امن کا روشن راستہ

طالبان کو اتنا ہی کہہ دینا کا فی ہو گا کہ ملک کی تمام سیاسی قیادت ان کو اپنا بڑا بھائی مانتی ہے۔


Syed Talat Hussain March 02, 2013
www.facebook.com/syedtalathussain.official

سیاسی جماعتوں کے جرگے نے خیبر پختونخوا اور فاٹا کے علاقے میں امن قائم کرنے پر اتفاق رائے کرکے اپنی سیاست کو تو بچا لیا ہے مگر معلوم نہیں کہ اس سے ریاست میں اور اس کے خلاف ہونے والی دہشت گردی اختتام پذ یر ہو گی یا نہیں۔ دلچسپ امر یہ ہے کہ ایک طرف تو اخبارات میں چھپنے والے بیانات میں بار بار طالبان سے مذاکرات کا ذکر موجود ہے مگر دوسری طرف جاری کردہ اعلامیہ کے رسمی متن میں کہیں بھی طالبان کو بطور فریق نہ تو بیان کیا گیا ہے اور نہ ہی ان سے مذاکرات کا کوئی حتمی اشارہ موجود ہے۔

بات چیت کے عمل سے امن جرگہ کو نمایندہ حیثیت دینے کے لیے اس میں تمام مکتبہ فکر اور سیاسی و مذہبی نکتہ نظر کو شامل کرنا باقی ہے۔ اس جرگے کو اے پی سی میں موجود جماعتوں کی ہدایت کے مطابق کام کرنا ہے، یہ ہدایت جاری کرنے کا نظام کیا ہو گا اور اس جرگے کے کام اور اس کے راستے میں حائل مشکلات کو دور کرنے کے لیے سیاسی اتفاق رائے کیسے پیدا کیا جائے گا، اس پر کوئی معلومات موجود نہیں ہیں۔ اس کے علاوہ اعلامیہ میں ایک بڑا تضاد ہے جس کے باعث اس کو شائد سنجیدگی سے لینا عقلمندی نہ ہو گی ۔

اعلامیہ میں قانون اور آئین کی سر بلندی کے لیے اقدامات کا ذکر ہے جس کے لیے ہر ممکن کا وش کے عزم کا اعادہ بھی موجود ہے۔ مگر طالبان نہ تو پاکستان کے آئین کو مانتے ہیں اور نہ ہی کسی قانون کو خاطر میں لاتے ہیں۔ عدالتی نظام سے لے کر معاشرہ، رواج اور رسوم تک وہ اپنا نقطہ نظر ہر کسی پر ایسے لاگو سمجھتے ہیں جیسے خدا وند تعالیٰ کا براہ راست حکم ہو۔ وہ فوج کو مر تد، جمہوریت کو اسلام دشمن، مغربی ترقی کو بے راہ روی اور موجودہ نظام میں سب کو کفر کے برابر درجہ دیتے ہیں۔ ان کے نزدیک جو کوئی بھی موجودہ انتظام حکومت کا حصہ اور اقتدار تک آنے کے لیے کوشاں ہے، وہ دائرہ اسلام سے خارج ہے۔

یعنی مولانا فضل الرحمن، نوازشریف، عمران خان، امین فہیم، آصف علی زرداری، محمود خان اچکزئی، اسفند یار ولی، منور حسن اور اس کے علاوہ تمام دوسرے سیاستدان طالبان کے مطابق اصل مسلمان کہلائے جانے کے حقدار نہیں۔ اور ہم سب کو معلوم ہے کہ اسلام میں داخل ہونے کے بعد خارج ہونے کی سزا کیا ہے۔ یہ طرز فکر سنی سنائی باتوں پر مبنی نہیں۔ طالبان کے مختلف گروہوں کی جانب سے چھپنے والا مواد خود بیسیوں ایسی مثالیں دیتا ہے جن کی روشنی میں اُن کے افکار کی سختی ثابت ہوتی ہے۔ اب ایسی سو چ رکھنے والے اور سالوں سے ریاست کے سا تھ خوفناک جنگ میں مصروف رہنے والے 17 ر کنی جرگے کو کیو ں کر خا طر میں لا ئیں گے اور کیسے اسِ کمیٹی کو آ ئینی طو ر پر قابل قبو ل سمجھیں گے، اس کا کو ئی جو اب د ینے کو تیا ر نہیں ہے۔

ا علا میہ کی ایک اور کمزوری یہ ہے کہ اس کا اطلا ق انتخابات کے بعد بھی مو ثر رہے گا اور تما م شرکاء اس کی پابندی پر مجبور ہوں گے۔ یہ ایک بچگانہ شرط ہے۔ انتخابات سے پہلے ہونے و ا لا کو ئی معا ہدہ مو ثر نہیں رہتا نہ اُ س کے تقد س کو کو ئی پہچانتا ہے۔ پھر اِ ن علاقوں میں درجنوں معاہد ے ہو کر ختم ہو چکے ہیں۔ قرآن پاک پر ہاتھ رکھ کر اُٹھائی جا نے والی قسموں کا بھی و یسا ہی حا ل ہوا جو کاغذ پر لکھی جانے والی تحریر کا۔ سب حالات کے ہاتھوں اپنے ناکام انجام کو پہنچے۔

اور پھر موجودہ سیاسی قیادت کے منہ سے نکلی ہوئی بات کی حیثیت بھی کیا ہو گی کہ جب جمہوری طور پر وہ اپنا تمام مینڈیٹ کھو چکے ہیں اور نئے مینڈیٹ کے لیے انتخابات کی تیاریوں میں مصروف ہیں۔ اور اگر اس میٹنگ کے شرکاء کا خیا ل ہے کہ ان کی یہ کاوش انتخابی عمل سے علیحدہ ہے تو پھر ان سب کو کو ئی ا یسا طریقہ اختیار کرنا چاہیے کہ جس کے تحت وہ تما م قو م کی خواہش کو پرکھنے کا دعویٰ کر سکیں۔ اگر یہ نہیں کر سکتے اور نہ ہی انتخابات کو ا پنی امن کی کو شش کا پیمانہ بنانا چاہتے ہیں تو یہ تو قع ہی فضو ل ہے کہ ا علامیہ کی اطاعت تمام شرکاء پر یکسا ں فرض ہوگی۔ حقیقت پسندی کا تقا ضہ تو یہ تھا کہ بات چیت کے ذریعے امن لا نے کے اس مقصد کو یہ تمام جماعتیں اپنے ا نتخابی منشور کا حصہ بنا ئیں اور پھر کا میا بی حاصل کر نے کے بعد اُس کو با قا عدہ پا لیسی میں تبدیل کر کے خو د سے عمل درآمد کی ذمے د ار ی بھی اُٹھاتیں۔

مگر ایسا کرنا ممکن نہیں ہے کہ مذ اکرات کی یہ پیشکش عو ا می نیشنل پارٹی کی اس سے پہلے منعقد کی جا نے والی کانفرنس کے اغراض کی طر ح آ نے و الے د نو ں میں انتخا بی عمل کو خو ن خر ابے اور دہشت گردی سے بچانے کے لیے ایک ایسا ڈھکوسلہ ہے جیسا نا م نہاد عامل جن بھوت نکا لنے کے لیے بنا تے ہیں۔ اِ س کی کو ئی عملی حیثیت نہیں۔ ہا ں اگر طا لبا ن کی تما م شرائط مان لی جائیں تو پھر سب کچھ ممکن ہے۔ پھر تو جرگہ بنانے کی بھی ضر و ر ت نہیں پڑ ے گی۔ صر ف طالبان کو اتنا ہی کہہ دینا کا فی ہو گا کہ ملک کی تمام سیاسی قیادت ان کو اپنا بڑا بھائی مانتی ہے اور ان کو اپنا مہمان بنانے اور سر کا تاج بنانے کے لیے تیار ہے۔ آپ دیکھیں گے کہ اگلے ہی روز حکیم اللہ محسود ایمن الز واھری کے ساتھ اسلام آباد کے کنونشن سینٹر میں آ کر نواز شریف سے بغلگیر ہوں گے۔

چوہدری شجاعت کے ماتھے پر پیار کریں گے، راجہ پرویز اشرف کو اپنے ہاتھ سے نوالے توڑ کر دیں گے۔ اسفند یار ولی اور اچکزئی صاحب کو افغانستان سے حاصل کیے ہوئے خاص تحفے عنایت کریں گے اور مولانا فضل الرحمن کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر مستقبل کا ا یسا نقشہ کھینچیں گے کہ ان کا چہرہ دمکتے سورج کی طرح روشن ہو جائے گا اور جنت سا منے نظر آ ئے گی۔ یہ ہو گا اصل اور دھماکہ خیز امن کا عمل۔ ایسا گونجدار کہ ڈاکٹر قدیر خان چاغی کو بھول جائیں گے۔ اگر یہ سب کچھ نہیں کیا تو طا لبا ن مذا کر ات کی میز پر بیٹھنے کے بجائے اِ س قسم کے اعلامیے پر سجدۂ شکر بجا لا ئیں گے اور یہ سو چنے میں حق بجا نب ہو نگے کہ اُن کو آخر کار فتح مبین حاصل ہو گئی ہے۔ جس کا آدھا سہرا اُن کے ا پنے جہاد اور آدھا ہمار ے جہا ندیدہ قیادت کے امن اتحاد کو جاتا ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں