اذان کے فضائل و برکات
اذان دینے کی اہمیت و فضیلت اور اُس کا اجر و ثواب احادیث و روایات بہ کثرت وارد ہوا ہے۔
''اذان'' لغت میں خبر دینے کو کہتے ہیں اور اصطلاحِ شریعت میں چند مخصوص اوقات میں نماز کی خبر دینے کے لیے چند مخصوص الفاظ کے دہرانے کو ''اذان'' کہا جاتا ہے۔
اذان کی ابتدا کا پس منظر کچھ اس طرح سے ہے کہ حضورِ اقدس ﷺ جب مکہ مکرمہ سے ہجرت فرماکر مدینہ منورہ تشریف لائے اور وہاں مسلمانوں کی تعداد میں اضافہ ہوا اور مسجد بنائی گئی تو آپؐ نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے مشورہ کیا کہ نماز کے وقت اعلان کے لیے کوئی ایسی چیز متعین کی جانی چاہیے جس کے ذریعے تمام لوگوں کو اوقاتِ نماز کی اطلاع ہوجایا کرے، تاکہ سب لوگ وقت پر مسجد میں حاضر ہوکر باجماعت نماز ادا کریں۔ چناں چہ بعض صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے یہ مشورہ دیا کہ نماز کے وقت کسی بلند جگہ پر ''آگ'' رُوشن کردی جایا کرے تاکہ اُسے دیکھ کر لوگ مسجد میں جمع ہوجایا کریں، بعض نے کہا کہ نصاریٰ کی طرح ''ناقوس'' بنالیا جائے اور بعض نے کہا کہ یہود کی طرح ''سینگ'' بنا لیا جائے۔
چناں چہ صائب الرائے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے ان تجاویز کے سلسلے میں عرض کیا کہ ''آگ'' تو یہودی اپنی عبادت کے وقت اعلان کے لیے روشن کرتے ہیں، اسی طرح ''ناقوس'' نصاریٰ اپنی عبادت کے وقت اعلان کے لیے بجاتے ہیں، لہٰذا ہمیں یہ دونوں طریقے اختیار نہیں کرنے چاہییں کہ اِس سے یہود و نصاریٰ کی مشابہت لازم آتی ہے، بل کہ ان کے علاوہ کوئی دوسرا طریقہ سوچنا چاہیے۔
بات معقول تھی، اس لیے بغیر کسی فیصلہ کے مجلس برخاست ہوگئی اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اپنے اپنے گھر تشریف لے گئے۔ ایک صحابی حضرت عبد اللہ بن زید رضی اللہ عنہ نے جب یہ دیکھا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اس سلسلے میں بہت زیادہ فکر مند ہیں اور کوئی بہتر طریقہ سامنے نہیں آرہا تو وہ بہت پریشان ہوئے، اُن کی دلی خواہش تھی کہ یہ مسئلہ کسی نہ کسی طرح جلد از جلد طے ہوجائے تاکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی فکر و پریشانی دُور ہوجائے۔ چناں چہ یہ اسی سوچ و فکر میں گھر آکر سوگئے ، رات کو خواب میں کیا دیکھتے ہیں کہ ایک فرشتہ اُن کے سامنے کھڑے ہوکر اذان کے کلمات کہہ رہا ہے۔
جب صبح ہوئی تو اُٹھ کر بارگاہِ رسالت صلی اللہ علیہ وسلم میں حاضرہوئے اور اپنا خواب بیان کیا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : '' بلاشبہ یہ خواب سچا ہے، اور فرمایا : ''بلال رضی اللہ عنہ کو اپنے ہم راہ لواور جو کلمات خواب میں تم کو تعلیم کیے گئے ہیں وہ اِن کو بتاتے رہو وہ انہیں زور زور سے ادا کریں گے، کیوں کہ وہ تم سے بلند آواز ہیں۔''
( بہ حوالہ: مظاہر حق جدید شرح مشکوٰۃ شریف )
چناں چہ جب حضرت بلال رضی اللہ عنہ نے اذان دینا شروع کی اور اُن کی آواز شہر میں پہنچی تو حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ دوڑتے دوڑتے آئے اور عرض کیا : ''یارسول اللہ! (صلی اللہ علیہ وسلم ) قسم ہے اُس ذات پاک کی کہ جس نے آپؐ کو حق کے ساتھ مبعوث فرمایا ہے ، ابھی جو کلمات ادا کیے گئے ہیں، میں نے خواب میں ایسے کلمات سنے ہیں۔'' یہ سن آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کیا۔ منقول ہے کہ اسی رات میں دس، گیارہ یا چودہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے ایسا ہی خواب دیکھا تھا۔ بہ ہرحال اذان کی مشروعیت میں صحیح اور مشہور یہی ہے کہ اس کی ابتداء حضرت عبد اللہ بن زید انصاری اور حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہما کا یہی خواب تھا جو اُنہوں نے اس رات دیکھا تھا۔
