حق حکمرانی کس کو
جس انسان کے دل میں انسانیت کا ذرا سا بھی درد ہے وہ انسان میرا یہ کالم نہ ہی پڑھے تو اس کی اپنی صحت کے لیے فائدہ مند ہے
KARACHI:
جب حکومتی ایوانوں میں ایسے سیاست دان تشریف فرما ہوں اور وہ ایسی سیاست کے قائل ہوں جو سیاست نظریات سے عاری ہو، اب بھلا اس قسم کے سیاستدانوں کے دور حکومت میں اسی قسم کے واقعات ہی تو رونما ہوں گے جیسے کہ لاہور میں لب شاہراہ ہوا ہے یہاں میں اتنی گزارش ضرور کروں گا کہ جس انسان کے دل میں انسانیت کا ذرا سا بھی درد ہے وہ انسان میرا یہ کالم نہ ہی پڑھے تو اس کی اپنی صحت کے لیے فائدہ مند ہے گویا میں ایسی داستان بیان کرنے جا رہا ہوں جس میں غربت ہے، بے بسی ہے، ہمارے حکمرانوں کی بے حسی کی انتہا ہے۔
یہ داستان ہے اس خاندان کی جوکہ اپنی غربت کے باعث پنجاب کے ایک شہر میاں چنوں سے بہتر روزگار کی تلاش میں سرسبز پنجاب کے دوسرے شہر رائے ونڈ منتقل اور خشت سازی کے بھٹہ پر مزدوری کرتا ہے اس خاندان کا ایک ایک بال قرضے نے جکڑ رکھا ہے کیونکہ بھٹہ مالکان کا یہ اصول یا قانون ہے کہ وہ فقط مقروض شخص کو ہی اپنے بھٹے پر مزدوری دیتے ہیں جوکہ ایک بھاری رقم قرضے کے طور پر مزدوری شروع کرنے سے ہی وصول کرلے بصورت دیگر قرضے کی رقم نہ لینے والے کو مزدوری نہیں دی جاتی ظاہر ہے جو مزدور مقروض نہ ہوگا وہ اپنے حقوق کی بات بھی کرے گا اور جو مزدور حقوق کی بات کرے وہ مالکان کی نظر میں ایک غلام کی سی طرح کیسے کام کرے گا۔
بھٹہ مزدور میں تو غلاموں جیسی تمام خصلتوں کا ہونا ضروری ہے۔ قرضے میں دی گئی اس قسم کی رقم کو باقی کا نام دیا جاتا ہے پھر یہ بھی طے شدہ حقیقت ہے کہ جس قدر کوئی بھٹہ مزدور مقروض ہوگا اسے اسی قدر اجرت کم ملے گی اس قدر قلیل اجرت کہ ان پیسوں سے یہ بھٹہ مزدور کا خاندان فقط سوکھی روٹی پسی ہوئی لال مرچ کے ساتھ کھا سکے ہاں اگر کبھی بھٹہ مزدور بیمار پڑ گیا تو پھر وہ مزید قرضہ لے گا اس کیفیت میں اب اسے مزید کم اجرت ملے گی اب ان حالات میں اس قسم کا بھٹہ مزدور آخر کب تک مزدوری کے قابل رہ سکے گا اور اپنے خاندان کی کفالت کرسکے گا پھر یہ قرضہ ایسا نہیں کہ بھٹہ مزدور کی وفات پر ختم ہوجائے بلکہ یہ وہ قرضہ ہے جوکہ بھٹہ مزدور کی وفات کے بعد اس کی اگلی نسل کو منتقل ہوجاتا ہے یوں ہزاروں میں لیا گیا قرضہ لاکھوں روپے کی شکل اختیار کر جاتا ہے۔ بہرکیف ہم جس خاندان کا ذکر کرنے جا رہے ہیں محمد عامر اس خاندان کا سربراہ ہے۔
