کیا جمہوریت فوج کی نئی ڈاکٹرائن کا حصہ ہے

جنرل کیانی ایسے آرمی چیف کے طور پر یاد رہنا چاہتے ہیں جو ’’آمریت‘‘ کا بوجھ نہیں اٹھانا چاہتا

جنرل کیانی ایسے آرمی چیف کے طور پر یاد رہنا چاہتے ہیں جو ’’آمریت‘‘ کا بوجھ نہیں اٹھانا چاہتا فوٹو: فائل

آرمی چیف جنرل اشفاق پرویز کیانی پاکستان کی 65سالہ تاریخ میں پہلے ایسے فوجی سربراہ بننے والے ہیں جو دو حکومتوں کے پرامن انتقال اقتدار کے بعد اپنے عہدے سے مستعفی ہو جائیں گے تاہم اس کیلیے ابھی ہمیں مئی میں عام انتخابات تک انتظار کرنا پڑے گا۔

پاکستان کی پرآشوب تاریخ میں جہاں فوج کبھی براہ راست اور کبھی صدارت کے ذریعے بار بار مداخلت کرتی رہی ہو میں پہلی بار کوئی جمہوری حکومت اپنی پانچ سالہ میعاد پوری کر رہی ہے۔ اس تناظر میں جنرل اشفاق پرویز کیانی کا اینکرز، کالم نگاروں اور سنیئر صحافیوں سے طویل ملاقات میں عدلیہ اور الیکشن کمیشن پر اظہار اعتماد ان حلقوں کیلئے باعث اطمینان ہے جو اب بھی اس خدشے کا شکار ہیں کہ شاید عام انتخابات نہ ہوں، شاید جنرل اشفاق پرویز کیانی ایسے آرمی چیف کے طور پر یاد رہنا چاہتے ہیں جو ''آمریت'' کا بوجھ نہیں اٹھانا چاہتا۔ ہمارے ہاں عام طور پر یہ روایت پائی جاتی ہے کہ فوجی جنرل ریٹائرمنٹ کے بعد تمام برائیوں کا ذمہ دار اکثر اپنے آرمی چیف کو ٹھہراتے ہیں۔

جنرل ضیا اور جنرل مشرف پر یہ الزام عائد ہوتا رہا ہے کہ وہ دونوں کورکمانڈروں کے مشورے کے بغیر فیصلے کرتے رہے ہیں۔ یہ امید بھی کی جانی چاہیے کہ دسمبر میں چیف جسٹس افتخار چوہدری کی ریٹائرمنٹ کے بعد بھی آزاد عدلیہ جمہوریت کا دفاع کرتی رہے گی۔ یہی سوال فوج کے بارے میں ہے کہ جنرل کیانی اگر جمہوریت پر یقین رکھتے ہیں تو ان کا جانشین بھی یقیناً ایسا کرے گا۔ جنرل کیانی نے اگر سنیئر صحافیوں سے پانچ گھنٹے طویل (آف دی ریکارڈ) بات چیت کی ہے تو اس میں قومی اور بین الاقوامی سیاست سمیت کئی امور پر تبادلہ خیال کیا گیا ہو گا چونکہ پاکستان میں فوج طویل عرصے تک سیاست میں رہی ہے اس لیے آرمی چیف کا سیاست اور قومی ایشوز پر کوئی بیان شہ سرخی بن جاتا ہے اور جب وہ ریٹائر ہوکر سیاست میں آئے یا کتاب لکھے تو بھی میڈیا میں بھرپور کوریج ملتی ہے۔




میں بالخصوص جنرل کیانی سے ان کے پیشرو جنرل پرویز مشرف کے بارے میں کئی سوالات پوچھنے کا خواہاں ہوں تاہم جنرل مشرف سے جب جنرل کیانی کے بارے میں پوچھا جائے تو ان پر گراں گزرتا ہے، سوال یہ ہے کہ ایسا کیوں ہے؟۔ اب چونکہ جنرل کیانی وردی اتارنے ہی والے ہیں تو یہ سوال بھی دلچسپی کا حامل ہوگا کہ کیا جنرل مشرف نے چیف جسٹس کی معزولی، لال مسجد آپریشن، ایمرجنسی کے نفاذ، این آر او اور آرمی چیف کے عہدے سے علیحدگی جیسے فیصلے یا اقدامات کئے وہ ان کے اپنے تھے یا کورکمانڈروں کی آرأ بھی ان میں شامل تھی؟۔ 2008کے عام انتخابات کے موقع پر جنرل اشفاق کیانی کی طرف سے انتخابی عمل سے الگ تھلگ رہنے کے چند سطروں کے بیان سے تمام افواہوں کا خاتمہ ہو گیا تھا۔

اگر جنرل یحییٰ کو 1970میں ملکی تاریخ کے پہلے شفاف انتخابات کا اعزاز جاتا ہے تو جنرل کیانی نے نہ صرف 2008میں شفاف عام انتخابات کرائے بلکہ اب دوسری بار یہ عمل دہرانے والے ہیں۔ اگلے چند ماہ میں ان کے ممکنہ جانشین کا نام بھی سامنے آ سکتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ نیا آرمی چیف جنرل اشفاق کیانی کی تقلید کرے گا یا نئی ڈاکٹرائن کے ساتھ سامنے آئے گا۔ جنرل مشرف نے فوج کے اندر اپنے پیشرو جنرل ضیا کے نظریے میں تبدیلی کی تھی لیکن ان کی طرح مفلوج ججوں اور جنرلوں کے ذریعے حکومت کرنے کی روش برقرار رکھی۔ یہ بات بھی اپنی جگہ دلچسپی کی حامل ہے کہ فوجی سربراہوں کے ساتھ تلخ تعلقات رکھنے والے نواز شریف اگر وزیر اعظم منتخب ہو جاتے ہیں تو جنرل کیانی کی جگہ کون نیا آرمی چیف بنے گا۔

Recommended Stories

Load Next Story