حمزہ شہباز جن بوتل سے باہر لے آئے
حمزہ شہباز نے شریف فیملی کی سیاست اور اقتدار کے لیے بہت قربانی دی ہے
سیاست ایک بے رحم کھیل ہے۔ یہ تخت اور تختہ کا کھیل ہے۔اس میں ہونے کو آئیں تو سو غلطیاں بھی معاف ہو جاتی ہیں اور پکڑی جائیں تو ایک غلطی بھی تخت کو تختہ میں بدل دیتی ہے۔ اس لیے یہ جوش نہیںہوش کا کھیل ہے۔ یہ جذبات کا نہیں عقل و دانش کا کھیل ہے۔ یہ نہ سچ ہے نہ جھوٹ ۔ نہ مکمل سچ چل سکتا ہے نہ مکمل جھوٹ چل سکتا ہے۔
یہی صورتحال نواز شہباز تعلقات کی ہے۔اور یہی صوتحال حمزہ مریم تعلقات کی ہے۔ نہ مکمل سچ سامنے ہے اور نہ سب جھوٹ ہے۔ حقیقت سچ اور جھوٹ کے درمیان کہیں موجود تھی اور ہے۔ اس ضمن میں مریم نواز کی ایک واضح پالیسی رہی ہے کہ وہ ہر بات شریف فیملی میں اختلافات کی خبروں کی تردید کا ہی ٹوئٹ کرتی رہی ہیں۔ اسی لیے ان کے ٹوئٹس کے باوجود شریف فیملی میں اختلافات کی خبریں سامنے آتی رہی ہیں اور آج بھی موجود ہیں۔
تاہم حمزہ شہباز کو اس بات کا کریڈٹ ضرور جاتا ہے کہ انھوں نے پہلی بار برملا میڈیا کے سامنے آکر ان اختلافات کا اقرار کر لیا ہے۔ انھوں نے مان لیا ہے کہ شہباز شریف اور نواز شریف کے درمیان سوچ اور رائے کا اختلاف موجود ہے۔ اور اس اختلاف میں وہ اپنے باپ شہباز شریف کے ساتھ کھڑے ہیں جب کہ مریم اپنے والد نواز شریف کے ساتھ کھڑی ہیں۔ یہ درست ہے کہ حمزہ شہباز نے امید ظاہر کی ہے کہ وہ اور ان کے والد مل کر اپنے تایا اور ان کے خاندان کو قائل کر لیں گے۔ لیکن پھر بھی انھوں نے نہ صرف اختلاف واضح کر دیا ہے بلکہ ایک واضح لائن بھی کھینچ دی ہے۔ آپ کہہ سکتے ہیں کہ حمزہ شہباز جن بوتل سے باہر لے آئے ہیں۔
اختلاف بھی واضح ہے شہباز شریف ٹکراؤ کی پالیسی کے خلاف ہیں جب کہ اس وقت نواز شریف ٹکراؤ کی پالیسی کے حق میں ہیں۔ لیکن میں نہیں سمجھتا کہ نواز شریف ٹکراؤ کی پالیسی زیادہ دن چلا سکتے ہیں۔ آپ شہباز شریف کو چھوڑ دیں ۔ یہ کہا جا سکتا ہے کہ شہباز شریف وزیر اعظم بننا چاہتے ہیں۔ وہ قیادت کے خواہش مند ہیں۔ لیکن شاہد خاقان عباسی تو نواز شریف کی وجہ سے وزیر اعظم بن چکے ہیں۔ وہ تو اپنی ہر تقریر میں کہتے نہیں تھکتے کہ نواز شریف حقیقی وزیر اعظم ہیں۔ کیا وہ ٹکراؤ کی پالیسی کے حق میں ہیں۔ نہیں شاہد خاقان عباسی بھی اداروں سے مفاہمت کی بات کر رہے ہیں۔ انھوں نے وفاقی وزرا پر متنازعہ بیان بازی کے حوالے سے پابندی لگائی ہے۔کیا یہ شاہد خاقان عباسی کی مفاہمت کی پالیسی نہیں کہ حکومت نے آرمی چیف کو ملک کی معیشت پر بریفنگ دی ہے جس میں احسن اقبال بھی موجود تھے۔ کیا احسن اقبال مفاہمت کی طرف نہیں آگئے۔ آپ مانیں یا نہ مانیں لیکن شاہد خاقان عباسی، احسن اقبال، خواجہ آصف سب شہباز شریف کے مفاہمتی فلسفے پر آگئے ہیں۔
جہاں تک حمزہ شہباز کی بات ہے تو انھوں نے شریف فیملی کی سیاست اور اقتدار کے لیے بہت قربانی دی ہے۔ وہ سترہ سال کی عمر میں جیل گئے ہیں۔ وہ بھی ایک سیاسی جیل تھی۔ پھر جنرل پرویز مشرف کی آمریت میں شریف فیملی نے جب جلاء وطنی اختیار کی تو حمزہ شہباز کو پاکستان میں بطور گارنٹی چھوڑ دیا گیا ۔ یہ کم قربانی نہیں تھی کہ حمزہ اپنے والدین اور خاندان سے دور پرویز مشرف کی غیر علانیہ قید میں تھے تا کہ باقی شریف فیملی سعودی عرب جا سکے۔ پاکستان میں ہر وقت انٹیلی جنس ان کے پیچھے تھی۔ ہر وقت وہ نرغے میں تھے۔ مجھے یاد ہے کہ ایک دفعہ جب ان کی والدہ بہت مشکل سے چند دن کے لیے پاکستان آئی تھیں تو حمزہ نہیں چاہتے تھے کہ ان کی والدہ واپس سعودی عرب جائیں۔ ان کی والدہ بھی واپس نہیں جانا چاہتی تھیں۔ ماڈل ٹاؤن کی شریف فیملی کی کوٹھیوں میں وہ رہائش پذیر تھیں۔ پولیس ان کو تلاش کر رہی تھی، ہر کوٹھی کی تلاشی لی جا رہی تھی اور پھر ان کی والدہ کو زبردستی سعودی عرب بھیج دیا گیا۔ اس وقت حمزہ کی آنکھیں اشکبار تھیں۔ اسی طرح وہ خود بتاتے ہیں کہ جب ان کے والد کو کینسر ہوا تو وہ اپنے والد کے پاس امریکا جانا چاہتے تھے لیکن مشرف نے انھیں اجازت نہیں دی۔ یہ درست ہے کہ حمزہ نے شریف فیملی کی سیاست کے لیے جو قربانیاں دی ہیں ان کا اقرار نہیں کی جا رہا۔ شائد ان کی قربانیاں بھی سوچ اور رائے کے اختلاف کی نذر ہوتی جا رہی ہیں۔لیکن یہ سیاست کے بے رحم کھیل کا حصہ ہے۔ اس میں کوئی نئی بات نہیں ہے۔
یہ سوال اپنی جگہ اہم ہے کہ شہباز شریف اور نواز شریف کے درمیان سوچ اور رائے کا جو اختلاف اب منظر عام پر آچکا ہے، اس کا حل کیا ہے۔ اگر فریقین اپنے اپنے موقف پر قائم رہتے ہیں۔ تو کیا ہو گا۔ کیا دونوں علیحدہ ہو جائیں گے۔ کیا راستے جدا ہو جائیں گے۔ میں سمجھتا ہوں کہ شائد 2018 کے انتخابات میں یہ دونوں فریقین چاہتے ہوئے بھی علیحدہ نہیں ہو سکتے۔ اکٹھے چلنا ان دونوں کی مجبوری ہے۔ لیکن یہ کیسے ہو گا۔ میں سمجھتا ہوں کہ دونوں کی رائے سب کے سامنے ہے۔ اب فیصلہ مسلم لیگ (ن) کے ارکان اسمبلی نے کرنا ہے کہ وہ کس پالیسی کے ساتھ ہیں۔ اگر ارکان اسمبلی کی اکثریت ٹکراؤ کی پالیسی کے خلاف ہو گی تو شہباز شریف کی بات مانی جائے گی۔ یہ اب مسلم لیگ (ن) کے ارکان اسمبلی پر ہے کہ وہ کس کی تائید کرتے ہیں۔ شہباز شریف نے تو اپنی کشتیاں جلا دی ہیں۔
افسوس کی بات یہی ہے کہ مسلم لیگ (ن) میں اس طرح کے پالیسی اختلافات طے کرنے کے لیے کوئی فورم نہیں ہے۔ من پسند افراد کو مدعو کر کے مشاورتی اجلاس کرنے سے بات طے نہیں ہو سکتی۔ میں سمجھتا ہوں کہ یہ کوئی بری تجویز نہیں ہے کہ مسلم لیگ (ن) اپنے تمام ارکان قومی و صوبائی اسمبلی اور سینٹرز کا اجلاس بلائے۔ یہ وہ لوگ ہیں جو اس وقت مسلم لیگ (ن) کے جیتے ہوئے گھوڑے ہیں۔ ان سب کے سامنے دونوں موقف رکھے جائیں اور ان کو سیکرٹ بیلٹ کے ساتھ ووٹ دینے کا کہا جائے۔ اس کے نتائج معاملہ حل کر دیں گے۔ اگر ارکان اسمبلی کی اکثریت نے شہباز شریف کے موقف کی حمایت کر دی تو ان کی پالیسی بنا دی جائے ۔ اور اگر مزاحمت والے جیت جائیں تو شہباز شریف کو سرنگوں کر دینا چاہیے۔ لیکن یہ بات کسی فورم میں طے ہونی چاہیے۔ مٹھی بھر افراد کے مشاورتی اجلاس میں یہ طے نہیں ہو سکتا۔ مجھے نہیں معلوم شہباز شریف ایسا اجلاس کیوں نہیں بلا رہے۔ شائد انھیں ڈر ہے کہ ان کے بھائی یہ سمجھیں گے کہ ان سے غداری کی جا رہی ہے۔ لیکن میں سمجھتا ہوں کہ اب جب شہباز شریف اور شاہد خاقان عباسی ایک پیج پر ہیں ایسا اجلاس بلایا جانا چاہیے۔
یہی صورتحال نواز شہباز تعلقات کی ہے۔اور یہی صوتحال حمزہ مریم تعلقات کی ہے۔ نہ مکمل سچ سامنے ہے اور نہ سب جھوٹ ہے۔ حقیقت سچ اور جھوٹ کے درمیان کہیں موجود تھی اور ہے۔ اس ضمن میں مریم نواز کی ایک واضح پالیسی رہی ہے کہ وہ ہر بات شریف فیملی میں اختلافات کی خبروں کی تردید کا ہی ٹوئٹ کرتی رہی ہیں۔ اسی لیے ان کے ٹوئٹس کے باوجود شریف فیملی میں اختلافات کی خبریں سامنے آتی رہی ہیں اور آج بھی موجود ہیں۔
تاہم حمزہ شہباز کو اس بات کا کریڈٹ ضرور جاتا ہے کہ انھوں نے پہلی بار برملا میڈیا کے سامنے آکر ان اختلافات کا اقرار کر لیا ہے۔ انھوں نے مان لیا ہے کہ شہباز شریف اور نواز شریف کے درمیان سوچ اور رائے کا اختلاف موجود ہے۔ اور اس اختلاف میں وہ اپنے باپ شہباز شریف کے ساتھ کھڑے ہیں جب کہ مریم اپنے والد نواز شریف کے ساتھ کھڑی ہیں۔ یہ درست ہے کہ حمزہ شہباز نے امید ظاہر کی ہے کہ وہ اور ان کے والد مل کر اپنے تایا اور ان کے خاندان کو قائل کر لیں گے۔ لیکن پھر بھی انھوں نے نہ صرف اختلاف واضح کر دیا ہے بلکہ ایک واضح لائن بھی کھینچ دی ہے۔ آپ کہہ سکتے ہیں کہ حمزہ شہباز جن بوتل سے باہر لے آئے ہیں۔
اختلاف بھی واضح ہے شہباز شریف ٹکراؤ کی پالیسی کے خلاف ہیں جب کہ اس وقت نواز شریف ٹکراؤ کی پالیسی کے حق میں ہیں۔ لیکن میں نہیں سمجھتا کہ نواز شریف ٹکراؤ کی پالیسی زیادہ دن چلا سکتے ہیں۔ آپ شہباز شریف کو چھوڑ دیں ۔ یہ کہا جا سکتا ہے کہ شہباز شریف وزیر اعظم بننا چاہتے ہیں۔ وہ قیادت کے خواہش مند ہیں۔ لیکن شاہد خاقان عباسی تو نواز شریف کی وجہ سے وزیر اعظم بن چکے ہیں۔ وہ تو اپنی ہر تقریر میں کہتے نہیں تھکتے کہ نواز شریف حقیقی وزیر اعظم ہیں۔ کیا وہ ٹکراؤ کی پالیسی کے حق میں ہیں۔ نہیں شاہد خاقان عباسی بھی اداروں سے مفاہمت کی بات کر رہے ہیں۔ انھوں نے وفاقی وزرا پر متنازعہ بیان بازی کے حوالے سے پابندی لگائی ہے۔کیا یہ شاہد خاقان عباسی کی مفاہمت کی پالیسی نہیں کہ حکومت نے آرمی چیف کو ملک کی معیشت پر بریفنگ دی ہے جس میں احسن اقبال بھی موجود تھے۔ کیا احسن اقبال مفاہمت کی طرف نہیں آگئے۔ آپ مانیں یا نہ مانیں لیکن شاہد خاقان عباسی، احسن اقبال، خواجہ آصف سب شہباز شریف کے مفاہمتی فلسفے پر آگئے ہیں۔
جہاں تک حمزہ شہباز کی بات ہے تو انھوں نے شریف فیملی کی سیاست اور اقتدار کے لیے بہت قربانی دی ہے۔ وہ سترہ سال کی عمر میں جیل گئے ہیں۔ وہ بھی ایک سیاسی جیل تھی۔ پھر جنرل پرویز مشرف کی آمریت میں شریف فیملی نے جب جلاء وطنی اختیار کی تو حمزہ شہباز کو پاکستان میں بطور گارنٹی چھوڑ دیا گیا ۔ یہ کم قربانی نہیں تھی کہ حمزہ اپنے والدین اور خاندان سے دور پرویز مشرف کی غیر علانیہ قید میں تھے تا کہ باقی شریف فیملی سعودی عرب جا سکے۔ پاکستان میں ہر وقت انٹیلی جنس ان کے پیچھے تھی۔ ہر وقت وہ نرغے میں تھے۔ مجھے یاد ہے کہ ایک دفعہ جب ان کی والدہ بہت مشکل سے چند دن کے لیے پاکستان آئی تھیں تو حمزہ نہیں چاہتے تھے کہ ان کی والدہ واپس سعودی عرب جائیں۔ ان کی والدہ بھی واپس نہیں جانا چاہتی تھیں۔ ماڈل ٹاؤن کی شریف فیملی کی کوٹھیوں میں وہ رہائش پذیر تھیں۔ پولیس ان کو تلاش کر رہی تھی، ہر کوٹھی کی تلاشی لی جا رہی تھی اور پھر ان کی والدہ کو زبردستی سعودی عرب بھیج دیا گیا۔ اس وقت حمزہ کی آنکھیں اشکبار تھیں۔ اسی طرح وہ خود بتاتے ہیں کہ جب ان کے والد کو کینسر ہوا تو وہ اپنے والد کے پاس امریکا جانا چاہتے تھے لیکن مشرف نے انھیں اجازت نہیں دی۔ یہ درست ہے کہ حمزہ نے شریف فیملی کی سیاست کے لیے جو قربانیاں دی ہیں ان کا اقرار نہیں کی جا رہا۔ شائد ان کی قربانیاں بھی سوچ اور رائے کے اختلاف کی نذر ہوتی جا رہی ہیں۔لیکن یہ سیاست کے بے رحم کھیل کا حصہ ہے۔ اس میں کوئی نئی بات نہیں ہے۔
یہ سوال اپنی جگہ اہم ہے کہ شہباز شریف اور نواز شریف کے درمیان سوچ اور رائے کا جو اختلاف اب منظر عام پر آچکا ہے، اس کا حل کیا ہے۔ اگر فریقین اپنے اپنے موقف پر قائم رہتے ہیں۔ تو کیا ہو گا۔ کیا دونوں علیحدہ ہو جائیں گے۔ کیا راستے جدا ہو جائیں گے۔ میں سمجھتا ہوں کہ شائد 2018 کے انتخابات میں یہ دونوں فریقین چاہتے ہوئے بھی علیحدہ نہیں ہو سکتے۔ اکٹھے چلنا ان دونوں کی مجبوری ہے۔ لیکن یہ کیسے ہو گا۔ میں سمجھتا ہوں کہ دونوں کی رائے سب کے سامنے ہے۔ اب فیصلہ مسلم لیگ (ن) کے ارکان اسمبلی نے کرنا ہے کہ وہ کس پالیسی کے ساتھ ہیں۔ اگر ارکان اسمبلی کی اکثریت ٹکراؤ کی پالیسی کے خلاف ہو گی تو شہباز شریف کی بات مانی جائے گی۔ یہ اب مسلم لیگ (ن) کے ارکان اسمبلی پر ہے کہ وہ کس کی تائید کرتے ہیں۔ شہباز شریف نے تو اپنی کشتیاں جلا دی ہیں۔
افسوس کی بات یہی ہے کہ مسلم لیگ (ن) میں اس طرح کے پالیسی اختلافات طے کرنے کے لیے کوئی فورم نہیں ہے۔ من پسند افراد کو مدعو کر کے مشاورتی اجلاس کرنے سے بات طے نہیں ہو سکتی۔ میں سمجھتا ہوں کہ یہ کوئی بری تجویز نہیں ہے کہ مسلم لیگ (ن) اپنے تمام ارکان قومی و صوبائی اسمبلی اور سینٹرز کا اجلاس بلائے۔ یہ وہ لوگ ہیں جو اس وقت مسلم لیگ (ن) کے جیتے ہوئے گھوڑے ہیں۔ ان سب کے سامنے دونوں موقف رکھے جائیں اور ان کو سیکرٹ بیلٹ کے ساتھ ووٹ دینے کا کہا جائے۔ اس کے نتائج معاملہ حل کر دیں گے۔ اگر ارکان اسمبلی کی اکثریت نے شہباز شریف کے موقف کی حمایت کر دی تو ان کی پالیسی بنا دی جائے ۔ اور اگر مزاحمت والے جیت جائیں تو شہباز شریف کو سرنگوں کر دینا چاہیے۔ لیکن یہ بات کسی فورم میں طے ہونی چاہیے۔ مٹھی بھر افراد کے مشاورتی اجلاس میں یہ طے نہیں ہو سکتا۔ مجھے نہیں معلوم شہباز شریف ایسا اجلاس کیوں نہیں بلا رہے۔ شائد انھیں ڈر ہے کہ ان کے بھائی یہ سمجھیں گے کہ ان سے غداری کی جا رہی ہے۔ لیکن میں سمجھتا ہوں کہ اب جب شہباز شریف اور شاہد خاقان عباسی ایک پیج پر ہیں ایسا اجلاس بلایا جانا چاہیے۔