اِس میں شک نہیں اذان اللہ تعالیٰ کے اذکار میں سے ایک عظیم ترین اور ایک اہم ترین ذکر ہے، جس میں اللہ تعالیٰ کی وحدانیت اور حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت کی شہادت کا اعلان کیا جاتاہے، لوگوں کو کام یابی و کام رانی کی طرف بلایا جاتا ہے اور اسلام کی شان و شوکت کا ایک بہترین عملی مظاہرہ کیا جاتا ہے، جس کی مثال دُنیا کے کسی بھی مذہب میں نہیں پائی جاتی۔
یہی وجہ ہے کہ اذان دینے کی اہمیت و فضیلت اور اُس کا اجر و ثواب احادیث و روایات بہ کثرت وارد ہوا ہے۔
حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ''مؤذن کی انتہائی آواز کو جو بھی سنتا ہے خواہ انسان ہو یا جن یا اور کوئی بھی چیز ہو تو وہ سب قیامت کے دن اِس (کے ایمان) کی گواہی دیں گے۔''(صحیح بخاری)
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رحمت کائنات صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : '' اذان دینے والے کی بخشش اُس کی آواز کی انتہاء کے مطابق کی جاتی ہے۔ ہر خشک و تر چیز اور نماز میں آنے والے آدمی اُس کے (ایمان کے) گواہ ہوجاتے ہیں۔ پچّیس نمازوں کا ثواب (اُس کے زاید اعمال میں) اُس کے لیے لکھا جاتا ہے اور ایک سے دوسری نماز کے درمیان اُس سے جو گناہ سرزد ہوتے ہیں وہ معاف کردیے جاتے ہیں۔'' ( احمد، ابوداؤد، نسائی، ابن ماجہ )
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : '' جو شخص (مزدوری اور اُجرت کی لالچ کے بغیر) محض ثواب حاصل کرنے کی نیت سے سات سال تک اذان دے تو اُس کے لیے جہنم سے نجات لکھ دی جاتی ہے۔'' (ترمذی وابن ماجہ)
حضرت عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ہادیٔ عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : '' تمہارا رب راضی ہوتا ہے پہاڑ کی چوٹی پر بکریاں چرانے والے سے جو نماز کے لیے اذان دیتا ہے اور نماز پڑھتا ہے، پس اللہ عز وجل (ملائکہ مقربین سے) فرماتے ہیں : ''میرے اِس بندے کی طرف دیکھوکہ یہ پابندی سے اذان دیتا ہے اور (پابندی کے ساتھ) نماز پڑھتا ہے اور مجھ سے ڈرتا ہے، پس میں نے اپنے (اِس) بندے کے گناہ بخش دیے ہیں اور میں اِس کو جنت میں داخل کروں گا۔''(ابو داؤد، نسائی)
حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضورِ اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : ''جب مؤذن ''اللہ اکبر، اللہ اکبر''کہے تو تم میں سے بھی ہر شخص ''اللہ اکبر، اللہ اکبر'' کہے، پھر جب مؤذن ''اشہد ان لا الٰہ الا اللہ'' کہے تو تم میں سے بھی ہر شخص ''اشہد ان لا الٰہ الا اللہ'' کہے، پھر جب مؤذن ''اشہد ان محمد رسول اللہ'' کہے تو تم میں سے بھی ہر شخص ''اشہد ان محمد رسول اللہ'' کہے،پھر جب مؤذن ''حی علیٰ الصلوٰۃ'' کہے تو تم میں سے ہر شخص ''لاحول ولا قوۃ الا باللہ'' کہے، پھر جب مؤذن ''حی علیٰ الفلاح'' کہے تو تم میں سے ہر شخص ''لاحول ولاقوۃ الا باللہ'' کہے، پھر جب مؤذن ''اللہ اکبر، اللہ اکبر'' کہے تو تم میں سے بھی ایک شخص ''اللہ اکبر، اللہ اکبر' کہے، پھر جب مؤذن ''لا الٰہ الا اللہ'' کہے تو تم میں سے بھی ہر شخص ''لا الٰہ الا اللہ'' کہے۔ پس جس نے (اذان کے کلمات کے جواب میں یہ کلمات ) صدقِ دل سے کہے تو وہ جنت میں داخل ہوگا۔''(صحیح مسلم)
حضرت عبد اللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ سرکارِ دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : '' جب تم مؤذن کی آواز سنو تو اُس کے الفاظ کو دہراؤ اور پھر (اذان کے بعد) مجھ پر درود بھیجو، کیوں کہ جو شخص ایک مرتبہ مجھ پر درود بھیجتا ہے اللہ تعالیٰ اُس کے بدلے میں دس مرتبہ اُس پررحمت نازل فرماتا ہے، پھر( مجھ پر درود بھیج کر) میرے لیے (اللہ تعالیٰ کے وسیلے سے) دُعا کرو! ''وسیلہ'' جنت کا ایک (اعلیٰ) درجہ ہے، جو اللہ تعالیٰ کے بندوں میں سے صرف ایک بندے کو ملے گا، اور مجھ کو اُمید ہے کہ وہ خاص بندہ میں ہی ہوں گا، لہٰذا جو شخص میرے لیے وسیلہ کی دُعاکرے گا (قیامت کے دن) اُس کی سفارش مجھ پر ضروری ہوجائے گی۔'' (صحیح مسلم)
حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : '' قیامت کے دن تین آدمی مُشک کے ٹیلوں پر ہوں گے، ایک وہ غلام کہ جس نے اللہ تعالیٰ کے بھی حقوق ادا کیے اور اپنے آقا کے بھی حقوق ادا کیے، اور دوسرا وہ شخص جو لوگوں کو نماز پڑھاتا ہو اور لوگ اِس سے خوش ہوں اور تیسرا وہ شخص جو روزانہ پانچ نمازوں کے لیے اذان کہتا ہو۔''(جامع ترمذی)
الغرض اذان دینے کے فضائل و برکات اور اُن پر گراں قدر اجر و ثواب کا ملنا احادیث و روایات میں بہ کثرت وارد ہوا ہے، جن پر صحیح طرح سے عمل پیرا ہونا اور اُنہیں ٹھیک ٹھیک بجا لانا انسان کی بخشش و مغفرت کے لیے کافی ہے۔ خوش نصیب ہیں وہ لوگ جو مسجدوں کو آباد کرتے ہیں، اُن میں کلام پاک کی تلاوت کرتے ہیں، اللہ تعالیٰ کا ذکر اور اُس کی تسبیحات کرتے ہیں اور لوگوں کو اللہ کا منادی بن کر روزانہ صبح و شام پانچ مرتبہ نماز کی طرف اور کام یابی و کام رانی کی طرف آنے کی دعوت دیتے ہیں۔
اذان کی ابتدا کا پس منظر کچھ اس طرح سے ہے کہ حضورِ اقدس ﷺ جب مکہ مکرمہ سے ہجرت فرماکر مدینہ منورہ تشریف لائے اور وہاں مسلمانوں کی تعداد میں اضافہ ہوا اور مسجد بنائی گئی تو آپؐ نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے مشورہ کیا کہ نماز کے وقت اعلان کے لیے کوئی ایسی چیز متعین کی جانی چاہیے جس کے ذریعے تمام لوگوں کو اوقاتِ نماز کی اطلاع ہوجایا کرے، تاکہ سب لوگ وقت پر مسجد میں حاضر ہوکر باجماعت نماز ادا کریں۔ چناں چہ بعض صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے یہ مشورہ دیا کہ نماز کے وقت کسی بلند جگہ پر ''آگ'' رُوشن کردی جایا کرے تاکہ اُسے دیکھ کر لوگ مسجد میں جمع ہوجایا کریں، بعض نے کہا کہ نصاریٰ کی طرح ''ناقوس'' بنالیا جائے اور بعض نے کہا کہ یہود کی طرح ''سینگ'' بنا لیا جائے۔
چناں چہ صائب الرائے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے ان تجاویز کے سلسلے میں عرض کیا کہ ''آگ'' تو یہودی اپنی عبادت کے وقت اعلان کے لیے روشن کرتے ہیں، اسی طرح ''ناقوس'' نصاریٰ اپنی عبادت کے وقت اعلان کے لیے بجاتے ہیں، لہٰذا ہمیں یہ دونوں طریقے اختیار نہیں کرنے چاہییں کہ اِس سے یہود و نصاریٰ کی مشابہت لازم آتی ہے، بل کہ ان کے علاوہ کوئی دوسرا طریقہ سوچنا چاہیے۔
