عقیدۂ ختم نبوت اسلام کی اساس

’’میں (ﷺ) تمام مخلوق کے لیے نبی بناکر بھیجا گیا اور مجھ پر نبوت کا سلسلہ ختم کردیا گیا۔‘‘


ختم نبوت کا عقیدہ ان اجماعی عقائد میں سے ہے، جو اسلام کے اصول اور ضروریات دین میں شمار کیے گئے ہیں۔ فوٹو : فائل

ﷲ رب العزت نے نبوت کی ابتدا سیدنا آدم علیہ السلام سے فرمائی اور اس کی انتہا محمد عربیؐ کی ذات اقدس پر فرمائی۔ آنحضرتؐ پر نبوت ختم ہوگئی۔ آپؐ آخرالانبیاء ہیں، آپؐ کے بعد کسی کو نبی نہیں بنایا جائے گا۔ اس عقیدے کو شریعت کی اصطلاح میں عقیدۂ ختم نبوت کہا جاتا ہے۔

ختم نبوت کا عقیدہ ان اجماعی عقائد میں سے ہے، جو اسلام کے اصول اور ضروریات دین میں شمار کیے گئے ہیں، اور عہد نبوت سے لے کر اس وقت تک ہر مسلمان اس پر ایمان رکھتا آیا ہے کہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم بلا کسی تاویل اور تخصیص کے خاتم النبیین ﷺ ہیں۔ قرآن مجید کی ایک سو آیات کریمہ اور رحمت عالم صلی اﷲ علیہ وسلم کی دو سو دس احادیث مبارکہ سے یہ مسئلہ ثابت ہے۔

عقیدۂ ختم نبوت کے تحفظ و دفاع کے لیے اسلام کی تاریخ میں پہلی جنگ جو سیدنا صدیق اکبرؓ کے عہد خلافت میں مسیلمہ کذاب کے خلاف یمامہ کے میدان میں لڑی گئی، اس ایک جنگ میں شہید ہونے والے صحابہؓ اور تابعینؒ کی تعداد بارہ سو ہے۔

رحمت عالم صلی اﷲ علیہ وسلم کی زندگی کا گراں قدر اثاثہ حضرات صحابہ کرام ؓ ہیں، جن کی بڑی تعداد اس عقیدے کے تحفظ کے لیے جام شہادت نوش کرگئی۔ اس سے ختم نبوت کے عقیدے کی عظمت کا اندازہ ہوسکتا ہے۔ انہی حضرات صحابہ کرامؓ میں سے ایک صحابی حضرت حبیب بن زید انصاری خزرجیؓ کی شہادت کا واقعہ ہے:

''حضرت حبیب بن زید انصاریؓ کو آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے یمامہ کے قبیلہ بنو حنیفہ کے مسیلمہ کذاب کی طرف بھیجا۔ مسیلمہ کذاب نے حضرت حبیبؓ کو کہا کہ کیا تم گواہی دیتے ہو کہ محمد اﷲ کے رسول ہیں ؟ حضرت حبیبؓ نے فرمایا: ہاں۔ مسیلمہ نے کہا کہ کیا تم اس بات کی گواہی دیتے ہو کہ میں (مسیلمہ) بھی اﷲ کا رسول ہوں ؟ حضرت حبیبؓ نے جواب میں فرمایا کہ میں بہرا ہوں تیری یہ بات نہیں سن سکتا۔ مسیلمہ بار بار سوال کرتا رہا، وہ یہی جواب دیتے رہے اور مسیلمہ ان کا ایک ایک عضو کاٹتا رہا حتی کہ حبیبؓ بن زید کے جسم کے ٹکڑے ٹکڑے کرکے ان کو شہید کردیا گیا۔''

اس سے اندازہ ہوسکتا ہے کہ حضرات صحابہ کرامؓ مسئلہ ختم نبوت کی عظمت و اہمیت سے کس طرح والہانہ تعلق رکھتے تھے۔ قرآن مجید میں ذات باری تعالیٰ کے متعلق ''رب العالمین'' آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی ذات اقدس کے لیے ''رحمۃ للعالمین'' اور بیت اﷲ شریف کے لیے ''ھدی للعالمین'' فرمایا گیا ہے۔ اس سے جہاں آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی نبوت و رسالت کی آفاقی اور عالمگیر حیثیت ثابت ہوتی ہے، وہاں آپؐ کے وصف ختم نبوت کا اختصاص بھی آپؐ کی ذات اقدس کے لیے ثابت ہوتا ہے، اس لیے کہ پہلے تمام انبیائے علیہم السلام اپنے اپنے علاقے، مخصوص قوم اور مخصوص وقت کے لیے تشریف لائے، جب آپؐ تشریف لائے تو حق تعالیٰ نے کُل کائنات کو آپ ﷺ کی نبوت و رسالت کے لیے ایک اکائی بنا دیا۔

جس طرح کل کائنات کے لیے اﷲ تعالیٰ ''رب '' ہیں، اسی طرح کل کائنات کے لیے آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم ''نبی'' ہیں۔ یہ صرف آپؐ کا اعزاز و اختصاص ہے۔ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے اپنے لیے جن چھے خصوصیات کا ذکر فرمایا ان میں سے ایک یہ بھی ہے:

''میں تمام مخلوق کے لیے نبی بناکر بھیجا گیا اور مجھ پر نبوت کا سلسلہ ختم کردیا گیا۔''

آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم آخری نبی ہیں، آپؐ کی امت آخری امت ہے، آپؐ کا قبلہ آخری قبلہ (بیت اﷲ شریف) ہے، آپؐ پر نازل شدہ قرآن حکیم آخری آسمانی کتاب ہے۔ یہ سب آپؐ کی ذات کے ساتھ منصب ختم نبوت کے اختصاص کے تقاضے ہیں جو اﷲ تعالیٰ نے پورے کردیے۔ قرآن مجید کو ذکر للعالمین اور بیت اﷲ شریف کو ھدی للعالمین کا اعزاز بھی آپؐ کی ختم نبوت کے صدقے میں ملا اور آپؐ کی امت آخری امت قرار پائی۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں