شب بیداری کی برکتیں

رات کا آخری پہر مسلمانوں کے لیے انتہائی اہم ہوتا ہے لیکن آج کا مسلمان خواب غفلت میں گم ہے۔


رات کا آخری پہر مسلمانوں کے لیے انتہائی اہم ہوتا ہے لیکن آج کا مسلمان خواب غفلت میں گم ہے۔ فوٹو: رائٹرز

جب رات اپنے آخری پہر میں داخل ہو جائے، خلق خدا نیند کے مزے لے رہی ہو، ایسے میں رب کی رضا کے لیے اپنی نیند کو قربان کرنا، اُس کے حضور گڑگڑانا، آنسو بہانا اور اُس سے معافی مانگنا، ایک ایسا عمل ہے جو اللہ تعالیٰ کے مقرب بندوں کا ہمیشہ شعار رہا ہے۔

اللہ تبارک وتعالیٰ نے اپنے ان محبوب بندوں کا ذکر قرآن مجید میں کچھ اس طرح کیا ہے کہ : ''ان کے پہلو اُن کی خواب گاہوں سے جدا رہتے ہیں اور اپنے رب کو خوف اور امید (کی مِلی جُلی کیفیت) سے پکارتے ہیں اور ہمارے عطا کردہ رزق میں سے (ہماری راہ میں) خرچ کرتے ہیں۔ سو کسی کو معلوم نہیں جو آنکھوں کی ٹھنڈک ان کے لیے پوشیدہ رکھی گئی ہے، یہ اُن ( اَعمالِ صالحہ) کا بدلہ ہوگا جو وہ کرتے رہے تھے۔'' ( السجدہ:16,17)

اپنے پہلو کو خواب گاہوں سے جدا رکھنے کے بارے میں مفسرین کرام کے مختلف اقوال ہیں لیکن علامہ آلوسی ؒ نے روح المعانی میں لکھا ہے: '' مشہور قول یہی ہے کہ یہاں 'نماز تہجد' کے لیے پہلو کو خواب گاہ سے علیحدہ کرنا مراد ہے۔ اسی طرح حضور نبی اکرمؐ کے ایک فرمان سے بھی یہی معلوم ہوتا ہے۔ حضرت معاذؓ کی روایت ہے کہ حضور اقدسؐ نے ارشاد فرمایا: '' کیا میں تم کو ابوابِ خیر نہ بتائوں؟ پھر آپؐ نے ابوابِ خیر کو شمار فرمایا: ۱۔ روزہ ۲۔ صدقہ ۳۔ درمیان شب میں نماز پڑھنا۔مذکورہ بالا آیت کریمہ اور حدیث مبارکہ کا مطلب یہی ہے کہ جو لوگ رات کی تاریکی میں اپنا آرام و سکون چھوڑ کر حق تعالیٰ کی عبادت کرتے ہیں، اللہ کی دی ہوئی چیزوں کو اس کی راہ میں خرچ کرتے ہیں، اور ان سب عبادتوں کو انجام دیتے وقت اللہ کی رحمت سے مایوس بھی نہیں ہوتے، تو درحقیقت وہی سچے مسلمان ہیں۔ ان کے لیے اللہ پاک نے ایسے انعامات تیار فرمائے ہیں جن کا آج تک کسی شخص کو بھی علم نہیں۔ اللہ پاک نے ان انعامات کے متعلق حدیث قُدسی میں ارشاد فرمایا کہ ''میں نے اپنے نیک بندوں کے لیے وہ چیزیں تیار کی ہیں جن کو نہ کسی آنکھ نے دیکھا ہے نہ کسی کان نے سنا اور نہ ہی کسی کے دل میں ان کا خیال گُزرا۔'' حق تعالیٰ کی ان لوگوں پر خاص کرم نوازی ہوتی ہے جو تہجد گُزار اور شب بیدار ہوتے ہیں۔

رات کا قیام اور جنت کا مکان

حضرت عبداللہ بن سلامؓ فرماتے ہیں کہ جب نبی اکرمؐ مدینہ منورہ تشریف لائے تو لوگ آپؐ کی طرف دوڑنے لگے اور کہنے لگے کہ حضوراکرمؐ تشریف لائے ہیں۔ میں بھی لوگوں کے ساتھ وہاں پہنچا، تو پہلا ارشاد حضور اکرمؐؐ کی زبان سے سنا وہ یہ تھا کہ ''لوگو! آپس میں سلام کا رواج ڈالو اور (غرباء کو) کھانا کھلائو، صلہ رحمی کرو اور رات کے وقت جب سب لوگ سوتے ہوں نماز پڑھا کرو، سلامتی کے ساتھ جنت میں داخل ہو جائو گے۔''

اس حدیث پاک میں آپ ؐ نے چار باتیں بیان فرمائی ہیں پہلی بات یعنی سلام کو آپس میں خوب پھیلانا، کیوں کہ اس سے آپس میں اُلفت و محبت پیدا ہوتی ہے اور تعلقات بھی مستحکم و مضبوط ہوتے ہیں ۔ دوسری بات ''صلہ رحمی'' ہے۔ ہر انسان کا فرض ہے کہ اپنے والدین اور رشتے داروں اور پڑوسیوں کے ساتھ حُسن سلوک اور اچھا معاملہ کرنے کی کوشش کرے۔ تیسری بات غرباء فقراء کو کھانا کھلانا اور چوتھی بات ایسے وقت نماز پڑھنا کہ سب لوگ آرام و سکون کے مزے لے رہے ہوں یعنی نیند کر رہے ہوں۔

رات کے وقت نماز پڑھنے کی فضیلت کے حوالے سے حضرت ابوہریرہ ؓ سے منقول ہے کہ میں نے حضور نبی اکرم ؐ سے دریافت کیا ۔۔۔ مجھے ایسی چیز بتا دیجیے کہ جس پر میں عمل کر کے جنت میں داخل ہوجائوں؟ آپ ؐ نے تین باتیں ارشاد فرمائیں۔ اول سلام کا خوب پھیلانا، دوم غرباء و مساکین کو کھانا کھلانا، سوم رات کے وقت نماز پڑھنا

حضرت بلال ؓ فرماتے ہیں کہ حضور اقدسؐ نے ارشاد فرمایا: '' تم رات کے جاگنے کو لازم پکڑلو، کیوںکہ یہ تم سے پہلے صالحین اور نیک لوگوں کا طریقہ ہے اور رات کا قیام اللہ تعالیٰ کی طرف تقرب کا ذریعہ ہے اور گناہوں کے لیے کفارہ ہے۔ (رات کی نماز) گناہوں سے روکنے والی اور حسد کو دور کرنے والی ہے۔''

اس حدیث پاک میں رات کے قیام یعنی نماز تہجد کے چار اہم فائدے ذکر کیے گئے ہیں اور یہ بھی بتایا کہ یہ صالحین کا طریقہ ہے۔ رات کا آخری پہر مسلمانوں کے لیے انتہائی اہم ہوتا ہے لیکن آج کا مسلمان خواب غفلت میں گم ہے۔ پورا دن انسان رب کو یاد نہیں کرتا، بس کمانے کے چکر میں لگا رہتا ہے۔ رات آتی ہے تو اگلے دن کے بارے میں سوچتا ہے اور سوچتے سوچتے نیند کی وادی میں گم ہو جاتا ہے۔ یاد رہے کہ رب کو بھول کر سونا ہی حقیقی غفلت کی نشانی ہے۔

حضرت ابوہریرہؓ فرماتے ہیں کہ حضور نبی اکرمؐ نے ارشاد فرمایا: ''حق تبارک وتعالیٰ ہر رات جب پچھلی تہائی باقی رِہ جاتی ہے، آسمان دنیا پر نزول فرماتے ہیں، اور فرماتے ہیں کون ہے جو مجھ سے دعا کرے، میں اس کی دعا قبول کروں۔ کون ہے جو مجھ سے بخشش طلب کرے میں اس کے گناہ معاف کردوں۔'' حدیث مبارکہ میں آتا ہے کہ: '' پھر حق تعالیٰ اپنے دونوں ہاتھ کھولتے ہیں (یعنی لطف و رحمت ظاہر فرماتے ہیں) اور فرماتے ہیں کہ کون ہے جو ایسے ضرورت مند کو قرض دے جو نہ فقیر ہے نہ ظلم کرنے والا ہے۔ صبح تک اللہ پاک کی طرف سے یہی ندا ہوتی رہتی ہے۔''

حضرت اسماء بنت یزیدؓ حضور نبی اکرمؐ سے نقل فرماتی ہیں کہ'' تمام لوگوں کو قیامت کے روز ایک زمین پر جمع کیا جائے گا۔ پھر ایک پکارنے والا پکارے گا کہ وہ لوگ کہاں ہیں جو راتوں میں اپنے پہلوئوں کو اپنے بستروں سے علیٰحدہ رکھتے تھے (یعنی تہجد پڑھتے تھے) پس یہ لوگ اُٹھیں گے اور بلا حساب و کتاب جنت میں داخل ہوجائیں گے اور یہ لوگ تعداد میں تھوڑے ہوں گے (اس کے بعد) پھر تمام لوگوں کے حساب و کتاب کا حکم دیا جائے گا۔''

اللہ تعالیٰ نے اُن لوگوں کے لیے کتنے انعام و اکرام مہیا کر رکھے ہیں جو رب کی رضا کے لیے اپنی نیند قربان کرکے اُس کے حضور عبادت کر تے ہیں۔ اگر ہم دنیا و آخرت کی فلاح و کامرانی چاہتے ہیں توضروری ہے کہ ہم اپنے رب کو راضی کر لیں کیوں کہ جب رب راضی ہوتا ہے تو جَگ کو راضی کرنے کی ضرورت نہیں پڑتی۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں