حملے کا خطرہ تھانوں کی چھت پر مورچے اور کیمرے لگانے کا فیصلہ
دہشت گردوں نے ہدف کے حصول سے پہلے قانون نافذ کرنیوالے اداروںکی توجہ ہٹانے کیلیے افسران پر حملوں کی منصوبہ بندی کی ہے
دہشت گردوں اور کالعدم تنظیموں نے اپنے ہدف سے پہلے قانون نافذ کرنے والے اداروںکی توجہ ہٹانے کے لیے پولیس اسٹیشن ، رینجرز ہیڈ کوارٹرز ، حساس اداروں کے دفاتر اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے افسران پر حملوں کی منصوبہ بندی کی ہے۔
سی آئی ڈی کے ایک افسر کو کالعدم تنظیم کے جیل میں قید ایک کمانڈر کی جانب سے دھمکی آمیز خط بھی موصول ہوا ہے ، صورتحال کو دیکھتے ہوئے آئی جی سندھ کی صدارت میں ہنگامی اجلاس طلب کیا گیا جس میں تھانوں کی چھت پر مورچے بنانے اور کلوزسرکٹ کیمرے لگانے کے ساتھ سیکیورٹی سخت کرنے کا فیصلہ کیا گیا، ذرائع کے مطابق کالعدم تحریک طالبان ، کالعدم جیش محمد اور اس کی ذیلی تنظیموں کے کراچی میں موجود کمانڈروں کو قبائلی علاقوں سے ہدایت ملی ہیں کہ وہ فی الحال اپنی تمام مصروفیات ترک کر کے پولیس اسٹیشنوں ، سی آئی ڈی ، ایس آئی یو کے دفتر ، رینجرز ، حساس اداروں کے ہیڈ کوارٹرز اور اعلیٰ پولیس افسران پر حملے کریں۔
اس بات کا انکشاف بدھ کو شاہ فیصل کالونی تھانے پر حملے میں ملوث زخمی حالت میں گرفتار ہونے والے ملزم صابر سے تفتیش کے بعد ہوا ، ذرائع نے بتایا کہ گرفتار ملزم تفتیش کے دوران جس طرح اپنے بیانات تبدیل کر رہا ہے اس کا ذکر کچھ عرصہ قبل محمود آباد کے علاقے سے پولیس کو ملنے والے کالعدم تنظیم کی جانب سے اپنے کارندوں کی رہنمائی کے لیے جاری کیے جانے والے ایک خط میں درج تھا ،ذرائع نے بتایا کہ سی آئی ڈی کے ایس ایس پی فیاض خان نے 2008 میں کالعدم لشکر جھنگوی کے ایک کمانڈر رحیم اﷲ کو گرفتار کیا تھا جس نے سی آئی ڈی کاؤنٹر ٹریرازم اینڈ فنانشل کے ایس پی راجہ عمر خطاب پر صدر پولیس لائن میں ان کے گھر کے باہر بم سے حملہ کیا تھا۔
سینٹرل جیل میں قید رحیم اﷲ کو قبائلی علاقے سے جیل میں ہدایت مل رہی ہیں اور وہ وہاں سے بیٹھ کر اپنا پورا نیٹ ورک چلارہا ہے جبکہ سینٹرل جیل میں قید کالعدم لشکر جھنگوی کا ایک کمانڈر سالار اور دیگر کارکن جس میں وسیم ، شہاب ، علی حسن ، حیدر اور دیگر رحیم اﷲ کی معاونت کررہے ہیں ، ذرائع نے بتایا کہ قانون نافذ کرنے والے ادارے کالعدم تنظیم کے سینٹرل جیل کے نیٹ ورک کو تاحال ختم نہیں کر پائے ہیں ، ذرائع نے بتایا کہ وفاقی انٹیلی جنس ادارے نے ڈی آئی جی ساؤتھ شاہد حیات کو ایک لیٹر دیا ہے جس میں بتایا گیا ہے کہ ایس ایس پی راجہ عمر خطاب اور ایس ایس پی چوہدری محمد اسلم خان اور ان کے اہلخانہ کی ریکی مکمل کر لی گئی اور کسی وقت بھی ان پر ان کے دفتر ، گھر یا کسی بھی مقام پر حملہ کیا جا سکتا ہے۔
انھوں نے بتایا کہ مذکورہ دھمکی آمیز لیٹر نمبر 545 ڈی آئی جی ساؤتھ شاہد حیات نے مذکورہ دونوں پولیس افسران کو بھی بھیجا ہے تاکہ وہ اپنی نقل و حرکت محدود کردیں، آئی جی سندھ فیاض احمد لغاری نے ہنگامی اجلاس طلب کرلیا اور تمام حالات کا جائزہ لینے کے بعد فیصلہ کیا گیا کہ شہر کے تمام تھانوں کی چھتوں پر مورچے قائم کیے جائیں،تھانوں کے اطراف میں کلوز سرکٹ کیمرے نصب کیے جائیں ، اجلاس میں پولیس افسران کو ہدایت دی گئیں کہ وہ اپنی نقل و حرکت محدود کر دیں جبکہ رہائش بھی خفیہ رکھیں ، آنے جانے کے راستے تبدیل کرتے رہیں ، آئی جی سندھ نے تمام ڈی آئی جیز ، ایس ایس پیز کو ہدایت دیں ہیں کہ وہ تمام پولیس افسران و اہلکاروں کو پابند کریں کہ یونیفارم پہن کر اکیلا افسر یا اہلکار کہیں نہیں جائے گا ، اکیلے جانے والا افسر بغیر یونیفارم میں جائے گا ۔
سی آئی ڈی کے ایک افسر کو کالعدم تنظیم کے جیل میں قید ایک کمانڈر کی جانب سے دھمکی آمیز خط بھی موصول ہوا ہے ، صورتحال کو دیکھتے ہوئے آئی جی سندھ کی صدارت میں ہنگامی اجلاس طلب کیا گیا جس میں تھانوں کی چھت پر مورچے بنانے اور کلوزسرکٹ کیمرے لگانے کے ساتھ سیکیورٹی سخت کرنے کا فیصلہ کیا گیا، ذرائع کے مطابق کالعدم تحریک طالبان ، کالعدم جیش محمد اور اس کی ذیلی تنظیموں کے کراچی میں موجود کمانڈروں کو قبائلی علاقوں سے ہدایت ملی ہیں کہ وہ فی الحال اپنی تمام مصروفیات ترک کر کے پولیس اسٹیشنوں ، سی آئی ڈی ، ایس آئی یو کے دفتر ، رینجرز ، حساس اداروں کے ہیڈ کوارٹرز اور اعلیٰ پولیس افسران پر حملے کریں۔
اس بات کا انکشاف بدھ کو شاہ فیصل کالونی تھانے پر حملے میں ملوث زخمی حالت میں گرفتار ہونے والے ملزم صابر سے تفتیش کے بعد ہوا ، ذرائع نے بتایا کہ گرفتار ملزم تفتیش کے دوران جس طرح اپنے بیانات تبدیل کر رہا ہے اس کا ذکر کچھ عرصہ قبل محمود آباد کے علاقے سے پولیس کو ملنے والے کالعدم تنظیم کی جانب سے اپنے کارندوں کی رہنمائی کے لیے جاری کیے جانے والے ایک خط میں درج تھا ،ذرائع نے بتایا کہ سی آئی ڈی کے ایس ایس پی فیاض خان نے 2008 میں کالعدم لشکر جھنگوی کے ایک کمانڈر رحیم اﷲ کو گرفتار کیا تھا جس نے سی آئی ڈی کاؤنٹر ٹریرازم اینڈ فنانشل کے ایس پی راجہ عمر خطاب پر صدر پولیس لائن میں ان کے گھر کے باہر بم سے حملہ کیا تھا۔
سینٹرل جیل میں قید رحیم اﷲ کو قبائلی علاقے سے جیل میں ہدایت مل رہی ہیں اور وہ وہاں سے بیٹھ کر اپنا پورا نیٹ ورک چلارہا ہے جبکہ سینٹرل جیل میں قید کالعدم لشکر جھنگوی کا ایک کمانڈر سالار اور دیگر کارکن جس میں وسیم ، شہاب ، علی حسن ، حیدر اور دیگر رحیم اﷲ کی معاونت کررہے ہیں ، ذرائع نے بتایا کہ قانون نافذ کرنے والے ادارے کالعدم تنظیم کے سینٹرل جیل کے نیٹ ورک کو تاحال ختم نہیں کر پائے ہیں ، ذرائع نے بتایا کہ وفاقی انٹیلی جنس ادارے نے ڈی آئی جی ساؤتھ شاہد حیات کو ایک لیٹر دیا ہے جس میں بتایا گیا ہے کہ ایس ایس پی راجہ عمر خطاب اور ایس ایس پی چوہدری محمد اسلم خان اور ان کے اہلخانہ کی ریکی مکمل کر لی گئی اور کسی وقت بھی ان پر ان کے دفتر ، گھر یا کسی بھی مقام پر حملہ کیا جا سکتا ہے۔
انھوں نے بتایا کہ مذکورہ دھمکی آمیز لیٹر نمبر 545 ڈی آئی جی ساؤتھ شاہد حیات نے مذکورہ دونوں پولیس افسران کو بھی بھیجا ہے تاکہ وہ اپنی نقل و حرکت محدود کردیں، آئی جی سندھ فیاض احمد لغاری نے ہنگامی اجلاس طلب کرلیا اور تمام حالات کا جائزہ لینے کے بعد فیصلہ کیا گیا کہ شہر کے تمام تھانوں کی چھتوں پر مورچے قائم کیے جائیں،تھانوں کے اطراف میں کلوز سرکٹ کیمرے نصب کیے جائیں ، اجلاس میں پولیس افسران کو ہدایت دی گئیں کہ وہ اپنی نقل و حرکت محدود کر دیں جبکہ رہائش بھی خفیہ رکھیں ، آنے جانے کے راستے تبدیل کرتے رہیں ، آئی جی سندھ نے تمام ڈی آئی جیز ، ایس ایس پیز کو ہدایت دیں ہیں کہ وہ تمام پولیس افسران و اہلکاروں کو پابند کریں کہ یونیفارم پہن کر اکیلا افسر یا اہلکار کہیں نہیں جائے گا ، اکیلے جانے والا افسر بغیر یونیفارم میں جائے گا ۔