اپنی منزل کو مزید دور مت کیجیے
بھٹوکی جگہ ضیاء الحق نے شاہراہ مارشل لا ء پر اپنی آمریت کا پرچم لہرایا
HYDERABAD:
دنیا بھر میں دو طرح کے انسان پائے جاتے ہیں۔ ایک وہ جو مختلف چیزوں کو دیکھ کر، چھوکر یا تبدیلی کے عمل میں شریک ہو کران پر اعتبار کرتے ہیں اور دوسرے وہ جو سنی سنائی باتوں پر ہی یقین کرلیتے ہیں۔ ان میں ایک تیسرا طبقہ بھی موجود ہے جو صرف دستاویزات پر اعتبار کرتا ہے۔ ثبوت مانگتا ہے اور منطق سے بات کرتا ہے۔ ہم جس ملک میں آباد ہیں وہاں ایسے افراد کی تعداد سب سے زیادہ ہے جو عملی طور پر کسی چیز کی گواہی کے بجائے سنی سنائی باتوں پر زیادہ اعتبار کرتے ہیں اوراسی طبقے کو سب سے خطرناک طبقہ کہا جائے تو شاید کچھ غلط نہ ہوگا اس لیے کہ سنی سنائی باتوں کو دوسروں تک پہنچاتے وقت ایک غلطی کئی غلطیوں کو جنم دیتی ہے اور رائی کا پہاڑ بن جاتا ہے۔ استاد قمر جلالوی نے شایداسی لیے کہا تھا
مری محبت سے جلنے والے لگاتے ہیں دوکی چار باتیں
یقین کس کس کا تم کرو گے ہزار منہ ہیں ہزار باتیں
تقسیم کے بعد برصغیر کے جو علاقے پاکستان کے حصے میں آئے اُن میں آباد محنت کش اور عام شہری تعلیم کی روشنی سے بہت دور تھے۔ انھیں نہ تو تبدیلی کے کسی عمل میں شامل کیا جاتا تھا اور نہ ہی وہ اس قابل تھے کہ کسی دستاویز میں درج تحریر کو دیکھنے کے بعد اس پرکوئی رائے دے سکتے، بس ملک ،خان، وڈیرے، چوہدری اور مولوی سے سنی ہوئی بات ہی ان کے لیے حرف آخرہوتی تھی ۔ تعلیم کی کمی، غربت ، جہالت اور توہم پرستی میں دبی خلق خدا کے قدرتی اور علاقائی وسائل سے آخرکسی نے تو فائدہ اٹھانا تھا، کسی نے تو تعلیم وترقی کی بنیادی سہولتوں ، عملی تجربوں اور عقلی دستاویزات پر تحریر سچائیوں کے بجائے سادہ لوح مخلوق کے دل میں شکوک وشبہات کے بیج بونے تھے اور نوزائیدہ مملکت میں اپنی مرضی کا سیاسی اور سماجی نظام ترتیب دینا تھا اور اس کے لیے امریکا کی شاطر حکومت پہلے سے تیار بیٹھی تھی، مگر اس کے سامنے سب سے بڑا سوال یہ تھا کہ تقسیم کے دکھ سہنے ، ہزاروں سال تک ایک دوسرے کے ساتھ رہنے اورکسی اسکول یا یونی ورسٹی کا منہ نہ دیکھنے کے باوجود ایک دوسرے کے ساتھ باہمی اخوت ، بھائی چارے، مذہبی اور فرقہ وارانہ ہم آہنگی میں بندھے ان سادہ لوح لوگوں کے درمیان غلط فہمی کوکیسے فروغ دیا جائے تاکہ یہ سماجی، سیاسی اور علمی ترقی کے بجائے ایک دوسرے کے خلاف صف آرا ہوسکیں ۔
پاکستان پیپلز پارٹی کی حکومت کے پہلے دور سے قبل ملک میںمختلف فرقے، قومیں اورمذاہب بالکل اسی طرح موجود تھے جیسے آج دکھائی دیتے ہیں، مگر اتنے بے بس، مجبور اور بٹے ہوئے نہیں تھے کہ بات بات پر ایک دوسرے کو قتل کرنے کا جواز ڈھونڈتے پھرتے۔ فرقہ وارانہ اختلافات اور بحث و مباحثے کی روایت کے باوجود نہ تو کسی جلسے میں فائرنگ ہوتی تھی،کسی درگاہ میں بم دھماکا ہوتا تھا اور نہ ہی کسی عبادت گاہ کو نقصان پہنچایا جاتا تھا ۔وقت نے ایک اور انگڑائی لی اور بھٹوکی جگہ ضیاء الحق نے شاہراہ مارشل لا ء پر اپنی آمریت کا پرچم لہرایا تو سات سمندر پار سے اسے یہ پیغام موصول ہوا کہ ''تمہاری رعایا میں کچھ ایسے بھی ہیں جو تاج برطانیہ اور مملکت امریکا میںرائج نظام حکومت کی مخالفت کرتے ہوئے ایک ایسے یہودی مفکرکی سوچ کو اپنا رہے ہیں جس کے بارے میں علامہ اقبال نے کہا تھا۔
وہ کلیم بے تجلی وہ مسیح بے صلیب
نیست پیغمبر و لیکن در بغل دارد کتاب
کسی یہودی کی فکرکا تابع ہونا یا اس کے خیالات سے استفادہ کرنا بھی کفرکے زمرے میںآتا ہے، مگر یہ تو اس سے بھی دو قدم آگے بڑھتے ہوئے آپ کے مارشل لائی ملک پر سوشلسٹ نظام مسلط کرنا چاہتے ہیں۔ آپ تو یہ جانتے ہی ہیں اور اگر نہیں جانتے تو اب جان لیجیے کہ ''کمیونسٹ کافر ہیں'' بالکل اسی طرح جیسے روس اور چین میں رہنے والے دہریے یعنی خدا کے منکر ہیں جہاں اپنی مرضی سے کوئی ذاتی جاگیر کا مالک بن سکتا ہے اور نہ ہی کاروبار کرسکتا ہے۔ یہاں تک کہ مارشل لاء بھی نہیں لگا سکتا۔ اگر آپ نے اپنے ملک میں آباد ان سرخوں کی گردن نہ دبائی تو کل کو یہ آپ کے ساتھ ہمارے لیے بھی خطرہ ثابت ہوسکتے ہیں۔ فرمان کی تعمیل وتکمیل میں سر خم کرنے کے بعد ضیاالحق نے تو وہی کچھ کیا جو اب سے دوچار سال پہلے تک ہو رہا تھا مگر عام آدمی کو بھی کسی پر یہ شک ہوتا کہ وہ کمیونسٹ ہے تو وہ اس کے کافر ہونے پر وہ پورا یقین کرلیتا تھا۔ دوسری طرف اس مشکل دور میں گھرے کسی کامریڈکے ذہن میں یہ سوچ تک نہ آئی کہ ہمارا اصل دشمن کوئی مذہب یا عقیدہ نہیں بلکہ وہ سامراجی نظام ہے جو صدیوں سے مزدوروں کسانوں کا خون نچوڑ رہا ہے اور اس سے نجات اور سیاسی وسماجی تبدیلی کے لیے ہمیں لوگوںکے عقائد، رسوم اور مذاہب پر حملہ کرنے کے بجائے انھیں متحدکرنے کی ضرورت ہے۔ بائیںبازو کی سوچ سے تعلق رکھنے والوں پر مذہب دشمنی کے الزامات اس وقت مزید مضبوط ہوئے جب کچھ ''روشن خیال'' اپنے دلائل سے توہم پرستی کا خاتمہ کرنے اور تقریر اور تحریر سے سماجی تبدیلی کا کام لینے کے بجائے مذہبی تنظیموں اور ان کے نمایندوں کو ہدف بنانا ہی اپنا فرض سمجھنے لگے۔
