مجھ کو کتابوں پر ناز ہے
شاعری کے لیے احمد فرازؔ کے آٹوگراف والی کتابیں زیست کا سفر آسان کرتی ہی
مظفرگڑھ کے ایک جلسۂ عام میں نامور شاعر و دانشور شعیب بن عزیز سے ملاقات ہوئی تو کہنے لگے آج کل آپ کی کیا مصروفیت ہے جس کے بعد آپ نے سیاست کی نوکری کر لی ہے کہنے لگے یعنی
یہ علم کا سودا، یہ کتابیں یہ رسالے
اِک شخص کی یادوں کو بھلانے کے لیے ہے
مَیں نے کہا آپ نے جو کام چھوڑا تھا ہم اُسی کام سے اِک شخص کی یادوں کو زندہ رکھے ہوئے ہیں۔ احمد فرازؔ نے بھی تو انھی لمحوں کے لیے کہا تھا:
وہ جو سرگشتہ سے پھرتے ہیں کتابوں والے
ان سے مَت مِل انھیں روگ ہیں خوابوں والے
شعیب بن عزیز سے مختصر سی ملاقات نے کتابوں کے حوالے سے بہت سی یادوں کو تازہ کر دیا۔ رہی سہی کسر برادرم خالد مسعود خان کے کتابوں والے کالم نے پوری کر دی۔ جس میں کتابوں کے حوالے سے اپنی بچپن کی کہانیوں کو اس طرح یاد کیا کہ مجھے یوں محسوس ہوا وہ اپنی نہیں بلکہ میری کہانیوں کو تازہ کر رہے ہیں۔کتابوں سے عشق نے مجھے کہیں کا نہ چھوڑا۔ اس عشق نے ہمیں کسی اور سے عشق نہ کرنے دیا۔ جب کہیں اچھا شعر، اچھی غزل اور خوبصورت نثر پڑھی ہم لکھنے والے کے عشق میں مبتلا ہو گئے۔ اس عشق کا آغاز سب پڑھنے والوں کی طرح بچوں کی کہانیاں اور رسائل خریدنے سے ہوا۔ سال میں جب بھی کبھی لاہور، راولپنڈی اور فیصل آباد (میری ماں جی آج بھی اسے لائل پور کہتی ہیں) جانا ہوتا تو جیب میں اتنے پیسے نہ ہوتے کہ نئی کتابیں خرید سکتا۔ پرانی کتابوں کی دکانوں کو تلاش کرتا اور کم پیسوں میں زیادہ کتب لے کر آ جاتا۔کتابوں سے محبت کا یہ سفر آج بھی جاری ہے۔ چند ماہ پہلے کی بات ہے کہ فیس بک پر ایک تصویر دیکھی۔ ہاتھ دل پر چلا گیا۔
وہ تصویر مال روڈ لاہور کے فیروز سنز کی تھی جس پر ایک بینر لکھا تھا ''کرایہ کے لیے خالی ہے''۔مَیں نے اُردو بازار لاہور رابطہ کیا تو معلوم ہوا واقعی فیروز سنز مال روڈ لاہور ختم ہو چکا تھا۔ میری لاہور میں پسندیدہ جگہ پر اب کیا کھل چکا ہے یہ دیکھنے کی آج تک ہمت نہیں ہوئی۔ اس کے علاوہ کتابوں کے حوالے ملتان کینٹ کے وقار میں اضافہ کرنے والی دکان 'کاروان بک سینٹر' بھی ایک کھلونوں کی دکان میں تبدیل ہو چکی ہے۔ محمد عمر خان (اﷲ تعالیٰ انھیں صحت والی زندگی عطا کرے) نے یہ دکان کھول کر نہ صرف اہلِ ملتان کو جنرل کتب پڑھنے کے لیے دیں بلکہ انھوں نے ملتان کے اہلِ قلم کی تحقیقات کو خوبصورت و معیاری انداز میں شایع کر کے پوری دنیا سے متعارف کرایا۔میرے دیکھتے دیکھتے میری یہ دونوں محبتیں تبدیل ہوگئیں۔ اسی خوف سے ہم نے تمام زندگی کسی سے محبت نہ کی کہ محبت سے زیادہ بے وفا کوئی چیز نہ ہے۔ وہ جو ہم نے کالم کے آغاز میں لکھا تھا احمد فرازؔ کا شعر اس نے بھی ہمیں تمام زندگی کسی کے قریب نہ ہونے دیا۔
