کائنات کے اسرار آخری حصہ
تمام لوگ یہ جانتے ہیں کہ ستارے اور دوسرے تمام فلکیاتی اجسام بے ترتیبی سے خلا میں نہیں پھینک دیے گئے ہیں
فلیگ اسٹاف، ایروزونا کی لاول رصدگاہ کے محقق و سیٹو سلفر نے 1917 میں یہ دریافت کیا کہ اکیسویں پیچ دار نبیولی سے نکلنے والی روشنی طیف کے سرخ سرے کی طرف منتقل ہوگئی ہے اور اس طرح کے انتقال سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ یہ اجسام تین ملین کلومیٹرز فی گھنٹہ کی رفتار سے ہم سے دور بھاگ رہے ہیں۔
ہبل ان دور دراز اور متحرک اجسام میں سیفائیڈ ستاروں کو تلاش کرنے میں کامیاب ہوگیا تھا، اس طرح ان کے فاصلے بھی معلوم کیے جاسکتے تھے۔اس نے یہ معلوم کیا کہ جو جسم جتنے زیادہ فاصلے پر ہوتا ہے اتنی ہی تیز رفتاری سے وہ پیچھے ہٹتا ہے۔ 1929 میں ہبل نے ایک بہت ہی عظیم چیز دریافت کی کہ ہر جسم دوسرے سے پرے ہٹ رہا ہے اور یہ کائنات مسلسل پھیل رہی ہے۔آج ثابت ہوگیا ہے کہ ہبل کے یہ نظریات بالکل درست ہیں۔
تمام لوگ یہ جانتے ہیں کہ ستارے اور دوسرے تمام فلکیاتی اجسام بے ترتیبی سے خلا میں نہیں پھینک دیے گئے ہیں، بلکہ یہ گلیکسیز کی شکل میں ایک دوسرے سے باندھ دیے گئے ہیں اور ان کی تعداد 100000 ملین بلکہ اس سے بھی زیادہ ہے۔ پچھلے چند سالوں میں ہونے والی دریافتوں نے یہ ظاہر کردیا ہے کتنی ہی نئی اور حیران کن دریافتیں تھیں اور اس کائنات کے کتنے ہی معجزات ابھی آنکھوں سے اوجھل ہیں۔سب سے پہلے ہمیں یہ پتا ہونا چاہیے کہ گلیکسی جوکہ خلا کی سیاہیوں میں روشنی کا ذریعہ ہیں، دراصل بہت بڑی حقیقت کا اہم اور نمایاں حصہ ہے۔
کسی بھی گلیکسی کا بہت بڑا حصہ ستاروں اور گرد وغبار کے بادلوں پر مشتمل ہوتا ہے جوکہ ہم کو نظر نہیں آسکتا اور اس کی ساخت بھی ابھی تک نامعلوم ہے۔دوم یہ ہے کہ ہمیں معلوم ہے کہ گلیکسیز کی بہت بڑے بڑے بلبلوں کی سطح پر بھی گروہ بندی کی جاسکتی ہے ہر بلبلہ ایک گول سا حصہ ہے اور اس کا سائزکائنات کے اس سائز سے بڑا ہے جس کے بارے میں ہم کبھی سوچا کرتے تھے۔
ان بلبلوں کا اندرونی حصہ خالی ہے جہاں کسی بھی گلیکسی کا نظر آنا بہت مشکل ہے۔ اس کا کروس سیکشن (CROSS SECTION) بالکل ایسا لگتا ہے جیسے صابن کے چھوٹے سے کروس، جیسے ہی اینڈرومیڈا کہکشاں کے مزید اندر گئے اور ظاہری گلیکسی ڈسک کے پاس سے گزرے جس میں پیچ دار بازو اور پرسکون ستارے مثلاً سورج بھی شامل ہیں۔ پھر خلا نورد مرکزکی طرف بڑھتے ہیں، گلیکسی کا مرکز ان سے چند نوری سال کے فاصلے پر ہے۔
مرکز میں ستارے ایک دوسرے سے صرف چند نوری ہفتوں کے فاصلے پر ہیں۔ کوئی بھی کسی دوربین کے بغیر زمین سے ایک سال میں 6000 ستارے ایک دیکھ سکتا ہے لیکن اگر آپ کسی ایسے سیارے پر ہیں جوکہ ان دروفی ستاروں میں سے کسی ایک کے گرد گردش کر رہا ہو تو آپ آسمان پر ایک ملین ستارے دیکھ سکیں گے اور ان میں سیکڑوں ہزاروں اتنے روشن ہوں گے جتنے کہ زمین پر آتے ہیں اور ایک تاریک رات میں بھی اتنی روشنی مل جائے گی کہ ایک اخبار پڑھا جاسکے۔جو لوگ ستاروں بھرے مرکز پر تحقیق کر رہے ہیں ان میں سے ایک چارلس ٹاؤنز ہیں جوکہ کیلیفورنیا یونیورسٹی برکلے کے پروفیسر ہیں اور 1964 میں (لیزر) اور (میزر) پر تحقیق کے سلسلے میں ان کو نوبل پرائز مل چکا ہے۔
وہ اور ان کے ساتھی ہماری گلیکسی کے مرکز میں موجود مالیکیولی بادلوں سے نکلنے والی تابکار اور انفرا ریڈ شعاعوں پر تحقیق کر رہے ہیں۔ وہ ان حصوں کو خصوصی توجہ دے رہے ہیں جوکہ گرم اور پرشور گیسوں کی موجودگی کی وجہ سے کافی ڈسٹرب ہیں۔ اس عین مرکز میں انھیں ایک قسم کا خلا ملا ہے جس میں کہیں کہیں ستاروں کے درمیان پائی جانیوالی گیسیں موجود ہیں۔ حال ہی میں ایک تحقیق کیمطابق تقریباً 50000 سال قبل گلیکسی کے مرکز میں ایک دھماکہ ہوا تھا جس میں تمام کی تمام گیس باہر نکل گئی تھی جب کہ اس کے پیچھے صرف خلا رہ گیا تھا۔
مرکز کے گرد گیس کے بادلوں کی حرکت سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ وہ کسی بہت بھاری چیز کے گرد گھوم رہے ہیں۔ جوکہ ان ستاروں کے علاوہ ہے جوکہ اس میں موجود ہیں۔ تحقیقات سے سامنے آیا ہے کہ کوئی اتنی بھاری چیز ہے جوکہ سورج سے تقریباً دو یا تین ملین زیادہ بھاری ہے۔
اس بھاری چیز میں سب سے زیادہ امکانات (سیاہ دھبوں) کے ہیں۔ ٹاؤنزکا کہنا ہے کہ گلیکسی کے مرکز میں موجودہ سیاہ دھبے کے بارے میں آلات کی ضرورت ہوگی اور اس کے لیے ہمیں انتظار کرنا پڑے گا۔ اس قسم کا سیاہ دھبہ گیس کے بادلوں کا پتا دیتا ہے۔ اس کا یہ خیال بھی ہے کہ اس سیاہ دھبے کا ہمیں جو بھی بڑے سے بڑا حصہ نظر آتا ہے وہ درحقیقت پوری گلیکسی کے ایک جزو کے برابر ہوتا ہے۔ یہ محض گلیکسی کا ایک جزو ہے اس لیے اس کے ارتقا کو کنٹرول نہیں کرتا۔
یہ عین ممکن ہے کہ یہ سیاہ دھبہ کہکشاں میں اس وقت بنا جب گرد و غبار اور گیس اس کے مرکز میں گرے اور دوسری طرف یہ بھی ممکن ہے کہ دوسری گلیکسیز ہیں یہ گرد و غبار اور گیس آپس میں مل کر سیاہ دھبہ تو نہ بناسکے البتہ مختصر ہوکر ستارے بن گئے ہوں۔ مزید مشاہدات ہی اس مسئلے کو حل کرسکتے ہیں۔ ماہرین فلکیات کا کہنا ہے کہ یہ معلومات دراصل گلیکسیز کے بارے میں ایک طرح کی بنیادی معلومات ہیں۔