وقت کے ساتھ جب ملکی اور بین الاقوامی سطح پر انتہائی تیزی سے تبدیلیاں رونما ہونے لگیں تو ہماری خارجہ پالیسی کی باسی کڑہی میں ابال آیا لیکن کچھ سیاسی رہنما روز اول سے اسی راستے پر کھڑے رہے جہاں آج سے آدھی صدی قبل کھڑے تھے اس کے باوجود اب بھی ان لوگوں کی کمی نہیں جو وقت اور حالات کے ساتھ آنے والی تبدیلیوں کو خوش آمدید کہتے ہیں۔لگ بھگ ایک سال قبل معروف سوشلسٹ رہنما اور قانون دان عابد حسن منٹو نے ''عوامی ورکرز پارٹی'' کے پلیٹ فارم سے جب اس بات کا اعلان کیا تھا کہ ہماری جنگ مذہب کے خلاف نہیں تو اس جملے میں پچھلے ستر سال کے دوران کمیونسٹوں کے خلاف پھیلائے گئے اس مخصوص پروپیگنڈے کے جواب کے ساتھ یہ پیغام بھی شامل تھا کہ ماضی میں بائیں بازو کے کارکنوں نے اگر کسی فرد کے عقیدے کے خلاف کوئی بات کی ہے تو اب اسے ایسا نہیں کرنا چاہیے ۔ یاد رہے کہ اگر کوئی شخص کسی عقیدے کے خلاف ہے توعقیدے کو اس سے کوئی فرق نہیں پڑے گا اس لیے کہ دنیا میں ایسے لاکھوں افراد موجود ہیں جن کی زندگی کسی عقیدے سے وابستہ ہی نہیں لیکن جو لوگ کسی عقیدے سے تعلق رکھتے ہیں، ان کے سامنے کسی عقیدے کے خلاف کوئی بات کرنا نہ صرف اس عقیدے بلکہ انسانیت کی بھی توہین ہے۔ کسی کے اس عمل سے کسی عقیدے کو توکوئی نقصان نہیں پہنچ سکتا مگر سماجی تبدیلی کی جدوجہد مزید طویل ضرور ہوسکتی ہے۔
دنیا بھر میں دو طرح کے انسان پائے جاتے ہیں۔ ایک وہ جو مختلف چیزوں کو دیکھ کر، چھوکر یا تبدیلی کے عمل میں شریک ہو کران پر اعتبار کرتے ہیں اور دوسرے وہ جو سنی سنائی باتوں پر ہی یقین کرلیتے ہیں۔ ان میں ایک تیسرا طبقہ بھی موجود ہے جو صرف دستاویزات پر اعتبار کرتا ہے۔ ثبوت مانگتا ہے اور منطق سے بات کرتا ہے۔ ہم جس ملک میں آباد ہیں وہاں ایسے افراد کی تعداد سب سے زیادہ ہے جو عملی طور پر کسی چیز کی گواہی کے بجائے سنی سنائی باتوں پر زیادہ اعتبار کرتے ہیں اوراسی طبقے کو سب سے خطرناک طبقہ کہا جائے تو شاید کچھ غلط نہ ہوگا اس لیے کہ سنی سنائی باتوں کو دوسروں تک پہنچاتے وقت ایک غلطی کئی غلطیوں کو جنم دیتی ہے اور رائی کا پہاڑ بن جاتا ہے۔ استاد قمر جلالوی نے شایداسی لیے کہا تھا
مری محبت سے جلنے والے لگاتے ہیں دوکی چار باتیں
یقین کس کس کا تم کرو گے ہزار منہ ہیں ہزار باتیں
تقسیم کے بعد برصغیر کے جو علاقے پاکستان کے حصے میں آئے اُن میں آباد محنت کش اور عام شہری تعلیم کی روشنی سے بہت دور تھے۔ انھیں نہ تو تبدیلی کے کسی عمل میں شامل کیا جاتا تھا اور نہ ہی وہ اس قابل تھے کہ کسی دستاویز میں درج تحریر کو دیکھنے کے بعد اس پرکوئی رائے دے سکتے، بس ملک ،خان، وڈیرے، چوہدری اور مولوی سے سنی ہوئی بات ہی ان کے لیے حرف آخرہوتی تھی ۔ تعلیم کی کمی، غربت ، جہالت اور توہم پرستی میں دبی خلق خدا کے قدرتی اور علاقائی وسائل سے آخرکسی نے تو فائدہ اٹھانا تھا، کسی نے تو تعلیم وترقی کی بنیادی سہولتوں ، عملی تجربوں اور عقلی دستاویزات پر تحریر سچائیوں کے بجائے سادہ لوح مخلوق کے دل میں شکوک وشبہات کے بیج بونے تھے اور نوزائیدہ مملکت میں اپنی مرضی کا سیاسی اور سماجی نظام ترتیب دینا تھا اور اس کے لیے امریکا کی شاطر حکومت پہلے سے تیار بیٹھی تھی، مگر اس کے سامنے سب سے بڑا سوال یہ تھا کہ تقسیم کے دکھ سہنے ، ہزاروں سال تک ایک دوسرے کے ساتھ رہنے اورکسی اسکول یا یونی ورسٹی کا منہ نہ دیکھنے کے باوجود ایک دوسرے کے ساتھ باہمی اخوت ، بھائی چارے، مذہبی اور فرقہ وارانہ ہم آہنگی میں بندھے ان سادہ لوح لوگوں کے درمیان غلط فہمی کوکیسے فروغ دیا جائے تاکہ یہ سماجی، سیاسی اور علمی ترقی کے بجائے ایک دوسرے کے خلاف صف آرا ہوسکیں ۔
پاکستان پیپلز پارٹی کی حکومت کے پہلے دور سے قبل ملک میںمختلف فرقے، قومیں اورمذاہب بالکل اسی طرح موجود تھے جیسے آج دکھائی دیتے ہیں، مگر اتنے بے بس، مجبور اور بٹے ہوئے نہیں تھے کہ بات بات پر ایک دوسرے کو قتل کرنے کا جواز ڈھونڈتے پھرتے۔ فرقہ وارانہ اختلافات اور بحث و مباحثے کی روایت کے باوجود نہ تو کسی جلسے میں فائرنگ ہوتی تھی،کسی درگاہ میں بم دھماکا ہوتا تھا اور نہ ہی کسی عبادت گاہ کو نقصان پہنچایا جاتا تھا ۔وقت نے ایک اور انگڑائی لی اور بھٹوکی جگہ ضیاء الحق نے شاہراہ مارشل لا ء پر اپنی آمریت کا پرچم لہرایا تو سات سمندر پار سے اسے یہ پیغام موصول ہوا کہ ''تمہاری رعایا میں کچھ ایسے بھی ہیں جو تاج برطانیہ اور مملکت امریکا میںرائج نظام حکومت کی مخالفت کرتے ہوئے ایک ایسے یہودی مفکرکی سوچ کو اپنا رہے ہیں جس کے بارے میں علامہ اقبال نے کہا تھا۔
وہ کلیم بے تجلی وہ مسیح بے صلیب
نیست پیغمبر و لیکن در بغل دارد کتاب
کسی یہودی کی فکرکا تابع ہونا یا اس کے خیالات سے استفادہ کرنا بھی کفرکے زمرے میںآتا ہے، مگر یہ تو اس سے بھی دو قدم آگے بڑھتے ہوئے آپ کے مارشل لائی ملک پر سوشلسٹ نظام مسلط کرنا چاہتے ہیں۔ آپ تو یہ جانتے ہی ہیں اور اگر نہیں جانتے تو اب جان لیجیے کہ ''کمیونسٹ کافر ہیں'' بالکل اسی طرح جیسے روس اور چین میں رہنے والے دہریے یعنی خدا کے منکر ہیں جہاں اپنی مرضی سے کوئی ذاتی جاگیر کا مالک بن سکتا ہے اور نہ ہی کاروبار کرسکتا ہے۔ یہاں تک کہ مارشل لاء بھی نہیں لگا سکتا۔ اگر آپ نے اپنے ملک میں آباد ان سرخوں کی گردن نہ دبائی تو کل کو یہ آپ کے ساتھ ہمارے لیے بھی خطرہ ثابت ہوسکتے ہیں۔ فرمان کی تعمیل وتکمیل میں سر خم کرنے کے بعد ضیاالحق نے تو وہی کچھ کیا جو اب سے دوچار سال پہلے تک ہو رہا تھا مگر عام آدمی کو بھی کسی پر یہ شک ہوتا کہ وہ کمیونسٹ ہے تو وہ اس کے کافر ہونے پر وہ پورا یقین کرلیتا تھا۔ دوسری طرف اس مشکل دور میں گھرے کسی کامریڈکے ذہن میں یہ سوچ تک نہ آئی کہ ہمارا اصل دشمن کوئی مذہب یا عقیدہ نہیں بلکہ وہ سامراجی نظام ہے جو صدیوں سے مزدوروں کسانوں کا خون نچوڑ رہا ہے اور اس سے نجات اور سیاسی وسماجی تبدیلی کے لیے ہمیں لوگوںکے عقائد، رسوم اور مذاہب پر حملہ کرنے کے بجائے انھیں متحدکرنے کی ضرورت ہے۔ بائیںبازو کی سوچ سے تعلق رکھنے والوں پر مذہب دشمنی کے الزامات اس وقت مزید مضبوط ہوئے جب کچھ ''روشن خیال'' اپنے دلائل سے توہم پرستی کا خاتمہ کرنے اور تقریر اور تحریر سے سماجی تبدیلی کا کام لینے کے بجائے مذہبی تنظیموں اور ان کے نمایندوں کو ہدف بنانا ہی اپنا فرض سمجھنے لگے۔
وقت کے ساتھ جب ملکی اور بین الاقوامی سطح پر انتہائی تیزی سے تبدیلیاں رونما ہونے لگیں تو ہماری خارجہ پالیسی کی باسی کڑہی میں ابال آیا لیکن کچھ سیاسی رہنما روز اول سے اسی راستے پر کھڑے رہے جہاں آج سے آدھی صدی قبل کھڑے تھے اس کے باوجود اب بھی ان لوگوں کی کمی نہیں جو وقت اور حالات کے ساتھ آنے والی تبدیلیوں کو خوش آمدید کہتے ہیں۔لگ بھگ ایک سال قبل معروف سوشلسٹ رہنما اور قانون دان عابد حسن منٹو نے ''عوامی ورکرز پارٹی'' کے پلیٹ فارم سے جب اس بات کا اعلان کیا تھا کہ ہماری جنگ مذہب کے خلاف نہیں تو اس جملے میں پچھلے ستر سال کے دوران کمیونسٹوں کے خلاف پھیلائے گئے اس مخصوص پروپیگنڈے کے جواب کے ساتھ یہ پیغام بھی شامل تھا کہ ماضی میں بائیں بازو کے کارکنوں نے اگر کسی فرد کے عقیدے کے خلاف کوئی بات کی ہے تو اب اسے ایسا نہیں کرنا چاہیے ۔ یاد رہے کہ اگر کوئی شخص کسی عقیدے کے خلاف ہے توعقیدے کو اس سے کوئی فرق نہیں پڑے گا اس لیے کہ دنیا میں ایسے لاکھوں افراد موجود ہیں جن کی زندگی کسی عقیدے سے وابستہ ہی نہیں لیکن جو لوگ کسی عقیدے سے تعلق رکھتے ہیں، ان کے سامنے کسی عقیدے کے خلاف کوئی بات کرنا نہ صرف اس عقیدے بلکہ انسانیت کی بھی توہین ہے۔ کسی کے اس عمل سے کسی عقیدے کو توکوئی نقصان نہیں پہنچ سکتا مگر سماجی تبدیلی کی جدوجہد مزید طویل ضرور ہوسکتی ہے۔