پولیس میں اصلاح کی ضرورت
ملک بھرکی پولیس سیاسی ہوچکی ہے اور پولیس کی بھرتی، تربیت اور تقرریوں میں سیاسی عمل دخل بہت زیادہ ہے
عمران خان کے حکومتی صوبے کے پی کے سمیت سندھ اور پنجاب میں پولیس انتہائی اخلاقی گراوٹ کا شکار ہے۔ بلوچستان واحد صوبہ ہے جہاں پولیس کوئٹہ سمیت چند اضلاع تک محدود ہے اور دیہی اور قبائلی علاقوں میں لیویز اور لیویز ہی کے اپنے تھانے ہیں جو کام پولیس ہی کا کرتے ہیں مگر مخصوص قبائلی ماحول اور پسماندہ حالات کے بعد کبھی کبھی لیویز کی کارکردگی جرائم پیشہ عناصر کی گرفتاریوں کے سلسلے میں میڈیا کے ذریعے منظر عام پر آجاتی ہے اور یہ پتا نہیں چلتا کہ لیویز اور پولیس کا رویہ عوام کے ساتھ کیسا ہے۔
بلوچستان کی محدود پولیس اتنی اخلاقی گراوٹ کی شکار نہیں ہے جتنی پنجاب سندھ اور کے پی کے کی پولیس ہے جن کی اخلاقی گراوٹ کی خبریں روزانہ ہی میڈیا پر آتی ہیں اورکبھی کبھی بداخلاق پولیس اہلکاروں کی عارضی معطلی ہوجاتی ہے جو سفارش اور اثرورسوخ سے جلد بحال بھی ہوجاتے ہیں۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ ملک بھرکی پولیس سیاسی ہوچکی ہے اور پولیس کی بھرتی، تربیت اور تقرریوں میں سیاسی عمل دخل بہت زیادہ ہے اورکیوں نہ ہو ہر صوبائی حکومت اس کی ذمے دار ہے جس نے اپنے سیاسی مفاد اور مخالفین کو انتقام کا نشانہ بنانے کے لیے خود پولیس کا استعمال اپنا فرض اولین سمجھ رکھا ہے۔
ملک بھر میں شاذ و نادر ہی پولیس میں بھرتی رشوت کے بغیر مگر سیاسی سفارش پر ضرور ہوتی ہو مگر صوبائی حکومتوں، وزیروں، مشیروں اور حکمران جماعت کے عہدیدار اپنے علاقوں میں پولیس افسروں ہی نہیں عام پولیس اہلکاروں کے تقرر و تبادلوں میں سو فیصد شامل ہیں۔
حال ہی میں کراچی شارع فیصل پر کسی وی آئی پی اسکواڈ کے گزرتے وقت ایک شہری کی گاڑی پولیس اسکواڈ کے قریب آگئی جو غلطی سے ہی قریب آئی ہوگی کیونکہ ہر شریف آدمی پولیس سے دور ہی رہنے میں عافیت سمجھتا ہے اور جان بوجھ کر پولیس اور ان کی گاڑیوں سے دور ہی رہنا چاہتا ہے مگر بدقسمتی سے پولیس اسکواڈ کے قریب جانے کا گناہ کرنے والے شہری کو اپنے نادانستہ گناہ کی سزا بھگتنا پڑی اور پولیس کا خود ساختہ شیر جوان سفاکی سے شہری کے پاس آیا اور گالیوں اور تشدد سے نواز کر چلتا بنا اور متاثرہ شہری پولیس اہلکار کو تو نہ روک سکا مگر اس نے دلیری سے پولیس اہلکاروں کی اخلاقی گراوٹ کی ویڈیو بناکر وائرل کردی اور میڈیا پر پولیس اہلکار کا رویہ اور چہرہ سامنے آجانے پر مذکورہ سپاہی اور پولیس موبائل میں موجود اے ایس آئی کو معطل کردیا گیا وگرنہ ایسے واقعات تو ملک بھر میں روزانہ ہی دیکھنے میں آتے ہیں مگر میڈیا پر پولیس گردی کے مناظر نظر آنے کے بعد اہم معاملات میں ایکشن ہوجاتا ہے غیر اہم نظرانداز کردیے جاتے ہیں۔
موبائل فونز عام ہونے اور میڈیا کے متحرک رہنے کے باوجود شہریوں پر کھلے عام تشدد اور بداخلاقی کے واقعات شہروں میں تو اب چھپے نہیں رہتے اور چھوٹے شہروں اور دیہی علاقوں میں پولیس مکمل بے خوف اور تھانے اور پولیس چوکیاں عقوبت خانے بنی ہوئی ہیں جہاں علاقے کے بااثر افراد ہی پولیس کو روکنے کی طاقت کے حامل ہوتے ہیں۔
سندھ میں وہ آئی جی پولیس ہے جن کے متعلق کہا جاتا ہے کہ وہ جب ایس ایس پی تھے تو بھیس بدل کر اپنے ضلع کے اندر پولیس مظالم اور کارکردگی دیکھنے کے لیے راتوں کو نکلتے تھے مگر ان کا یہ سلسلہ شاید ڈی آئی جی پولیس بننے کے بعد ختم ہوگیا اور آئی جی بننے کے بعد تو وہ کراچی میں بھی بھیس بدل کر کسی تھانے پر نہیں گئے کیونکہ کراچی پولیس اور تھانیداروں کے لیے تو مشہور ہے کہ رات کو نشے میں ٹن ہوکر کسی کا بھی لحاظ نہیں کرتے، اگر کوئی اعلیٰ پولیس افسر بھیس بدل کر تھانے چلا جائے تو ممکن نہیں وہ اپنا تعارف کرائے بغیر خیریت سے واپس آجائے۔ رات کے وقت پولیس موبائلوں میں تاریک راستوں میں چیکنگ کی آڑ میں شکار پھانسنے کے عادی پولیس اہلکار شہریوں کو تو کیا ڈیوٹی سے گھر لوٹنے والے میڈیا والوں کو کارڈ دکھانے کے باوجود نہیں بخشتے اور شہریوں کی تلاشی کی آڑ میں انھیں لوٹ کر بھگا دیتے ہیں۔
رات میں پولیس وردی تو نظر آجاتی ہے مگر لوٹنے اور مارپیٹ کرنے والوں کو خوفزدہ شہری کہاں پہچان سکتے ہیں۔ گلستان جوہر میں لڑکیوں کو زخمی کرنے والے چھلاوے کو تو پولیس پکڑ نہیں سکی مگر اپنی بیٹی کے زخمی ہونے کی ایف آئی آر درج کرانے کے لیے تھانے جانے والے باپ کو پولیس نے تھانے میں بٹھا لیا کہ تم نے ہی اپنی بیٹی کو چاقو مارا ہے۔ خاتون بے گناہ باپ کو پکڑنے کی بجائے ملزم پکڑنے کا کہتی رہی مگر پولیس کہاں ماننے والی کہ شاید اسے یہی سکھایا گیا ہے کہ پہلے فریاد کے لیے آنے والے ہی کو ملزم بنادو وہ خود ہی مقدمہ درج کرائے بغیر رشوت دے کر بھاگ جانے میں عافیت سمجھے گا اور پولیس کے خراب ریکارڈ میں اضافہ نہیں ہوگا کیونکہ چوری، ڈکیتی اور رہزنی کے درج ہونے والے مقدمات تھانے کی بدنامی کا باعث بنتے ہیں اور پولیس جرائم کا اندراج نہ کرکے جان چھڑاتی ہے۔
انگریزوں نے سو سال پہلے جب وہ حکمران تھے فیصلہ کیا تھا کہ کوئی سرکاری ملازم اپنے باس کو تو سر کہہ کر نہیں پکارے گا البتہ وہ ہر شہری کو سر کہہ کر مخاطب کرنے کا پابند ہوگا اور اس حکم پر سختی سے عمل بھی کرایا جاتا تھا ۔
پاکستان میں پولیس اہلکاروں اور پولیس افسروں کی تربیت کے لیے مختلف شہروں میں ٹریننگ سینٹر ہیں جہاں افسروں اور اہلکاروں کی تربیت کا پیمانہ مختلف ہے۔ بھرتی کے بعد عام پولیس اہلکاروں کو ابتدائی ٹریننگ کے لیے جن سینٹروں میں بھیجا جاتا ہے وہاں سربراہ تو ایس ایس پی ہوتا ہے مگر ٹریننگ دینے والے انسپکٹر اور سب انسپکٹر سطح کے انسٹرکٹر ہوتے ہیں جہاں نئے آنے والوں کی تحقیر اور رشوت خوری تربیت کا ابتدائی جز ہے۔