کہکشاؤں کی اندرونی ساخت اور اس کے اندرونی اجزا آج تک ایک معمہ ہیں۔ جب ہمیں کہکشاں اس کے سیاہ دھبے اور ہر چیز کے بارے میں سب کچھ اچھی طرح معلوم ہوجائے گا تو دراصل یہ ساری معلومات اتنی زیادہ ہوں گی جیسے پوری کائنات کے راز۔دوسری گلیکسیز پر تحقیقات نے دراصل ہمیں اتنی زیادہ معلومات فراہم کردی ہیں کہ ان کی مدد سے اس کائنات کی ممکنہ ساخت معلوم کی جاسکتی ہے۔
یہ معلوم ہے کہ گلیکسیز اس خلا میں بے ترتیبی سے پھیلی ہوئی نہیں ہیں بلکہ یہ گروپوں کی شکل میں پائی جاتی ہیں۔ مثلاً کہکشاں اور اینڈرومیڈا گلیکسی ایک ثقل لنگر کی طرح عمل کرتے ہوئے بہت ساری گلیکسیز کو اپنے ساتھ باندھے رکھتی ہیں۔ یہ تمام گلیکسیز ایک دوسرے کے گرد چکر لگاتی ہیں اور ان کا یہ گروپ ایک اکائی کے طور پر خلا میں گھومتا ہے۔
گلیکسیز کا یہ سیٹ لوکل گروپ کہلاتا ہے اور مزید یہ کہ اکثر گلیکسیز بالکل اسی طرح گروپ بناتی ہیں ایک (لوکل گروپ) خلا میں تنہا نہیں ہوتا بلکہ یہ اپنے سے بھی بڑے گروپ (لوکل سپرکلسٹر) کے ایک جزو کے طور پر عمل کرتا ہے۔ گلیکسیز کے گروپوں کی اکثریت اس قسم کے سپرکلسٹرز بناتی ہیں۔
پچھلے دو سالوں کی تحقیقات نے یہ ثابت کردیا ہے کہ تمام معلومات دراصل صرف ابتدا ہیں۔ یہ تمام گلیکسیز، کلسٹرز اور سپرکلسٹرز بالکل اس طرح تقسیم ہوئے ہیں جیسے یہ بڑے بڑے بلبلوں کے گروپوں کی ایک ٹیم محسوس ہوتی ہے۔ ان تمام تحقیقات کا ایک حصہ وہ (خلا) بھی ہے جوکہ ہماری زمین اور ستاروں کے گرد دور دور تک پھیلی ہوئی ہے۔ جہاں بھی اس (خلا) کے سرے ملتے ہیں وہیں گلیکسیز کے بہت بڑے بڑے گروپ پائے جاتے ہیں۔ کچھ ماہرین فلکیات کا خیال ہے کہ (بلبلوں کی ساخت) والا نظریہ ہبل کی تحقیقات کے بعد اس کائنات کو سمجھنے کے لیے سب سے بڑا قدم ہے۔
ابھی تک کوئی یہ ثابت نہیں کرسکا ہے کہ بلبلوں والا نظریہ کس طرح وجود میں آیا۔ ہوسکتا ہے کہ خلا درحقیقت بالکل خالی نہیں ہے بلکہ یہ مکمل طور پر سیاہ مادے سے بھری ہوئی ہے۔ وہ سائنس دان جوکہ انفراریڈ کے آلات کے ذریعے تحقیقات کر رہے تھے ان کو یہ شواہد ملے ہیں کہ چمکدار گلیکسیزکے بلبلے ایسی جگہوں کو گھیرے ہوئے تھے جوکہ گرد کی وجہ سے دھندلا گئی تھیں۔ کیا ان ساختوں پر کی گئی تحقیقات اس کائنات کے مستقبل کے بارے میں کوئی معلومات یا اثرات فراہم کرتی ہیں؟ کوئی نہیں جانتا کیا ان ساختوں کائنات میں ہر جگہ دیکھا جاسکے گا؟
کوئی نہیں جانتا۔ ان سوالوں کے جوابات آج کل کی تحقیق کے لیے سرفہرست ہیں۔ ہم ہر وقت گلیکسیز کے بارے میں زیادہ سے زیادہ معلومات حاصل کرنے کی تگ و دو میں لگے ہوئے ہیں کیونکہ ہمیں معلوم ہے کہ ابھی اس میدان میں بہت کچھ باقی ہے جوکہ ہماری نگاہوں سے اوجھل ہے۔ مزید یہ کہ اپنے آبا و اجداد کی طرح ہم میں سے ہر ایک گرمیوں کی سیاہ رات میں آسمان پر کہکشاں کا مشاہدہ کرسکتا ہے۔