ماحول کے تحفظ کے نام پر کاروبار
پاکستان دنیا کا ایک ایسا ملک ہے موسمیاتی تبدیلی جس کے لیے سزائے موت بن چکی ہے۔
دنیا ایک بازار ہے اور ہر شے کاروبار ہے۔ کوئی صورتحال پیدا ہوجائے تو لوگ اس سے فائدہ اٹھانے کی فکر میں لگ جاتے ہیں۔ عام خیال یہی ہے کہ جنگیں تباہی اور بربادی اپنے ساتھ لاتی ہیں۔ یہ خیال غلط بھی نہیں ہے۔ ایسا ہوتا ہے ۔ جدید دنیا میں دو عالمی جنگوں سمیت درجنوں اور معاشی بحران اس کے علاوہ ہیں لیکن اس کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ ان جنگوں کے دوران ہتھیار ساز کمپنیوں، اسلحے کے تاجروں اور حکمرانوں نے اسلحے کی خرید و فروخت کے ذریعے اربوں کھربوں روپے کمائے۔
جنگ اکثریت کے لیے بربادی کی نوید لائی تو بہت سے لوگوں کے لیے خوشحالی کا پیغام تھی۔ اس وقت بھی دنیا کے مختلف علاقوں میں مختلف نوعیت کی جنگیں جاری ہیں اور اسلحہ کا کاروبار خوب پھل پھول رہا ہے، اربوں ڈالر کا اسلحہ منہ مانگی قیمت پر بیچا جارہا ہے اور خوب دولت بٹوری جارہی ہے۔
یہاں مذکورہ بالا گفتگو کرنے کی ضرورت اس لیے پیش آئی کہ ان دنوں ماحولیاتی تنزلی اور موسمیاتی تبدیلی کی حمایت اور مخالفت دونوں حوالوں سے خوب کاروبار کیا جا رہا ہے۔ معدنی ایندھن کا کاروبار کرنے والی بڑی بڑی ملٹی نیشنل کمپنیاں اور ان سے متعلق دیگر کاروبار اور صنعتیں متبادل توانائی سے سخت خوف زدہ ہیں۔ اپنے مفادات کے تحفظ کے لیے وہ پوری دنیا میں ایسے اداروں، تنظیموں، بیورو کریسی، سیاستدانوں اور لابیز کو زبردست مالی مدد فراہم کرکے اس نظریے کو غلط ثابت کرنا چاہتی ہیں کہ گرین ہاؤس گیسوں کا اخراج ماحول کی تباہی اور موسمی تبدیلی کی اصل وجہ ہے۔
اس بات کے برعکس پوری دنیا میں موسمی تبدیلی اپنے بھیانک اثرات دکھلا رہی ہے۔ ترقی یافتہ، ترقی پذیر اور غریب ملکوں سمیت دنیا کا کوئی خطہ ایسا نہیں ہے جو ان تبدیلیوں کی زد میں نہ ہو خصوصاً ترقی پذیر اور غریب ملکوں میں اس حوالے سے صورتحال انتہائی ابتر ہوتی چلی جارہی ہے۔
پاکستان دنیا کا ایک ایسا ملک ہے موسمیاتی تبدیلی جس کے لیے سزائے موت بن چکی ہے۔ اس حقیقت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج میں 135 ویں نمبر پر ہونے اور ان کے اخراج کی شرح کے عالمی پیمانے سے کم گرین ہاؤس گیسوں کا اخراج کرنے والا ترقی پذیر ملک پاکستان موسمیاتی تبدیلی سے شدید متاثر ہونے والے ملکوں کی عالمی درجہ بندی میں اس وقت 8 ویں نمبر پر شمار کیا جارہا ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ پاکستان سے اوپر کی درجہ بندی میں شامل تمام ملکوں کی آبادی کو ملا بھی لیا جائے تو وہ کراچی شہر کی آبادی سے بھی کم ہے۔
پاکستان کے دونوں اطراف میں گرین ہاؤس گیسوں کا اخراج کرنے والے دنیا کے دو سب سے بڑے ممالک چین اور ہندوستان موجود ہیں جو بڑے پیمانے پر زہریلی گیسوں کا اخراج کررہے ہیں جس کے سنگین نتائج ہمیں بھی بھگتنا پڑرہے ہیں۔ سیاسی عدم استحکام، کرپشن ، دہشت گردی، لاقانونیت، اقربا پروری، بے روزگاری جیسے سنگین مسائل میں گھرا ملک پاکستان جسے سی پیک جیسے عظیم منصوبے سے سہارا ملا وہیں موسمیاتی تغیرات اس کی ترقی میں بڑی رکاوٹ بن کر سامنے آرہے ہیں۔
گلگت بلتستان سے لے کر کراچی تک موسمیاتی و ماحولیاتی گراؤٹ میں تیزی سے اضافہ ہوتا جارہا ہے۔ حکومتوں، اشرافیہ، سیاسی جماعتوں سمیت ملک کے اہم اسٹیک ہولڈرز کی جانب سے ان معاملات پر بے حسی کا رویہ واضح ہے تو دوسری جانب ماحولیات پر کام کرنے والے افراد، تنظیمیں اور ادارے بھی کسی موثر عوامی آگہی کو فروغ دینے میں مکمل ناکام نظر آتے ہیں۔
ملک کے سب سے بڑے اور گنجان ساحلی شہر کراچی جس کا شمار دنیا کے میگا سٹیز میں کیا جاتا ہے کی بات کریں تو یہ شہر دیگر مسائل کے ساتھ موسمیاتی اور ماحولیاتی تنزلی کا منہ بولتا ثبوت نظر آتا ہے۔ موسمیاتی تبدیلی کے وہ تمام تباہ کن مظاہر جن میں گرمی کی شدید لہر، اربن فلڈنگ (شہری سیلاب) پانی کی شدید قلت، فضائی آلودگی کراچی کی شہریوں کی زندگی کا حصہ بن چکے ہیں اس پر مستزاد یہ کہ شہر میں ہونے والی درختوں کی کٹائی کا عمل شدومد سے جاری ہے۔
نئے درخت لگانے کے شوقین افراد اور تنظیموں کے لیے کوئی راہنما ادارہ موجود نہیں ہے یہی سبب ہے کہ شہر میں لگائے جانے والے 80 فیصد ماحول دشمن پودا کونوکارپس لگاکر شہر کو سرسبز دکھانے کی کوششیں جاری ہیں۔ ساحلی شہر کے رہنے والوں کو سمندری سونامی سے بچانے والی اہم ترین قدرتی دیوار تمر کے درختوں کا صفایا کرکے زمین حاصل کی جارہی ہے۔
3 ہزار سے زائد قانونی اور ہزاروں کی تعداد میں غیر قانونی صنعتوں کا بغیر ٹریٹ کیا ہوا فضلہ کے علاوہ شہر کا گھریلو فضلہ بھی سمندر میں ڈالا جارہا ہے جس کا نتیجہ یہ ہے کہ شہری انتہائی آلودہ سی فوڈ کھانے اور زہریلے پانی سے کاشت کی جانے والی سبزیاں کھانے پر مجبور ہیں جس کے نتیجے میں وہ ان گنت سنگین بیماریوں میں مبتلا ہوچکے ہیں۔
بغیر منصوبہ بندی اور ناقص حکمت عملی کے شہر میں اونچی عمارتوں کا جال بچھا دیا گیا ہے۔ اداروں اور افراد کی ملی بھگت کے نتیجے میں ان تمام عمارتوں کے ماحولیاتی اثرات کے تجزیے منظور کرلیے جاتے ہیں جس کا نتیجہ یہ ہے کہ کراچی ''ہیٹ آئی لینڈ'' میں تبدیل ہوچکا ہے۔ دنیا کے دیگر شہروں میں بھی اونچی عمارتیں موجود ہیں، کیا ان کی اور ہماری صورتحال ایک جیسی ہے۔ ہر گز نہیں۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ تیزی سے بگڑتی ہوئی موسمیاتی و ماحولیاتی تنزلی کا ذمے دار کون ہے؟ کیا صرف حکومتی اداروں کو لعنت ملامت کرکے اس صورتحال سے جان چھڑائی جاسکتی ہے؟ ہرگز نہیں۔
یہ بات اپنی جگہ حقیقت ہے کہ شہر میں کام کرنے والے بڑے چھوٹے سماجی ادارے جو لاکھوں اور کروڑوں کا فنڈ مختلف سماجی کاموں پر خرچ کرتے ہیں ان کو ماحولیاتی و موسمیاتی مسائل کا ادراک ہی نہیں ہے، وہ شہر میں زیادہ سے زیادہ ماحول دشمن پودا کونو کارپس جس کی دیکھ بھال پر کچھ خرچ نہیں ہوتا لگا کر اپنی ذمے داری پوری کرتے نظر آتے ہیں۔
شہر کراچی میں ماحولیات کی بہتری کے نام پر ایوارڈ بیچنے کا سلسلہ گزشتہ کئی برسوں سے جاری ہے، اس وقت شاید ہی کوئی صنعتی یا کارپوریٹ ادارہ ہو جو یہ ایوارڈ نہ خرید چکا ہو لہٰذا وہ اس جانب کوئی توجہ دینے پر آمادہ نہیں ہیں۔ کروڑوں کا فنڈ رکھنے والی ملٹی نیشنل ماحولیاتی تنظیموں کے اپنے ہی طریقہ کار ہیں جس کا فائدہ ان تنظیموں میں لاکھوں روپے تنخواہ لینے والوں کو ضرور پہنچتا ہے لیکن شہر کی ماحولیاتی تنزلی میں کوئی کمی نہیں آتی ہے۔ اگر آپ پورے سال شہر میں منعقد ہونے والے پروگرام جو موسمیاتی و ماحولیاتی۔ موضوع پر منعقد کیے جاتے ہیں تو آپ کو وہی 60/70 چہرے ہر پروگرام میں نظر آئیں گے۔
دنیا بھر میں ماحولیاتی ماہرین اور سماجی تنظیموں کی بڑی تعداد اس حوالے سے لوگوں میں آگاہی پیدا کرنے کی کوششوں میں مصروف ہے اور ان کی مہم کا دباؤ حکومتوں کی سطح پر نظر آرہا ہے جس کا نتیجہ یہ ہے کہ سرکاری ادارے ماحولیاتی قوانین پر عمل درآمد کرانے پر مجبور ہورہے ہیں۔ ہماری بدقسمتی یہ ہے کہ اس اچھے اور نیک کام میں بھی ہم نے مالی منفعت کے پہلو تلاش کرلیے ہیں۔ ماحول کے تحفظ کے نام پر کاروبار شروع ہے۔
جن ملکوں میں قانون کی حکمرانی ہے وہاں یہ کاروبار زیادہ پھل پھول نہیں رہا ہے۔ لیکن ہمارے جیسے ملکوں میں جہاں قانون کی حکمرانی کا تصور سرے سے موجود ہی نہیں ہے وہاں ماحولیات کے نام پر کاروبار کرنا نسبتاً زیادہ آسان ہے۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ اس خطرناک رجحان کو فوری طور پر روکا جائے اور اس کام کے لیے عوام کو متحرک کیا جائے تاکہ ایسے عناصر کے عزائم کامیاب نہ ہوسکیں۔ اس کے لیے شہر کے ہر طبقے سے تعلق رکھنے والے پڑھے لکھے سنجیدہ اور اپنے شہر سے اور اپنی آنے والی نسلوں سے محبت کرنے والے لوگوں کو آگے آنا ہوگا۔