اہلکاروں کو اوئے، اڑے سے مخاطب کرنا اور گالیاں دینا عام بات ہے جہاں رشوت دینے والوں سے سخت تربیت نہیں لی جاتی اور چھٹیاں بھی آسانی سے مل جاتی ہیں۔ تحقیر کے ماحول میں تربیت لے کر جب وہ پولیس کی عملی زندگی میں پولیس لائنوں اور تھانوں پر تعینات کیے جاتے ہیں تو وردی پہنتے ہی ان میں رعونت آجاتی ہے اور وہ خود کو عوام کا خادم نہیں بلکہ عوام کا حاکم سمجھنے لگتے ہیں۔ ان کی تربیت ہی میں سفاکی، عوام کی توہین، انا شکنی اور عزت نفس مجروح کرنا شامل ہوجاتا ہے اور وہ ٹریننگ سینٹروں میں اپنے ساتھ پیش آنے والے واقعات کا بدلہ لینا شروع کردیتے ہیں۔
کراچی میں سیاسی بنیاد پر جتنے بھی آپریشن کیے گئے وہ رشوت بٹورو، مظالم ڈھاؤ اور رشوت نہ دینے والوں کو ماورائے عدالت قتل کے لیے تھے جن میں حقیقی ملزم کم اور بے گناہ ہمیشہ زیادہ پکڑے گئے جس کے نتیجے میں پولیس افسران اربوں پتی اور نچلے درجے کے اہلکار کروڑ پتی بن گئے ۔ بے گناہوں پر تشدد سے ہی رشوت ملتی تھی اور نہ دینے والے تشدد کے نتیجے میں جان سے جاتے تھے جس کا بدلہ بھی مظالم میں بدنام افسروں سے لیا گیا اور وہ بھی قتل ہوئے۔
سندھ پولیس خصوصاً کراچی پولیس میں کمیونٹی پولیس کا تصور ہی نہیں تھا اور دوران آپریشن جو پولیس تھانوں میں چھپنے پر مجبور ہوگئی تھی اس پولیس کا تباہ شدہ مورال بلند کرنے کا کریڈٹ ایک سابق آئی جی پولیس سندھ رانا مقبول کو جاتا ہے جنھوں نے کمیونٹی پولیسنگ شروع کرائی تھی اور پولیس کو سختی سے ہدایت تھی کہ روکتے وقت اہلکار ہر شہری کو سلام کریں اور شہریوں کی ایمرجنسی کی صورت میں ہر ممکن مدد کریں۔
پولیس میں موجود شہریوں کی بے عزتی، تحقیرو توہین کی سوچ نے پولیس اور شہریوں کے درمیان جو خلیج پیدا کر رکھی ہے اسی وجہ سے پولیس اخلاقی تنزلی کا شکار ہے جس کے سدباب کے لیے ان کی ازسر نو تربیت سے ہی صورتحال میں بہتری لائی جاسکتی ہے۔
بلوچستان کی محدود پولیس اتنی اخلاقی گراوٹ کی شکار نہیں ہے جتنی پنجاب سندھ اور کے پی کے کی پولیس ہے جن کی اخلاقی گراوٹ کی خبریں روزانہ ہی میڈیا پر آتی ہیں اورکبھی کبھی بداخلاق پولیس اہلکاروں کی عارضی معطلی ہوجاتی ہے جو سفارش اور اثرورسوخ سے جلد بحال بھی ہوجاتے ہیں۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ ملک بھرکی پولیس سیاسی ہوچکی ہے اور پولیس کی بھرتی، تربیت اور تقرریوں میں سیاسی عمل دخل بہت زیادہ ہے اورکیوں نہ ہو ہر صوبائی حکومت اس کی ذمے دار ہے جس نے اپنے سیاسی مفاد اور مخالفین کو انتقام کا نشانہ بنانے کے لیے خود پولیس کا استعمال اپنا فرض اولین سمجھ رکھا ہے۔
ملک بھر میں شاذ و نادر ہی پولیس میں بھرتی رشوت کے بغیر مگر سیاسی سفارش پر ضرور ہوتی ہو مگر صوبائی حکومتوں، وزیروں، مشیروں اور حکمران جماعت کے عہدیدار اپنے علاقوں میں پولیس افسروں ہی نہیں عام پولیس اہلکاروں کے تقرر و تبادلوں میں سو فیصد شامل ہیں۔
حال ہی میں کراچی شارع فیصل پر کسی وی آئی پی اسکواڈ کے گزرتے وقت ایک شہری کی گاڑی پولیس اسکواڈ کے قریب آگئی جو غلطی سے ہی قریب آئی ہوگی کیونکہ ہر شریف آدمی پولیس سے دور ہی رہنے میں عافیت سمجھتا ہے اور جان بوجھ کر پولیس اور ان کی گاڑیوں سے دور ہی رہنا چاہتا ہے مگر بدقسمتی سے پولیس اسکواڈ کے قریب جانے کا گناہ کرنے والے شہری کو اپنے نادانستہ گناہ کی سزا بھگتنا پڑی اور پولیس کا خود ساختہ شیر جوان سفاکی سے شہری کے پاس آیا اور گالیوں اور تشدد سے نواز کر چلتا بنا اور متاثرہ شہری پولیس اہلکار کو تو نہ روک سکا مگر اس نے دلیری سے پولیس اہلکاروں کی اخلاقی گراوٹ کی ویڈیو بناکر وائرل کردی اور میڈیا پر پولیس اہلکار کا رویہ اور چہرہ سامنے آجانے پر مذکورہ سپاہی اور پولیس موبائل میں موجود اے ایس آئی کو معطل کردیا گیا وگرنہ ایسے واقعات تو ملک بھر میں روزانہ ہی دیکھنے میں آتے ہیں مگر میڈیا پر پولیس گردی کے مناظر نظر آنے کے بعد اہم معاملات میں ایکشن ہوجاتا ہے غیر اہم نظرانداز کردیے جاتے ہیں۔
موبائل فونز عام ہونے اور میڈیا کے متحرک رہنے کے باوجود شہریوں پر کھلے عام تشدد اور بداخلاقی کے واقعات شہروں میں تو اب چھپے نہیں رہتے اور چھوٹے شہروں اور دیہی علاقوں میں پولیس مکمل بے خوف اور تھانے اور پولیس چوکیاں عقوبت خانے بنی ہوئی ہیں جہاں علاقے کے بااثر افراد ہی پولیس کو روکنے کی طاقت کے حامل ہوتے ہیں۔
سندھ میں وہ آئی جی پولیس ہے جن کے متعلق کہا جاتا ہے کہ وہ جب ایس ایس پی تھے تو بھیس بدل کر اپنے ضلع کے اندر پولیس مظالم اور کارکردگی دیکھنے کے لیے راتوں کو نکلتے تھے مگر ان کا یہ سلسلہ شاید ڈی آئی جی پولیس بننے کے بعد ختم ہوگیا اور آئی جی بننے کے بعد تو وہ کراچی میں بھی بھیس بدل کر کسی تھانے پر نہیں گئے کیونکہ کراچی پولیس اور تھانیداروں کے لیے تو مشہور ہے کہ رات کو نشے میں ٹن ہوکر کسی کا بھی لحاظ نہیں کرتے، اگر کوئی اعلیٰ پولیس افسر بھیس بدل کر تھانے چلا جائے تو ممکن نہیں وہ اپنا تعارف کرائے بغیر خیریت سے واپس آجائے۔ رات کے وقت پولیس موبائلوں میں تاریک راستوں میں چیکنگ کی آڑ میں شکار پھانسنے کے عادی پولیس اہلکار شہریوں کو تو کیا ڈیوٹی سے گھر لوٹنے والے میڈیا والوں کو کارڈ دکھانے کے باوجود نہیں بخشتے اور شہریوں کی تلاشی کی آڑ میں انھیں لوٹ کر بھگا دیتے ہیں۔
رات میں پولیس وردی تو نظر آجاتی ہے مگر لوٹنے اور مارپیٹ کرنے والوں کو خوفزدہ شہری کہاں پہچان سکتے ہیں۔ گلستان جوہر میں لڑکیوں کو زخمی کرنے والے چھلاوے کو تو پولیس پکڑ نہیں سکی مگر اپنی بیٹی کے زخمی ہونے کی ایف آئی آر درج کرانے کے لیے تھانے جانے والے باپ کو پولیس نے تھانے میں بٹھا لیا کہ تم نے ہی اپنی بیٹی کو چاقو مارا ہے۔ خاتون بے گناہ باپ کو پکڑنے کی بجائے ملزم پکڑنے کا کہتی رہی مگر پولیس کہاں ماننے والی کہ شاید اسے یہی سکھایا گیا ہے کہ پہلے فریاد کے لیے آنے والے ہی کو ملزم بنادو وہ خود ہی مقدمہ درج کرائے بغیر رشوت دے کر بھاگ جانے میں عافیت سمجھے گا اور پولیس کے خراب ریکارڈ میں اضافہ نہیں ہوگا کیونکہ چوری، ڈکیتی اور رہزنی کے درج ہونے والے مقدمات تھانے کی بدنامی کا باعث بنتے ہیں اور پولیس جرائم کا اندراج نہ کرکے جان چھڑاتی ہے۔
