’’ہر چند بگولا مُضطر ہے‘‘
یہ شعر اس وقت کے حالات اور مسلمانوں کی قلبی کیفیت پر اس قدر صادق آیا کہ ہر زبان پر طاری ہو گیا۔
یوں تو لاہور شہر میری پوری عمر ہی کھا گیا۔ عنفوان شباب' شباب پھر جوانی کے عروج کا زمانہ اور ڈھلتی جوانی یہ سب اس خوبصورت شہر کی نذر ہو گئے۔ البتہ عنفوان شباب میں ایک بار صرف تھوڑے سے وقت کے لیے لاہور آیا، یہ تحریک پاکستان کا فیصلہ کُن دور تھا۔ مسلمانوں میں بے پناہ جوش تھا اور ان کے بے پایاں جذبات ان کی باتوں بحثوں اور سیاسی سرگرمیوں میں ابل رہے تھے۔ انھی دنوں قائد اعظم لاہور آئے اور اسلامیہ کالج میں جلسہ کیا، خاکساروں کی مداخلت کی وجہ سے یہ جلسہ بہت مشہور ہوا تھا۔ اس کے کچھ وقت بعد مولانا شبیر احمد عثمانی آئے، انھوں نے بھی اسلامیہ کالج میں لاہوریوں سے خطاب کیا۔ مولانا نے اپنی لکھی ہوئی اور چھپی ہوئی تقریر میں جو حاضرین میں تقسیم بھی کی گئی ایک شعر بھی تھا اور اس وقت کی جذباتی کیفیت کو بیان کرتا تھا۔
ہر چند بگولا مضطر ہے اک جوش تو اس کے اندر ہے
اک وجد تو ہے اک رقص تو ہے ناشاد سہی برباد سہی
یہ شعر اس وقت کے حالات اور مسلمانوں کی قلبی کیفیت پر اس قدر صادق آیا کہ ہر زبان پر طاری ہو گیا۔ مولانا نے اس شعر کے ذریعے اس وقت کے مسلمانوں کے جذبات کو بیان کیا تھا کہ وہ ایک بگولے کی طرح تیز ہوا میں غلطاں و پیچاں ہیں، اندر کا جوش بے پایاں ہے، بس ایک وجد اور رقص کی کیفیت طاری ہے، چلیے بے چین اور برباد ہی سہی۔ اس سے آگے یہ بات مضمر تھی کہ اس کی بے چینی رنگ لائے گی۔ اس وقت مسلمان عوام کو کسی ایسی ہی تسلی کی ضرورت تھی ،کسی ایسی ہی امید کی جس پر وہ اپنی بے چین اور مشکل زندگی کے یہ دن بسر کر سکیں۔
مجھے آج اس قدر طویل مدت کے بعد یہ شعر کیوں یاد آیا، شاید اس لیے کہ آزادی کا ایک طویل عرصہ گزار دینے کے باوجود ''ہر چند بگولا مضطر ہے'' والی حالت ہے اور یہ پورا شعر آج کے پاکستانی مسلمانوں پر بھی صادق آتا ہے یعنی پاکستان لے لینے کے بعد بھی اس کا کوئی لیڈر یہی شعر پڑھ کر گویا ہماری آج کی اور آزادی کے برسوں کی کہانی سنا رہا ہے مگر آج اس کی آواز میں جوش و جذبہ نہیں ایک اداسی شکوہ اور بے کلی ہے، بے چینی ہے جو آج کے پاکستانیوں سے پہلے تحریک پاکستان اور تحریک آزادی کے دور کے مسلمانوں میں تھی۔ پاکستان بن جانے کے برسوں بعد ایک شاعر نے اپنے پاکستان کو دیکھ کر کہا تھا کہ نہ جانے کیا بات ہے کہ رفتار تو تیز ہے مگر سفر بہت آہستہ ہے پتہ نہیں منزل کہاں ہے۔
