کتاب کلچر کے فروغ میں پہلا قدم

خیبرپختونخوا اور بلوچستان کی طرح کراچی بھی قتل و غارت گری کا شکار ہے

zaheerakhtar_beedri@yahoo.com

کراچی میں ادبی فیسٹیول کے بعد لاہور میں بھی ایک ادبی میلے کا اہتمام کیا گیا اور یہ دونوں تقریبات ادبی سرگرمیوں کے زمرے میں آتی ہیں جس کی تعریف اور حوصلہ افزائی کی جانی چاہیے۔ پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا میں بھی ادبی اکابرین کی سالگرہ اور برسیوں کو کوریج دی جارہی ہے، یہ رویے بھی قابل ستائش ہیں، لیکن جیساکہ ہم نے ان ہی کالموں میں بار بار یاد دہانی کروائی ہے کہ ہمارا معاشرہ جس شدید سیاسی انارکی، لسانی اور قومیتی تقسیم، زبان اور نسل کے تعصبات، بے لگام مذہبی انتہاپسندی، دہشت گردی، سماجی جرائم کی بھرمار، فقہی قتل و غارت گری کی انتہا پر پہنچا ہوا ہے اس کا تقاضا یہ ہے کہ اس میں سدھار لانے کے لیے مختلف شعبوں کی صلاحیتوں کو بروئے کار لاکر ہمارے بگڑے ہوئے معاشرے کو سنوارنے کی کوشش کی جائے۔ اگر ہمارے ملک کی سیاسی قیادت صاحب بصیرت مخلص اور ملک و معاشرے کے بہتر مستقبل کی خواہشمند ہوتی تو یقیناً ایسے اقدامات کرتی، مختلف شعبوں میں ایسے نظریات کو فروغ دینے کی کوشش کرتی جو اس معاشرتی بگاڑ کو سنوارنے میں معاون ثابت ہوں، لیکن چونکہ سیاسی قیادت اقتدار، اختیار اور لوٹ مار کی اندھی دوڑ میں اندھوں کی طرح شامل ہے اس لیے اس سے کسی قسم کی اچھائی کی امید کرنا لاحاصل ہے۔

ہمارے ادبی حلقے بھی بدقسمتی سے گروہ بندیوں کے شکار ہیں اور معاشرتی بگاڑ کو ختم کرکے نفرتوں کی جگہ محبت کو فروغ دینے کے حوالے سے کسی ٹھوس منصوبے پر متفق ہوتے نظر نہیں آتے، اس لیے اب یہ ذمے داری ان افراد اور تنظیموں پر آتی ہے جو معاشرتی انارکی پر قابو پانے کے لیے ادب کو ایک موثر وسیلہ سمجھتے ہیں۔ ہمارے ملک میں ایسی ادبی تنظیمیں موجود ہیں جن کے ہاتھوں میں وسائل بھی ہیں، اختیارات بھی، لیکن بوجوہ یہ تنظیمیں ابھی تک وقتی فوائد کے حامل پروگراموں سے باہر نہیں آپارہی ہیں اور معاشرے کی بہتری کے لیے ادب اور شاعری کے بہتر استعمال کی کوئی دور رس منصوبہ بندی نہیں کر پارہی ہیں جو عوام میں کتاب کلچر کو فروغ دے کر ایک ایسا ذہنی انقلاب برپا کرسکیں جو موجودہ شش جہت انارکی سے ملک اور معاشرے کو نکالنے میں ایک موثر کردار ادا کرسکے۔ اس قدر غیر ذمے داری یا لاپرواہی کا مظاہرہ کیوں کیا جارہا ہے؟ یہ ایک ایسا سوال ہے جس کے جواب میں کسی ادارے یا اداروں پر الزام دینے کے بجائے ہمارے معاشرتی اور معاشی نظام پر نظر ڈالنے کی ضرورت ہے جہاں ہر فرد ''بہتی گنگا'' میں ہاتھ دھوتا نظر آتا ہے۔

پاکستان میں کتاب کلچر اب ماضی کی یاد اور ایک گم گشتہ میراث کی حیثیت رکھتا ہے، اس صورت حال کی کئی وجوہات ہیں، ان میں ایک وجہ یہ ہے کہ تقسیم سے پہلے اور تقسیم کے بعد کی دو دہائیوں تک ادب ایک تحریک کی شکل میں موجود تھا اور کتاب کلچر کی مقبولیت کا عالم یہ تھا کہ گلی گلی کیبن لائبریریاں موجود تھیں جن میں برصغیر کے نامور ادیبوں اور شاعروں کی کتابیں دستیاب تھیں اور ان کی مانگ کا عالم یہ تھا کہ اپنی پسند کی کتاب حاصل کرنے کے لیے ایڈوانس بکنگ کروانی پڑتی تھی، اور کیبن لائبریریاں ایک ذریعہ روزگار بھی بنی ہوئی تھیں۔ تقسیم سے پیدا ہونے والی نفرتوں اور تقسیم کا ذریعہ بننے والے فرقہ وارانہ تعصبات پر ادب کے ذریعے بڑی کامیابی سے قابو پالیا گیا تھا۔

کتاب کلچر کے خاتمے کی دوسری وجہ یہ تھی کہ متحدہ ہندوستان میں ادیب اور شاعر بلاامتیاز مذہب و ملت ایک پلیٹ فارم ''انجمن ترقی پسند مصنفین'' پر متحد تھے لیکن تقسیم کے بعد ملک کے ساتھ ادیب بھی تقسیم ہوگئے اور ان کی طاقت بھی تقسیم ہوگئی۔ اس کی تیسری وجہ یہ تھی کہ حکمرانوں کے طبقاتی مفادات ادب کے ذریعے پھیلائے جانے والے محبت کے جذبات سے متصادم تھے، وہ تاریخی (دو دو کلو کے) ناولوں کی تو حوصلہ افزائی کرتے جو عوام کے ذہنوں کو مذموم کرتی تھیں لیکن انقلابی، ادبی کتابوں اور ادیبوں اور شاعروں کو اپنے لیے خطرہ سمجھتے تھے۔ فیض، جالب سمیت بے شمار ادیب اور شاعر ریاستی جبر کا شکار رہے، ادبی تنظیموں پر پابندیاں عائد کردی گئیں۔ ادبی کلچر کی پسپائی کی ایک بڑی وجہ الیکٹرانک میڈیا، انٹرنیٹ، فیس بک وغیرہ کو بتایا جاتا ہے۔


اس میں کوئی شک نہیں کہ آج ہر شخص ادب اور شاعری سمیت زندگی کے ہر شعبے کے سرمائے اور معلومات کو انٹرنیٹ اور فیس بک وغیرہ سے حاصل کرلیتا ہے، لیکن میڈیا کتاب کا مکمل متبادل نہیں بن سکتا۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ ہم ایک انتہائی پسماندہ معاشرے اور ملک سے تعلق رکھنے کے باوجود الیکٹرانک میڈیا کی ترقی میں کتاب کلچر کو چھپانے کی کوشش کرتے ہیں، لیکن ہم سے عشروں آگے دکھائی دینے والے ترقی یافتہ ملکوں میں ہم سے بہت زیادہ ایڈوانس میڈیا کے باوجود کتاب کلچر نہ صرف زندہ ہے بلکہ مغربی معاشروں کی زندگی کا ایک اہم حصہ بنا ہوا ہے اور ہر گھر کے بجٹ میں کتابوں کی خریداری کا ایک حصہ مختص کیا جاتا ہے۔ آج امریکا، فرانس، برطانیہ وغیرہ ہی میں نہیں جاپان، چین جیسے ایشیائی ملکوں میں بھی کتاب کلچر موجود ہے، بھارت میں بھی اس کے احیاء کی کوششیں جاری ہیں۔

خیبرپختونخوا اور بلوچستان کی طرح کراچی بھی قتل و غارت گری کا شکار ہے، ہر روز ٹارگٹ کلنگ میں 10-12 انسان مارے جارہے ہیں، پورا شہر خوف اور دہشت کا شکار ہے۔ دہشت گرد بڑے منظم انداز میں ٹارگٹ کلنگ، بینک ڈکیتیاں، بھتہ اور اغوا برائے تاوان کی کارروائیاں کر رہے ہیں، ایسے ماحول میں جہاں پولیس، رینجرز اور ایف سی اپنے آپ کو غیر محفوظ سمجھ رہے ہیں، عام شہری کی مایوسی اور خوف بالکل منطقی ہے۔ اس صورت حال کو بدلنے کے لیے ایک طویل المدتی لیکن بامعنی اور بامقصد کتاب کلچر کا فروغ ہماری انفرادی اور اجتماعی ضرورت ہے۔

کراچی کے کچھ دوستوں نے یہ طے کیا ہے کہ پورے شہر میں کیبن لائبریریوں کا احیاء کیا جائے جہاں ماضی کی طرح ادبی کتابیں کرائے پر مہیا کی جائیں، یہ کتاب کلچر جہاں اپنے اندر ایک فکری انقلاب برپا کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے وہیں ہزاروں لوگوں کے لیے روزگار کا ذریعہ بھی بن سکتا ہے۔ اس پروگرام میں جو لوگ شامل ہونا چاہتے ہیں اور کیبن لائبریریاں قائم کرنا چاہتے ہیں یا اس پروگرام میں عملی تعاون چاہتے ہیں وہ ہم سے رابطہ کرسکتے ہیں، ہم ان دوستوں کے مشوروں اور تجاویز کا خیرمقدم کریں گے۔

اصولاً تو یہ کام موجودہ صورت حال میں ادبی تنظیموں اور حکومتوں کو کرنا چاہیے کیونکہ ان کے لیے اس پروگرام پر عملدرآمد کے وسائل موجود ہیں، لیکن بار بار توجہ دلانے کے باوجود چونکہ ان اداروں کے کان پر جوں نہیں رینگ رہی ہے اس کی وجہ سے کراچی کے دوستوں نے اس اہم ضرورت کو پورا کرنے کی پہل کی ہے۔ چھوٹی چھوٹی کیبن لائبریریاں بنانا اور ان میں برصغیر کے معروف ادیبوں اور عالمی ادب سے منتخب کتابیں مہیا کرنے پر بہت زیادہ سرمایہ کاری کی ضرورت نہیں ہوگی۔ پارٹ ٹائم روزگار کے طور پر چھوٹی سرمایہ کاری کے ذریعے روز گار کا ایک ذریعہ بھی حاصل کیا جاسکتا ہے اور اس شہر کے عوام میں ایک فکری انقلاب بھی برپا کیا جاسکتا ہے۔ کراچی کے علاوہ ملک کے دوسرے حصوں کے عوام اور بیرون ملک رہنے والے لوگ بھی اس پروگرام کا حصہ بن سکتے ہیں۔

یہ بظاہر چھوٹا سا نظر آنے والا پروگرام اپنے اندر ایک جہان معنی رکھتا ہے جسے سمجھنے اور محسوس کرنے کی ضرورت ہے۔ ہماری یہ کاوش اسی کا ایک حصہ ہے، ہماری کوشش ہے کہ پاکستان، ہندوستان اور عالمی ادب کے سستے ایڈیشن شایع کریں تاکہ عام لوگوں تک اس کی رسائی ممکن ہوسکے، ہمارے ملک میں ایسے بڑے اشاعتی ادارے موجود ہیں جو اس کام کو انجام دینے کی صلاحیت اور وسائل رکھتے ہیں اگر وہ چاہیں تو منتخب ادب کے سستے ایڈیشن شایع کرکے کتاب کلچر کے فروغ میں ہاتھ بٹاسکتے ہیں، ہم اس حوالے سے مشاورتی خدمات مہیا کرسکتے ہیں۔ ہماری کوشش ہے کہ کیبن لائبریریوں کے قیام کے حوالے سے ان دوستوں کی جو ہم سے اس حوالے سے رابطہ کریں گے ایک نشست کا اہتمام کرکے ایک عملی پروگرام ترتیب دیں۔
Load Next Story