سمیرا اس کی بیوی کا نام ہے جیسے کہ ہم نے ذکر کیا محمد عامر رائے ونڈ کے قریب بھٹے پر مزدوری کرتا ہے کن مسائل سے دوچار ہے وہ ہم سطور بالا میں تذکرہ کرچکے ہیں۔ ان حالات میں اس کی بیوی سمیرا اسے خوشی کی نوید سناتی ہے کہ گھر میں ایک نومولود کی آمد ہونے والی ہے خوشی کی نوید ہم کہہ رہے ہیں ورنہ حقیقت تو یہ ہے کہ غلاموں کی اس دنیا میں ایک اور غلام کا اضافہ ہونے والا ہے لکھنا مناسب ہوگا۔ چنانچہ تمام تر حالات سے گزرنے کے بعد 16 اکتوبر 2017 کی شب نومولود کی متوقع آمد کے باعث محمد عامر اپنی بیوی سمیرا کو لے کر لاہور کی جانب اپنی جیب میں چند سو روپے اور وہ بھی شاید قرضے سے حاصل کیے گئے ہیں لے کر رواں دواں ہے۔ راستے میں جاتی عمرا کے محلات کے پاس سے گزرتا ہے۔
یہ جاتی عمرے کے محلات ہمارے موجودہ حکمرانوں کی ذاتی ملکیت ہیں۔ یہ ضرورت ہے کہ 28 جولائی 2017 تک ان محلات کو وزیر اعظم ہاؤس کا درج حاصل تھا اور ان محلات کے تمام اخراجات سرکاری خزانے سے ادا کیے جاتے تھے پھر آگے دبئی چوک آتا ہے وہ دبئی چوک سے آگے اب اپنی بیوی کے ساتھ لاہور کی حدود میں داخل ہوچکا ہے۔
اسی لاہور میں بھٹہ مزدور محمد عامر اپنی بیوی کے ساتھ کسی ایسے اسپتال کی تلاش میں جہاں اس کی بیوی نومولود کو جنم دے سکے مگر ستم تو یہ ہے اکثر اسپتال نجکاری منصوبے کے تحت نجی ملکیت میں دے دیے گئے ہیں چنانچہ نجی ملکیت میں جانے کے بعد ان اسپتالوں میں محمد عامر جیسے لوگوں کے بس میں کہاں کہ وہ ان اسپتالوں کے اخراجات برداشت کرسکیں۔ تمام تر کوششوں کے باوجود وہ اپنی بیوی کو لے کر ایک سرکاری اسپتال تک رسائی حاصل کرلیتا ہے۔ ان حالات میں اس کی بیوی کس کیفیت سے دوچار ہے یہ کوئی ماں بننے والی خاتون ہی بتا سکتی ہے۔
محمد عامر اسپتال کے عملے کو تمام صورتحال سے آگاہ کرتا ہے اور اپنی بیوی کے علاج کی درخواست کرتا ہے مگر اسے ایک ہی جواب ملتا ہے کہ ڈاکٹر 9 بجے آئیں گی چنانچہ تم بھی 9 بجے آنا۔ محمد عامر کی منت سماجت بے کار جاتی ہے اور اسے اس کی بیوی سمیت سرکاری اسپتال سے نکال باہر کر دیا جاتا ہے۔ شاید دھکے مار کر نکالا گیا ہے۔ وہ اپنی بیوی کے ساتھ لب شاہراہ طویل قطاروں میں جاتی چمچماتی گاڑیوں کو دیکھتا ہے اس کی بیوی لب شاہراہ دراز ہو جاتی ہے۔
یوں ایک نومولود بچی لب شاہراہ اس دنیا میں آتی ہے۔ یہ خبر الیکٹرانک میڈیا کے ذریعے نشر ہوتی ہے یوں ڈیڑھ گھنٹے بعد ریسکیو ٹیم آتی ہے اور سمیرا کو اس کی بچی سمیت اسپتال منتقل کرتی ہے۔ اب خبر یہ ہے کہ وزیر اعلیٰ پنجاب نے اس خبر کا نوٹس لے لیا ہے۔
چلیے آخر میں ایک اچھی خبر بھی آپ کے گوش گزار کردیں کہ پاکستان مزدور کسان پارٹی و مزدور کسان پارٹی کا انضمام ہوچکا ہے اس بات کا اعلان مزدور کسان پارٹی کے چیئرمین کامریڈ افضل شاہ خاموش و پاکستان مزدور کسان پارٹی کے صدر ایس ایم الطاف ایڈووکیٹ نے 17 اکتوبر 2017 کو پریس کلب کراچی میں کیا اب دونوں گروپ پاکستان مزدور کسان پارٹی کے نام سے سیاسی جدوجہد کریں گے۔ ہماری جانب سے تمام ترقی پسندوں و پاکستان مزدور کسان پارٹی کے رہنماؤں و کارکنان کو مبارکباد۔