جمہوری ثمرات سے محرومی اور پھر مہنگائی بم
ہرچیز پر ٹیکس عائد کردیا گیا ہے ماسوائے عوام کے سانس لینے کے
جمہوری حکومت نے ایک منی بجٹ کے تحت خشک ، دودھ، دہی، فون ، چاکلیٹ اور میک اپ کے سامان سمیت سات سو اکتیس درآمدی اشیاء پر 5 سے 80فیصد تک ریگولیٹری ڈیوٹی عائد کردی ہے ، جس کا اطلاق بھی فوری طور پرکردیا گیا ہے۔ایف بی آر نے مہنگائی کو آسمان تک پہنچانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی ہے، پچانوے فیصد آئٹمز جن پر ڈیوٹی عائد کی گئی ہے وہ عوام کے روزمرہ استعمال کی اشیاء ہیں، اس سے زیادہ حیرت زدہ بات یہ ہے کہ حکومت نے بھی اس کی منظوری راتوں رات دے ڈالی اور اسے فوری طور پر نافذ العمل بھی کردیا۔
وفاقی حکومت نے لمحے بھرکو نہیں سوچا کہ اس اقدام سے مہنگائی کا ایک ایسا طوفان آئے گا جو سب کچھ بہا لے جائے گا ۔ عوام کا جینا تو پہلے ہی دوبھر ہوچکا ہے اور ان ٹیکسز کے عائد ہونے کے بعد وہ دو وقت کی روٹی کو بھی محتاج ہوجائیں گے ۔ ذرا اندازہ کیجیے کہ اس منی بجٹ میں سبزیاں، پھل،گندم ، موبائل ،گاڑیاں ، ٹوتھ پیسٹ،کریم ، مکھن ، پنیر،کچن کا الیکٹرانک سامان، مختلف پنکھوں،گھڑیوں ، فرنیچر، الماریوں ، بیڈ ، فرنس آئل ، کیسٹ پلیئر ، سنگل بور پستول پر بیس فی صد ڈیوٹی لگا دی گئی ہے جب کہ دہی، ڈیری آئٹمز پر پندرہ فیصد، تازہ اور فریز مچھلی ، خشک دودھ پر پچیس فیصد ،خواتین کے میک اپ کے سامان صابن اور دیگر اشیاء پر پچاس فیصد ڈیوٹی عائد ،نئی اسپورٹس کاروں ، استعمال شدہ گاڑیوں ، پرانی کاروں اور جیپوں پر ساٹھ فیصد ڈیوٹی دینا ہوگی ۔ جمہوریت کا راگ الاپنے والوں نے تو ایف بی آر کے کہنے میں آکر ہر چیز پر ٹیکس لگا دیا، ذرا ملاحظہ فرمائیں ریگولیٹری ڈیوٹی کے نفاذ سے مجموعی طور پر پچیس ارب روپے کا ریونیو حاصل ہونے کی توقع ہے ۔ کیا یہ ٹیکسز تاجروں پر لگا ہے ہرگز نہیں ، یہ تو براہ راست عوام کی جیبوں سے نکالا جائے گا ، اس مرتبہ تو حد ہوگئی ہے ، ہرچیز پر ٹیکس عائد کردیا گیا ہے ماسوائے عوام کے سانس لینے کے ۔ لیکن غربت ، مہنگائی اور بے روزگاری کے عذاب جھیلتے جھیلتے عوام تو دم توڑ رہے ان کی سانس کہاں آرہی ہے ، بس نبض چل رہی ہے، عوام زندہ لاش بن چکے ہیں ۔
بجٹ کا خسارہ، تاجروں ، صنعتکاروں ، جاگیرداروں اور سرمایہ داروں کی وجہ سے ہوتا ہے ،کیوں کہ وہ ٹیکس نہیں دیتے۔ ہزاروں متمول افراد کو ٹیکس نیٹ میں لانے سے حکام قاصر اور بے بس کیوں ؟ یہ جمہوری حکومت کا آخری سال ہے ، چند ماہ باقی ہیں، گزشتہ برس الیکشن ہیں ۔ حکومتی پارٹی نے عوام کے پاس ووٹ مانگنے کے لیے جانا ہے اپنی حکومت کی پانچ سالہ کارکردگی بتانی ہے ۔ حقیقت میں تو ہونا یہ چاہیے تھا کہ عوام کو مسلم لیگ ن کی حکومت اپنے آخری سال میں بھرپور انداز میں ریلیف دیتی تاکہ وہ اپنے انتخابی جلسوں میں اس بات کا اظہار فخر سے کرتے کہ ہم نے عوام کو نہ صرف ریلیف دیا ہے بلکہ ان کے حالات کار اور فی کس آمدنی میں بہتری کے لیے اقدامات کیے ہیں ، لیکن ایسا کچھ نہیں ہورہا ۔ الیکشن یوم احتساب ہوتا ہے جس میں عوام اپنا فیصلہ سناتے ہیں کہ آیا حکومت کی کارکردگی اچھی تھی یا بری ۔ محسوس ایسا ہوتا ہے کہ حکومت کو الیکشن کا دن یاد نہیں ۔ لیکن مہنگائی اور ظلم کی چکی میں پستے ہوئے عوام دکھ تو جھیل رہے ہیں لیکن اب ان کا فیصلہ کرنے اور سنانے کے دن قریب آگئے ہیں ، سب سے بڑا فیصلہ عوامی عدالت کا ہوگا ۔ اب حکومت کو اپنی قسمت کا فیصلہ خود کرنا ہے کہ وہ عوامی عدالت میں سرخرو ہونا چاہتے ہیں یا پھر راندۂ درگاہ۔
