عدم برداشت کا سدباب

صرف عدم برداشت اور رواداری کے نہ ہونے کی وجہ سے ان گِنت مسائل پیدا ہوچکے ہیں۔


حافظ آفتاب احمد February 28, 2013
صرف عدم برداشت اور رواداری کے نہ ہونے کی وجہ سے ان گِنت مسائل پیدا ہوچکے ہیں۔ فوٹو فائل

برداشت و رواداری کا معاملہ بھی انہی چند مسائل میں سے ایک ہے جن کا آج قومی اور بین الاقوامی سطح پر پوری دنیا کو سامنا ہے۔

صرف عدم برداشت اور رواداری کے نہ ہونے کی وجہ سے ان گِنت مسائل پیدا ہوچکے ہیں۔ یقیناً یہ آسمانی تعلیمات اور نبوی طریقہ زندگی سے روگردانی کا نتیجہ ہے۔ اس کا حل یہی ہے کہ اپنی غلطیوں کا اعتراف کرتے ہوئے قرآن و سنت کی طرف رجوع کیا جائے تاکہ اپنے ہی پیدا کردہ مصائب و آلام سے ہمیں نجات مل سکے۔

عدم برداشت تاریخ کے آئینے میں
عدم برداشت کی کہانی تخلیق آدم ؑ سے ہی شروع ہو جاتی ہے۔ انسان کا شرف ابلیس کے لیے برداشت کرنا بہت مشکل تھا۔ جب اللہ تعالیٰ نے اس کو حضرت آدم ؑ کے سامنے سجدہ کرنے کا حکم دیا تو اس نے انکار کر دیا اور کہا کہ میں اس سے بہتر ہوں۔ ابلیس نے آدم ؑ و نسل آدم کے وجود اور اس کے مقام کو اپنے لیے ایک چیلنج سمجھا اور عدم برداشت کا اظہار کر تے ہوئے کہا کہ میں اسے بھٹکانے کی ہر ممکن کوشش کروں گا۔ پس ابلیس کی عدم برداشت کے مظاہرآج تک جاری ہیں۔

٭ عالم انسانیت میں عدم برداشت کی مثال اول ہابیل اور قابیل کا اختلاف ہے۔ ایک بھائی کے حق میں خدائی فیصلہ دوسرے بھائی کے لیے ناقابل برداشت تھا، چناں چہ اسے موت کے گھاٹ اتار دیا۔ عدم برداشت کے نتیجے میں قتل کی یہ ریت اس قدر چلی کے آج تک اس کا سلسلہ رُکنے کا نام نہیں لیتا۔ لڑائی جھگڑا، فساد، بغاوت اور جنگ دراصل قتل سے ہی مستعار لیے ہوئے عدم برداشت کے نام ہیں، جو انسانی فطرت میں اپنی متواتر تاریخ رکھتے ہیں۔ زمین کے سینے پر انبیاء علیہم السلام سے زیادہ برگزیدہ ہستیاں اور بہتر گروہ نہیں گذرے لیکن یہ کتنی الم ناک حقیقت ہے کہ انسانوں نے عدم برداشت کا سب سے زیادہ مظاہرہ انہی پارسا لوگوں کے ساتھ ہی کیا۔ ان پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑے گئے۔ کتنے ہی نبی گزرے، جن میں سے بعض نے سینکڑوں سال تبلیغ کی۔ کتنوں نے کیسی کیسی واضح نشانیاں اپنی قوم کے سامنے پیش کیں، لیکن یہ اُن اقوام کا عدم برداشت تھا کہ کسی نبی کو جھٹلایا گیا تو کسی کو لالچ سے ورغلانے کی کوشش کی، کسی کو بستی سے نکال دیا گیا تو کسی کو قتل کر دیا گیا۔ بالاخر جب قوموں کا عدم برداشت حد سے بڑھ گیا تو عذاب الٰہی ان پر قہر بن کر اس طرح ٹوٹا کہ آج ان کا نام بھی عبرت کا نشان بن چکا ہے۔ جنگ کی آگ اس وقت بھڑکتی ہے جب ایک حکمران دوسرے حکمران کا وجود برداشت کرنے کو تیار نہ ہو یا دو قوموں کے درمیان عدم برداشت پروان چڑھنے لگے۔ عدم برداشت کی اس آگ کی روشنی میں ہی انسانوں کی تاریخ لکھی گئی ہے۔

