ہیں تمام مراعات و سہولیات سے فائدہ اٹھاتے نظر آتے ہیں۔

ہمارے ہاں ہر چند سال بعد ایمنسٹی کے نام پر کالے دھن کو تحفظ دے دیا جاتا ہے۔ اب وقت آگیا ہے کہ اس طریقے کو ختم کرکے ہر طبقے کے لوگوں کو ٹیکسوں کی ادائیگی کی طرف لایا جائے۔ سیاسی جماعتوں کو بھی چاہیے کہ وہ آیندہ انتخابات کے لیے اپنا پارٹی منشور بناتے وقت ٹیکس نیٹ کے دائرہ کار کو بڑھانے پر توجہ مرکوز کریں۔ ملک کے کرتا دھرتائوں کی دیکھا دیکھی مقامی سطح کے افسران نے بھی ٹیکس کی بہتی گنگا میں ہاتھ دھونا برمحل جانا۔ پچھلے تقریباً ساڑھے چار برسوں میں ٹیکس ایمنسٹی اسکیموں کے نام پر قومی خزانے کو پہنچنے والے کئی سو ارب روپے کے نقصان میں اضافہ کرنے کے بجائے پورے ریکارڈ کی چھان بین کی جانی چاہیے، ٹیکس مع بقایا جات وصول کیا جانا چاہیے۔

ہمارے معاشی مسائل کا حل غریبوں کا خون ناحق نچوڑنے میں نہیں، امرا و بااثر افراد سے ٹیکسوں کی پائی پائی وصول کرنے میں پنہاں ہے۔ اس وقت تو حالت یہ ہے کہ ملک میں ہر روز کم از کم آٹھ ارب روپے کرپشن کی نذر ہورہے ہیں، بجلی اور گیس کا بحران کم ہونے کے بجائے کئی گنا مزید بڑھ گیا ہے، سی این جی بحران کے پس پردہ 80 ارب روپے کی کرپشن دکھائی دے رہی ہے۔ اب تو الیکشن کمیشن نے بھی آیندہ انتخابات میں ٹیکس چوروں کا راستہ بند کرنے کے لیے ارکان پارلیمنٹ کے اثاثوں اور واجبات کی جانچ پڑتال ایف بی آر سے کرانے کا فیصلہ کیا ہے اور یہ ہدایت بھی کی ہے کہ انتخابات میں حصہ لینے والے امیدواروں کے لیے اپنا قومی ٹیکس نمبر دینا لازمی ہوگا۔

اسٹیٹ بینک نے بھی الیکشن کمیشن کو بینک نادہندگان سے متعلق مکمل معلومات فراہم کرنے کی یقین دہانی کرادی ہے تاکہ ٹیکس اور بینک نادہندگان کو انتخابات میں حصہ لینے سے روکا جاسکے ۔ اس بات میں کسی کو کیا شک ہوسکتا ہے کہ منتخب جمہوری پارلیمنٹ میں اگر چہ قابل قدر قانون سازی ہوئی، بے شمار بل پاس ہوئے، مگر عوام پھر بھی شدید معاشی بحرانوں میں گرفتار رہے۔ ہر قسم کے بے جا ٹیکس غریب عوام کی پہلے سے ٹوٹی ہوئی کمر پر لاد دیے گئے، حکومت نے بجٹ کے نام پر الفاظ کی جادوگری اور شعبدہ بازی کا سہارا لیا، بجٹ میں غریب عوام کے مسائل کو سامنے رکھنے کے بجائے آنیوالے الیکشن کو زیادہ ترجیح دی۔ ٹیکس وصول کرنیوالے اہلکاروں اور ٹیکس نادہندگان کی مانیٹرنگ کرنے کے بجائے امیر غریب کے فرق کو مزید بڑھا دیا۔ مہنگائی میں کمی تو اس معاشی ابتری میں ہوتی نظر نہیں آرہی لیکن مزدور و ملازم طبقے کی اجرتیں بڑھادینے سے کچھ دادرسی تو کی جاسکتی ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں