اسلام سب سے زیادہ ترقی پسند دین

ہر باشعور شخص یہ کہنے پر مجبور ہے کہ آج کرہ ارض پر معاشی و سماجی مساوات کی اشد ضرورت ہے

najmalam.jafri@gmail.com

انقلاب روس کے سو سال مکمل ہونے پرکئی مضامین اس انقلاب کی کامیابی اوراس کے باعث معاشرتی، سیاسی، سماجی خصوصاً معاشی نظام کے حق میں مختلف توصیفی خیالات پیش کیے گئے، جب کہ مجموعی طور پر یہ سوشلسٹ نظام کم و بیش 75 سال روس کے علاوہ کئی دیگر ممالک میں اپنی پوری آب و تاب سے جلوہ گر رہا۔

اب اس نظام کی شکست و ریخت کو بھی 25 برس ہونے والے ہیں۔ اگرچہ اس نظام کے انہدام کو سرمایہ دارانہ نظام کی پس پردہ سازش قرار دیا جاتا رہا ہے، تو اس سے یہ خیال پیدا ہوتا ہے کہ سرمایہ دارانہ نظام سوشلسٹ نظام سے زیادہ طاقتور اورکامیاب ہے، لیکن دوسری جانب یہ خیال بھی ممکن ہے کہ کوئی بھی غیر حقیقی نظام، نظریہ یا انداز فکر ابدی ثابت ہو ہی نہیں سکتا جلد یا بہ دیر اپنے انجام سے ہمکنار ہوجاتا ہے۔

سرمایہ دارانہ نظام بظاہر فی الحال کامیاب لگتا ہے، مگر اس نظام نے اپنے ہوس زر، ارتکاز دولت، لالچ، خود غرضی و خود فریبی کے باعث کرہ ارض پر بنی نوع انسان کو بے حد اذیت سے دوچارکرکے بدترین طبقاتی تقسیم کے علاوہ اور کیا دیا؟ آج انسانیت سر برہنہ عظمت انسان پر نوحہ کناں نظر آرہی ہے۔

ہر باشعور شخص یہ کہنے پر مجبور ہے کہ آج کرہ ارض پر معاشی و سماجی مساوات کی اشد ضرورت ہے، مگر یہ مساوات بلاتفریق نظام انصاف کیسے ممکن ہے؟ ایک مضمون کا یہ جملہ ''معاشی انصاف کے لیے ہم سوشلسٹ نظام کی طرف دیکھنے پر مجبور ہیں،کیونکہ اس کے سوا اور کوئی راستہ نظر نہیں آرہا'' پڑھ کر افسوس ہوا کہ اسلام کے معاشی (بلکہ پورے معاشرتی) نظام کو نظرانداز کرکے کمیونزم و سوشلزم کے معاشی انصاف کی طرف دیکھنا گویا اسلام کے معاشی نظام سے صرف نظرکرنے کے مترادف ہے۔

اس کی ایک وجہ دراصل یہ غلط فہمی ہے کہ ہم میں سے بیشتر اسلام کو مسلمانوں تک محدود رکھتے یا سمجھتے ہیں، جب کہ اسلام کا دعویٰ ہے کہ دین اسلام تمام بنی نوع انسان کے لیے مکمل ضابطہ حیات ہے۔'' نہ کسی خاص زمانے نہ علاقے، نہ ملک و ملت کے لیے بلکہ ہر دور ہر زمانے کے لیے اور اس کے اصول کسی بھی وقت کسی بھی صورت میں بدلنے یا مٹنے والے نہیں بلکہ کسی رد و بدل کی گنجائش ہی نہیں (یہ صرف دین اسلام ہے جو یہ دعویٰ کرتا ہے) یہ دین مکمل اپنے قیام سے بلا شکست و ریخت قیام قیامت تک رہنے والا ہے۔

صورتحال اب کچھ یہ ہے کہ ہم مذہبی انتہا پسندی میں مبتلا ہوکر اسلام کی اصل صورت معاذ اللہ مسخ کرنے میں یہود و ہنود، نصرانیوں اور دیگر دشمنان اسلام کو پیچھے چھوڑنے میں اپنا کردار بخوبی ادا کر رہے ہیں۔ (اس صورتحال کا وسیع پس منظر ہے) مگر اصل دین برحق اور اس کا مکمل نظام معاشرت کو ازسرنو رائج کرنے کی کوئی معمولی سی بھی کوشش دیکھنے میں نہیں آتی۔

غیر مذہبی عناصر تو اسلام کو کلمہ طیبہ تک محدود سمجھتے ہیں، مگر ہمارے مذہبی اکابرین و رہنما بھی اسلام کے حقیقی نظام کے نفاذ کو اپنی کوتاہ بینی، کم علمی کے باعث چند رسومات اور ذاتی اپروچ کے باعث کچھ قبائلی روایات کو اسلام کہہ کر ان کے نفاذ کی کوشش کرتے رہتے ہیں جن کا اسلامی عدل، مساوات، رواداری، وسعت قلب و نظر سے دور کا بھی واسطہ نہیں ۔ اسلام کے نام پر فقہ اور دیگر مذاہب کے بارے میں تعصب و نفرت کو فروغ دینے کی مذموم کوشش کی جاتی ہے۔


ہمارے مذہبی ٹھیکیدار اسلام کو محدود اور دیگر ادیان عالم کے خلاف خطرہ قرار دے کر اسلام کے پرامن بقائے باہمی (تمام بنی نوع انسان کے درمیان) کے فلسفے کو شدید نقصان پہنچا چکے ہیں۔ سوشلسٹ نظام کے تحت روس کی ترقی نے بھی ہمیں دھوکہ دیا اور سرمایہ دارانہ نظام نے بھی مگر ان دونوں کے تحت دنیا مزید طبقاتی گروہ بندیوں کا شکار ہے۔ اب ہماری آنکھیں کھل جانی چاہئیں کہ بقائے انسانی کا تصور اسلام کے حقیقی نظام معاشرت کے بغیر ناممکن ہے۔

اسلام کو محض اس لیے اختیار کرنا کہ یہ ہمارے آباواجداد کا دین ہے، اس تصور نے بھی ہمیں اسلام کی روح و فلسفے کو سمجھنے سے قاصر رکھا حالانکہ اسلام میں دین کے بارے میں کوئی جبر نہیں بلکہ ہر شخص پر فرض ہے کہ وہ خود دین کو پوری سمجھداری سے اختیار کرے۔

یہی وجہ ہے کہ جدی پشتی مسلمانوں کے مقابلے میں نومسلم جو اپنی رغبت و تحقیق کے باعث اسلام کو دین برحق سمجھ کر اختیار کرتے ہیں وہ زیادہ باعمل، باکردار اور راسخ العقیدہ ہوتے ہیں۔ ورنہ تو کثیر تعداد خود بھی گمراہ اور دوسروں کو بھی مختلف فرقوں کا پیروکار بنانے میں تو کامیاب ہیں مسلمان بنانے میں نہیں۔ بے حد معذرت کے ساتھ اسلام کی خدمت کے نام پر محض اپنے اپنے فرقے کی خدمت کی جا رہی ہے جس میں فکر آخرت کی بجائے فکر دنیا کا پہلو نمایاں ہے۔ اگر خدمت دین کا جذبہ عام ہوتا تو آج ہم 73 فرقوں میں تقسیم ہوکر بطور امت مسلمہ کمزور نہ ہوتے ہم صرف اور صرف مسلمان ہوتے۔

ہمارے مذہبی ٹھیکیداروں نے ہر دنیاوی ترقی کو اسلام کے خلاف قرار دے کر آنے والی نسلوں کو دنیاوی آسودگی، شخصی آزادی اور معاشرتی رواداری کے باعث غیر مسلم معاشروں کا گرویدہ بنادیا تو وہ کبھی کمیونزم، کبھی سوشلزم اور کبھی سرمایہ دارانہ نظام کو اسلام سے بہتر سمجھتے ہوئے اسلامی اقدار اور طرز حیات سے روگردانی کے مرتکب ہوتے ہیں۔ اس غیر ارادی کوشش کے باوجود اسلام میں ایسی کشش ہے کہ یہ نسل مغربی طرز حیات اختیار کرکے بھی خود کو مسلمان ہی کہلانا پسند کرتی ہے۔

اسلام کی حقیقی روح کے مطابق نہ سمجھنے کا منفی پہلو دہشت گردی اور زبردستی اپنے ہاتھوں کو دوسروں پر تھوپنے کی صورت میں سامنے آیا، انتہا پسندی، باہمی منافرت نے جنم لیا کچھ زیادہ عرصہ نہیں ہوا جب لوگوں کو اپنے پڑوسیوں یا حلقہ احباب میں شامل لوگوں کے عقیدے یا مسلک سے کوئی سروکار نہ ہوتا تھا، مگر جوں جوں ہر فرقے نے ڈیڑھ اینٹ کی مسجد بنائی (وہ بھی اپنے فرقے کے فروغ کے لیے ،دنیاوی فوائد کی خاطر) تعصب و انتشار بڑھتا گیا۔ اس انتہا پسندی کے پس پشت اسلام نہیں سیاست تھی، جاگیردارانہ ذہنیت تھی۔

اسلامی سادگی یا رواداری سیاسی اقتدار اور جاگیردارانہ نظام کی موت تھی۔ اس لیے اسلام کے نام پر غیر اسلامی معاشرت خصوصاً معیشت کا فروغ ہوا۔ آج ایوانوں میں ختم نبوتؐ جیسے طے شدہ معاملات کو بلاجواز چھیڑ کر اپنی سیاست چمکائی جا رہی ہے ایک صاحب جن کی معلومات اس قدر ناقص ہیں کہ انھیں یہ تک علم نہیں کہ کون سا قومی فیصلہ کس کے دور میں ہوا۔ کون سا فیصلہ کس سربراہ عدالت نے کیا تھا کس کے دور حکومت میں صحافت پر قدغن لگائی گئی تھی وغیرہ وغیرہ، لیکن وہ رائے زنی کررہے ہیں ۔

آخر میں عرض کرنا ہے کہ پوری دنیا میں بلکہ اسلامی ممالک میں بھی اگر مکمل نظام اسلام رائج نہیں تو اس میں (معاذ اللہ) اسلامی نظام کی خرابی نہیں یہ تو مسلمانوں کے ناقص کردار و اعمال ہیں جو اس دنیا کے بہترین نظام کو نہ سمجھ سکے اور نہ سمجھنے کی کوشش کی۔ کیوں؟

اس کیوں کا جواب بڑا دردناک ہے اس کو تاریخ میں بہت دور تک ڈھونڈنا پڑے گا مگر کوشش سے جواب مل ضرور جائے گا۔ یہ بھی بتاتی چلوں کہ راقم الحروف کے نزدیک اسلام سے زیادہ ترقی پسند، روادار، روشن خیال، غیر متعصب اور بقائے انسانیت کا علم بردار اور کوئی مذہب نہیں لہٰذا بطور اس دین کی پیروکار راقم بھی ترقی پسند، روشن خیال، غیر متعصب اور عظمت انسانیت کی قائل ہے۔ ہاں انسانوں کے تشکیل دیے ہوئے نظام کے بجائے نظام الٰہی پر یقین کامل ہے۔
Load Next Story