پاکستان بنا تو راستے بھی واضح تھے اور منزل بھی سامنے تھی۔ محمد علی جناح کے ارشادات اور کردار کی روشنی میں ہم سب واضح طور پر اپنا مستقبل دیکھ رہے تھے اور اس کی طرف بھاگے جا رہے تھے، یوں کہیں کہ ہماری خوشحال پاکستانی زندگی باہیں کھولے ہمارا... اس قوم کا... انتظار کر رہی تھی لیکن صرف دس گیارہ برس بعد ہی ہمارے مستقبل کو یرغمال بنا لیا گیا۔ آزاد پاکستانی مسلمانوں کے ایک ملازم ایوب خان نے ملک پر قبضہ کر لیا، آزادی کی تمام آرزوئیں اور تمنائیں کچل دیں اور سب خواب بکھیر دیے۔ بس پھر چل سو چل۔ آزاد قوم نہیں ایک فرد اور وہ بھی ملازمت پیشہ اس قوم کے فیصلے کرنے لگا۔ اس دوران بعض وجوہ کی بنا پر فوجی حکومتوں میں وقفے بھی آئے چار بار وقفے وقفے سے سول حکومتیں قائم ہوئیں لیکن وہ بھی فوج کی نذر ہو گئیں۔
سابقہ فوجی حکومت نے تو پاکستان کا حلیہ ہی بدل دیا۔ جغرافیائی حلیہ تو ایک سابقہ فوجی حکومت نے ملک کو دو حصوں میں بانٹ کر بدلا تھا، اس کا نظریاتی حلیہ ایک دوسرے فوجی حکمران نے اسے کھلم کھلا ایک غیر ملکی طاقت کے سپرد کر کے بدل دیا۔ امریکا کی جگہ ہم بھی ہوتے تو کسی پاکستان کے ساتھ یہی سلوک کرتے، اسے اپنے مفاد کے لیے استعمال کرتے۔ امریکا نے پاکستان کے ساتھ جو کچھ کیا ہے، مجھے اس کا امریکا سے نہیں اپنے آپ سے شکوہ ہے۔ ہم نے دنیا کی بڑی طاقت کے لیے اتنی قربانی دی کہ اپنے آپ کو بھی تباہ اور فنا کر ڈالا۔ میں پاکستانی اخبار دیکھتا ہوں تو ان کے صفحات پر مجھے کسی صنعتی پیداوار اور کاروباری زندگی کے کسی شعبے کے بارے میں شاذ و نادر ہی کوئی اشتہار دکھائی دیتا ہے۔ موبائل فون کے اشتہار کوئی ہماری صنعتی اشتہار تو نہیں ہیں بلکہ الٹا اپنا خرچ بڑھانے کے اشتہار ہیں۔ صاف پتہ چلتا ہے کہ ہماری پیداواری اور ترقی کی زندگی ختم ہو چکی ہے۔ بال بال قرضے میں بندھ چکا ہے اور اسٹیٹ بینک اپنی معاشی و مالیاتی حالت کو رو رہا ہے۔
مشکوک قسم کے وزرائے خزانہ آتے ہیں اور کھا پی کر بھاگ جاتے ہیں۔ عالمی مالیاتی پیمانہ امریکی ڈالر آج سو روپے کا ہے، اب تو سوال یہ ہے کہ ہم اس عظیم بحران سے بچیں گے کیسے۔ ہم یعنی پاکستانی عوام نہ کہ ہمارے ارب پتی محفوظ لیڈر صاحبان۔ پاکستان کے اندر بھارت کے مسلسل نظریاتی اور ثقافتی تجاوزات ملاحظہ فرمائیے۔ اب جب میں یہ سطریں لکھ رہا ہوں تو سوچتا ہوں کہ ایسی باتیں کر رہا ہوں جو کلی طور پر میرے اختیار سے باہر ہیں، بس کسی ماتم اور سانحے پر بے کار رونا دھونا ہے۔
