بنجر زمین پر پھول نہیں کھلتے
بچوں کو کہا جاتا ہے کہ آپ غلط ہو۔ آپ کا اٹھنا بیٹھنا، سونا جاگنا یا کھانا پینا سب کچھ غلط ہے
ذہن کا انتشار سلگتا ہوا جہنم ہے جس میں کئی نسلوں کے خواب جل جاتے ہیں۔اس انتشارکو جنگلی گھوڑے کی طرح سدھانا پڑتا ہے۔ اسے محبت سے مات دینی پڑتی ہے، اس بھنور کو سمجھنا پڑتا ہے۔ بصورت دیگر سماجی زندگی کی ترتیب بگڑ جاتی ہے۔ حالات کے ساتھ ذہن کا پانسہ پلٹتا ہے۔ جن کی نوعیت ذہنی کارکردگی پر اثرانداز ہوتی ہے، مگر اچھے حالات یا پرسکون زندگی کامیابی کی وجہ نہیں بن سکتے مگر پرسکون ذہن، یکسوئی اور سوجھ بوجھ کے ذریعے حالات کو قابو میں لایا جا سکتا ہے۔
زندگی انسان کی سوچ کا عکس ہے۔
ہم جس طرح سوچتے ہیں حالات ویسے پیدا ہونے لگتے ہیں سوچ کا منفی تناظر مسائل کی آماجگاہ بن جاتا ہے۔ بچوں کو برا بولتے رہیں، نظام کوکوستے رہیں۔ہر طرف تنقید کا دور دورہ ہو۔ تنقید برائے تنقید ہو، جب کہ اصلاح کا پہلو مفقود ہو۔ نکتہ چینی سے فقط دل آزاری ہوتی ہے، مگر رویوں یا حالات میں تبدیلی نہیں آ سکتی۔
ترقی یافتہ معاشرے یا سمجھدار سماج بچے کی تربیت میں اس بات کا خیال رکھتے ہیں کہ بچے کے ذہن میں ان کے جارحانہ رویوں کی وجہ سے انتشار پیدا نہ ہو۔ ذہن کا انتشار جو اندر ہی اندر کسی لاوے کی طرح پکتا رہتا ہے جارحانہ رویے، توقیرذات کو مجروح کرنا یا شخصی آزادی کی نفی، ذہن کو مکمل طور پر مفلوج کرکے رکھ دیتے ہیں۔ یہ تین ایسے منفی رویے ہیں جو ہماری زندگی کا حصہ بن چکے ہیں۔
گھریلو زندگی کی مثال لیجیے جہاں ہر فرد دوسرے کو تنقید کا نشانہ بنا رہا ہوتا ہے۔ الزام تراشیاں، شکایتیں اور غلط فہمیاں عام پائی جاتی ہیں۔
بچوں کو کہا جاتا ہے کہ آپ غلط ہو۔ آپ کا اٹھنا بیٹھنا، سونا جاگنا یا کھانا پینا سب کچھ غلط ہے۔ یہ غلط لفظ اپنے اندر متحرک منفی توانائی رکھتا ہے۔ ایک لحاظ سے بچے غلط ہیں۔ توکیا بڑے صحیح ہیں۔ ان کے تمام تر الفاظ جو وہ کہتے ہیں یا عمل جو دکھائی دیتے ہیں سب کے سب ٹھیک ہیں۔ ان کے لفظوں اور عمل میں کوئی تضاد نہیں پایا جاتا۔ بچے یا تو اسکول سے غلط باتیں سیکھتے ہیں یا پھر پڑوسیوں سے۔ یہ نہیں دیکھا جاتا کہ بچوں کو سامنے رویے یا عمل کی کون سی مثال سامنے رکھی جا رہی ہے۔
پھر بچوں کا نکتہ نظر بھی سن لیجیے۔ وہ کہتے ہیں کہ ہمارے والدین مکمل طور پر غلط ہیں۔ وہ ہمیں پالتو جانور کی طرح سدھانے کی کوشش کرتے ہیں۔ آخر ہماری بھی سمجھ ہے، سوچ کا منفرد زاویہ اور جینے کا اپنا انداز ہے۔ والدین کیوں ہر وقت پڑھائی کی بات کرتے ہیں۔ والدین بھی بچوں سے مشروط محبت کرتے ہیں۔
یہ غلط کی تکرار گھر سے شروع ہوتی ہے۔ سوچنے کا انداز یا تناظر تبدیل نہیں کیا جاتا تو بچے اور نوجوان غلط راستے اپنا لیتے ہیں۔ غلط کی تکرار ذہنی انتشار کو ظاہر کرتی ہے۔ یہ حقائق سے منہ موڑ لینے کا نتیجہ ہے۔ یہ ذہن کا اختراع ہے۔ کاملیت آپ کو کہیں نہیں ملے گی۔ یہ آپ کے اندر نہیں پائی جاتی۔ کاملیت کے پیچھے دوڑنے والوں کا انجام برا ہوتا ہے۔ یہ جیتی جاگتی زندگی ہے۔ مسائل اورخامیوں سے بھری ہوئی۔ یہ منفی رویے اور عادات اشتہاری دنیا کے ذریعے ہماری زندگیوں میں داخل ہوتے ہیں ۔ یہ میڈیا پرسن کے لب و لہجے کا عکس ہیں۔ زور سے اور جرح کرنے کا انداز سکھایا جا رہا ہے، لہجے والدین کے ہیں اور اساتذہ نے بھی آج کل یہی لب و لہجہ اپنا رکھا ہے۔
ایک پرسکون لہجہ سننے والے کے ذہن میں زرخیزی لے کر آتا ہے۔ خوبصورت بات سن کر روح کا گلاب مہک اٹھتا ہے۔
پرسکون لہجے اور خوبصورت باتیں ذہن کی ہم آہنگی اور قبولیت کو ظاہر کرتی ہیں۔ آپ سب کو اس وقت غلط کہتے ہیں جب آپ کے پاس مسائل کی سمجھ اور قبولیت نہیں ہوتی۔
کسی کو برا بھلا کہنے سے پہلے اپنی ذات کا جائزہ لینا چاہیے، اگر ہم سچ بولتے ہیں تو جھوٹ پر اعتراض کرنا جائز ہے۔ خود بے ایمان نہیں ہیں لہٰذا کرپشن کو مسترد کیا جا سکتا ہے۔ ہم رویوں کے بہتے ہوئے رواجی دھارے سے مختلف ہیں اس لیے دوسروں کو آئینہ دکھا سکتے ہیں۔
فرض کریں میں اگر سچ نہیں بولتی اس لیے سچائی کی تلقین مجھ پر واجب نہیں ہے۔ مجھے فقط وہ بات کہنی چاہیے جو میرے عمل میں شامل ہے۔
در حقیقت قول و عمل کا تضاد، ذہنی ناآسودگی اور بے سکونی کو ظاہر کرتا ہے۔ ہم بظاہر جو بات کہتے ہیں، اندر سے اس کی نفی موجود ہوتی ہے۔
معاشرتی ڈر یا خوف کی وجہ سے دوغلے رویے پنپتے ہیں۔ کیونکہ خامیوں یا غیر روایتی سوچ کو فوری طور پر مسترد کردیا جاتا ہے۔ ان رویوں نے ہمارے گھروں، اداروں اور سیاست کے ایوانوں میں انتشار برپا کردیا ہے۔ الیکٹرانک میڈیا بھی ان رویوں کی تشہیر میں اہم کردار ادا کر رہا ہے۔ کوئی بھی منفی جملہ یا بات کیا سامنے آتی ہے وہ مزید غیر مہذب الفاظ یا تصویروں کی صورت سوشل میڈیا پر وائرل رہتی ہے۔ سوشل میڈیا کا وائرس بہت خطرناک ہے۔ یہ ذہنی و روحانی زندگی کا سب سے بڑا دشمن ہے اس وقت۔ مگر ہم نے اذیت ناک رویوں میں اپنے ضمیر کو زندہ رکھا ہوا ہے۔ لفظوں کی کاٹ ہمیں زندگی کی نوید دیتی ہے۔ دوسروں کی عزت اچھال کر تسکین پاتے ہیں، مگر مہذب معاشروں میں ایسے رویے مسترد کردیے جاتے ہیں کیونکہ عزت نفس مجروح کرنے کا عمل بہترین سمجھا جاتا ہے۔ یہ انسان سے ذات کی خود اعتمادی، خود انحصاری اور سکون چھین لیتا ہے۔
ہمارے معاشرے میں حاکمانہ رویے جاگیرداری نظام اور رجعت پرستی کے رحجان نے متعارف کروائے۔ جس کی رو سے کمزوروں کو کمتر سمجھا جاتا ہے اور طبقاتی کشمکش اور تفریق کو فروغ ملتا ہے۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آج یہ رویے تعلیم یافتہ لوگوں نے کیوں اپنا رکھے ہیں۔ اس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ وقت پر ذہنی انتشار کا خاتمہ نہیں کیا گیا اور ذہنی فتورکی بنیاد پر پیدا ہونے والے بدصورت رویوں کی حوصلہ شکنی نہیں کی گئی۔ تربیت میں اچھی تعلیم اور ضروریات زندگی کو تو ملحوظ خاطر رکھا گیا۔ مگر ذہن کو نکھارنے اور سنوارنے کی کوشش نہیں کی جاتی۔ کردار کو مستحکم بنانے کا سلیقہ نہیں سکھایا جاتا۔ معاشرے کی ترجیح میں مادیت پرستی کا رحجان ہو، وہاں قول و عمل میں واضح تضاد پایا جاتا ہے۔ جو ذہنی تکلیف اور ذہنی دباؤ کی وجہ بنتا ہے۔
ہم زندگی کو کتاب یا مصنوعی ماحول یا رویوں کے ذریعے نہیں سمجھ سکتے۔ جب تک فطری ماحول اور فطرت کی قربت میسر نہیں ہوتی۔ ذہن کے دروازے کھلی فضاؤں کی جانب نہیں کھلتے۔ ہم بچوں کو اپنی آنکھ اور ذہن سے دنیا دکھانا چاہتے ہیں۔ اور بڑوں پر اپنی سوچ اور نظریات زبردستی مسلط کردیتے ہیں۔
ہم جمہوری قدروں اور جمہوری رویوں سے انحراف کرتے ہیں۔ انفرادی سوچ کی خوبصورتی کو آگے آنے نہیں دیتے۔ زندگی روایتی سوچ کی نذر ہوجاتی ہے۔ جب تک زمین زرخیز نہیں کریں گے وہ بیج کو اپنے بطن میں پناہ نہیں دے گی۔ لہٰذا ہم بنجر زمین سے پھول اگانے کی توقع رکھتے ہیں۔
زندگی انسان کی سوچ کا عکس ہے۔
ہم جس طرح سوچتے ہیں حالات ویسے پیدا ہونے لگتے ہیں سوچ کا منفی تناظر مسائل کی آماجگاہ بن جاتا ہے۔ بچوں کو برا بولتے رہیں، نظام کوکوستے رہیں۔ہر طرف تنقید کا دور دورہ ہو۔ تنقید برائے تنقید ہو، جب کہ اصلاح کا پہلو مفقود ہو۔ نکتہ چینی سے فقط دل آزاری ہوتی ہے، مگر رویوں یا حالات میں تبدیلی نہیں آ سکتی۔
ترقی یافتہ معاشرے یا سمجھدار سماج بچے کی تربیت میں اس بات کا خیال رکھتے ہیں کہ بچے کے ذہن میں ان کے جارحانہ رویوں کی وجہ سے انتشار پیدا نہ ہو۔ ذہن کا انتشار جو اندر ہی اندر کسی لاوے کی طرح پکتا رہتا ہے جارحانہ رویے، توقیرذات کو مجروح کرنا یا شخصی آزادی کی نفی، ذہن کو مکمل طور پر مفلوج کرکے رکھ دیتے ہیں۔ یہ تین ایسے منفی رویے ہیں جو ہماری زندگی کا حصہ بن چکے ہیں۔
گھریلو زندگی کی مثال لیجیے جہاں ہر فرد دوسرے کو تنقید کا نشانہ بنا رہا ہوتا ہے۔ الزام تراشیاں، شکایتیں اور غلط فہمیاں عام پائی جاتی ہیں۔
بچوں کو کہا جاتا ہے کہ آپ غلط ہو۔ آپ کا اٹھنا بیٹھنا، سونا جاگنا یا کھانا پینا سب کچھ غلط ہے۔ یہ غلط لفظ اپنے اندر متحرک منفی توانائی رکھتا ہے۔ ایک لحاظ سے بچے غلط ہیں۔ توکیا بڑے صحیح ہیں۔ ان کے تمام تر الفاظ جو وہ کہتے ہیں یا عمل جو دکھائی دیتے ہیں سب کے سب ٹھیک ہیں۔ ان کے لفظوں اور عمل میں کوئی تضاد نہیں پایا جاتا۔ بچے یا تو اسکول سے غلط باتیں سیکھتے ہیں یا پھر پڑوسیوں سے۔ یہ نہیں دیکھا جاتا کہ بچوں کو سامنے رویے یا عمل کی کون سی مثال سامنے رکھی جا رہی ہے۔
پھر بچوں کا نکتہ نظر بھی سن لیجیے۔ وہ کہتے ہیں کہ ہمارے والدین مکمل طور پر غلط ہیں۔ وہ ہمیں پالتو جانور کی طرح سدھانے کی کوشش کرتے ہیں۔ آخر ہماری بھی سمجھ ہے، سوچ کا منفرد زاویہ اور جینے کا اپنا انداز ہے۔ والدین کیوں ہر وقت پڑھائی کی بات کرتے ہیں۔ والدین بھی بچوں سے مشروط محبت کرتے ہیں۔
یہ غلط کی تکرار گھر سے شروع ہوتی ہے۔ سوچنے کا انداز یا تناظر تبدیل نہیں کیا جاتا تو بچے اور نوجوان غلط راستے اپنا لیتے ہیں۔ غلط کی تکرار ذہنی انتشار کو ظاہر کرتی ہے۔ یہ حقائق سے منہ موڑ لینے کا نتیجہ ہے۔ یہ ذہن کا اختراع ہے۔ کاملیت آپ کو کہیں نہیں ملے گی۔ یہ آپ کے اندر نہیں پائی جاتی۔ کاملیت کے پیچھے دوڑنے والوں کا انجام برا ہوتا ہے۔ یہ جیتی جاگتی زندگی ہے۔ مسائل اورخامیوں سے بھری ہوئی۔ یہ منفی رویے اور عادات اشتہاری دنیا کے ذریعے ہماری زندگیوں میں داخل ہوتے ہیں ۔ یہ میڈیا پرسن کے لب و لہجے کا عکس ہیں۔ زور سے اور جرح کرنے کا انداز سکھایا جا رہا ہے، لہجے والدین کے ہیں اور اساتذہ نے بھی آج کل یہی لب و لہجہ اپنا رکھا ہے۔
ایک پرسکون لہجہ سننے والے کے ذہن میں زرخیزی لے کر آتا ہے۔ خوبصورت بات سن کر روح کا گلاب مہک اٹھتا ہے۔
پرسکون لہجے اور خوبصورت باتیں ذہن کی ہم آہنگی اور قبولیت کو ظاہر کرتی ہیں۔ آپ سب کو اس وقت غلط کہتے ہیں جب آپ کے پاس مسائل کی سمجھ اور قبولیت نہیں ہوتی۔
کسی کو برا بھلا کہنے سے پہلے اپنی ذات کا جائزہ لینا چاہیے، اگر ہم سچ بولتے ہیں تو جھوٹ پر اعتراض کرنا جائز ہے۔ خود بے ایمان نہیں ہیں لہٰذا کرپشن کو مسترد کیا جا سکتا ہے۔ ہم رویوں کے بہتے ہوئے رواجی دھارے سے مختلف ہیں اس لیے دوسروں کو آئینہ دکھا سکتے ہیں۔
فرض کریں میں اگر سچ نہیں بولتی اس لیے سچائی کی تلقین مجھ پر واجب نہیں ہے۔ مجھے فقط وہ بات کہنی چاہیے جو میرے عمل میں شامل ہے۔
در حقیقت قول و عمل کا تضاد، ذہنی ناآسودگی اور بے سکونی کو ظاہر کرتا ہے۔ ہم بظاہر جو بات کہتے ہیں، اندر سے اس کی نفی موجود ہوتی ہے۔
معاشرتی ڈر یا خوف کی وجہ سے دوغلے رویے پنپتے ہیں۔ کیونکہ خامیوں یا غیر روایتی سوچ کو فوری طور پر مسترد کردیا جاتا ہے۔ ان رویوں نے ہمارے گھروں، اداروں اور سیاست کے ایوانوں میں انتشار برپا کردیا ہے۔ الیکٹرانک میڈیا بھی ان رویوں کی تشہیر میں اہم کردار ادا کر رہا ہے۔ کوئی بھی منفی جملہ یا بات کیا سامنے آتی ہے وہ مزید غیر مہذب الفاظ یا تصویروں کی صورت سوشل میڈیا پر وائرل رہتی ہے۔ سوشل میڈیا کا وائرس بہت خطرناک ہے۔ یہ ذہنی و روحانی زندگی کا سب سے بڑا دشمن ہے اس وقت۔ مگر ہم نے اذیت ناک رویوں میں اپنے ضمیر کو زندہ رکھا ہوا ہے۔ لفظوں کی کاٹ ہمیں زندگی کی نوید دیتی ہے۔ دوسروں کی عزت اچھال کر تسکین پاتے ہیں، مگر مہذب معاشروں میں ایسے رویے مسترد کردیے جاتے ہیں کیونکہ عزت نفس مجروح کرنے کا عمل بہترین سمجھا جاتا ہے۔ یہ انسان سے ذات کی خود اعتمادی، خود انحصاری اور سکون چھین لیتا ہے۔
ہمارے معاشرے میں حاکمانہ رویے جاگیرداری نظام اور رجعت پرستی کے رحجان نے متعارف کروائے۔ جس کی رو سے کمزوروں کو کمتر سمجھا جاتا ہے اور طبقاتی کشمکش اور تفریق کو فروغ ملتا ہے۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آج یہ رویے تعلیم یافتہ لوگوں نے کیوں اپنا رکھے ہیں۔ اس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ وقت پر ذہنی انتشار کا خاتمہ نہیں کیا گیا اور ذہنی فتورکی بنیاد پر پیدا ہونے والے بدصورت رویوں کی حوصلہ شکنی نہیں کی گئی۔ تربیت میں اچھی تعلیم اور ضروریات زندگی کو تو ملحوظ خاطر رکھا گیا۔ مگر ذہن کو نکھارنے اور سنوارنے کی کوشش نہیں کی جاتی۔ کردار کو مستحکم بنانے کا سلیقہ نہیں سکھایا جاتا۔ معاشرے کی ترجیح میں مادیت پرستی کا رحجان ہو، وہاں قول و عمل میں واضح تضاد پایا جاتا ہے۔ جو ذہنی تکلیف اور ذہنی دباؤ کی وجہ بنتا ہے۔
ہم زندگی کو کتاب یا مصنوعی ماحول یا رویوں کے ذریعے نہیں سمجھ سکتے۔ جب تک فطری ماحول اور فطرت کی قربت میسر نہیں ہوتی۔ ذہن کے دروازے کھلی فضاؤں کی جانب نہیں کھلتے۔ ہم بچوں کو اپنی آنکھ اور ذہن سے دنیا دکھانا چاہتے ہیں۔ اور بڑوں پر اپنی سوچ اور نظریات زبردستی مسلط کردیتے ہیں۔
ہم جمہوری قدروں اور جمہوری رویوں سے انحراف کرتے ہیں۔ انفرادی سوچ کی خوبصورتی کو آگے آنے نہیں دیتے۔ زندگی روایتی سوچ کی نذر ہوجاتی ہے۔ جب تک زمین زرخیز نہیں کریں گے وہ بیج کو اپنے بطن میں پناہ نہیں دے گی۔ لہٰذا ہم بنجر زمین سے پھول اگانے کی توقع رکھتے ہیں۔