جمہوریت کی ناکامی نہیں
یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ پیپلز پارٹی نے جن عناصر کے ساتھ مل کر حکومت بنائی ہے وہ اس کے فطری اور نظریاتی اتحادی نہیں ہیں۔
2008 کے عام انتخابات کے بعد قومی سطح پرجو سیاسی منظرنامہ سامنے آیا وہ زیادہ عرصہ تک برقرار نہ رہ سکا اور چند ماہ بعد ہی اس میں تبدیلی رونماہونا شروع ہوگئی۔ اس کی بنیادی وجہ حکومت سازی کے موقعے پر پارلیمنٹ کی دونوں بڑی جماعتوں کے درمیان ججوں اور اعلیٰ عدلیہ کی بحالی کے ضمن میں ہونے والے'' معاہدہ بھوربن '' پر مقررہ وقت پرعملدرآمد نہ ہونا تھا۔اس صورتحال کے پیش نظر پاکستان مسلم لیگ (ن) کے وزراء نے بطور وفاقی وزیر استعفے دیے اور حکومت چھوڑ کر اپوزیشن میں آبیٹھے جس سے سارا سیاسی تناظر تبدیل ہوگیا۔صحیح یا غلط کے مباحثے میں پڑے بغیر دیکھا جائے تو اس حقیقت کو تسلیم کرنا ہوگا کہ فیصلہ بجائے خود ایک بڑا تاریخی اقدام تھا ۔ہماری سیاسی تاریخ میں یہ روایت قائم ہوئی کہ ایک درجن اہم وزراتوں کے با اختیار وزراء نے کسی اصول کی بنیاد پر حکومت سے مستعفی ہوکر اپوزیشن میں بیٹھنے کا فیصلہ کیا تھا۔
عام انتخابات کے نتیجے میں قائم ہونے والی جمہوری حکومت سے قوم کو یہ توقعات تھیں کہ ملک میں حقیقی جمہوریت کی بحالی اور عوام کی منتخب کردہ پارلیمنٹ کی تشکیل کے ساتھ ہی مشرف دور آمریت میں جنم لینے والے مسائل بتدریج حل ہونے لگیںگے اور ملک ترقی وخوشحالی کی جانب گامزن ہوجائے گا ۔امید نہیں بلکہ یقین کی فضاء قائم ہونے کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ ملک کی دونوں بڑی سیاسی قوتوں کے مابین جمہوریت کے قیام، استحکام اور فروغ کے لیے ''میثاق جمہوریت'' پر دستخط ہوچکے تھے جس میں طے شدہ اہداف کے حصول کے لیے حکمت عملی بھی ترتیب دی جاچکی تھی۔ ''میثاق جمہوریت ''پر دستخط کرنے والی دونوں بڑی پارٹیوں کے قائدین نے یہ تاریخی معاہدہ اس لیے کیا تھا کیونکہ وہ دونوں اس سے قبل دو دو مرتبہ حکومت میں رہ کر طاقتور غیر جمہوری عناصر کے کردار اور طرز عمل سے بخوبی واقف تھے۔
چنانچہ اس پس منظر میں انھوں نے پاکستان کے سیاسی ،سماجی ،معاشی ،دفاعی ،خارجی اور داخلی امور سے متعلق اصل مسائل اور ان کے مستقل حل کے لیے مشترکہ لائحہ عمل وضع کیا اور پوری قوم کو گواہ بنا کر 2006میںاس تاریخی دستاویز پر دستخط کیے۔ اسی تناظر میں 2008 کے عام انتخابات میں اگر چہ پاکستان پیپلز پارٹی کو سادہ اکثریت حاصل نہیں ہوسکی تھی لیکن وہ پارلیمنٹ میں سب سے بڑی جماعت کے طور پر ابھر کر سامنے آئی تو پارلیمنٹ کی دوسری بڑی جماعت مسلم لیگ (ن) نے میثاق جمہوریت کی روح پر عمل کرتے ہوئے پیپلز پارٹی کے عوامی مینڈیٹ کو تسلیم کرنے کا نہ صرف اعلان کیا بلکہ ان کی کامیابی کو تسلیم کرتے ہوئے اس کا خیر مقدم بھی کیا اور مرکز میں پیپلز پارٹی کی حکومت کے قیام کے لیے فضا سازگار کی جس کی وجہ سے پیپلزپارٹی کو حکومت سازی میں کسی دشواری کا سامنا نہیں کرنا پڑا ۔ان ہی اقدامات کی بدولت پوری قوم کو اطمینان ہوا کہ اب ہمارے سیاسی قائدین نے ماضی کی غلطیوں سے کافی کچھ سیکھ لیا ہے۔
یہ افسوسناک امر ہے کہ قوم میں پیدا ہونے والی خوش گمانیاں بہت زیادہ عرصہ تک قائم نہ رہ سکیں۔ ''قومی مفاہمت'' کے نتیجے میں بننے والی اتحادی حکومت کا تشخص وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ تبدیل ہوتا گیا یہاں تک کہ جس جماعت کو ''قاتل لیگ''کا طعنہ دیا گیا تھا اُسے کچھ عرصے بعد، حکومتی اتحاد میں خاص اہمیت حاصل ہوگئی اور دیکھتے ہی دیکھتے اس جماعت کے رہنما کو ''ڈپٹی پرائم منسٹر'' جیسا پرکشش اور باعزت منصب عطا کردیا گیا۔
یہ تصور کرنا بہ ظاہر مشکل تھا کہ فوجی آمریتوں کے خلاف جمہوری تحریکوں میں ہراول دستہ کا کردار ادا کرنے والی حکمران جماعت کیونکر کسی آمر کو دس بار فوجی وردی میں صدر منتخب کروانے کا برملا اعلان کرنے والی جماعت کو دل سے اپنا اتحادی تسلیم کرکے اسے اس قدر احترام اور اہمیت دے دینے کا خیال بھی دل میں لائے گی؟ تاہم ''میثاق جمہوریت'' کو نظر انداز کرنے کے بعد ایسا ہونا ناممکن بھی نہیں تھا۔ اب ان دونوں حکومتی اتحادیوں میں مستقبل کے انتخابی اتحاد کے لیے حوصلہ افزاء مذاکرات جاری ہیں۔ تاہم یہ سوال اپنی جگہ ضرور موجود ہے کہ آخر آمریتوں کے خلاف جدوجہد کرنے اور کوڑے کھانے والے کارکن کس طرح انتخابات میں اپنا ووٹ فوجی آمریتوں کی کھلی حمایت کرنے والی جماعت کے حق میں استعمال کرنے پر تیار ہوسکیں گے۔ اسی طرح یہ بھی سوال پیدا ہوتا ہے کہ فوجی آمریتوں کی حمایت کرنے والی اتحادی جماعت مسلم لیگ (ق) کے کارکن جن کی زندگی کا بڑا عرصہ بھٹو دشمنی میں گزرا ہے وہ کس طرح جئے بھٹو کا نعرہ لگانے اورجمہوریت کا دم بھرنے والی پیپلز پارٹی کے امیدوار کو کامیاب کروانے پر آمادہ ہوں گے ۔
یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ پیپلز پارٹی نے جن عناصر کے ساتھ مل کر حکومت بنائی ہے وہ اس کے فطری اور نظریاتی اتحادی نہیں ہیں۔ جس سے حکومت کی بدترین کارکردگی سامنے آئی، ملک میں معاشی و سیاسی مسائل میں اضافہ ہوا اور امن و امان کی صورتحال انتہائی مخدوش ہوگئی۔جمہوریت کے ناقدین کے لیے یہ ایک بہترین موقع ہے جس کا انھوں نے بھرپور فائدہ اٹھایا اور وہ اب موجودہ دور حکومت میں بڑھتی ہوئی غربت،مہنگائی،بیروزگاری اور توانائی کے شدید بحران کے علاوہ ملک میں رائج بد تر طرز حکمرانی ،نا اہلی اور بد انتظامی کو ہدف تنقید بناتے ہوئے اسے جمہوریت کی ناکامی قرار دے رہے ہیں۔ اس میں بھی کوئی شک و شبہ نہیں کہ موجودہ جمہوری حکومت نے کسی بھی شعبے میں بہتر کارکردگی کا مظاہرہ نہیں کیا لیکن اس کا ہرگز مطلب جمہوری نظام کی نا کامی بھی نہیں ہے۔
جمہوریت ایک نظام حکومت کا نام ہے۔ جس میں عوام کی رائے سے ان کے نمایندگان کا چنائو کیا جاتا ہے اور منتخب نمایندے ریاست کے تمام وسائل کو ایک طے شدہ آئینی طریقہ کار کے مطابق استعمال کرتے ہوئے عوام کی خدمت کا فریضہ سرانجام دیتے ہیں۔ ناقدین جمہوریت کے اعتراضات اپنی جگہ لیکن جمہوریت پسندوں کے لیے اس امر کا جائزہ لینا بھی ازحد ضروری ہے کہ آخر جمہوری حکومت عوام کے مسائل کو حل کرنے میں کیوں نا کام ہوئی جس کی وجہ سے آج پورے جمہوری نظام پر ہی اعتراضات اٹھائے جارہے ہیں ۔اس مرحلے پر جمہوریت پسندوں کو اس حقیقت کا بھی اعتراف کرلینا چاہیے کہ موجودہ جمہوری حکومت نے اپنے قیام کے بعد مشرف حکومت کی پالیسیوں میں کوئی تبدیلی نہیں کی ۔بلکہ سابقہ پالیسیوں کے تسلسل کو جاری رکھا۔ عدلیہ کو فوری بحال کرنے سے گریز کیا گیا۔ پرویز مشرف حکومت کے وزراء کو اہم وزارتیں دی گئیں اور جنرل مشرف کے حامیوں کومفاہمت کے نام پر اقتدار میںشریک کیا گیا۔ ان تمام عوامل کے بعد ملک میں مختلف النوع بحرانوں کا پیدا ہونا ناگزیر عمل تھا۔
یہ درست ہے کہ چند بنیادی نوعیت کی بہت اہم آئینی ترامیم بھی کی گئیں جس سے جمہوریت کو استحکام حاصل ہوا اور صوبوں کو زیادہ خود مختاری اور وسائل حاصل ہوئے۔ ان آئینی ترامیم کے لیے حکومت کو حزب اختلاف کا بھرپور تعاون حاصل رہا۔ لہٰذا یہ کہنا درست ہوگا کہ حکومت اگر درست معاشی، سیاسی اور خارجی پالیسیاں اختیار کرتی اور اسے حزب اختلاف کی بھرپور حمایت بھی حاصل رہتی تو آج جمہوری نظام پر اعتراضات نہ کیے جارہے ہوتے لہٰذا ان تمام عوامل سے یہ نتیجہ اخذ کیا جاسکتا ہے کہ موجودہ منتخب حکومت اپنی غلط پالیسیوں کی وجہ سے ناکام ہوئی ہے اسے جمہوریت کی ناکامی قرار دینا غلط ہوگا۔