انگریزوں نے سو سال پہلے جب وہ حکمران تھے فیصلہ کیا تھا کہ کوئی سرکاری ملازم اپنے باس کو تو سر کہہ کر نہیں پکارے گا البتہ وہ ہر شہری کو سر کہہ کر مخاطب کرنے کا پابند ہوگا اور اس حکم پر سختی سے عمل بھی کرایا جاتا تھا ۔
پاکستان میں پولیس اہلکاروں اور پولیس افسروں کی تربیت کے لیے مختلف شہروں میں ٹریننگ سینٹر ہیں جہاں افسروں اور اہلکاروں کی تربیت کا پیمانہ مختلف ہے۔ بھرتی کے بعد عام پولیس اہلکاروں کو ابتدائی ٹریننگ کے لیے جن سینٹروں میں بھیجا جاتا ہے وہاں سربراہ تو ایس ایس پی ہوتا ہے مگر ٹریننگ دینے والے انسپکٹر اور سب انسپکٹر سطح کے انسٹرکٹر ہوتے ہیں جہاں نئے آنے والوں کی تحقیر اور رشوت خوری تربیت کا ابتدائی جز ہے۔
اہلکاروں کو اوئے، اڑے سے مخاطب کرنا اور گالیاں دینا عام بات ہے جہاں رشوت دینے والوں سے سخت تربیت نہیں لی جاتی اور چھٹیاں بھی آسانی سے مل جاتی ہیں۔ تحقیر کے ماحول میں تربیت لے کر جب وہ پولیس کی عملی زندگی میں پولیس لائنوں اور تھانوں پر تعینات کیے جاتے ہیں تو وردی پہنتے ہی ان میں رعونت آجاتی ہے اور وہ خود کو عوام کا خادم نہیں بلکہ عوام کا حاکم سمجھنے لگتے ہیں۔ ان کی تربیت ہی میں سفاکی، عوام کی توہین، انا شکنی اور عزت نفس مجروح کرنا شامل ہوجاتا ہے اور وہ ٹریننگ سینٹروں میں اپنے ساتھ پیش آنے والے واقعات کا بدلہ لینا شروع کردیتے ہیں۔
کراچی میں سیاسی بنیاد پر جتنے بھی آپریشن کیے گئے وہ رشوت بٹورو، مظالم ڈھاؤ اور رشوت نہ دینے والوں کو ماورائے عدالت قتل کے لیے تھے جن میں حقیقی ملزم کم اور بے گناہ ہمیشہ زیادہ پکڑے گئے جس کے نتیجے میں پولیس افسران اربوں پتی اور نچلے درجے کے اہلکار کروڑ پتی بن گئے ۔ بے گناہوں پر تشدد سے ہی رشوت ملتی تھی اور نہ دینے والے تشدد کے نتیجے میں جان سے جاتے تھے جس کا بدلہ بھی مظالم میں بدنام افسروں سے لیا گیا اور وہ بھی قتل ہوئے۔
سندھ پولیس خصوصاً کراچی پولیس میں کمیونٹی پولیس کا تصور ہی نہیں تھا اور دوران آپریشن جو پولیس تھانوں میں چھپنے پر مجبور ہوگئی تھی اس پولیس کا تباہ شدہ مورال بلند کرنے کا کریڈٹ ایک سابق آئی جی پولیس سندھ رانا مقبول کو جاتا ہے جنھوں نے کمیونٹی پولیسنگ شروع کرائی تھی اور پولیس کو سختی سے ہدایت تھی کہ روکتے وقت اہلکار ہر شہری کو سلام کریں اور شہریوں کی ایمرجنسی کی صورت میں ہر ممکن مدد کریں۔
پولیس میں موجود شہریوں کی بے عزتی، تحقیرو توہین کی سوچ نے پولیس اور شہریوں کے درمیان جو خلیج پیدا کر رکھی ہے اسی وجہ سے پولیس اخلاقی تنزلی کا شکار ہے جس کے سدباب کے لیے ان کی ازسر نو تربیت سے ہی صورتحال میں بہتری لائی جاسکتی ہے۔