مینار کا شکوہ

رونقوں میں ہمیشہ اضافہ ہی محسوس ہوا اور چراغوں میں تیل بھی کم نہ ہو تا تھا

''میں مسجد کی سیڑھیوں پر بیٹھا ان تین گمشدہ صدیوں کا ماتم کر رہا تھا، مسجد کے مینار نے جھک کر میرے کان میں راز کی بات کہہ دی، جب مسجدیں بے رونق اور مدرسے بے چراغ ہوجائیں، جہاد کی جگہ جمود اور حق کی جگہ حکایت کو مل جائے، ملک کے بجائے مفاد اور ملت کے بجائے مصلحت عزیز ہو، اور جب مسلمانوں کو موت سے خوف آئے اور زندگی سے محبت ہوجائے، تو صدیاں یوں ہی گم ہو جاتی ہیں۔'' مختار مسعود کی 'آوازِ دوست' کا یہ سبق بہت پہلے حاصل کیا تھا، اس کا ایک ایک فقرہ غور کیے جانے اور رہنمائی کے لیے کافی تھا، لیکن ذہن ناپختہ اور زندگی کی حقیقتوں کو سمجھے میں وقت درکار ہوتا ہے، اس لیے وقت لگا۔

وہ مسجد جہاں شاید بچپن کی پہلی نماز ادا کی ہوگی، جہاں تک سفر بہت طویل لگتا تھا، جہاں جانے کے لیے کسی مہربان کی انگلی پکڑنے کی ضرورت پڑتی تھی، جس کا بڑا سا صحن سردیوں میں ٹھنڈا اور گرمیوں میں پیر جلاتا تھا، اسی مسجد میں اعتکاف کی سفید چادریں بچپن سے دل للچاتی تھی، تو اس جگہ ایک دن معتکف ہوئے، جس کا ٹوٹا ہوا وضو خانہ، بہتریں ٹائلوں سے نگاہوں کے سامنے مزین ہوا، پیلے بلب کی جگہ چمکتی روشنیوں نے لی، کھجور کی چٹائیوں کے بجائے دبیز قالین پر سجدہ کرنا شروع کیا، نجانے کتنا وقت گزر گیا اور اس بات کا احساس نہ ہوسکا کہ یہ سب کچھ کس طرح طے ہوگیا؟

لیکن اس تمام عرصے میں کبھی مسجد کے مینار نے کان میں کچھ نہ کہا، سیڑھیوں سے لے کر ہر کونے کا طواف کیا، کوئی صدا سنائی نہ دی، رونقوں میں ہمیشہ اضافہ ہی محسوس ہوا اور چراغوں میں تیل بھی کم نہ ہو تا تھا، مسجد کے منبر اور محراب سے جمعہ کو اعلان ہوتا ہے 'تعمیر کی ضرورت ہے'۔ ایک ہفتہ بعد کسی صاحب کے کاروبار میں برکت کی دعا ہوتی تھی اور کام شروع، قالین کی ضرورت محسوس ہوئی، بغیر اعلان کے ہی موجود تھے، فانوس کسی نے تحفتاً مسجد کی زینت بنادیا، ٹوپیاں رکھوانا تو خیر عادت تھی، وضو خانے کے ٹائلز ایک نمازی نے اپنی دکان سے بھیج دیے، نلکے مسلسل چوری ہونے کے باوجود کوئی نہ کوئی ہدیہ کر ہی دیتا تھا۔ پڑھنے والوں کا محلہ تھا، جھگڑوں سے بھی محفوظ تھا، اب ہماری والی نسل جوان ہورہی تھی، اور ہمارے سامنے کے جوان مسجد اب بھی آتے تھے، لیکن اب وہ کرسیوں پر ادائیگی میں مصروف ہوتے، تمام چہرے وہ ہی تھے، تبدیلی صرف کمر کے جھکنے اور کھال کے لٹک جانے سے پتا چلتی تھی۔

ان گردشِ ایام میں ایک روز مسجد کا مینار تھوڑا سے خم ہوا اور بہت نزدیک آکر ایک ہلکی سی آہ لی، آہ کیا تھی ایک کرب اور تکلیف کا استعارہ تھی، گزری صدیوں کو چھوڑ کر آنے والی صدیوں کی پیش گوئی تھی، جو نسل جوان ہو کر زمامِ کار ہاتھوں میں لینے والی تھی ان سے شکوہ تھا، رویوں میں در آنے والی بے مروتی کا نوحہ تھا۔ کچھ عرصے سے یہ ہورہا تھا کہ منبر سے عرضی پیش ہوئی 'نئے سائونڈ سسٹم کی ضرورت ہے'۔ میں فانوس کے نیچے موجود تھا، جمعہ کے مبارک لمحات تھے، زیاد فکر نہ ہوئی، امید جو تھی یہ کون سی بڑی بات ہے، یہاں تو لاکھوں کا کام منٹوں میں ہوجاتا ہے۔ دو ہفتہ بعد پھر اعلان ہوا، مگر کوئی حرکت نہ ہوئی۔ خیال ہوا کہ شاید لوگ آج بھی اس سوچ کے ساتھ زندہ ہیں کہ مائیک میں 'شیطان' بولتا ہے۔ اگلے ہفتہ ایک بینر آویزاں تھا جس پر یہ ہی گزارش موجود تھی۔

بینر گرد سے اٹ گیا مگر ہٹا نہیں، پھٹ ضرور گیا۔ پھر ایک دن انتظام ہوگیا، دل کو ایک اطمینان ہوا ذرا سے ہول کے ساتھ کہ کچھ گڑبڑ ہے اور یہ شک یقین میں بدلاجب کافی عرصے سے بند تعمیر کے کام کے لیے مینار کے لاوڈ اسپیکرسے درخواست فضائوں میں گونجی، مینار بھی کچھ زیادہ جذباتی نہ ہوا، شاید اس کو آنے والے حالات دور سے نظر آجاتے تھے 'اونچا' جو تھا۔ اگلے جمعہ پھر صدا دی گئی، پھر کچھ ہفتوں کی ساعتوں تک وقفہ رہا لیکن کوئی تعمیری ہلچل نہ ہوئی، اور ایک روز پھر اعلان سنائی دیا لیکن یہ گزارش والا اعلان نہ تھا، اس آواز میں وہ قوت اور کشش نہیں تھی جو بچپن سے سناتا آرہا ہے۔


یہ صدا تو فقیرانہ سی تھی، سر اٹھا ہوا نہیں بلکہ جھکا ہوا محسوس ہوا، یہ تو پھیلے ہوئے ہاتھوں کی صدا تھی، ایسا لگ رہا تھا جیسے فرض 'زبردستی' ادا کروایا جا رہا ہے۔ جن آنکھوں میں دیکھ کر یہ سوال کیا جاتا تھا اب ان میں مروت کی کمی تھی، شاید! ... جب کہ نگاہیں بتا رہی تھیں کہ علم و فن سے آراستہ ہیں، اچھے تعلیمی اداروں کے نکلے ہوئے ہیں۔ سوال کرنے والے نے خیال میں سوچا ہوگا 'تھے تو آباء وہ تمھارے، تم کیا ہو'۔ اس موقع پر مینار گویا ہوا، جانتے ہو اتنے سے عرصے میں کیا ہوا اور کیا ہونے جا رہا ہے؟

یہاں ایک خطاب ہوا تھا جس میں ذکر کیا گیا کہ مغرب میں لوگ بڑی تعداد میں مسلمان ہورہے ہیں اور دیگر مذاہب کی عبادت گاہیں خرید کر ان میں مساجد تعمیر ہو رہی ہیں، لیکن یہ بتانا بھول گئے کہ کیوں 'فروخت ہوتی ہیں؟' کچھ عرصے پہلے پتا چلا کے مادیت کا شکار لوگ جب معیار زندگی بلند کرنے کی تمنا میں اتنے آگے نکل جاتے ہیں تو جہاں ایک طرف وہ مذہب سے بے گانے ہوجاتے ہیں اور دوسری طرف وہ چاہتے ہوئے بھی اس کے اخراجات پورے نہیں کرسکتے کیوں کہ اس کے لیے اپنی کسی خواہش نفسانی کو مارنا پڑتا ہے، عیاشیوں میں کمی لانی پڑتی ہے۔ یہ حوصلہ وہ اپنے اندر نہیں پاتے، کوئی ان کو مجبور نہیں کر تا، مذہب کی محبت ان کے دلوں میں جاگزیں ہوتی بھی ہے، مگرProgress کی آرزو تمام چیزوں پر غالب آتی ہے۔

یہ جو نسلیں آج اس مسجد میں موجود ہیں ان کے والدین کاروباری حضرات تھے، کسی کی کپڑے کی دکان تھی، کسی کی پرچون کی، کوئی موٹر ٹھیک کرتا تھا تو ایک بڑھئی تھا، ماربل والے تھے تو کچھ سرکار کے نوکر بھی تھے، لیکن سب کی ایک ہی خواہش تھی کہ بچوں کا بڑا آدمی بنادیں، ڈاکٹر، انجینئر اور منیجر بنادیں، یہ کسی اچھی سوسائٹی میں Move کرسکیں۔ ہمارے ماں باپ نہ پڑھا سکے لیکن ہم یہ 'کارخیر' ضرور انجام دیں گے۔ بظاہر تو اس میں کچھ تم کو بھی غلط نہیں لگا نا؟ ہاں یہی ہوتا ہے، نعرے ہمیشہ بڑے دلفریب ہوتے ہیں، لیکن ان کی تہہ میں طوفان پوشیدہ ہوتے ہیں۔ ان کے دلوں میں جھانکو! سب کے دل میں مذہب کی محبت موجزن ہے، لیکن یہ اس بات کو سمجھنے سے قاصر ہوگئے ہیں کہ اپنے اخراجات میں سے کٹوتی کس طرح کریں۔

جتنے میں مسجد کا ہال تعمیر ہوتا ہے اتنی تو پورے Mba کی فیس ہے۔ تم لوگ مغرب کو یہ کہہ کر بیٹھ جاتے ہو کہ وہاں مذہب نہیں ہے اس لیے اپنی عبادت گاہیں نیلام کرتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے ان کا تصور دنیا و آخرت بدل گیا ہے، جس کو دو سو سال سے زیادہ کا عرصہ لگا ہے، تم نے ساٹھ سال میں مذہب کی بولی لگانی شروع کردی ہے، تمھاری انویسٹمنٹ تو 'کہیں اور' ہوتی تھی، اب بچے کی دنیا حسین بنانے کے لیے کر رہے ہو۔ دیکھ لو اس کا انجام، آج ان سب کے سر شرمندگی سے نہیں اٹھ رہے۔ تمھارے ہی ایک نجی تعلیمی ادارے نے تحقیق شایع کی ہے گزشتہ آٹھ سال میں مڈل کلاس کے طبقات کی جانب سے مسجد اور مدرسہ کو دی جانے والی رقوم میں 30% کمی واقع ہوئی ہے، جب کے کھانے اور کپڑوں کی دکانوں کے کھولنے اور ان سے خریداری کرنے والوں میں 67% اضافہ ہوا ہے۔

مغرب نے کسی کو نہیں کہا تھا عبادت گاہ میں نہ جائو، انھوں نے کامیابی کا تصور تبدیل کردیا۔ آج تمھاری فکروں میں اس کا آغاز ہو چکا ہے، تم ترقی کے لیے پوری قوم کو جھونک دو اور اس کو مذہب کی 'خدمت' بتائو تو یہ یاد رکھنا کہ اس کے لیے میناروں کا خون ہوگا۔ مدرسے تو کراچی میں انتہائی 'اہتمام' کے ساتھ ویران کیے ہی جارہے ہیں، تم دوچار جدید یونیورسٹیاں کھول کر مسجدوں کو بھی صدیوں میں گم کردو گے۔ کسی کو غم ہے کہ اسلام آباد میں ایک جامعہ میں تیسری مسجد کی گرانٹ جاری کی گئی ہے، اور ایک حضرت آنے والی نسلوں کے دماغوں میں یہ بات پیدا کررہے ہیں، نماز تو 'کہیں بھی' ہو جاتی ہے مسجد کی کیا ضرورت؟ چلو اٹھو نماز کا وقت ہو گیا، اور ہاں نماز کے بعد حیدرآباد کی جامعہ کے خلاف بیان دینے پر مظاہرہ ہے، شرکت ضرور کرنا 'ایمان' کا مسئلہ ہے۔
Load Next Story