موصل پہ کیا گزری

شہر موصل کے کلچر کو جس انداز میں پیش کیا گیا ہے لگتا ہے کہ یہ شہر 1969ء کے کراچی کی تصویر پیش کر رہا ہے۔

anisbaqar@hotmail.com

عراقی شہر موصل پہ اس دور میں تین سال تک کیا گزری ہوگی جب کہ شہر پر داعش کے جا بجا پرچم لہرا رہے تھے، موت ہر طرف ڈیرہ ڈالے تھی، کسی کو مفر نہ تھی کہ وہ اپنی مرضی کے مطابق کچھ کرسکے۔ لوگوں نے مظالم کی داستانیں پڑھی تو ہیں مگر جدید دور میں آنکھوں سے نہ دیکھیں اور نہ یہ مناظر گزرے۔ جو کہانی ان صفحات پر درج ہے ان میں سے اکثر کا تعلق الجزیرہ چینل پر بیان کردہ واقعات سے ہے اور بقیہ دیگر ذرایع ابلاغ اور منطقی نتائج کے طور پر اخذ کردہ ہیں۔ یہ گرمیوں کا موسم تھا رات کو دور سے شدید گولہ باری کی آوازیں آرہی تھیں۔

ہرگھنٹے کے بعد آواز تیز تر ہوتی جا رہی تھی۔ سورج نکل آیا تو آوازیں قریب تر آچکی تھیں۔ یہ گھن گرج داعش کی بکتر بند گاڑیوں کی گولہ باری کی تھی۔ صبح ہوتے ہی علاقے کو خوف کی خاموشی نے گھیر لیا۔ ہر طرف انسانی آوازکے بجائے اسلحے کی آوازیں تھیں۔ موصل شہر پر داعش کا قبضہ ہوچکا تھا اور ابو بکر البغدادی خلیفۃ المسلمین تھے، جن کا خطاب گولیوں اور تالیوں کی گونج میں جاری تھا۔ اب ہزار سال کے رسم و رواج، رواداری اور مذہبی آزادی مٹنے کو تھی، کیونکہ دیگر شہروں میں جو کچھ ہوا وہی ہونے کو تھا۔ الجزیرہ ٹی وی کے رپورٹر نے شہرکے چیدہ چیدہ لوگوں سے پوچھ کر داستان رقم کی ہے۔

شہر موصل کے کلچر کو جس انداز میں پیش کیا گیا ہے لگتا ہے کہ یہ شہر 1969ء کے کراچی کی تصویر پیش کر رہا ہے۔ جگہ جگہ ادبی ڈیرے،کیفے ٹیریا، مباحثے اور پینٹنگز کے اسکول، مصوری اور ادبی محفلیں، کھیل کے میدان ہر شخص اپنے عقائد اور رسوم میں رہتا تھا۔ مزدور اور طلبا انجمنیں اپنی جگہ۔ آزاد نہ قتل و غارت گری نہ لوٹ مار۔ بڑے مکانات کی باؤنڈری وال بمشکل 5 فٹ 4 فٹ اونچی۔ شاید موصل پرانے کراچی سے بھی زیادہ طرح دار تھا۔ کیونکہ مساجد کے ہزاروں سال پرانے گنبدوں سے آواز اذاں، کرسچن گو کہ کم تھے مگر وہ بھی ادبی، سیاسی آرٹسٹوں کی محفل اور رقص و موسیقی کی محفلوں میں شامل تھے۔

موصل یونیورسٹی ایشیا کی چند اہم یونیورسٹیوں میں سے ایک تھی جہاں پر ایسی کتب موجود تھیں اور قلمی نسخے تھے وہ قابل دید تھے اور نایاب اور قدیم قرآن پاک کے نسخے تھے۔ یہ باتیں الجزیرہ ٹی وی کے رکن کو شہر کے ایک نامور آرٹسٹ جو بچ گئے اور یونیورسٹی آف موصل کے ڈین آف آرٹس اور ایک طالب علم عبدالکریم نے بتائیں کہ 50 لاکھ کی آبادی والا شہر کافی عرصے سے افواہوں کی زد پر تھا کہ یہاں داعش کا حملہ جلد ممکن ہے تو رفتہ رفتہ یہاں سے آبادی کا انخلا جاری تھا۔ بالآخر ایسا وقت آیا کہ جب موصل شہر میں داعش کی افواج داخل ہوئیں تو یہاں کی آبادی 30 لاکھ کے لگ بھگ رہ گئی تھی۔

داعش کی نظر میں دو قسم کے افراد قابل گردن زدنی تھے، اول جو آزاد خیال مذہبی آزادی اور ہر مذہب کے لیے یکساں مواقعے کی جو لوگ آرا رکھتے تھے اور دوسرے شوبز آرٹسٹ، مجسمہ ساز آرٹس اور کلچر کے جو لوگ شایقین تھے تو پہلے انھی لوگوں کو چن چن کر قتل کیا گیا۔

داعش کے سورماؤں نے شہر کے مرکز میں جو لٹریچر آرٹس سائنس اور مذہبی کتب کی نجف مارکیٹ تھی جہاں لاکھوں درسی اور نایاب کتابیں تھیں ان کو آگ لگا دی گئی جہاں سے کئی روز دھوئیں کے بادل اُٹھتے رہے۔ مالی نقصان تو ہوا ہی مگر جانی نقصان جاری رہا۔ اس عمل سے خوف اور ہراس میں اضافہ ہوتا گیا۔ پھر محلے محلے، قریہ قریہ جلاد صفت لوگ گلی کوچوں میں لوگوں کی ذاتی لائبریروں میں بھی آگ لگاتے رہے۔


کلچرل سینٹروں کو، ٹی وی کی دکانوں کو آگ لگانا تو کارِ ثواب تھا۔ ایسے مالوں کو لوٹنا، سر بازار جمع کرکے آگ لگانا ان کا شیوہ تھا۔ اور جوں جوں ان لوگوں کی کامیابیوں کی خبریں شہر میں آتی رہیں لوگوں کے دل اور دماغ مجروح ہوتے رہے۔ ان جگہوں کو تاراج کرنے کے بعد ان لوگوں نے اسلام کے روحانی مراکز پر بھی دھاوا بولا مثلاً وہ روحانی مراکز جہاں قوالی، منقبت اور دیگر محفلیں منعقد ہوا کرتی تھیں ان کو بھی تہہ تیغ کیا جاتا رہا۔ تین برس کا یہ طویل عرصہ نت نئے فساد میں گزرتا رہا۔ شاید ہی کوئی گھر ایسا ہو جہاں کے مرد مارے نہ گئے ہوں باوجود ان تمام احکامات کے بجا لانے پر۔

ایسا لگتا تھا کہ جیسے یہ کوئی چلتی پھرتی جیل ہے جس نے زمین و آسمان کو بھی اپنی تحویل میں لے رکھا ہے۔ اور مغربی دنیا کو سب کچھ معلوم ہونے کے باوجود بھی داعش کو ہم پر نازل کر رکھا ہے کیونکہ عراق کے لوگوں کے کانوں تک یہ آواز پہنچ رہی تھی کہ یہ جلاد جو ہماری تہذیب ادب اور روایات کو قتل کر رہے ہیں ان کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں ہے۔

قابض فوج کے خلاف لوگوں میں مزاحمت کی چنگاری تسلسل سے حرکت میں تھی اور آخر کار ایک سنہری گھڑی آ ہی گئی جب داعش کو ملبے کی شکل میں موصل کی خاک کو چھوڑنا ہی پڑا، شہر کے محب وطن لوگ ایک بار پھر اٹھ کھڑے ہونے کے لیے تیار ہو چلے۔ عبدالکریم اور حسنین جیسے سیکڑوں لوگ موصل کو از سر نو زندہ کرنے کے لیے جمع ہونے لگے۔ ان لوگوں میں موصل یونیورسٹی کے ڈین فیکلٹی آف آرٹس کے سربراہ ہیں جو طلبا کو حرارت بخشنے اور جمع کرنے میں سر فہرست تھے۔

انھوں نے بتایا کہ داعش نے یونیورسٹی لائبریری کو جلایا تو سہی مگر خاصا حصہ کتابوں کا جلنے سے محفوظ رہ گیا تھا۔ مگر دنیا کی نظروں میں داعش پر ضرب لگانے اور پسپا کرنے والا امریکا تھا۔ انھوں نے کہا کہ مارچ 2016ء کو امریکی طیاروں کی زبردست بمباری سے باقی ماندہ لائبریری کا بڑا حصہ ملبے کا ڈھیر بن گیا اور بڑی مقدار میں کتابیں راکھ بن گئیں یہ تھے۔ عوام کے دوست اور دنیا کی نظروں میں انسانی اقدار کے رکھوالے بہرصورت موصل شہر میں اب عوام کا ایک طوفان سا برپا ہے۔ بچے بڑے شہرکی تعمیر میں مصروف نظر آتے ہیں اور دنیا کی نظروں میں داعش کا اصلی رنگ و روپ نمایاں ہوتا جا رہا ہے۔ اس موقعے پر دوست نما دشمن پر یہ مصرعہ صادق آتا ہے کہ:

ہوئے تم دوست جس کے
دشمن اُس کا آسماں کیوں ہو

پہلے صدر بش نے عراق کو بمباری کرکے مسمار کردیا اور بعد میں رہی سہی کسر ٹرمپ نے لوگوں کی نظروں میں مٹی ڈال کر پوری کردی۔ اب پھر کرد علاقے کرکوک کے حصے میں عراقی اور کرد فوجیں آمنے سامنے جمع ہورہی ہیں۔ کیونکہ اس علاقے میں تیل کی تنصیبات ہیں اور کرد عوامی ملیشیا اس پر قبضہ کرنے کے لیے جمع ہو رہی ہے۔ یعنی ایک اور علاقائی جنگ جس میں امریکا علاقے میں کردوں کا ایک ملک بنانا چاہتا تھا۔ ایسے موقعے پر عراق کو چاہیے کہ وہ جنگ سے گریز کرے اور کردوں کو ان کی آبادی کے تناسب سے گفت و شنید کرکے مسئلے کو طے کر لے ورنہ ایک اور جنگ عراق کو مزید خستہ کر دے گی۔

دنیا میں جہاں جہاں بھی امریکی مداخلت رہی ہے وہاں کے عوام اور معیشت میں بھونچال مچا ہے۔ آپ کے سامنے عراق کی کہانی ہے دراصل امریکا پر اسرائیلی دانشوروں کا قبضہ ہے اور وہی امریکا کی سیاسی صورتحال کا تجزیہ کرکے عالمی پالیسی تخلیق کرتے ہیں اور ہماری موجودہ صورتحال داخلی طور پر انتشار کا شکار اور معاشی طور پر قرضوں کا سیلاب ہے۔ اللہ خیر کرے کیونکہ لیڈران اپنی ذات سے مخلص اور ملک کو لوٹنے میں متحد ہیں۔
Load Next Story