بیرون ملک سے مجھے اپنے عزیز دوست قیوم کھوسہ کا پیغام ملا ہے کہ ہمارے مہربان عاشق مزاری صاحب نے میرے مطابق پچاس ساٹھ ہزار روپے نہیں پورے بیاسی لاکھ روپے نقد دیے تھے جن کے عوض انھیں قومی اسمبلی کی ٹکٹ ملی تھی۔کھوسہ بھائی کا بیان درست ہے کہ یہ ان کے قریبی ساتھی اور معاون تھے، میں نے لاکھوں لکھے تھے، ہزاروں غلطی سے چھپ گئے، یہ پارٹی ان دنوں پھر انتخابی ٹکٹوں کے ذریعے مال جمع کرنے کا اشتہار چھپوا رہی ہے مگر اب اس بازار میں اس کی خریداری نہ ہونے کے برابر ہے، اس کے لیے یہ سیاسی بازار اب ٹھنڈا ہو چکا ہے اور اس کے گاہک دوسری دکانوں کی طرف مڑ گئے ہیں۔
ہر چند بگولا مضطر ہے اک جوش تو اس کے اندر ہے
اک وجد تو ہے اک رقص تو ہے ناشاد سہی برباد سہی
یہ شعر اس وقت کے حالات اور مسلمانوں کی قلبی کیفیت پر اس قدر صادق آیا کہ ہر زبان پر طاری ہو گیا۔ مولانا نے اس شعر کے ذریعے اس وقت کے مسلمانوں کے جذبات کو بیان کیا تھا کہ وہ ایک بگولے کی طرح تیز ہوا میں غلطاں و پیچاں ہیں، اندر کا جوش بے پایاں ہے، بس ایک وجد اور رقص کی کیفیت طاری ہے، چلیے بے چین اور برباد ہی سہی۔ اس سے آگے یہ بات مضمر تھی کہ اس کی بے چینی رنگ لائے گی۔ اس وقت مسلمان عوام کو کسی ایسی ہی تسلی کی ضرورت تھی ،کسی ایسی ہی امید کی جس پر وہ اپنی بے چین اور مشکل زندگی کے یہ دن بسر کر سکیں۔
مجھے آج اس قدر طویل مدت کے بعد یہ شعر کیوں یاد آیا، شاید اس لیے کہ آزادی کا ایک طویل عرصہ گزار دینے کے باوجود ''ہر چند بگولا مضطر ہے'' والی حالت ہے اور یہ پورا شعر آج کے پاکستانی مسلمانوں پر بھی صادق آتا ہے یعنی پاکستان لے لینے کے بعد بھی اس کا کوئی لیڈر یہی شعر پڑھ کر گویا ہماری آج کی اور آزادی کے برسوں کی کہانی سنا رہا ہے مگر آج اس کی آواز میں جوش و جذبہ نہیں ایک اداسی شکوہ اور بے کلی ہے، بے چینی ہے جو آج کے پاکستانیوں سے پہلے تحریک پاکستان اور تحریک آزادی کے دور کے مسلمانوں میں تھی۔ پاکستان بن جانے کے برسوں بعد ایک شاعر نے اپنے پاکستان کو دیکھ کر کہا تھا کہ نہ جانے کیا بات ہے کہ رفتار تو تیز ہے مگر سفر بہت آہستہ ہے پتہ نہیں منزل کہاں ہے۔
پاکستان بنا تو راستے بھی واضح تھے اور منزل بھی سامنے تھی۔ محمد علی جناح کے ارشادات اور کردار کی روشنی میں ہم سب واضح طور پر اپنا مستقبل دیکھ رہے تھے اور اس کی طرف بھاگے جا رہے تھے، یوں کہیں کہ ہماری خوشحال پاکستانی زندگی باہیں کھولے ہمارا... اس قوم کا... انتظار کر رہی تھی لیکن صرف دس گیارہ برس بعد ہی ہمارے مستقبل کو یرغمال بنا لیا گیا۔ آزاد پاکستانی مسلمانوں کے ایک ملازم ایوب خان نے ملک پر قبضہ کر لیا، آزادی کی تمام آرزوئیں اور تمنائیں کچل دیں اور سب خواب بکھیر دیے۔ بس پھر چل سو چل۔ آزاد قوم نہیں ایک فرد اور وہ بھی ملازمت پیشہ اس قوم کے فیصلے کرنے لگا۔ اس دوران بعض وجوہ کی بنا پر فوجی حکومتوں میں وقفے بھی آئے چار بار وقفے وقفے سے سول حکومتیں قائم ہوئیں لیکن وہ بھی فوج کی نذر ہو گئیں۔
سابقہ فوجی حکومت نے تو پاکستان کا حلیہ ہی بدل دیا۔ جغرافیائی حلیہ تو ایک سابقہ فوجی حکومت نے ملک کو دو حصوں میں بانٹ کر بدلا تھا، اس کا نظریاتی حلیہ ایک دوسرے فوجی حکمران نے اسے کھلم کھلا ایک غیر ملکی طاقت کے سپرد کر کے بدل دیا۔ امریکا کی جگہ ہم بھی ہوتے تو کسی پاکستان کے ساتھ یہی سلوک کرتے، اسے اپنے مفاد کے لیے استعمال کرتے۔ امریکا نے پاکستان کے ساتھ جو کچھ کیا ہے، مجھے اس کا امریکا سے نہیں اپنے آپ سے شکوہ ہے۔ ہم نے دنیا کی بڑی طاقت کے لیے اتنی قربانی دی کہ اپنے آپ کو بھی تباہ اور فنا کر ڈالا۔ میں پاکستانی اخبار دیکھتا ہوں تو ان کے صفحات پر مجھے کسی صنعتی پیداوار اور کاروباری زندگی کے کسی شعبے کے بارے میں شاذ و نادر ہی کوئی اشتہار دکھائی دیتا ہے۔ موبائل فون کے اشتہار کوئی ہماری صنعتی اشتہار تو نہیں ہیں بلکہ الٹا اپنا خرچ بڑھانے کے اشتہار ہیں۔ صاف پتہ چلتا ہے کہ ہماری پیداواری اور ترقی کی زندگی ختم ہو چکی ہے۔ بال بال قرضے میں بندھ چکا ہے اور اسٹیٹ بینک اپنی معاشی و مالیاتی حالت کو رو رہا ہے۔
مشکوک قسم کے وزرائے خزانہ آتے ہیں اور کھا پی کر بھاگ جاتے ہیں۔ عالمی مالیاتی پیمانہ امریکی ڈالر آج سو روپے کا ہے، اب تو سوال یہ ہے کہ ہم اس عظیم بحران سے بچیں گے کیسے۔ ہم یعنی پاکستانی عوام نہ کہ ہمارے ارب پتی محفوظ لیڈر صاحبان۔ پاکستان کے اندر بھارت کے مسلسل نظریاتی اور ثقافتی تجاوزات ملاحظہ فرمائیے۔ اب جب میں یہ سطریں لکھ رہا ہوں تو سوچتا ہوں کہ ایسی باتیں کر رہا ہوں جو کلی طور پر میرے اختیار سے باہر ہیں، بس کسی ماتم اور سانحے پر بے کار رونا دھونا ہے۔
بیرون ملک سے مجھے اپنے عزیز دوست قیوم کھوسہ کا پیغام ملا ہے کہ ہمارے مہربان عاشق مزاری صاحب نے میرے مطابق پچاس ساٹھ ہزار روپے نہیں پورے بیاسی لاکھ روپے نقد دیے تھے جن کے عوض انھیں قومی اسمبلی کی ٹکٹ ملی تھی۔کھوسہ بھائی کا بیان درست ہے کہ یہ ان کے قریبی ساتھی اور معاون تھے، میں نے لاکھوں لکھے تھے، ہزاروں غلطی سے چھپ گئے، یہ پارٹی ان دنوں پھر انتخابی ٹکٹوں کے ذریعے مال جمع کرنے کا اشتہار چھپوا رہی ہے مگر اب اس بازار میں اس کی خریداری نہ ہونے کے برابر ہے، اس کے لیے یہ سیاسی بازار اب ٹھنڈا ہو چکا ہے اور اس کے گاہک دوسری دکانوں کی طرف مڑ گئے ہیں۔