بات ہو رہی تھی کتابوں کی دکانوں کے بند ہونے کی۔ یہ کام سب سے پہلے کراچی میں شروع ہوا۔ پھر یہ وبا پھیلتے ہوئے پورے ملک میں آ گئی۔ اب تازہ ترین صورت حال یہ ہے کہ ہر شہر میں راتوں رات شاپنگ مال بنتے ہیں۔ پہلے نمبر پر فوڈ چین۔ دوسرے نمبر پر گارمنٹس کے برانڈز، تیسرے نمبر پر شوز کی دکانیں جب کہ کتابوں کا نام و نشان کہیں پر نہ ہے۔ مَیں سوچتا ہوں کہ جب مَیں نے کالج میں داخلہ لیا تو کلاس سے فارغ ہو کر سیدھا لائبریری کا رُخ کرتا تھا۔ پروین شاکر کی خوشبو، ممتاز مفتی کی لبیک، شفیق الرحمٰن کی حماقتیں اور مختار مسعود کی آواز دوست تو مَیں نے کالج کی لائبریری میں بیٹھ کر پڑھیں۔ آج جب مَیں اپنے بچوں کو دیکھتا ہوں تو افسوس ہوتا ہے کہ ان میں کوئی بھی کتابوں کو ہاتھ نہیں لگاتا۔ صبح جب گھر میں اخبارات آتے ہیں ان کو صرف مَیں ہی پڑھتا ہوں۔ میری ذاتی لائبریری کی جتنی کتابیں ہیں میرے گھر میں صرف وہی میری زبان جانتی ہیں۔ میری آنکھیں پہچانتی ہیں۔ میرے ہاتھ جب ان سے مٹی جھاڑتے ہیں تو وہ کتابیں بولتی ہیں، چمک اٹھتی ہیں، خوش ہوتی ہیں۔ مَیں ان کو اپنے بیڈ روم میں لاتا ہوں جہاں میری اہلیہ ان کو دیکھ کر بھڑک اٹھتی ہے اور کہہ اٹھتی ہے ''میرے کمرے میں کتابوں کے سوا کچھ بھی نہیں۔''مَیں اسے جواب دیتا ہوں کہ یہ کتابیں میری زندگی ہیں۔ میری آتی جاتی سانسیں ہیں۔ ان کو دیکھ کر مَیں جی اٹھتا ہوں اسی لیے تو میرے پسندیدہ شاعر جو ایلیا نے کہا تھا:
تم جب آؤ گی تو کھویا ہوا پاؤ گی مجھے
میری تنہائی میں خوابوں کے سوا کچھ بھی نہیں
میرے کمرے کو سجانے کی تمنا ہے تمہیں
میرے کمرے میں کتابوں کے سوا کچھ بھی نہیں
اِن کتابوں نے بڑا ظلم کیا ہے مجھ پر
اِن میں اِک رمز ہے جس رمز کا مارا ہوا ذہن
مژدۂ عشرتِ انجام نہیں پا سکتا
زندگی میں کبھی آرام نہیں پا سکتا
بقول جون ایلیا ''زندگی میں کبھی آرام نہیں پا سکتا''۔ میرا تو اب جینا مرنا انھی کتابوں میں ہے۔ دکھی ہوتا ہوں تو مشتاق یوسفی کی کتب میرے سرہانے ہوتی ہیں۔ شاعری کے لیے احمد فرازؔ کے آٹوگراف والی کتابیں زیست کا سفر آسان کرتی ہیں۔ بانو قدسیہ اور اشفاق احمد کی اپنی کتابوں کے تحفے تو میری زندگی کا قیمتی اثاثہ ہیں۔
محترم رضا علی عابدی کے لکھے لفظ مجھے مزید جینے پر مجبور کرتے ہیں۔ جناب مستنصر حسین تارڑ ہوں یا ممتاز مفتی، قرۃ العین حیدر کی نثر نے مجھے کہیں اور جانے نہ دیا۔ یہ لوگ ایسے لکھنے والے ہیں جنہوں نے اپنے لفظوں سے مجھے مسخر کیا۔ امجد اسلام امجدؔ سے لے کر مجیدؔ امجد، ن۔م راشدؔ، فیضؔ، افتخار عارف اور منیرؔ نیازی۔ یہ سب ہی میری زندگی میں آسانیوں کے سبب ہیں۔ ان سمیت سیکڑوں لکھنے والوں کی ہزاروں کتب کا مَیں مالک ہوں۔ اس ملکیت کے کہیں کھو جانے کا خوف بھی نہیں کیونکہ اپنے گھر میں اکیلا ہوں۔ جو اِن کتابوں سے باتیں کرتا ہوں۔ ان میں شایع ہونیوالے لفظوں کو دیکھ کر میری آنکھیں سکون محسوس کرتی ہیں۔ کتابوں کے کاغذ کی خوشبو کی وجہ سے مَیں کوئی پرفیوم استعمال نہیں کرتا۔ بیگم سمیت سب گھر والے میری اس عادت سے تنگ ہیں۔ رات کو سوتے وقت کتاب پڑھتا ہوں۔ بیٹا موبائل فون پر مصروف ہوتا ہے۔ اہلیہ آئی پیڈ پر ڈرامہ دیکتھی ہے اور مَیں رات کو جب بستر پر نیم دراز ہوتا ہوں تو سوچتا ہوں میرے دور کی نئی نسل کتنی بدقسمت ہے جنھیں یہ معلوم ہی نہیں کہ میرؔ، اقبالؔ، فیضؔ، فرازؔ، اشفاق احمد، مشتاق احمد یوسفی، ن م راشدؔ، مجیدؔ امجد، بانو قدسیہ، قرۃ العین حیدر، احمد مشتاق، عطاء الحق قاسمی، منیرؔ نیازی، جون ایلیا، انور مسعود، تارڑ، مختار مسعود اور احمد ندیمؔ قاسمی سمیت درجنوں لکھنے والوں نے کتنی نسلوں کو متاثر کیا۔
یہ علم کا سودا، یہ کتابیں یہ رسالے
اِک شخص کی یادوں کو بھلانے کے لیے ہے
مَیں نے کہا آپ نے جو کام چھوڑا تھا ہم اُسی کام سے اِک شخص کی یادوں کو زندہ رکھے ہوئے ہیں۔ احمد فرازؔ نے بھی تو انھی لمحوں کے لیے کہا تھا:
وہ جو سرگشتہ سے پھرتے ہیں کتابوں والے
ان سے مَت مِل انھیں روگ ہیں خوابوں والے
شعیب بن عزیز سے مختصر سی ملاقات نے کتابوں کے حوالے سے بہت سی یادوں کو تازہ کر دیا۔ رہی سہی کسر برادرم خالد مسعود خان کے کتابوں والے کالم نے پوری کر دی۔ جس میں کتابوں کے حوالے سے اپنی بچپن کی کہانیوں کو اس طرح یاد کیا کہ مجھے یوں محسوس ہوا وہ اپنی نہیں بلکہ میری کہانیوں کو تازہ کر رہے ہیں۔کتابوں سے عشق نے مجھے کہیں کا نہ چھوڑا۔ اس عشق نے ہمیں کسی اور سے عشق نہ کرنے دیا۔ جب کہیں اچھا شعر، اچھی غزل اور خوبصورت نثر پڑھی ہم لکھنے والے کے عشق میں مبتلا ہو گئے۔ اس عشق کا آغاز سب پڑھنے والوں کی طرح بچوں کی کہانیاں اور رسائل خریدنے سے ہوا۔ سال میں جب بھی کبھی لاہور، راولپنڈی اور فیصل آباد (میری ماں جی آج بھی اسے لائل پور کہتی ہیں) جانا ہوتا تو جیب میں اتنے پیسے نہ ہوتے کہ نئی کتابیں خرید سکتا۔ پرانی کتابوں کی دکانوں کو تلاش کرتا اور کم پیسوں میں زیادہ کتب لے کر آ جاتا۔کتابوں سے محبت کا یہ سفر آج بھی جاری ہے۔ چند ماہ پہلے کی بات ہے کہ فیس بک پر ایک تصویر دیکھی۔ ہاتھ دل پر چلا گیا۔
وہ تصویر مال روڈ لاہور کے فیروز سنز کی تھی جس پر ایک بینر لکھا تھا ''کرایہ کے لیے خالی ہے''۔مَیں نے اُردو بازار لاہور رابطہ کیا تو معلوم ہوا واقعی فیروز سنز مال روڈ لاہور ختم ہو چکا تھا۔ میری لاہور میں پسندیدہ جگہ پر اب کیا کھل چکا ہے یہ دیکھنے کی آج تک ہمت نہیں ہوئی۔ اس کے علاوہ کتابوں کے حوالے ملتان کینٹ کے وقار میں اضافہ کرنے والی دکان 'کاروان بک سینٹر' بھی ایک کھلونوں کی دکان میں تبدیل ہو چکی ہے۔ محمد عمر خان (اﷲ تعالیٰ انھیں صحت والی زندگی عطا کرے) نے یہ دکان کھول کر نہ صرف اہلِ ملتان کو جنرل کتب پڑھنے کے لیے دیں بلکہ انھوں نے ملتان کے اہلِ قلم کی تحقیقات کو خوبصورت و معیاری انداز میں شایع کر کے پوری دنیا سے متعارف کرایا۔میرے دیکھتے دیکھتے میری یہ دونوں محبتیں تبدیل ہوگئیں۔ اسی خوف سے ہم نے تمام زندگی کسی سے محبت نہ کی کہ محبت سے زیادہ بے وفا کوئی چیز نہ ہے۔ وہ جو ہم نے کالم کے آغاز میں لکھا تھا احمد فرازؔ کا شعر اس نے بھی ہمیں تمام زندگی کسی کے قریب نہ ہونے دیا۔
بات ہو رہی تھی کتابوں کی دکانوں کے بند ہونے کی۔ یہ کام سب سے پہلے کراچی میں شروع ہوا۔ پھر یہ وبا پھیلتے ہوئے پورے ملک میں آ گئی۔ اب تازہ ترین صورت حال یہ ہے کہ ہر شہر میں راتوں رات شاپنگ مال بنتے ہیں۔ پہلے نمبر پر فوڈ چین۔ دوسرے نمبر پر گارمنٹس کے برانڈز، تیسرے نمبر پر شوز کی دکانیں جب کہ کتابوں کا نام و نشان کہیں پر نہ ہے۔ مَیں سوچتا ہوں کہ جب مَیں نے کالج میں داخلہ لیا تو کلاس سے فارغ ہو کر سیدھا لائبریری کا رُخ کرتا تھا۔ پروین شاکر کی خوشبو، ممتاز مفتی کی لبیک، شفیق الرحمٰن کی حماقتیں اور مختار مسعود کی آواز دوست تو مَیں نے کالج کی لائبریری میں بیٹھ کر پڑھیں۔ آج جب مَیں اپنے بچوں کو دیکھتا ہوں تو افسوس ہوتا ہے کہ ان میں کوئی بھی کتابوں کو ہاتھ نہیں لگاتا۔ صبح جب گھر میں اخبارات آتے ہیں ان کو صرف مَیں ہی پڑھتا ہوں۔ میری ذاتی لائبریری کی جتنی کتابیں ہیں میرے گھر میں صرف وہی میری زبان جانتی ہیں۔ میری آنکھیں پہچانتی ہیں۔ میرے ہاتھ جب ان سے مٹی جھاڑتے ہیں تو وہ کتابیں بولتی ہیں، چمک اٹھتی ہیں، خوش ہوتی ہیں۔ مَیں ان کو اپنے بیڈ روم میں لاتا ہوں جہاں میری اہلیہ ان کو دیکھ کر بھڑک اٹھتی ہے اور کہہ اٹھتی ہے ''میرے کمرے میں کتابوں کے سوا کچھ بھی نہیں۔''مَیں اسے جواب دیتا ہوں کہ یہ کتابیں میری زندگی ہیں۔ میری آتی جاتی سانسیں ہیں۔ ان کو دیکھ کر مَیں جی اٹھتا ہوں اسی لیے تو میرے پسندیدہ شاعر جو ایلیا نے کہا تھا:
تم جب آؤ گی تو کھویا ہوا پاؤ گی مجھے
میری تنہائی میں خوابوں کے سوا کچھ بھی نہیں
میرے کمرے کو سجانے کی تمنا ہے تمہیں
میرے کمرے میں کتابوں کے سوا کچھ بھی نہیں
اِن کتابوں نے بڑا ظلم کیا ہے مجھ پر
اِن میں اِک رمز ہے جس رمز کا مارا ہوا ذہن
مژدۂ عشرتِ انجام نہیں پا سکتا
زندگی میں کبھی آرام نہیں پا سکتا
بقول جون ایلیا ''زندگی میں کبھی آرام نہیں پا سکتا''۔ میرا تو اب جینا مرنا انھی کتابوں میں ہے۔ دکھی ہوتا ہوں تو مشتاق یوسفی کی کتب میرے سرہانے ہوتی ہیں۔ شاعری کے لیے احمد فرازؔ کے آٹوگراف والی کتابیں زیست کا سفر آسان کرتی ہیں۔ بانو قدسیہ اور اشفاق احمد کی اپنی کتابوں کے تحفے تو میری زندگی کا قیمتی اثاثہ ہیں۔
محترم رضا علی عابدی کے لکھے لفظ مجھے مزید جینے پر مجبور کرتے ہیں۔ جناب مستنصر حسین تارڑ ہوں یا ممتاز مفتی، قرۃ العین حیدر کی نثر نے مجھے کہیں اور جانے نہ دیا۔ یہ لوگ ایسے لکھنے والے ہیں جنہوں نے اپنے لفظوں سے مجھے مسخر کیا۔ امجد اسلام امجدؔ سے لے کر مجیدؔ امجد، ن۔م راشدؔ، فیضؔ، افتخار عارف اور منیرؔ نیازی۔ یہ سب ہی میری زندگی میں آسانیوں کے سبب ہیں۔ ان سمیت سیکڑوں لکھنے والوں کی ہزاروں کتب کا مَیں مالک ہوں۔ اس ملکیت کے کہیں کھو جانے کا خوف بھی نہیں کیونکہ اپنے گھر میں اکیلا ہوں۔ جو اِن کتابوں سے باتیں کرتا ہوں۔ ان میں شایع ہونیوالے لفظوں کو دیکھ کر میری آنکھیں سکون محسوس کرتی ہیں۔ کتابوں کے کاغذ کی خوشبو کی وجہ سے مَیں کوئی پرفیوم استعمال نہیں کرتا۔ بیگم سمیت سب گھر والے میری اس عادت سے تنگ ہیں۔ رات کو سوتے وقت کتاب پڑھتا ہوں۔ بیٹا موبائل فون پر مصروف ہوتا ہے۔ اہلیہ آئی پیڈ پر ڈرامہ دیکتھی ہے اور مَیں رات کو جب بستر پر نیم دراز ہوتا ہوں تو سوچتا ہوں میرے دور کی نئی نسل کتنی بدقسمت ہے جنھیں یہ معلوم ہی نہیں کہ میرؔ، اقبالؔ، فیضؔ، فرازؔ، اشفاق احمد، مشتاق احمد یوسفی، ن م راشدؔ، مجیدؔ امجد، بانو قدسیہ، قرۃ العین حیدر، احمد مشتاق، عطاء الحق قاسمی، منیرؔ نیازی، جون ایلیا، انور مسعود، تارڑ، مختار مسعود اور احمد ندیمؔ قاسمی سمیت درجنوں لکھنے والوں نے کتنی نسلوں کو متاثر کیا۔