وفاقی حکومت نے لمحے بھرکو نہیں سوچا کہ اس اقدام سے مہنگائی کا ایک ایسا طوفان آئے گا جو سب کچھ بہا لے جائے گا ۔ عوام کا جینا تو پہلے ہی دوبھر ہوچکا ہے اور ان ٹیکسز کے عائد ہونے کے بعد وہ دو وقت کی روٹی کو بھی محتاج ہوجائیں گے ۔ ذرا اندازہ کیجیے کہ اس منی بجٹ میں سبزیاں، پھل،گندم ، موبائل ،گاڑیاں ، ٹوتھ پیسٹ،کریم ، مکھن ، پنیر،کچن کا الیکٹرانک سامان، مختلف پنکھوں،گھڑیوں ، فرنیچر، الماریوں ، بیڈ ، فرنس آئل ، کیسٹ پلیئر ، سنگل بور پستول پر بیس فی صد ڈیوٹی لگا دی گئی ہے جب کہ دہی، ڈیری آئٹمز پر پندرہ فیصد، تازہ اور فریز مچھلی ، خشک دودھ پر پچیس فیصد ،خواتین کے میک اپ کے سامان صابن اور دیگر اشیاء پر پچاس فیصد ڈیوٹی عائد ،نئی اسپورٹس کاروں ، استعمال شدہ گاڑیوں ، پرانی کاروں اور جیپوں پر ساٹھ فیصد ڈیوٹی دینا ہوگی ۔ جمہوریت کا راگ الاپنے والوں نے تو ایف بی آر کے کہنے میں آکر ہر چیز پر ٹیکس لگا دیا، ذرا ملاحظہ فرمائیں ریگولیٹری ڈیوٹی کے نفاذ سے مجموعی طور پر پچیس ارب روپے کا ریونیو حاصل ہونے کی توقع ہے ۔ کیا یہ ٹیکسز تاجروں پر لگا ہے ہرگز نہیں ، یہ تو براہ راست عوام کی جیبوں سے نکالا جائے گا ، اس مرتبہ تو حد ہوگئی ہے ، ہرچیز پر ٹیکس عائد کردیا گیا ہے ماسوائے عوام کے سانس لینے کے ۔ لیکن غربت ، مہنگائی اور بے روزگاری کے عذاب جھیلتے جھیلتے عوام تو دم توڑ رہے ان کی سانس کہاں آرہی ہے ، بس نبض چل رہی ہے، عوام زندہ لاش بن چکے ہیں ۔
بجٹ کا خسارہ، تاجروں ، صنعتکاروں ، جاگیرداروں اور سرمایہ داروں کی وجہ سے ہوتا ہے ،کیوں کہ وہ ٹیکس نہیں دیتے۔ ہزاروں متمول افراد کو ٹیکس نیٹ میں لانے سے حکام قاصر اور بے بس کیوں ؟ یہ جمہوری حکومت کا آخری سال ہے ، چند ماہ باقی ہیں، گزشتہ برس الیکشن ہیں ۔ حکومتی پارٹی نے عوام کے پاس ووٹ مانگنے کے لیے جانا ہے اپنی حکومت کی پانچ سالہ کارکردگی بتانی ہے ۔ حقیقت میں تو ہونا یہ چاہیے تھا کہ عوام کو مسلم لیگ ن کی حکومت اپنے آخری سال میں بھرپور انداز میں ریلیف دیتی تاکہ وہ اپنے انتخابی جلسوں میں اس بات کا اظہار فخر سے کرتے کہ ہم نے عوام کو نہ صرف ریلیف دیا ہے بلکہ ان کے حالات کار اور فی کس آمدنی میں بہتری کے لیے اقدامات کیے ہیں ، لیکن ایسا کچھ نہیں ہورہا ۔ الیکشن یوم احتساب ہوتا ہے جس میں عوام اپنا فیصلہ سناتے ہیں کہ آیا حکومت کی کارکردگی اچھی تھی یا بری ۔ محسوس ایسا ہوتا ہے کہ حکومت کو الیکشن کا دن یاد نہیں ۔ لیکن مہنگائی اور ظلم کی چکی میں پستے ہوئے عوام دکھ تو جھیل رہے ہیں لیکن اب ان کا فیصلہ کرنے اور سنانے کے دن قریب آگئے ہیں ، سب سے بڑا فیصلہ عوامی عدالت کا ہوگا ۔ اب حکومت کو اپنی قسمت کا فیصلہ خود کرنا ہے کہ وہ عوامی عدالت میں سرخرو ہونا چاہتے ہیں یا پھر راندۂ درگاہ۔