بات معقول تھی، اس لیے بغیر کسی فیصلہ کے مجلس برخاست ہوگئی اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اپنے اپنے گھر تشریف لے گئے۔ ایک صحابی حضرت عبد اللہ بن زید رضی اللہ عنہ نے جب یہ دیکھا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اس سلسلے میں بہت زیادہ فکر مند ہیں اور کوئی بہتر طریقہ سامنے نہیں آرہا تو وہ بہت پریشان ہوئے، اُن کی دلی خواہش تھی کہ یہ مسئلہ کسی نہ کسی طرح جلد از جلد طے ہوجائے تاکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی فکر و پریشانی دُور ہوجائے۔ چناں چہ یہ اسی سوچ و فکر میں گھر آکر سوگئے ، رات کو خواب میں کیا دیکھتے ہیں کہ ایک فرشتہ اُن کے سامنے کھڑے ہوکر اذان کے کلمات کہہ رہا ہے۔
جب صبح ہوئی تو اُٹھ کر بارگاہِ رسالت صلی اللہ علیہ وسلم میں حاضرہوئے اور اپنا خواب بیان کیا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : '' بلاشبہ یہ خواب سچا ہے، اور فرمایا : ''بلال رضی اللہ عنہ کو اپنے ہم راہ لواور جو کلمات خواب میں تم کو تعلیم کیے گئے ہیں وہ اِن کو بتاتے رہو وہ انہیں زور زور سے ادا کریں گے، کیوں کہ وہ تم سے بلند آواز ہیں۔''
( بہ حوالہ: مظاہر حق جدید شرح مشکوٰۃ شریف )
چناں چہ جب حضرت بلال رضی اللہ عنہ نے اذان دینا شروع کی اور اُن کی آواز شہر میں پہنچی تو حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ دوڑتے دوڑتے آئے اور عرض کیا : ''یارسول اللہ! (صلی اللہ علیہ وسلم ) قسم ہے اُس ذات پاک کی کہ جس نے آپؐ کو حق کے ساتھ مبعوث فرمایا ہے ، ابھی جو کلمات ادا کیے گئے ہیں، میں نے خواب میں ایسے کلمات سنے ہیں۔'' یہ سن آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کیا۔ منقول ہے کہ اسی رات میں دس، گیارہ یا چودہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے ایسا ہی خواب دیکھا تھا۔ بہ ہرحال اذان کی مشروعیت میں صحیح اور مشہور یہی ہے کہ اس کی ابتداء حضرت عبد اللہ بن زید انصاری اور حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہما کا یہی خواب تھا جو اُنہوں نے اس رات دیکھا تھا۔
اِس میں شک نہیں اذان اللہ تعالیٰ کے اذکار میں سے ایک عظیم ترین اور ایک اہم ترین ذکر ہے، جس میں اللہ تعالیٰ کی وحدانیت اور حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت کی شہادت کا اعلان کیا جاتاہے، لوگوں کو کام یابی و کام رانی کی طرف بلایا جاتا ہے اور اسلام کی شان و شوکت کا ایک بہترین عملی مظاہرہ کیا جاتا ہے، جس کی مثال دُنیا کے کسی بھی مذہب میں نہیں پائی جاتی۔
یہی وجہ ہے کہ اذان دینے کی اہمیت و فضیلت اور اُس کا اجر و ثواب احادیث و روایات بہ کثرت وارد ہوا ہے۔
حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ''مؤذن کی انتہائی آواز کو جو بھی سنتا ہے خواہ انسان ہو یا جن یا اور کوئی بھی چیز ہو تو وہ سب قیامت کے دن اِس (کے ایمان) کی گواہی دیں گے۔''(صحیح بخاری)
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رحمت کائنات صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : '' اذان دینے والے کی بخشش اُس کی آواز کی انتہاء کے مطابق کی جاتی ہے۔ ہر خشک و تر چیز اور نماز میں آنے والے آدمی اُس کے (ایمان کے) گواہ ہوجاتے ہیں۔ پچّیس نمازوں کا ثواب (اُس کے زاید اعمال میں) اُس کے لیے لکھا جاتا ہے اور ایک سے دوسری نماز کے درمیان اُس سے جو گناہ سرزد ہوتے ہیں وہ معاف کردیے جاتے ہیں۔'' ( احمد، ابوداؤد، نسائی، ابن ماجہ )
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : '' جو شخص (مزدوری اور اُجرت کی لالچ کے بغیر) محض ثواب حاصل کرنے کی نیت سے سات سال تک اذان دے تو اُس کے لیے جہنم سے نجات لکھ دی جاتی ہے۔'' (ترمذی وابن ماجہ)
حضرت عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ہادیٔ عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : '' تمہارا رب راضی ہوتا ہے پہاڑ کی چوٹی پر بکریاں چرانے والے سے جو نماز کے لیے اذان دیتا ہے اور نماز پڑھتا ہے، پس اللہ عز وجل (ملائکہ مقربین سے) فرماتے ہیں : ''میرے اِس بندے کی طرف دیکھوکہ یہ پابندی سے اذان دیتا ہے اور (پابندی کے ساتھ) نماز پڑھتا ہے اور مجھ سے ڈرتا ہے، پس میں نے اپنے (اِس) بندے کے گناہ بخش دیے ہیں اور میں اِس کو جنت میں داخل کروں گا۔''(ابو داؤد، نسائی)
حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضورِ اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : ''جب مؤذن ''اللہ اکبر، اللہ اکبر''کہے تو تم میں سے بھی ہر شخص ''اللہ اکبر، اللہ اکبر'' کہے، پھر جب مؤذن ''اشہد ان لا الٰہ الا اللہ'' کہے تو تم میں سے بھی ہر شخص ''اشہد ان لا الٰہ الا اللہ'' کہے، پھر جب مؤذن ''اشہد ان محمد رسول اللہ'' کہے تو تم میں سے بھی ہر شخص ''اشہد ان محمد رسول اللہ'' کہے،پھر جب مؤذن ''حی علیٰ الصلوٰۃ'' کہے تو تم میں سے ہر شخص ''لاحول ولا قوۃ الا باللہ'' کہے، پھر جب مؤذن ''حی علیٰ الفلاح'' کہے تو تم میں سے ہر شخص ''لاحول ولاقوۃ الا باللہ'' کہے، پھر جب مؤذن ''اللہ اکبر، اللہ اکبر'' کہے تو تم میں سے بھی ایک شخص ''اللہ اکبر، اللہ اکبر' کہے، پھر جب مؤذن ''لا الٰہ الا اللہ'' کہے تو تم میں سے بھی ہر شخص ''لا الٰہ الا اللہ'' کہے۔ پس جس نے (اذان کے کلمات کے جواب میں یہ کلمات ) صدقِ دل سے کہے تو وہ جنت میں داخل ہوگا۔''(صحیح مسلم)
حضرت عبد اللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ سرکارِ دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : '' جب تم مؤذن کی آواز سنو تو اُس کے الفاظ کو دہراؤ اور پھر (اذان کے بعد) مجھ پر درود بھیجو، کیوں کہ جو شخص ایک مرتبہ مجھ پر درود بھیجتا ہے اللہ تعالیٰ اُس کے بدلے میں دس مرتبہ اُس پررحمت نازل فرماتا ہے، پھر( مجھ پر درود بھیج کر) میرے لیے (اللہ تعالیٰ کے وسیلے سے) دُعا کرو! ''وسیلہ'' جنت کا ایک (اعلیٰ) درجہ ہے، جو اللہ تعالیٰ کے بندوں میں سے صرف ایک بندے کو ملے گا، اور مجھ کو اُمید ہے کہ وہ خاص بندہ میں ہی ہوں گا، لہٰذا جو شخص میرے لیے وسیلہ کی دُعاکرے گا (قیامت کے دن) اُس کی سفارش مجھ پر ضروری ہوجائے گی۔'' (صحیح مسلم)
حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : '' قیامت کے دن تین آدمی مُشک کے ٹیلوں پر ہوں گے، ایک وہ غلام کہ جس نے اللہ تعالیٰ کے بھی حقوق ادا کیے اور اپنے آقا کے بھی حقوق ادا کیے، اور دوسرا وہ شخص جو لوگوں کو نماز پڑھاتا ہو اور لوگ اِس سے خوش ہوں اور تیسرا وہ شخص جو روزانہ پانچ نمازوں کے لیے اذان کہتا ہو۔''(جامع ترمذی)
الغرض اذان دینے کے فضائل و برکات اور اُن پر گراں قدر اجر و ثواب کا ملنا احادیث و روایات میں بہ کثرت وارد ہوا ہے، جن پر صحیح طرح سے عمل پیرا ہونا اور اُنہیں ٹھیک ٹھیک بجا لانا انسان کی بخشش و مغفرت کے لیے کافی ہے۔ خوش نصیب ہیں وہ لوگ جو مسجدوں کو آباد کرتے ہیں، اُن میں کلام پاک کی تلاوت کرتے ہیں، اللہ تعالیٰ کا ذکر اور اُس کی تسبیحات کرتے ہیں اور لوگوں کو اللہ کا منادی بن کر روزانہ صبح و شام پانچ مرتبہ نماز کی طرف اور کام یابی و کام رانی کی طرف آنے کی دعوت دیتے ہیں۔