٭ سکندر اعظم یونان سے اُٹھا اور اس نے راستے میں آنے والے کسی حکمران کا وجود برداشت نہ کیا، پورس کے ساتھ اس کی ایک دن کی جنگ میں اکیس ہزار افراد قتل ہوئے۔
٭ بخت نصر نے ہزاروں انسانوں کا بے دریغ قتل عام کیا اور لاکھوں کو غلام بنا کر لے گیا۔
٭ روم و ایران کی سالہا سال کی تلوار زنی کتنے ہی انسان نگل گئی۔
٭ چنگیز خان اور ہلاکو خان روشن و درخشاں دنیا پر کس طرح ظلم بن کر ٹوٹے ۔ ان کے ادوار میں انسان کے سروں کے مینار تعمیر کیے گئے۔ دشمن کی کھوپڑیوں میں شراب نوشی کی گئی اور وقت کی عظیم ترین تہذیب کا چراغ گل کر دیا گیا، لیکن انسان کی عدم برداشت کا پیمانہ ہنوز تشنہ کام رہا۔



عدم برداشت کی وجوہات
ہمیں یہ کہنے میں کوئی باک نہیں کہ آج عدم برداشت کے جو رجحانات قومی یا بین الاقوامی سطح پر فروغ پارہے ہیں اس کی واحد وجہ قرآنی تعلیمات سے انحراف اور تعلیمات نبوی ؐ سے روگردانی ہے۔ ان تعلیمات پر عمل کرنا ضروری ہے، جو سرور عالم ؐ نے بنی نوع انسان کے لیے ورثے کے طور پر امت مسلمہ کو عطا فرمائی تھیں۔ نبی اکرم ؐ کے یہ الفاظ کہ ''میں تم میں دو چیزیں چھوڑے جارہا ہوں، کتاب اللہ اور میری سنت'' اگر آج بھی ہم گناہوں اور اپنی کوتاہیوں سے تائب ہو کر قرآن حکیم اور اسوء رسولؐ کی طرف رجوع کر لیں تو نہ صرف ان تمام فتنوں، مصائب و آلام اور مشکلات و فسادات سے امان پاسکتے ہیں بلکہ پوری دنیا کی امامت کا تاج بھی پھر سے مسلمانوں کے سر پر سج سکتا ہے۔ اس لیے آج امت مسلمہ کو اپنی صفوں میں اتحاد و اتفاق پیدا کر کے اپنے فرائض منصبی کو پورا کرتے ہوئے دلائل و براہین سے تمام دنیا کو اسلام کی حقیقی تعلیمات سے آگاہ کرنا ہے۔ اسلام کے حوالے سے مغرب کے پھیلائے ہوئے شکوک و شبہات کے رد کی ضرورت ہے۔ مواصلاتی انقلاب اور دیگر جدید سہولتوں نے تمام دنیا کو ایک بستی ( گلوبل ولیج) کی شکل دے کر دعوت کے اس کام کو مزید آسان بنا دیا ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ مسلمان ایمان و تقویٰ اور صبر و برداشت کی صفات سے آراستہ ہو کر تمام دنیا کے سامنے عملی طور پر اسلام کو پیش کریں۔

عدم برداشت کا حل
قرآن حکیم ہر معاملے میں انصاف سے کام لینے، عفو درگزر، برداشت اور تحمل کا درس دیتا ہے۔ وہ اپنا یہ پیغام مختلف انداز سے دہراتا ہے۔ اس طرح وہ ایک ایسی شخصیت کی تعمیر کرتا ہے جو اسلام کی پہچان ہو اور عملی طور پر ہر اعتبار سے پوری انسانیت کے لیے پیغام سلامتی ہو، چند ایسی آیات ربانی کا مطالعہ کرتے ہیں جو ہمیں تحمل و برداشت کا درس دیتی ہیں۔

صبر و معافی کی تعلیمات
لوگوں کے ساتھ تحمل و برداشت کی یہ کتنی اہم تعلیم ہے کہ پیغمبر اسلامؐؐ کو خطاب ہوا کہ کفار و مشرکین کے ظلم و ستم اور گالی گلوچ پر صبر کرو اور ان کو معاف کرو، اور اِسی کی پیروی کا حکم عام مسلمانوں کو بھی ہورہا ہے۔
ترجمہ: '' (اے حبیب مکرم!) آپ درگزر فرمانا اختیار کریں، اور بھلائی کا حکم دیتے رہیں اور جاہلوں سے کنارہ کشی اختیار کرلیں اور ( اے انسان!) اگر شیطان کی طرف سے کوئی وسوسہ ( ان امور کے خلاف) تجھے ابھارے تو اللہ سے پناہ طلب کیا کر، بے شک وہ سننے والا، جاننے والا ہے۔'' ( الاعراف:199,200)

یہ آیت کریمہ جب نازل ہوئی تو نبی اکرمؐ نے حضرت جبریل امین سے اس کی تاویل ( تفسیر) پوچھی تو انہوں نے عرض کیا، اللہ کریم کے پاس جا کر پوچھتا ہوں۔ چناں چہ واپس آکر حضرت جبرائیلؑ نے بتایا کہ اس آیت کریمہ میں اللہ تعالیٰ حکم فرماتے ہیں کہ آپ اس کے ساتھ بھی صلہ رحمی کرتے رہیں یا تعلقات کو جوڑتے رہیں جو توڑنے کی کوشش کرے اور اس کو بھی عطا کریں جو آپؐ کو محروم کرے اور جو آپؐ سے زیادتی کرے اس سے بھی درگزر فرماتے رہیں۔

غصہ پی جانے کے احکامات
اللہ تعالیٰ نے اہل جنت متقی لوگوں کے اوصاف حسنہ بتاتے ہوئے ایک باکمال وصف اور اخلاقی خوبی یہ بیان کی: '' اور غصہ ضبط کرنے والے ہیں اور لوگوں سے (ان کی غلطیوں پر) درگزر کرنے والے ہیں۔'' (آل عمران: 134)

بعض اہل تحقیق نے لکھا ہے کہ یہاں '' فاقدین الغیظ'' ارشاد نہیں ہوا، یعنی مدح اس چیز کی نہیں آئی ہے کہ غصہ سرے سے آتا ہی نہ ہو بلکہ اس کی ( مدح) آئی ہے کہ اس پر قابو رکھا جائے اور عقل، جذبات کے اوپر حاکم رہے۔ غصہ حرارت طبعی یا حمیت سے پیدا ہوتا ہے، اسے سرے سے فنا کر دینا ہرگز اسلام کا مقصود نہیں بلکہ مقصود صرف حدود کے اندر رکھنا ہے۔ غصہ مطلق صورت میں ہر گز ممنوع نہیں۔ نہ شرعاً معصیت ہے اور نہ عقلاً مضر، بلکہ اگر حدود کے اندر رہے تو عیب نہیں بلکہ ہنر ہے۔ مزید فرمایا کہ وہ لوگوں کے قصوروں اور خطائوں کو بھی معاف کر دیتے ہیں۔ یہ ہی نہیں کہ باوجود قدرت و استطاعت کے خطا کار سے انتقام نہیں لیتے بلکہ معاف بھی کر دیتے ہیں، یہ درجہ ''کاظمین الغیظ'' سے بلند تر ہے۔نفس امارا سے پناہ مانگنا

انسان کا نفس اسے ہر جائز و ناجائز لذت کی طرف دوڑاتا ہے ۔ ناجائز نفسانی خواہش کا مقابلہ نہ کرنا ایک بڑی برائی ہے۔ چناں چہ یوسف علیہ السلام اپنے بارے میں فرماتے ہیں کہ '' اور میں اپنے نفس کی برات ( کا دعویٰ) نہیں کرتا، بے شک نفس تو برائی کا بہت ہی حکم دینے والا ہے، سوائے اس کے جس پر میرا رب رحم فرمادے۔'' ( یوسف:153)

اس آیت کریمہ میں برائی کا مطلب بہت واضح ہے۔ یعنی دنیا وی لذات اور نفسانی خواہشات میں بے قابو ہو جانا اور برداشت نہ کرنا۔ دنیا میں بسنے والے اربوں انسان اگر اپنی زندگی میں مختلف خواہشات کو پورا کرنے کے درپے ہو جائیں تو پھر دنیا میں امن و امان کا تصور بھی ناممکن اور یہاں زندگی بسر کرنا ہی محال ہو جائے۔ قرآن کریم میں محض اپنی خواہشات پر زندگی بسر کرنے والے اور ضابطہ الٰہی کی پیروی نہ کرنے والوں کو جانوروں سے بھی بدتر کہا گیا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ '' کیا آپ نے اس شخص کو دیکھا ہے جس نے اپنی خواہش نفس کو اپنا معبود بنا لیا ہے تو کیا آپ اس پر نگہبان بنیں گے؟ کیا آپ یہ خیال کرتے ہیں کہ ان میں سے اکثر لوگ سنتے یا سمجھتے ہیں، (نہیں) وہ تو چوپایوں کی مانند ( ہوچکے) ہیں بلکہ ان سے بھی بدتر گم راہ ہیں۔'' ( الفرقان: 44,43)

اسلامی تعلیمات، مذہب کے اس تصور سے یکسر مختلف ہیں جو لوگوں کے ذہنوں میں پختہ ہو چکا ہے۔ اسلام ایک عالم گیر برادری کے تصور کی بنیاد فراہم کرتا ہے جس سے دوسروں کو برداشت کرنا ممکن اور سہل ہو جاتا ہے۔ چناں چہ ارشاد باری تعالیٰ ہے: '' دین میں کوئی زبردستی نہیں۔'' (البقرہ:256)

اسی تصور کو مزید واضح کرتے ہوئے دوسری جگہ فرمایا: '' تو کیا آپ لوگوں پر جبر کریں گے یہاں تک کہ وہ مومن ہو جائیں؟'' ( یونس: 99)

نیک کاموں میں تعاون
اسلام نے مذہبی اختلافات میں تعاون کا اور عدم تعاون کا وہ اصول فراہم کیا ہے جو دنیا سے فساد و فتنے کا سدباب کر سکتاہے۔اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
'' نیکی اور پرہیز گاری ( کے کاموں) پر ایک دوسرے کی مدد کیا کرو اور گناہ اور ظلم ( کے کاموں) پر ایک دوسرے کی مدد نہ کرو۔'' ( المائدہ:2)

غیر مسلموں سے تعلقات کی نوعیت
اسلام غیر مسلموں کی مقدس اشیاء کی توہین کرنے سے منع کرتا ہے۔ چناں چہ اسلامی قانون میں غیر مسلموں کو دو حصوں میں رکھا گیا ہے۔ غیر مسلم غیر مخالفین ۲۔ غیر مسلم مخالفین یا دشمن
غیر مسلم مخالفین اگر مسلمانوں کے خلاف جنگ مسلط کریں، فتنہ و فساد پھیلائیں، ان کے دین، جان، مال اور عزت کو نقصان پہنچائیں تو ایسے دشمنوں کو '' برداشت'' کرنے کا مطلب فتنہ و فساد کی راہ ہم وار کرنا ہے۔ چناں چہ ارشاد باری تعالیٰ ہے: '' اور ان سے جنگ کر تے رہو حتیٰ کہ کوئی فتنہ باقی نہ رہے۔'' (البقرہ: 193)
جہاں تک ان غیر مسلموں کا تعلق ہے جن کا شمار مخالفین میں نہیں ہوتا اور انہوں نے فتنہ و فساد برپا ہی نہیں کیا، مسلمانوں کے مذہب، جان و مال اور عزت کو نقصان نہیں پہنچایا تو ایسے لوگوں کو نہ صرف ''برداشت'' کرنے بلکہ ان کے ساتھ اچھے تعلقات قائم کرنے اور ان کی مصیبت میں کام آنے کا حکم ہے، حتیٰ کہ ان کو امان دینے کی بھی اجازت ہے۔ ارشاد فرمایا: '' اور اگر مشرکوں میں سے کوئی بھی آپ سے پناہ کا خواست گار ہو تو اسے پناہ دے دیں تاآںکہ وہ اللہ کا کلام سنے پھر آپ اسے اس کی جائے امن تک پہنچا دیں، یہ اس لیے کہ وہ لوگ ( حق کا) علم نہیں رکھتے۔'' (التوبہ:6)
دوسری جگہ ارشاد فرمایا:
'' اور اگر وہ (کفار) صلح کے لیے جھکیں تو آپ بھی اس کی طرف مائل ہو جائیں اور اللہ پر بھروسہ رکھیں۔ بے شک وہی خوب سننے والا جاننے والا ہے۔''

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں